اشہد رفیق ندوی، استاد سینئر سکنڈری اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
دینی مدارس کے نظام ونصاب پر بحث عرصہ سے جاری ہے۔ تحریک ندوہ کے ذریعہ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے جس مباحثے کا آغاز کیا تھا، تواتر کے ساتھ یہ بحث جاری ہے۔ اس مباحثے میں ہرزمانے کے جید علماء،اساتذہ، ماہرین تعلیم اور دانشوران حصہ لیتے رہے ہیں اور ان مباحثوں ومذاکروں کی روداد یں شائع ہوکر عملی اقدامات کی دعوت دیتی رہتی ہیں اور مدارس ان تجاویز کوحسب توفیق قبول کرتے رہے ہیں، ایک جائزے کے مطابق سرزمین ہند پر کوئی ایسا مدرسہ نہیں ہے جو نظام ونصاب کو زمانہ کی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا قائل نہ ہو۔بلکہ ان میں شدید طلب موجود ہے۔
ملک کی تعمیر وترقی اور معاشرہ میں مثبت کردار کا جائزہ لیا جائے تو کئی حوصلہ افزا اور روشن پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جسے ہدیہ تشکر پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے یہ مدارس ترقی کی جو منزلیں طے کرچکے ہیں اور اپنی شہرت، عزت اور مقبولیت کے جس مقام پر پہنچ چکے ہیں کیا یہی ان کی ترقیات کا انتہائی نکتہ عروج ہے یا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے ان پاکیزہ لمحات کو یاد کرنا مناسب ہوگا جب دیوبند اور اطراف میں مدارس قائم ہورہے تھے اور لارڈمیکالے کے بنائے ہوئے انگریزی نظام تعلیم سے ٹکّر لینے کی بات کی جارہی تھی(۱)، جب ندوہ کا نظام ونصاب زیر غور تھا اور آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے معیار کو چھونے کی کوشش ہورہی تھی، بیروت وترکی سے کتابیں منگائی جارہی تھیں(۲) اور جب مدرسۃ الاصلاح کی بنیاد رکھی جارہی تھی اور تمام نصاب ہائے تعلیم کو درکنار کر قرآن مجید کو مرکز ومحور مانتے ہوئے علوم قدیمہ کی تجدید اور علوم جدیدہ کی تطہیر کے خواب سجائے جارہے تھے(۳)، یہ حسین لمحات تاریخ مدارس کے روشن باب ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج جب ہم اکیسویں صدی کی بھی ایک دہائی پار کرچکے ہیں، ہمیں اسلاف کے ان روشن خیالات، بلند عزائم اور پاکیزہ اہداف کی روشنی میں موجودہ مدارس کے معیار کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا یہ مدارس ان پاکیزہ اہداف کے مصداق ہیں یا اسلاف کے یہ حسین خواب ابھی شرمندۂ تعبیر ہونا باقی ہیں، اس سوال کا مختصر جواب شاید یہی ہوگا کہ ابھی بہت سی منزلیں طے کرنا باقی ہیں۔ لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اسلامی نظام تعلیم کی کمر پر چڑھ کر تعمیر کیا گیاہے۔ بلاشبہہ اس میں بے شمار خامیاں ہیں، مگر یہ بدیہی حقیقت ہے کہ ساری دنیا میں اسی کا بول بالا ہے،تعلیمی ترقی، تہذیبی ارتقاء اور سائنسی ایجادات واکتشافات سب اسی کے مرہون منت ہیں۔ غالب دنیا کی یہ پہلی پسند ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی بھی 96% آبادی اسی کو ترجیح دیتی ہے، صرف 4% یا اس سے کم لوگ مدارس کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بے حد تشویشناک ہے۔ اسلاف کے طے شدہ اہداف سے دوری ہمارے لیے ہلاکت خیز ہے۔ اس لیے مدارس کے جو خوشنما پہلو ہمارے سامنے ہیں، ان پر اللہ کا شکر بجالانا چاہیے، مگر اتنے پر قناعت کرکے دھیرے دھیرے ہم اپنے خول میں سمٹتے چلے جائیں اور باطل نظام کے لیے راہ ہموار کرتے جائیں، اسلاف کی روح اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے ایک بار پھر ہمیں اپنی خوبیوں کے ساتھ اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور حفاظت دین کے ان قلعوں کے دائرہ اثر کو مزید بڑھانے کے لیے مثبت اقدامات کرنے چاہئیں اور یہ خواہش کرنا چاہیے کہ یہ دائرہ اتنا بڑھے، اتنا بڑھے، اتنا بڑھ جائے کہ ساری دنیا اس دائرہ کے اندر آجائے، یہ اللہ کا نور اور اللہ کا رنگ ساری دنیا پر چھاجائے کہ اس سے بہتر کوئی نور اور رنگ نہیں ہوسکتا(۴)۔اسی تناظر میں دینی مدارس کے نظام ونصاب کا جائزہ لیا گیا ہے، خوبیوں کے اعتراف کے ساتھ قابل اصلاح پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
۱۔نظام مدرسہ:
مدارس کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تو ہر مدرسہ ایک الگ اکائی دکھائی دیتا ہے، اصولاً ایک مدرسے کا دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مدارس کی اس تنہا روی کی وجہ سے پالیسی، نصاب تعلیم،نظام الاوقات، مدت تعلیم، مراحل تعلیم، نظام امتحانات سب میں کچھ نہ کچھ تفاوت پایا جاتا ہے، تفاوت کی یہ بھر مارملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کا مذاق اڑاتی ہے۔
۲۔نصاب تعلیم:
ان میں چند مدارس کا نصاب تعلیم منتظمین کی توجہ سے اپ ڈیٹ ہوگیا ہے(۵) اور یہ دوسروں کو بھی توجہ دلارہے ہیں مگر زیادہ تر مدارس چند جزوی تبدیلیوں کے ساتھ انیسویں صدی کے تشکیل کردہ نصاب پر قائم ودائم ہیں۔ اس وقت کسی وجہ سے تعلیم قرآن کے لیے کم وقت مخصوص کیا گیا تھا، تمام مجموع�ۂ احادیث ایک ساتھ پڑھادینے کا رواج تھا۔ نحو وصرف کی فارسی کتابیں پڑھانے کے لیے پہلے فارسی زبان پڑھائی جاتی تھی پھر اسی عجمی زبان میں طلبہ کو عربی قواعد کی مشکل کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، فقہ میں اپنے مسلکی رجحان کو غالب کرنے کا چلن تھا۔ جدید علوم کو دنیاوی علوم قرار دے کر ان سے اعراض کی پالیسی اختیار کی گئی تھی، یہ ایسی کمزوریاں تھیں جو زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ختم ہوجانی چاہیے تھیں، مگر ان میں کئی کمزوریاں اکیسویں صدی میں بھی باقی ہیں اور ارباب مدارس کو شاید اس پر اطمینان بھی ہے، بظاہریہ صحت مند رویہ نہیں ہے۔
۳۔نظام امتحانات:
امتحان طلبہ کی صلاحیتوں کی آزمائش اور ترقی کے لیے ہوتے ہیں۔امتحانات کا یہ نظام اب کافی ترقی کرگیا ہے، اب طلبہ کی قوت حافظہ کے ساتھ، قوت فہم، قوت غور وفکر نیز اعلیٰ ذہنی اور جذباتی صلاحیتوں کی بھی جانچ کی جاتی ہے، مدارس کے امتحانی پرچوں کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں قوت حافظہ کی پرکھ پر زیادہ زور ہے باقی پہلوؤں پر اب تک توجہ نہیں ہوسکی ہے گویا اس میں اصلاح کی کافی گنجائش باقی ہے۔
۴۔نظام مالیات:
دنیا جانتی ہے کہ مدارس اہل خیر حضرات کے تعاون سے چلتے ہیں اور تعاون کا بڑا حصہ زکوۃ اور صدقات کی مد سے آتا ہے، اور طلبہ کے بیشتر مصارف مثلاً تعلیم، رہائش، کتاب، کھانا اور روشنی وغیرہ کے اخراجات مدرسہ بر داشت کرتا ہے۔ مدرسۃ الاصلاح اور جامعۃ الفلاح کو چھوڑ کر باقی مدارس میں فیس کا رواج نہیں ہے، مستطیع طلبہ سے صرف کھانے کی معمولی فیس لی جاتی ہے۔ یہ نظام کئی پہلوؤں سے قابل توجہ ہے، اس کی وجہ سے مدرسہ پر کافی بوجھ پڑتا ہے، زکوۃ کی رقم دیگر مدات میں خرچ کرنے کے لیے حیلہ حوالہ سے کام لینا پڑتا ہے۔ مفت خوری کی عادت کو فروغ ملتا ہے، باحیثیت والدین زکاتی نظام میں اپنے بچوں کو ڈالنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے اس نظام میں بڑے پیمانے پر غور وفکر اور اصلاح کی ضرورت ہے۔پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے اس سلسلے میں بہت قیمتی تجاویز پیش کی ہیں (۶)۔ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اجتماعی نظام کا قیام
مدارس کی یہ حقیقی صورت حال ہے۔ ان میں زیادہ تر مسائل بہت قدیم ہیں، ان مسائل کا ذمہ دار کوئی ایک فرد یا ایک مدرسہ نہیں بلکہ مدارس کی انفرادیت پسندی کا رویہ اصل ذمہ دار ہے۔ہرشخص جانتا ہے کہ مشترک مسائل ومفادات اجتماعی کوششوں سے حل کیے جاتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرہ کی عام روش ہے۔ مدارس کے مسائل ومفادات بے حد گتھم گتھا ہیں، یہ معاندین کی بد نیتی اور بدنظری کاشکار بھی ہیں، کئی طرف سے ان کے نظام، نصاب اور کردار پر یلغار ہورہی ہے، مگر بدقسمتی سے حفاظت دین کے یہ قلعے کسی اجتماعی نظام سے یکسر محروم ہیں۔
اس لیے فوری ضرورت یہ ہے کہ مدارس انفرادیت پسندی کی روش چھوڑ کر ایک اجتماعی پلیٹ فارم پر آئیں، ایسا پلیٹ فارم جو مدارس کی انفرادی آزادی وخود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے مشترک مسائل ومفادات کا تحفظ کرے اور ان کی اصلاح وارتقاء کے لیے اجتماعی اقدامات کرے۔
وفاق کیسے وجود میں آئے:
ملکی سطح کے نمائندہ مدارس کے ذمہ داران، سینئر اساتذہ، ماہرین تعلیم اور تعلیمی نظام کا اعلیٰ سطح کا تجربہ رکھنے والے سنجیدہ افراد کا ایک نمائندہ اجلاس بلاکر ان میں لائق افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو متنوع صلاحیتوں کے مالک ہوں، ملت کے ہر مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہوں اور نظام مدارس کو مؤثر وفعال بنانے کے لیے پُر عزم ہوں۔یہ کمیٹی پہلے اپنے مقاصد، پالیسی، اہداف، ترجیحات اور میدان کار متعین کرے پھر ان کی روشنی میں اقدامات کرے۔ اس کے مقاصد اور دائرہ عمل یہ ہوسکتے ہیں(۷):
t مدارس کے لیے ایک واضح تعلیمی پالیسی طے کرنا۔ جو مدارس کے مقاصد، ملت کی ضروریات، زمانہ کے تقاضوں کی ترجمان ہو جس میں معاصر تعلیمی نظام کی خطرناک پالیسیوں کا تدارک ہو۔
t مدارس کے لیے زمانہ کے لحاظ سے نئی ترجیحات متعین کرنا مثلاً مدارس کے مثبت کردار کو اجاگر کرنا۔ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینا، الزامات کا مؤثر دفاع کرنا، علوم کی قدیم وجدید کی تقسیم کی خلیج کو کم کرنا، وغیرہ۔
t تمام مدارس کے تعلیمی اوقات، تعلیمی ایام او رتعلیمی نصاب میں موافقت پیدا کرنا جیساکہ سرکاری اسکولوں میں عام طور سے پایا جاتا ہے کہ ہر بورڈ کا نصاب ونظام الگ ہوتا ہے۔ مگر سب کے تعلیمی اوقات، مراحل تعلیم، مدت تعلیم اور نصاب تعلیم کے معیار میں بالعموم موافقت ہوتی ہے۔
t مدارس کے معیار کو بہتر بنانا،مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا، یکساں تعلیمی معیار مقرر کرنا، اساتذہ کے انتخابات اور تقرری کا فارمولہ طے کرنا اور امتحانی نظام کی رہنمائی ونگرانی کرنا۔
t مدارس کے مفاد میں آنے والی تجاویز کا جائزہ لینا اور ان پر عمل در آمد کی تدابیر کرنا۔
t بے جا سرکاری مداخلت روکنے اور رضاکارانہ افہام وتفہیم کو یقینی بنانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا۔
t تعلیمی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدہ معائنے کا اہتمام کرنا اور مقررہ معیار پر پورا نہ اترنے والے مدارس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام کرنا۔
t مدارس میں آپسی روابط کے فروغ کے لیے تحریری، تقریری نیز کھیل کود کے مقابلے کرانا۔
t مسائل حاضرہ سے بہتر آگاہی اور افہام وتفہیم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے علماء اور عصری علوم کے ماہرین میں تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری کرنا۔
اجتماعی نظام کی مشکلات:
اجتماعی نظام کی تشکیل اور نفاذ بلاشبہ ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ ضروریات کا احساس بہت بار ہوا ہے۔ مگر کچھ تحفظات کی وجہ سے یہ ہمیشہ معرض التوا میں پڑجاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ بقول حضرت تھانوی ؒ ’’تواضع اور انکساری کے جذبہ کی کمی ہے‘‘(۸)۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ نے ۱۹۱۲میں جب یہ تجویز حضرت مولانا محمود الحسنؒ کی خدمت میں پیش کی تو اقتدار اعلیٰ کے سوال پر آکر یہ بحث ختم ہوگئی تھی(۹)۔ کچھ مدارس کو اپنا امتیاز کھوجانے کا خدشہ رہتا ہے کہ دریا سمندر میں مل جائے تو اس کا وجود ختم ہوجاتا ہے۔ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے باشعور افراد کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔جو اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے قربانی کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ان میں شورائیت کا حقیقی شعور ہو اور خود کسی عہدہ یا منصب کے خواہش مند نہ ہوں۔ایسے لائق افراد پر مشتمل وفاق وجود میں آگیا تو ان شاء اللہ مدارس کی قوت کارکردگی ، قوت مدافعت اور اثرات میں کافی اضافہ ہوگا اور ان شاء اللہ یہی نظام صوبائی پھر مرکزی سطح پر قیام وفاق کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
نصاب تعلیم:
اس کمیٹی کا سب سے اہم کام معیار تعلیم کو مزید مؤثر اور مفید بنانا ہے۔ تعلیمی نظام میں اصلاح کی بات ہوتو سب سے پہلے نصاب پر نظر جاتی ہے اورنصاب کا تذکرہ آتے ہی ارباب مدارس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہرمدرسہ کو اپنا نصاب بے حد عزیز ہے، وہ جہاں مناسب سمجھتا ہے خود تبدیلی تو کرلیتا ہے مگر خارجی مشورے اس کے لیے ہیجان کا باعث ہوتے ہیں۔
کمیٹی کی کمالِ سعادت یہ ہوگی کہ مدرسہ کی نفسیات اور تحفظات کا خیال کرتے ہوئے اس محاذ پر کچھ اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے، اگر ایسا ہوگیا تو ان شاء اللہ مدارس ایک نئے انقلاب کی لذت سے آشنا ہوں گے، اور وہ بڑے اعتماد کے ساتھ معاصر نظام تعلیم کے چیلنجز کا جواب دے سکیں گے۔
نصاب تعلیم ۔ چند مشورے:
تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ نصاب سازی اب ایک مستقل فن بن چکا ہے۔ کسی نصاب کی تشکیل سے پہلے اس کے مقاصد، وژن، عناصر، دائرہ عمل اور محتویات متعین ہوتے ہیں اور ان کی روشنی میں غور وفکر کا عمل برابر جاری رہتا ہے۔ اس اعتبار سے اگر معاصر دینی مدارس کے نصاب کا تجزیہ کیا جائے تو ان مقررہ معیارات پر ہمارے مروج نصاب کے کئی پہلو توجہ کے قابل ہیں۔ اس میں غور وفکر میں تسلسل کے بجائے جمود ہے۔ مقصد اور طریقہ میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، تدریس کے مواد اور اوقات میں توازن نہیں ہے۔ مواد اور طلبہ کی ذہنی ساخت و صلاحیت میں مناسبت بہت کم ہے۔ کچھ غیر ضروری مواد شامل نصاب ہے۔جبکہ کچھ بے حد ضروری موادا بھی بھی شمولیت کا منتظر ہے۔
کمیٹی کو ہمت، حکمت، حوصلہ اور وسعت نظر کے ساتھ ان مسائل پر غور کرنا ہے، اور جہاں ناہمواری دکھائی دے اسے ہموار وساز گار بنانا ہے۔ اس کے لیے پہلے ایک ٹھوس پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ اس پالیسی کے کچھ نکات یہ ہوسکتے ہیں:
t ہرمدرسہ اپنے یہاں رائج نصاب کو برقرار رکھے، اسے اپنا نصاب چھوڑ کر کسی دوسرے نصاب کو اختیار کرنے کی دعوت دینا مناسب نہیں ہے۔ متنوع نصاب کے باقی رہنے میں امت کا فائدہ ہے، یک رنگی میں نہیں۔
t نصاب میں جو ناہمواریاں ہیں ، جس نصاب میں یہ نظر آئے اس سے متعلق افراد سے ان کی نشاندہی کی جائے، ساتھ ہی اس کے تدارک کی تدابیر بتائی جائیں تاکہ جو مدرسہ جتنی اصلاح چاہے قبول کرلے۔
t ماہرین تعلیمات نے نصاب سازی کے جو رہنما اصول بیان کیے ہیں، ان کا آسان خلاصہ مدرسہ کی نصاب ساز کمیٹیوں کے لیے فراہم کیا جائے۔
t دینی مدارس کے اہداف، مقاصد اور اعلانات کے مطابق مثالی نصاب کا ایک خاکہ ارباب مدارس کے غور وفکر کے لیے پیش کیا جائے تاکہ ان کی روشنی میں مدارس خود اپنے نصابات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں جو پہلو ان کے لیے قابل قبول ہو اسے اختیار کرلیں۔ اس خاکہ میں درج ذیل نکات رکھے جاسکتے ہیں:
بنیادی مقاصد پر ارتکاز:
t مدارس قرآن، حدیث اور فقہ جیسے بنیادی علوم کی تعلیم اور ان کی روشنی میں پاکیزہ سیرت واخلاق کے حامل افراد کی تعمیر وتشکیل کے لیے قائم ہوئے ہیں۔ مدارس کا نصاب اس مقصد اور دعویٰ کا مصداق ہونا چاہیے۔ غیر جانب دار جائزوں میں دعویٰ اور عمل میں تضاد سامنے آیا ہے(۱۰)۔اس لیے انہیں درج ذیل خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔
قرآن مجید:
علم کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے، اس پاک کتاب میں وہ تمام اصول اور قوانین بیان کردئیے گئے ہیں، جن پر اسلام کا دار ومدار ہے، اس لیے اسلامی تعلیمی نظام کا مرکز ومحور بہر صورت اللہ کی یہ پاک کتاب ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے قرآن مجید کی تعلیم وتدریس کے وقت درج ذیل نکات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
t قرآن مجید کا مکمل ترجمہ ۔
t تجوید کے اصولوں کے ساتھ قرأت قرآن کی مشق۔
t قرآن کریم کی تعلیم میں تفاسیر کو اولین حیثیت دینے کے بجائے طلبہ میں یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ قرآن حکیم کو اپنی کوشش اور شوق سے سمجھیں۔ تفاسیر سے مطالعہ اور استفادہ کے دوران اہتمام کیا جائے کہ طلبہ گروہی اور مسلکی عصبیت سے بالاتر ہوکر معتبر اور کلاسیکل تفاسیر سے استفادہ کریں۔
t تعلیم قرآن کے ذریعہ کردار سازی کا اہتمام ہو۔
t قرآن مجید ایک انقلابی کتاب ہے، اس میں قوموں کے عروج وزوال کے اصول اور کائنات کے اسرار اور قوموں کے لیے عزت وذلت حاصل کرنے کے اصول جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں۔ اس زندہ پیغام کی حقیقی روح کے ساتھ تعلیم وتفہیم۔
جو مدرسہ قرآن مجید کو جس حیثیت میں پڑھاتا ہو، اسے مذکورہ نکات پر ایک مرتبہ ضرور غور کرنا چاہیے۔
حدیث:
علم کا دوسرا سرچشمہ محمد رسول اللہؐ کی حیات طیبہ ہے۔ آپؐ نے ایک نبی کی حیثیت سے ۲۳؍ سال تک جو کچھ کیا اور جو کچھ کہا، وہ سب قرآن کی تفسیر ہے اور دراصل قرآن مجید کی حقیقی اور مستند تفسیر وہی ہے۔
مدارس میں تعلیم حدیث پر الحمد للہ کافی توجہ ہے، چند ہی مدارس ایسے ہیں ، جن کے اوپر بے اعتنائی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مگر تمام احادیث کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھانے اور متن حدیث پر توجہ مرکوز کرکے متعلقات حدیث سے پہلو تہی کرنے سے طلبہ اس سرچشمہ علم ونور سے پوری طرح مستفید نہیں ہوپاتے۔ بہتر ہوگا کہ ارباب مدارس انہی کتابوں کو صرف سال آخر میں پڑھانے کے بجائے پورے تعلیمی دورانیہ یا کم از کم مرحلہ اعلیٰ کے منتہی درجات میں تقسیم کردیں جیساکہ ندوہ اور سلفی مدارس میں ہے تو اس کی افادیت مزید بڑھ جائے گی۔
تدریس حدیث کے وقت اساتذہ کرام کو درج ذیل باتوں کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت دی جائے تو اس علم کی تعلیم وتدریس کا فائدہ کئی گنا بڑھ جائے گا(۱۱):
t مناسب مقدار میں متن کی خواندگی، تصحیح عبارت اور صحیح ترجمہ کی مشق۔
t منتخب احادیث کا حفظ۔
t مفردات، تراکیب اور اشارات کی توضیح۔
t اوامرونواہی کا استنباط وتشریح اس طرز پر کی جائے کہ تعلیمات رسول کا مدعا واضح طور پر طلبہ کو معلوم ہوجائے اور اس سے اسلام کے مکمل نظام حیات ہونے کا تصور سامنے آجائے اور انسانی معاشرہ کے ہرگوشے میں اس سے رہنمائی ملے۔
t عوامی مسائل اور چیلنجز کا تعلیمات رسولؐ کی روشنی میں شافی ومسکت جواب دینے کی مشق۔
t مسائل کے استخراج واستنباط میں قرآن وسنت کی حقیقی روح پیش نظر ہو، جو فطری نتیجہ برآمد ہو وہی پیش کیا جائے۔ اس کی پوری احتیاط کی جائے کہ مسلکی تفوق ثابت کرنے کی کوشش میں روح حدیث مجروح نہ ہو۔
t امہات کتب حدیث اور ان کے عالی مرتبت مصنفین کے تعارف وامتیازات پر گفتگو۔
t علم حدیث کی تاریخ، اصطلاحات اور اصول پر خاطر خواہ مواد شامل کیا جائے، اس ضمن میں اصول جرح وتعدیل کا بھر پور اہتمام ہونا چاہیے۔
t حدیث پاک کے استناد کو منکرین ومستشرقین نے مشکوک بنانے کی کوشش کی ہے، طلبہ علوم نبوت کو اس کا بھرپور مطالعہ کرایا جائے، اور اس کے تدارک کی تدابیر سمجھائی جائیں(۱۲)۔
ان نکات کی روشنی میں مروجہ نصاب تعلیم کا تجزیہ کیا جائے تو خود بخود محسوس ہوگا کہ تدریس حدیث کے نصاب کو مزید بہتر مؤثر بنانے کے لیے ابھی کافی گنجائش ہے۔صرف نظریہ اور ترجیح کی تبدیلی سے فائدہ کئی گنا بڑھ جانے کا امکان ہے۔
فقہ اسلامی:
مدارس میں فقہ کی تعلیم کا بہت اہتمام ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے کہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اسی تطبیقی علم کی ضرورت پڑتی ہے۔ فقہ کا نصاب متعدد بار زیربحث آچکا ہے اور اس میں کئی پہلوؤں سے غور وفکر کے لیے توجہ دلائی گئی ہے۔ چند نکات درج ذیل ہیں:
t نصاب کی تیاری میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مضمون کے مختلف پہلوؤں کا محدود اوقات میں کیسے احاطہ کیا جائے، نصاب کی ناہمواری دور کرنے کے لیے سب سے پہلے اسی مسئلہ پر غور وخوض ہونا چاہیے، مناسب ہوگا کہ تجربہ کار اساتذہ، ماہرین تعلیم اور ماہرین نصابیات ایک ساتھ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس مضمون کی اہمیت اور حالات زمانہ کی رعایت سے مضامین کی از سر نو تعیین کریں۔
t مضامین میں توازن پر غور وفکر ہو تو سب سے پہلے عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ مروجہ نصاب میں زیادہ توجہ عبادات پر ہے، جب کہ معاملات ومعاشرت کی اہمیت کسی طرح بھی کم نہیں۔ عبادت کے مسائل روز مرہ کے معمولات سے بھی از بر ہوجاتے ہیں۔ لیکن دیگر پہلوؤں پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے فارغین مدارس معاشرہ سے کٹتے جارہے ہیں۔ زندگی کے ہرشعبہ میں دین کے غلبہ کے لیے ضروری ہے کہ حاملین دین متین اس سلسلہ میں رہنمائی فراہم کریں۔
t عصر حاضر کے تازہ مسائل اور اقلیتوں کے مخصوص مسائل پر بھی خاطر خواہ مواد شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کتابیں طلبہ کو پڑھائی جارہی ہیں ان میں سیکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کی اب ضرورت باقی نہیں رہی اور ہزاروں مسائل ایسے پیدا ہوگئے ہیں جن کی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ اس پہلو پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
t مسائل پر زیادہ زور صرف کرنے کے بجائے اصو ل اور متعلقات پر توجہ دی جائے تاکہ طلبہ کے اندر قرآن وسنت کی روشنی میں براہ راست فقہی مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
t معمول بہ مسلک کی تعلیم کی افادیت اپنی جگہ پر مگر فقہ حنفی تک محدود رہنے کے بجائے باقی مسالک کے احترام کی ترغیب اور ان کی تعارفی تعلیم کا بھی نظم ہونا چاہیے تاکہ مسلکی عصبیت کا ازالہ ہو اور طلبہ کے اندر وسعت فکر ونظر پیدا ہو۔ اس کے لیے فقہ مقارن کا اہتمام ضروری ہے۔
دعوت دین:
ان بنیادی مضامین کی تعلیم کے علاوہ کہا یہ جاتا ہے کہ مدرسہ کا بنیادی مقصد داعی دین تیار کرنا ہے۔ مدارس کے نصاب تعلیم وتربیت کے جائزہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دعویٰ ضرور بلند آہنگ ہے مگر نصاب میں دعوت کے اصول، طریق کار اور مشکلات کی تفہیم کے لیے بہت کم گنجائش نکالی گئی ہے(۱۳)۔ اس لیے مدارس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نصاب میں ایسے مواد کے لیے گنجائش نکالیں۔
t جس سے طلبہ کے اندر دعوت دین کا جذبہ موجزن ہو۔
t دعوت دین کی تاریخ سے حاصل کردہ اسباق سے شناسائی ہو۔
t مدعو قوم سے دشمنی اور عناد کے بجائے لطف ومحبت کا تعلق قائم ہو۔
t عملی دعوت کی تربیت کے مواقع فراہم کرائے جائیں۔
t قدیم مناظرانہ اسلوب کی افادیت اب ختم ہوگئی ہے۔ افہام وتفہیم اس زمانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے مذاہب ومسالک کی تردید کی تربیت کے بجائے تفہیم کا اسلوب اختیار کیا جائے۔(۱۴)
عربی زبان وادب:
قرآن مجید ، احادیث اور فقہ اسلامی کا سارا علمی سرمایہ عربی زبان میں ہے۔ اس لیے امہات کتب تک رسائی کے لیے عربی زبان وادب میں مہارت ناگزیر ہے۔ اسی لیے دینی مدارس میں اس پہلو پر کافی زور دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی کئی پہلو قابل توجہ ہیں:
t عربی نحو وصرف کی تعلیم کے لیے نہایت مشکل زبان اور قدیم زمانے کی کتابوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کو طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت زیادہ وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ عربی قواعد کی تعلیم کے جدید طرز پر عرب ممالک میں جو کتابیں مرتب ہوئی ہیں یا اسی طرز پر ہندوستان وپاکستان کے علماء نے ترتیب دی ہیں، ان سے استفادہ کیا جائے اور کم وقت میں زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جائیں۔
t ادبی متون کے انتخاب میں بھی ماضی قریب میں اکابر علماء نے زبردست خدمات انجام دی ہیں، عربی ادب کی امہات کتب کا نچوڑ، مختارات، منثورات، نخبۃ الادب، نفحۃ الیمن وغیرہ جیسی کتابوں میں جمع کردیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی بہترین شعری مجموعے بھی منظر عام پر آگئے ہیں۔ انہیں شامل نصاب کیا جاسکتا ہے۔ اب مقامات حریری جیسے دقیق مباحث کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
t ادبی متون کے علاوہ عربی ادب کی تاریخ، فن بلاغت وعروض اور تنقید پر بھی توجہ کی ضرورت ہے، مدارس کے نصاب میں یہ پہلو بہت کمزور ہے۔
t زبان کے طریقہ تدریس میں انقلابی تبدیلیاں ہوتی ہیں اب قواعد کی بنیاد پر زبان سکھانے کے بجائے براہ راست متون کی خواندگی، القاء اور مشق کے ذریعہ زبان اور قواعد پر گرفت بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے مارکیٹ میں نئی کتابیں، آڈیو/ ویڈیو C.D بھی موجود ہیں ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔ البتہ منتہی درجات میں کلاسیکل لٹریچر پر دسترس کے لیے قواعد واسالیب کا گہرائی سے مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
ہندوستانی تہذیب اور مغربی علوم وافکار کا تعارفی مطالعہ:
علماء کرام کا فرض منصبی دینی نقطۂ نظر سے معاشرہ کی رہبری اور رہنمائی کرنا ہے۔ رہبری اور رہنمائی کے لیے اہلیت اور استحقاق حاصل کرنے کے لیے تیاری کرنا ضروری ہے، تیاری کا ایک اہم رُخ یہ ہو کہ علماء ہدایت الٰہی اور دینی علوم سے پوری طرح فیض یاب ہوں،جس کا ذکر اس سے قبل ہوا ہے۔ تیاری کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس معاشرہ میں رہنمائی کے فرائض ادا کرنے کے وہ ذمہ دار قرار دئیے گئے ہیں۔ اس معاشرہ سے وہ پوری طرح باخبر ہوں۔ عالم اور فقیہ شریعت کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے حالات اور افکار ونظریات سے پوری طرف واقف ہو۔اس لیے نصاب میں اس کے لیے گنجائش نکالی جائے اور اس کے لیے تحریکات اسلامی کے لٹریچر سے استفادہ کیا جائے۔
معاصر علوم:
معاصر علوم کی اہمیت اور ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے اکثر مدارس میں پرائمری تک ان کی تعلیم ہوتی ہے، بعض مدارس میں جونیئر یا ہائی اسکول کی سطح تک سماجی علوم اور سائنس دونوں پڑھائے جاتے ہیں۔ کچھ مدارس ہائی اسکول تک معاصر علوم پڑھانے کی وکالت کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سماجیات کا دائرہ بہت وسیع ہے، مدارس کو اپنی ضروریات کے لحاظ سے تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، معاشیات وسیاسیات وغیرہ کو شامل نصاب کرنا چاہیے۔ اس میں بھی تاریخ کے ساتھ اسلامی تاریخ، جغرافیہ میں جغرافیہ قرآن اور جغرافیہ عالم اسلام اور معاشرت میں اسلامی نظام معاشرت کو پڑھانا چاہیے۔ مدارس کی ضروریات کے لحاظ سے لٹریچر کی بھی کمی ہے۔ اس سلسلے میں نئے لٹریچر کی تیاری کی بھی ضرورت ہے۔ (۱۵)
سائنس کی تعلیم کے وقت مبادیات سائنس کے ساتھ سائنس کی فکر یات پڑھانے پر خصوصی توجہ دینا چاہیے تاکہ قرآن وسنت کی تعلیمات پر ان کا انطباق ہوسکے۔
زبانیں:
اس وقت یہ کیفیت ہے کہ کئی مدارس میں انگریزی کی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، بلکہ اردو بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ عربی زبان وادب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور اس میں لیاقت صرف پڑھنے اور سمجھنے کی حد تک پیدا ہوتی ہے،بولنے اور لکھنے کی صلاحیت کم ہی طلبہ کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ باستثناء ندوۃ العلماء زیادہ تر مدارس کا یہی حال ہے۔ زبانوں کی تعلیم وتدریس کے بارے میں بھی ایک نئی پالیسی کی ضرورت ہے جو ان خطوط پر مرتب کی جاسکتی ہیں۔
t دینی مدارس کے طلبہ کو عربی کے علاوہ مقامی، قومی اور بین الاقوامی چار زبانوں کی واقفیت ہونی چاہیے۔ عربی اس لیے کہ ہماری امہات کتب اسی زبان میں ہیں اور موجودہ عالم عرب سے ہمارے دین ودنیا کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں۔ انگریزی اس لیے کہ یہ جدید علوم اور جدید دنیا کی کنجی ہے اور ہندی اس لیے کہ یہ ہماری قومی زبان ہے اور مستقبل میں اس کی توسیع کے کافی امکانات ہیں اور مادری یا مقامی اس لیے کہ مادری زبان ہی حصول علم کا سب سے بہترین ذریعہ ہے(۱۶)۔
خلاصہ:
دینی مدارس کے نظام ونصاب کے تعلق سے یہ چند گزار شات ہیں۔ ان گزارشات پر غور وفکر ارباب مدارس ومفکرین ملت کو کرنا ہے جن کے ہاتھ میں قوم وملت کا مستقبل ہے۔ مدارس کے نظام ونصاب پر غور وفکر تاریخ کے ہر دور میں ہوا ہے اور ہمارا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزر کر گذشتہ ایک صدی سے تعطل کا شکار ہوا ہے۔ تعطل کی اس کیفیت پر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے یہ الفاظ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں:
’’ جو نصاب تعلیم ہندوستان میں برابر بدلتا رہا، اور تغیر وترقی کے مدارج طے کرتا رہا، اس کا ایسے عہد میں جو سب سے زیادہ پُر از انقلابات ہے نہ بدلنا، ایک غیر معقول اور غیر طبعی فعل ہے۔ علمی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ اس نصاب کی زندگی میں وقوف وجمود کا سب سے طویل عہد وہ ہے جو سب سے زیادہ تغیر وانقلابات کا طالب ہے۔‘‘(۱۷)
وقت آگیا ہے کہ ہم آنکھیں کھولیں، دنیا اسلام کی طرف بڑھ رہی ہے، عالم اسلام ایک نئے انقلاب سے آنکھیں ملارہا ہے، اور ظالم وجابر مغربی تہذیب کے دلدادہ حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ علماء ہند نے ایسے مشکل حالات میں ہمیشہ رہنمائی کی ہے، اب ہماری صلاحیت، ہمت اور حوصلہ کا امتحان ہے۔
اٹھو وگر نہ حشر نہ ہوگا پھر بپا
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
حواشی و حوالہ جات
۱) تاریخ دار العلوم دیوبند، سید محبوب رضوی،ا دارۂ اہتمام دارالعلوم دیوبند ۱۹۹۲ ء جلد اول ص: ۱۳۶۔۱۶۴
۲) حیات شبلی، سید سلیمان ندوی،دار المصنفین، اعظم گڑھ ۱۹۹۹ ء ص: ۴۳۰
۳) مدرسۃ الاصلاح کا تعارفی لٹریچر
۴) صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ (سورۃ البقرہ، ۱۳۸)
۵) دیکھئے: جامعۃ الفلاح، مدرسۃ الاصلاح اور جامعہ اسلامیہ مظفر پور کے نصابہا ئے تعلیم
۶) دیکھئے: پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی کی کتاب دینی مدارس مسائل اور تقاضے، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۰۱ ء
۷) مقاصد اور دائرہ عمل کی نشاندہی میں ڈاکٹر قمر الدین اور جناب سلیم منصور خالدکی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دیکھئے: ڈاکٹر قمر الدین، ہندوستان کی دینی درس گاہیں، ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی، نئی دہلی، ۱۹۹۶ ء اور جناب سلیم منصور خالد کی کتاب دینی مدارس میں تعلیم وکیفیت، مسائل، امکانات، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد ۲۰۰۵ ء
۸) ملک و ملت کی تعمیر اور دینی مدارس (مقالات سمینار) ادارہ علمیہ، جامعۃ الفلاح بلریاگنج، ۱۹۹۴ ء، مقالہ مفتی محمد ظفر الدین مفتاحی، دینی مدارس کا وفاق۔ مسائل ومشکلات، ص: ۲۷۳
۹) حیات شبلی ص: ۵۲۸
۱۰) دینی مدارس میں تدریسِ قرآن۔ ایک جائزہ، اشہد رفیق ندوی، ششماہی علوم القرآن، خصوصی اشاعت ’’قرآنی علوم بیسویں صدی میں‘‘ جلد نمبر: ۱۹۔۲۰ ص: ۴۸۶؍ تا ۵۰۰؍
۱۱) دینی مدارس میں تدریسِ حدیث۔ ایک جائزہ، اشہد رفیق ندوی ماہنامہ زندگی نو، نئی دہلی جون ۲۰۱۰ ء جلد: ۳۶، شمارہ: ۶
۱۲) ان نکات کی ترتیب میں ڈاکٹر قمر الدین اور جناب سلیم منصور خالد کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔
۱۳) دعوت اسلامی اور مدارس دینیہ، مرتبین مقبول احمد فلاحی، انیس احمد مدنی، ادارہ علمیہ بلریاگنج ۲۰۰۶ ء تمام مقالات میں اس کمزوری کا تذکرہ ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دیکھئے دینی مدارس کے نصاب میں دعوت دین ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ، اشہد رفیق ندوی، ص:۹۰۔۱۰۲
۱۴) دار العلوم دیوبند اور دیگر درس نظامی کے مدارس میں ابھی مناظرہ تربیت کا رواج ہے۔ ۲۰۱۱ ء میں دار العلوم وقف نے بہت بڑے پیمانے پر مناظرہ منعقد کرایا۔
۱۵) اس سلسلے میں اقرأ انٹر نیشنل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن، شکاگو نے بہت معیاری کام کیا ہے۔ اس نے سنگاپور کے دینی مدارس کے لیے پری یونیورسٹی سطح تک مکمل مبسوط نصاب اور نصابی کتابیں تیار کرائی ہیں۔ ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ استفادہ کے لیے رجوع کریں:
www.iqrafoundation.com، www.iqra.org
۱۶) ان نکات کی ترتیب میں ڈاکٹر قمر الدین اور جناب سلیم منصور خالد کی کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔