دعوت دین کا شاندار موقع

ایڈمن

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خصوصی فضل اور احسان ہے کہ وہ ہرسال ماہ رمضان کی شکل میں عبادت الہی کا بہترین موقع عنایت فرماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک رمضان المبارک کی عبادات کا اہتمام…

اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خصوصی فضل اور احسان ہے کہ وہ ہرسال ماہ رمضان کی شکل میں عبادت الہی کا بہترین موقع عنایت فرماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک رمضان المبارک کی عبادات کا اہتمام خلوص و للہیت اور شعوری ایمان و یقین کے ساتھ کرلیا جائے تو انسان کی پوری زندگی بدل جائے گی، جبکہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں کی زندگی میں بیسیوں بار آتا ہے، لیکن یہ افسوسناک بات ہے کہ رمضان کی عبادات کے اثرات رمضان میں بھی پوری طرح مسلم معاشرہ پر نظر نہیں آتے، کجا کہ رمضان کے بعد گیارہ ماہ کی زندگی میں نمایاں ہوں اور مسلمانوں میں کوئی صالح انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
یہ بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ ماہ رمضان کی عظیم عبادات اس میں ایک روٹین کا عمل بنا دی گئی ہیں۔ دینی فکر اور عمل کے زوال کا آج حال یہ ہے کہ رمضان کی عظیم عبادات محض اجر وثواب کے حصول کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہیں۔ یقیناًان عبادات کے نتیجے میں اخروی زندگی میں اجر وثواب ضرور ملے گا، لیکن اس دنیوی زندگی میں رمضان کی عبادات کے کیا کوئی اثرات و نتائج نہیں ہیں،کوئی اس کے جواب میں کہہ سکتا ہے کہ رمضان کی عبادات کے نتیجے میں انفرادی و اجتماعی اصلاح و تربیت اور تزکیہ نفس کا حصول ہوگا، معاشرے کی اصلاح ہوگی، لیکن قرآن و سنت کی روشنی میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جواب بھی نامکمل ہے۔
رمضان۔ دعوت کی تربیت اور تیاری کا مہینہ:
یہ ایک اہم اور بنیادی نوعیت کی حقیقت ہے کہ رمضان اور اس کی عبادات دراصل تزکیہ نفس اور اصلاح و تربیت کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی سطح پر فریضۂ دعوت کی ادائیگی کے لیے تربیت اور تیاری کا شاندار موقع فراہم کرتی ہیں۔ رمضان کی عبادات دعوتِ دین کے لیے تیاری اور اس کے لیے تربیت کا موثر ذریعہ ہیں۔ افسوس کہ آج عام مسلمانوں کو اس کا شعور نہیں ہے۔ مسلم طلبہ اور نوجوان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
آج رمضان میں فریضہ دعوت کی تیاری، تربیت اور عملی جدو جہد کے نہ ہونے کے سبب رمضان کی عظیم عبادات بظاہر بے اثر اور بے جان سی ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس صورتحال کو جلد سے جلد بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسلم طلبہ اور نوجوانوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ رمضان کی عبادات اور ان کے مقاصد کے تعلق سے روایتی اور بے جان مائنڈسیٹ کو تبدیل کریں گے اور قرآن وسنت، اسوۂ رسولؐ اور اسوۂ صحابہ کرامؓ کی روشنی میں صحیح ذہنی رویہ اور عملی سرگرمی اختیار کریں گے۔ واقعہ یہی ہے کہ رمضان دعوت و جہاد،غلبۂ اسلام، فتح و کامیابی اور عروج و سربلندی کا مہینہ ہے۔ یہ باطل اور جاہلیت پر مبنی نظام کے خاتمے کا مہینہ ہے، رمضان کی عبادات کا ایک اہم مقصد دعوت و جہاد اور غلبہ دین کی تیاری ہے۔ آج مسلمانوں کو مدینہ کے ۱۰؍ سالہ دور نبوت میں سے ماہ رمضان میں صرف نماز باجماعت، روزوں کا اہتمام، نماز تراویح، شب قدر، اعتکاف، اور عید وغیرہ ہی یاد رہ گئی ہے لیکن غزوہ بدر، فتح مکہ، نزول قرآن، دعوت و جہاد اور شہادت کو یکسربھلادیاگیا ہے۔
عام مسلم طلبہ اور نوجوانوں اور بالخصوص طلبہ تنظیموں کے وابستگان سے ہماری گزارش ہے کہ رمضان کی عبادات کے اہتمام کو صرف انفرادی تزکیہ وطہارت،اصلاح و تربیت اور اجر وثواب کے حصول تک محدود نہ کریں بلکہ عزم کرلیں کہ رمضان میں دین کی دعوت، اسلام کی اشاعت، باطل افکار،فلسفوں اور جدید جاہلیت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہوجائیں گے۔
رمضان میں فرض اور نفل عبادات کا اجر و ثواب عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح اس ماہ میں دعوتی سرگرمیوں اور کوششوں کی فضیلت اور اجر و ثواب عام دنوں میں کی جانے والی دعوتی کوششوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگا۔ رسول اکرمؐ کی بشارتیں بھی یادرہنی چاہئیں کہ ایک شخص کی بھی ہدایت اور قبول حق کا ہم ذریعہ بن جاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے آخرت میں عذاب جہنم سے بچنے کا سامان ہوگا۔اسی طرح فرمایا عرب کی سب سے بڑی اور قیمتی دولت سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔ قبول حق کے بعد ایک فرد اپنی زندگی میں تو فرائض کی پابندی، احکام کی اطاعت اور نیکیاں بھلائیاں کرے گا، ان سب کا بدلہ اسے ملے گا ہی، اس کے ساتھ اتنا ہی داعی کو بھی ملے گا جس نے دعوت دی تھی۔ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ایک فرد بھی تمہارے ذریعہ ہدایت پاتا ہے تو یہ تمہارے لیے دنیا اور مافیہا سے بہتر ہے۔
وطنی طلبہ اور نوجوانوں میں دعوت کی اہمیت:
جدید تعلیم اور جدید افکار و نظریات کی وجہ سے مذہب کے حوالے سے ماضی کی تنگ نظری، تعصب اور جانبداری۔۔۔ ختم ہوکر۔۔۔ ذہنی کشادگی، وسیع النظری اور غیرجانبداری۔۔۔ میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کا جدید ذہن اخذ وقبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ روحانی تشنگی اور اخلاقی فساد و بگاڑ کے نتیجے میں جدید ذہن کا مذہب کی طرف رجوع بڑھ رہا ہے۔ آج کے جدید ذہن کو ہر مذہب مطمئن نہیں کرسکتا۔ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جو محض مذہب نہیں بلکہ دین الہی ہے، دین فطرت ہے، مکمل نظام زندگی ہے، جو مسائل حیات کا واحد حل اور فلاح و نجات کا واحد ضامن ہے، یہی اسلام آج کے ذہن و قلب کو مطمئن کرسکتا ہے۔
پیاسی روحوں کے لیے اسلام آب حیات ہے۔ اس کا جامع تعارف کرایا جائے تو پیاسے لپک کر اسے پالینا چاہیں گے، وطنی بھائیوں کی نئی نسل اسلام پر غور کرنے ، سمجھنے اور سمجھ میں آجانے کے بعد قبول کرنے کے لیے تیار اورآمادہ ہے۔ قبولِ دعوت کا انقلابی فیصلہ کرنے کی قوت اور جرأت و صلاحیت کی حامل ہے۔ دین حق کے لیے قربانیاں دینے اور استقامت کا نمونہ پیش کرنے میں انہیں کچھ بھی پس و پیش نہیں ہوتا، جس نعمت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا ہوتا ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہونے میں انہیں ذرا بھی جھجھک نہیں ہوتی۔
وطنی طلباکی نئی نسل اسلام کے متعلق غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کے ہجوم میں گھری ہوئی ہونے کے باوجود صحیح تعارفِ اسلام کے نتیجے میں اپنی غلط فہمیوں پر اصرار نہیں کرتی، بلکہ داعی پر اعتماد کرتی ہے، رفتہ رفتہ ان کی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں دور ہوجاتی ہیں۔
جس طرح تقریباََ۱۴۵۰؍ سال قبل عرب میں رسول اکرمؐ کی دعوت نے مکہ کے باشندوں میں سب سے زیادہ نوجوانوں کو متاثر کیا، اس میں مرداور خواتین دونوں شامل تھے۔ آج بعینہٖ یہی صورتحال ہے۔ کتنی سعید روحیں قرآن کی تلاش میں ہیں، نوجوان طلبہ بھی ہیں اور نوجوان طالبات بھی۔ بدقسمتی سے عام مسلمان آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ قرآن ہماری کتاب ہے، اس کتاب کا ہدیہ کفار و مشرکین کو حالتِ کفر اور شرک میں نہیں دینا چاہیے، البتہ مسلمان ہوجائیں تو دے سکتے ہیں۔
مسلم طلبہ اور نوجوانو! داعی بن جاؤ!
طلبہ اور نوجوان فریضۂ دعوت کی ادائیگی کا عزم کریں۔ دیگر فرائض اسلام کی طرح اس فریضہ کو بھی اہم اور ضروری سمجھیں، اسے اعلی درجہ کی عبادت تصور کریں، یہ فریضہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور مفادات، مطالبات اور حقوق کے حصول کے لیے نہیں ادا کرنا ہے بلکہ اللہ کے بندوں کو انسانو ں کی غلامی، جدید جاہلیت، باطل افکار و فلسفوں اور انسانوں کے بنائے ہوئے مذاہب و نظریات سے چھٹکارا دلانے کے لیے ادا کرنا ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے ذریعہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانا ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی ملک میں عدل و قسط کا قیام عمل میں لانے کے لیے ہے، ظلم و استحصال، ناانصافی، تشدد، اورحقوق کی پامالی کا خاتمہ کرنے کے لیے ہے۔ کمزوروں، عورتوں اور زیردستوں کو عزت، خودی، مساوات، انصاف اور اخروی زندگی میں جنت کا مستحق بنانے کے لیے ہے ۔
رمضان میں انفرادی دعوتی سرگرمیاں
(۱) دعوت کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے بالکل ابتدائی مرحلے میں طلبہ اسلامی سیرت و کردار کے حامل بنیں،اور طلبہ کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لے کر خدمتِ خلق کا نمونہ بن جائیں۔ اسلامی سیرت و کردار میں ان کی علمی، فکری اور عملی،غرض شخصیت کا ہمہ جہت ارتقاء شامل ہے، اسلامی سیرت و کردار میں جذبہ دعوت، داعیانہ اخلاق، مزاج ورویہ شامل ہے۔ اسلامی سیرت و کردار اور خدمت خلق ۔ دونوں کے نتیجے میں وطنی طلبہ سیرت کے حسن اورخدمت کے سحر میں خود کو جکڑا ہوا پائیں گے۔ اسلام کو کتاب پڑھ کر، تقریریں سن کر سمجھنے سے پہلے وہ کتاب زندگی پڑھ کر قبولِ دعوت کے دہلیز پر پہنچ جائیں گے۔ اس سیرت و کردار اور جذبہ خدمت و جذبہ دعوت کے ساتھ ان کا رویہ تعلیمی اداروں، ہاسٹلز، انتظامیہ، اور اساتذہ کے ساتھ بہت ہی مثالی ہوگا۔
(۲) طلبہ اپنے پاس فولڈرس اور کتابیں رکھیں۔ انفرادی ملاقات اور گفتگو کے بعد یہ چیزیں فراہم کریں۔ روزہ۔ رمضان اور قرآن کے موضوع پر لٹریچر بہت مفید ہوگا۔
(۳) طلبہ اپنے گھروں میں وطنی طلبہ کو دعوت افطار کے لیے یا عید کے بعد بلا کر تواضع کریں، وطنی طلبہ کو روزہ رکھ کر ذاتی تجربہ کرنے کے لیے آمادہ کریں۔ مسلم گھروں کا ماحول دیکھ کر وہ متأثر ہوں گے۔
(۴) مسلم طلبہ کی فریضہ دعوت کے لیے تربیت وتیاری کے مقصد سے یوم بدر، فتح مکہ اور یوم القرآن کے پروگرام رکھے جاسکتے ہیں۔
(۵) دور حاضر میں اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے جدید ذرائع ابلاغ (الیکٹرانک میڈیا) کا بھرپور استعمال۔ مثلاً انٹرنیٹ ، بلاگس، فس بک، ٹیوٹر، ویب پورٹل، ای میل وغیرہ کے ذریعہ منتخب مواد نشر کیا جاسکتا ہے۔
(۶) پرنٹ میڈیا میں علاقائی زبانوں ہندی اور انگریزی میں مختصر مضامین، احادیث کے اقتباسات (کوٹیشن)، اور مراسلے بھیج کر اسلام کے پیغام کی اشاعت کی جاسکتی ہے۔
رمضان میں اجتماعی دعوتی پروگرام
ماہِ رمضان میں مسلم طلبہ اور نوجوان، بالخصوص طلبہ تنظیموں کے وابستگان، تعلیمی اداروں، ہاسٹلس، شہروں اور گاؤں میں اجتماعی طور پر دعوتی پروگراموں کو منعقد کریں۔ مسلم طلبہ اور نوجوانوں کے لیے پروگراموں کی نوعیت الگ ہوگی۔ یہاں اس پر کوئی بات نہیں بتائی جا رہی ہے۔ وطنی طلبہ اور نوجوانوں کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے جاسکتے ہیں۔ چند پروگراموں کا تعارف درج ذیل ہے۔
۱۔ تعارفِ رمضان:رمضان کے آغاز سے کچھ دن قبل دعوتی عنوان کے تحت اس پروگرام کا انعقاد ہوسکتا ہے مثلاً استقبال رمضان، یا روزہ کی حقیقت وغیرہ۔
۲۔ لکچرس: رمضان کے آغاز سے قبل یا دوران رمضان تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں لکچرس رکھے جائیں۔ لکچرس کے لیے جدید عنوانات رکھنے مناسب ہوں گے۔ مثلاً روحانی اقدار کا حصول اور رمضان یا فرد کا ہمہ جہت ارتقا اور رمضان کی عبادات وغیرہ۔
۳۔ ڈیبیٹ/ ڈسکشن: تعلیمی اداروں اور ہاسٹلز میں طلبہ کے درمیان مختصر گروپ بنا کر یہ پروگرام منعقد کیا جاسکتا ہے۔
۴۔دعوت افطار: طلبہ اس پروگرام کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس پروگرام کو افطار پارٹی کا نام نہ دیں۔ دعوتِ افطار یعنی افطار گیٹ ٹوگیدر عنوان دیں، نیچے ایک جملے میں افطار کا مفہوم درج کریں۔ (Breaking fast)
۵۔ قرآن انٹروڈکشن: قرآن کا نزول ماہ رمضان میں ہوا ہے۔ قرآن تمام انسانوں کے لیے خدا کا آخری ہدایت نامہ ہے۔ قرآن کے پیغام، دعوت اور بنیادی تعلیمات کے تعارف کا بہترین موقع اس کے ذریعہ ملتا ہے پروگرام کا عنوان قرآن سب کے لیے یا قرآن مجید۔نوع انسانی کے لیے کتاب انقلاب،وغیرہ رکھا جاسکتا ہے۔ قرآن میں آج انسان کے قلب و ذہن کو بدلنے اور اس کے اندر انقلاب برپا کرنے کی قوت موجود ہے۔
۶۔ عید ملن یا عید گیٹ ٹوگیدر: Eid Get Together : عید کے بعد قریبی دنوں میں یہ پروگرام منعقد کیا جانا چاہیے۔ اس پروگرام میں منتخب وطنی طلبہ کو بھی کچھ کچھ منٹ کے لیے اظہار خیال کا موقع دیا جاسکتا ہے لیکن بہتر یہ ہوگا کہ ایک مناسب فرد ۳۰؍ منٹ کے لیے اظہار خیال کرے، جس میں اسلام کا پیغام اور روزہ وقرآن وغیرہ کے تعلق سے گفتگو آجائے اور اس کے بعد سوال و جواب کا موقع دیا جائے۔
چند اہم باتیں
مذکورہ اجتماعی دعوتی پروگراموں کے تعلق سے درجِ ذیل اہم باتوں کا لحاظ کرنا ضروری ہے:
* پروگرام میں وطنی طلبہ اور نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ شریک کرانا چاہیے، اس کے لیے دعوت منصوبہ بند انداز میں دینا چاہیے۔ مسلم طلبہ اور نوجوانوں کو محدود تعداد میں شرکت کی دعوت دی جاسکتی ہے۔
*پروگرام میں اظہار خیال صرف ۳۰۔ ۳۵ منٹ کا ہونا چاہیے۔ شرکاء (وطنی طلبہ) کو سوالات اور انٹریکشن کا موقع ضرور دینا چاہیے۔
*شرکا کو فولڈرس اور مختصر کتابیں تحفۃََفراہم کرانا چاہیے۔ بک اسٹال کا نظم کرنا بھی ضروری ہے۔
* مسلم طلبہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وطنی طلبہ کی بہت بڑی تعداد تک پہنچ آسان ہے۔ مادیت کے غلبہ، روحانی اور اخلاقی قدروں کے زوال، طلبہ اور طالبات کے درمیان بے حجابانہ میل جول، کارپوریٹ اداروں اور تعلیم کی نجی کاری وغیرہ عوامل نے خدا فراموشی اور آخرت فراموشی کا ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ایک روحانی و اخلاقی بحران ساری فضا پر چھا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود طلبہ کے اندر روحانی پیاس بڑھتی جا رہی ہے، خدا کی جستجو اور تلاش کا جذبۂ اندروں امڈ امڈ کر ان کی بے چینی کا مداوا چاہتا ہے، اسلام دین فطرت اور دین انسانیت ہے۔ ان حالات میں دعوت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں غفلت برتناخدانخواستہ ہلاکت کو دعوت دینا ہے، لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی۔
محمد اقبال ملا،
سکریٹری شعبہ دعوت، جماعت اسلامی ہند

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں