ذكر الہی کی اہمیت

ایڈمن

اسماء نشاط – جی آئی او بیدر اللہ تعالی ساری کائنات کا تنہا خالق,مالک اور پرورد گار ہے_ اسی نے ساری کائنات کا زرہ زرہ اللہ کی تسبیح وتحمید میں لگا ھوا ہے۔  قرآن میں ہے۔”اور ایسی کوئی چیز نہیں جو…

اسماء نشاط – جی آئی او بیدر

اللہ تعالی ساری کائنات کا تنہا خالق,مالک اور پرورد گار ہے_ اسی نے ساری کائنات کا زرہ زرہ اللہ کی تسبیح وتحمید میں لگا ھوا ہے۔  قرآن میں ہے۔”اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اللہ کی حمد و تسبیح میں لگی ہوئی نہ ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ہو۔ انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا اور زمین پر اسے اپنا خلیفہ بنا دیا۔ دنیا کی تمام چیزوں کو اس کے لیے مسخر کر دیا۔ اسے بے شمار نعمتوں سے نواز۔ اس پر بے انتہا احسانات کیے۔ انسان اپنی پوری زندگی اس کے احسانات تلے دبا ہواہے۔اسکے احسانات کا تقاضا ہےکہ وہ اللہ کی یاد سے کسی وقت بھی غافل نہ رہے اور ہر وقت اس کی تسبیح وتحمید میں لگا رہے۔

قرآن مجید میں اہلِ ایمان کو اللہ کو بکثرت یاد کر نے کا حکم دیا گیا ہے۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو”مومن کی زبان ہر وقت ذکر الہی سے تر ہونی چاہیے۔ عبادت اور معاملات کا کوئی شعبہ اس کی برکت سے محروم نہ رہناچاہے۔ کوئی لمحہ یاد الہی سے غافل نہ ہونا چاہئے اور ہر حال میں اللہ کی یاد دل میں موجود ہونی چاہئے۔ سورہ اعراف میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔ “اپنے رب کا زکر کرو، اپنے دل میں گڑ گڑا کراور خوف کی کیفیت کے ساتھ اور یہ کہ ان لوگوں کی طرح نا ہو جاو جو غفلت میں پڑےہوے ہیں۔” سچا مومن ہر وقت اپنے رب کو یاد رکھتا ہے۔ اس کے احسانات اور انعامات کا شکر ادا کر تا رہتا ہے۔ وہ کبھی خدا سے غافل نہیں ہو تا۔ خوشی میں غم میں، تنگ دستی وخوش حالی میں، بیماری وصحت مندی میں ہر دم وہ اپنے رب کو یاد کر تے رہتا ہے۔ اور کائنات کی ایک ایک چيز پر غوروفکر کر تا ہے جس کے زریعۓ اسے اللہ کا قرب اور معرفت حاصل ہو تی ہے۔

ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ بلا شبہ زمین وآسمان کی پیداش میں رات دن کی آمد ورفت میں ان دانشمندوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو کھڑے بیھٹے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کر تے رہتے ہیں۔زمین وآسمان کی تخلیق میں غور فکر کر تے رہتے ہیں۔(اور پکار اٹهتے ہیں) اے پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کے بے نتیجہ کام کر ے۔پر وردگار! پس تو ہمیں جہنم کی آگ سے بچا لیے”۔ (سورۃ آل عمران) دنیا کے عیش وعشرت، مال ودولت کی کثرت اور اولاد کی محبت میں پڑ کر انسان خدا کو بھول جا تا ہے۔ اللہ تعالی نے مومنوں کو سورہ منافقون میں تنبیہ فرمائی ہے کہ “اے ایمان والو! کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں تمہاری دو لت اور اولاد یا د الٰہی سے غافل کر دے۔ اگر تم اس غفلت میں مبتلا ہو گئے تو سمجھ لو کہ بہت بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑگے”۔دنیا کے معاملات میں پڑ کر انسان کو غفلت لاحق ہوتی رہتی ہے اور قلب، پر اللہ سے دوری کی وجہ سے ایک طرح کا میل جم جاتا ہے۔ اللہ کی یاد سے یہ دور ہو جاتی ہے اور دل آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہو جاتا ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا “ہر چیز کا ایک صیقل ہے اور دلوں کا صیقل اللہ کی یاد ہے۔” (بہیقی) احادیث میں بھی اللہ کے زکر کی بڑی اہمیت وفضلت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں رسول ﷺ اسے سب سے عمدہ اور پاکیزہ عمل قرار دیتے ہیں۔

حضرت ابو درد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیا میں تمہیں بتاؤ تمہارے اعمال میں تمہارے شہنشاہ کے نزدیک سب سے بہتر اور پاکیزہ عمل کون سا ہے، جو تمہارے لئے درجات کو سب سےزیادہ بلند کرنے والا ہےجو تمہارے لئے بہتر ہے ( اللہ کی راہ میں) سونا چاندی خرچ کر نے سے، نیز تمہارے لئے بہتر ہے اس سے کہ تمہاری دشمن سے مڈ بھیڑہو۔ پھر تم ان کی گردن مارو اور وہ تمہاری گردن ماریں۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ہاں ایسا عمل ضروربتائے (اے اللہ کے رسول ﷺ) آپ نے فرمایا اللہ کا زکر ہے۔(رواہ مالک واحمد) حضور ﷺ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ: “میں بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کی وہ مجھ سے امید رکھتا ہے۔ وہ جب بھی مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جس کی وجہ مجھ سے امید رکھتا ہے۔ وہ جب بھی مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اس کودل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجلس میں میرا زکر کرتا ہے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اس کا زکر کرتا ہوں۔”اور ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب بھی اور جہاں بیٹھ کر کچھ بندگان خدا اللہ کا ذکر تے، ہیں تو فرشتے ہر طرف سے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ رحمت خدا وندی ان کو اپنے سائے میں لیے لیتی ہے۔ ان کے دلوں کو اطمینان اور سکون کی دولت سے بھر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالی ان کا زکر اپنےملائکہ مقربین میں کرتا ہے “زکر کی اسی اہمیت کی وجہ سے حضور ﷺ خود بھی اس کا بڑا اہتمام فرماتے تھے اور اپنی امت کو بھی اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ ہر وقت اللہ کو یاد کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ نیکی کے کام بے شمار ہیں اور ان سب کا کرنا میری طاقت سے باہر ہے اس لئے مجھے کوئی ایسی بات . بتائے جس پر میں جم جاوں اور وہ مختصر بھی ہوتا کہ اس کو یاد رکھ سکوں، آپﷺنے فرمایا۔ ” تم ہر وقت اپنی زبان زکر الہی سے تر رکھو ” آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہر وقت ہماری زبان پر زکر الہی رہے۔ آمین ثم آمین

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں