دادری کا وحشیانہ قتل: فسطائی دہشت گردی

ایڈمن

دادری کا تازہ واقعہ ہو ، مظفرنگر ہو ، بلبھ گڑہ ہو ،گوپال گڑھ، کندھمال ہو ، کوسی ہو، 2002 کا گجرات ہو یا پھر دلتوں پسماندہ طبقوں کا قتل عام ہو ، یہ ہلاکتیں منظم منصوبہ بندی کا ایک…

دادری کا تازہ واقعہ ہو ، مظفرنگر ہو ، بلبھ گڑہ ہو ،گوپال گڑھ، کندھمال ہو ، کوسی ہو، 2002 کا گجرات ہو یا پھر دلتوں پسماندہ طبقوں کا قتل عام ہو ، یہ ہلاکتیں منظم منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہیں۔ طویل عرصے سے منظم طورسے ملک میں ایک درجن سے زائد فاشسٹ قوتوں نے جو مہم چلا رکھی ہے یہ قتل عام اسی کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔اس کے بعد بھی حکومت، انتظامیہ اور میڈیا کی جانب سے، اس طرح کے وحشیانہ قتل کو کبھی دہشت گردی کا واقعہ نہیں کہا یا سمجھا جاتا، بلکہ ان کو محض تشدد ، حادثہ ، مجرمانہ کار روائی یا فرقہ وارانہ تشدد کہہ کر ان کے اس وحشیانہ عمل کی شدت کو کم کر دیا جاتا ہے، بلکہ جانچ میں بھی ان فاشسٹ دہشت گردوں کو بچایا جاتا ہے ، انہیں اپنی پر تشدد سرگرمی انجام دینے ، اسلحہ ٹریننگ کیمپ چلانے ، ہتھیار رکھنے اور پروگراموں میں اسلحوں کی کھلی نمائش کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ان کو نفرت پھیلانے والے بیان دینے یا دھمکانے سے بھی حکومت نہیں روکتی ، بلکہ اب تو ان تنظیموں کے سربراہوں کو بھرپور تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے تاکہ یہ لوگ اپنی پر تشدد سرگرمی منظم ڈھنگ سے چلا سکیں۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں پے درپے ہونے والے اس طرح کے وحشیانہ واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شرپسندوں کے دل ودماغ سے قانون کا خوف جا تا رہا ہے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ مرکز یا ریاست میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو کوئی ان فاشسٹ دہشت گردوں کو نہیں روکتا ، ان کی بہت سی دہشت گردانہ کارروائیاں سیاسی سرگرمی کے نام پر چلتی ہیں لیکن کبھی بھی سرکار یا ان اداروں کی جانب سے سیاست اور دہشت گردی کے درمیان فرق نہیں کیا جاتا۔
ہندوستان میں فاشسٹ دہشت گردوں کو پالنے کی طویل تاریخ ہے، دراصل فاشسٹ دہشت گردی کی بنیاد 1925 میں ہی پڑگئی تھی۔ یہ نسخہ فاشسٹوں کو انگریزحکمرانوں نے فراہم کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی میں جب پورا ملک انگریزی حکومت کے خلاف کمر بستہ تھا تو یہ گروپ انگریزوں کی مخبری کر رہا تھا جس کا ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ اسی لیے 1947 میں جب ملک آزاد ہوا تو انگریز اپنی ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی انہی فرقہ پرستوں کو ورا ثت میں دے کر چلے گئے ، نفرت اور عداوت کی وہ فصل جو انگریز اپنے جانشینوں کے حوالے کر گئے تھے یہ لوگ دن رات اس کی توسیع میں لگے رہے اور اس کی آبیاری نرم ہندوتوا میں یقین رکھنے والی ملک میں بننے والی نام نہاد سیکولر حکومتیں بحسن و خوبی انجام دیتی رہیں۔ 2008 میں پہلی بار آن دی ریکارڈ بھگوا دہشت گردی کا انکشاف ہو نے کے بعد سناتن سنستھا ، رام سینا جیسی کئی فاشسٹ تنظیمیں ظاہر ہوئیں لیکن اس کے باوجود ان پر قدغن لگانے کی جرأت نہیں کی گئی۔ اور اب تو حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں، جوحکومت عالمی سطح پر دہشت گردی کو امن کے لیے خطرہ بتاتی ہے ، اسے ختم کرنے کا وعدہ کرتی ہے، جس نے دہشت گردی سے نمٹنے اور ملک کی حفاظت کے لئے آئی بی ، اے ٹی ایس، این آئی اے جیسے ادارے بنا ئے ہیں۔ اب یہی حکومت اور دہشت گردی روکنے والے سرکاری ادارے فاشسٹ تنظیموں کے سربراہوں کی حفاظت کررہے ہیں، اورہماری ایجنسیاں آئے دن ان تنظیموں کے لیڈروں کی حفاظت کے پیش نظر الرٹ بھی جاری کرتی ہیں۔ جبکہ ملک میں ہوئے کئی بم دھماکو ں میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی حکومت اور ان ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔
اس کے برعکس یہ ادارے دلتوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتی فرقوں کے تعلق سے فاشسٹ دہشت گردوں کے حملوں کے پیش نظر کبھی الرٹ جاری نہیں کرتے۔ اگر حکومت یہ مانتی ہے کہ دہشت گردی ملک کی سلامتی، امن اور اتحاد کے لیے خطرہ ہے تو وہ دہشت گرد تنظیم چھوٹی ہو یا بڑی بھگوا ہو یا کوئی اور رنگ لیے ہوئے، سبھی پر یکساں طور پر پابندی کیوں نہیں لگا دیتی ہے؟
غور طلب ہے کہ ہمارے خفیہ محکموں کی طرف سے ایسے الرٹ اکثر جاری ہوئے ہیں کہ دہشت گرد بابری مسجد ، گجرات ، مظفرنگر کا بدلہ لینے آئے تھے۔ آنے والے دنوں میں اب ایک نام دادری کابھی لیا جائے گا۔ فاشسٹ دہشت گردوں نے1992 میں بابری مسجد انہدام کے بعد ممبئی میں، 2002 میں گجرات اور 2013 میں مظفرنگر میں دہشت گردانہ کار روائی انجام دی۔ لیکن حکومت ممبئی دھماکے کو تو دہشت گردانہ کار روائی مانتی ہے لیکن فاشسٹ دہشت گردوں کا ہمیشہ دفاع کرتی ہے۔ بالکل واضح ہے کہ حکومت اس معاملے میں ایماندار انہ پالیسی اختیار نہیں کررہی ہے۔ ایک طرف حکومت بوڈو لینڈ ، خالصتان کا مطالبہ کرنے والے دہشت گرد ں کوتو دہشت گرد مانتی ہے لیکن دوسری جانب ’’ہندو راشٹر‘‘ کا مطالبہ کرنے والے دہشت گردوں کو اپنا دوست سمجھتی ہے۔ ساتھ ہی وہ ان تنظیموں اور افراد کو بھی دہشت گرد کہتی ہے جو فاشسٹ دہشت گردی کے سخت مخالف ہیں۔ اگر حکومت کو واقعی ملک کی سلامتی عزیز ہے تو وہ ساری دہشت گرد تنظیموں کو بغیر ذات مذہب دیکھے پابندی لگائے۔
بہار کے مونگیر میں ایک انتخابی جلسے میں دادری سانحے پر وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہندو مسلم آپس میں نہیں، غربت سے مل جل کر لڑیں۔ لیکن خود کو اس پورے معاملے سے الگ رکھتے ہوئے زیادہ کچھ نہ کہہ کر انہوں نے صدر جمہوریہ کے حالیہ بیان پر عمل کی ترغیب دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاست کی وجہ سے کچھ چھوٹے لوگ اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے اوٹ پٹانگ سیاسی بیان بازی کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں کی بیان بازی پر توجہ مت دیجئے۔ اگر خود نریندر مودی بھی کہتا ہے تو اس کی بھی بات مت سنیے۔ اگر سننا ہے تو صدر جمہوریہ نے جو کہا ہے اس سے رہنمائی حاصل کیجیے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہر معاملے میں نصیحت دینے والے وزیر اعظم صدر جمہوریہ کی تقریر کا حوالہ دے کر الگ ہو گئے ؟ انہوں نے اس معاملے کی واضح الفاظ میں مذمت اورشر پسندوں کی حوصلہ شکنی کیوں نہیں کی؟
غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کرنے والوں کی زبان بند کرانے پر وہ کچھ کیوں نہیں بولے ؟ انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ملک کا سب سے بڑا آئینی عہدہ صدر جمہوریہ کا ہوتا ہے لیکن انتظام و انصرام پر کنٹرول کی ذمہ داری ، نظام حکومت کے سربراہ وزیر اعظم ہی پر ہوتی ہے۔ اس وقت ملک کو یہ انتظار تھا کہ ایسے وحشیانہ سانحے کا وہ ضرور سخت نوٹس لیں گے اور شرپسند عناصر کی جو ملک میں منافرت کے بیج بو رہے ہیں سخت سرزنش کریں گے لیکن وہ گول مول سا بیان دے کر درمیان سے نکل گئے۔ وزیر اعظم اس معاملے میں واضح طور پر بھلے ہی کچھ کہیں یا نہ کہیں محمد اخلاق اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے دنیا کو یاد دلادیا ہے کہ ہندوستان کس راہ پر چل پڑا ہے۔ دنیا کو خبر دار کر دیا ہے کہ ہندوستان ایک غیر محفوظ مقام بنتا جا رہا ہے ، دادری سانحے کی عالمی میڈیا میں ہوئی بحث بھی بتاتی ہے کہ دنیا بھر کی نگاہیں ہندوستان پررہتی ہیں۔ مودی امریکہ کی سلیکان ویلی میں چاہے جوکچھ کہیں، ہندوستان کی جدیدیت کا خواب محض ایک کمزورچادر ہی ہے، جس کے نیچے وہی پرانی بربریت اور وہی فرقہ پرست فاشسٹ ذہنیت پوشیدہ ہے جس نے اس ملک کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔
وزیر اعظم ہندوستانی عوام کو ڈیجیٹل انڈیا کا خواب دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ بھول رہے ہیں کہ یہ خواب بے معنی ہے اگر دہلی کی سرحد پر آباد گاؤں میں پولیس پر تشدد ہجوم کو نہیں روک سکتی ہے۔ اخلاق کے قاتلوں نے اس کی سازش اور پوری تیاری ڈیجیٹل ذرائع سے ہی کی تھی۔ واٹس ایپ پر گؤ کشی کی جھوٹی افواہیں پھیلائی گئیں، لیکن پولیس اور ضلع انتظامیہ ان ساری باتوں سے بے خبر رہی۔ یہ کیسے ہوا؟ اگر ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال نفرت کی فضا بنانے کے لیے ہوگا ، تو ہمیں نہیں چاہیے ایسا ڈیجیٹل ہندوستان۔
اس دردناک واقعے سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم کے اپنے ہی ساتھی ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایک طرف مودی کہتے ہیں کہ وہ ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس’ چاہتے ہیں اور دوسری طرف بھارتی جنتا پارٹی کے مقامی رہنما، اخلاق کے قتل کو جائز ٹھہرانے میں لگے ہوئے ہیں۔ دادری کے سابق ممبر اسمبلی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر اخلاق کے فریج میں ملا گوشت گائے کا نکلا تو قاتلوں کا غصہ سمجھ میں آتا ہے۔ وہ یہ کہنے کے بعد قاتلوں کو رہا کرانے میں لگ گئے۔ بی جے پی کے دیگر مقامی لیڈروں نے بھی اخلاق کے قتل کو مختلف طریقوں سے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے کہا کہ نوجوانوں کے جذبات میں آنے کی وجہ سے قتل ہوا، تو کسی اور نے قتل کو ‘بدقسمتی’ کہہ کر ٹال دیا۔
آخریہ کس طرح کے لوگ ہیں ؟ اس طرح کی بے بنیاد دلیلیں دے کر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کہاں ہے ان کی انسانیت؟ دادری میں اخلاق کا خاندان گاؤں چھوڑ نے پر مجبور ہو گیا ہے اور یہ لوگ ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں کر رہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے کانوں میں اب بھی خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی ہے۔ یاد رہے تیس سال بعد اگر کسی وزیر اعظم کو اکثریت ملی ہے تو صرف اس لیے کہ تبدیلی اور ترقی کی باتیں ووٹروں کو بہت اچھی لگیں۔ انہوں نے سمجھا کہ مودی لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کی جانب توجہ دیں گے لیکن کیا پتہ تھا کہ ترقی کا خواب تو ایک بہانہ ہے۔ اصل ہدف تو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ آئے دن عوامی جلسوں میں اس خواہش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد انہوں نے گھرواپسی کی تحریک کیوں نہیں روکی؟ کیوں اب تک اپنے ان وزراء کو برطرف نہیں کیا، جو غیر ذمہ دارانہ فرقہ وارانہ بیانات دیے جارہے ہیں۔ جب مرکزی حکومت کے وزیر ‘رام زادے، حرام زادے’ جیسی باتیں کر سکتے ہیں، تو کیوں نہیں ایک جاہل ، دیہاتی کو ایسا لگے گا کہ ہندوتو کے تحفظ کے لیے اخلاق جیسے مسلمانوں کو قتل کرنا ضروری ہے؟ اب بھی اگر وزیر اعظم اپنے وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور سنگھ کے پرانے ساتھیوں کو روکنے کا کام نہیں کرتے ہیں تو، دو باتیں تو بالکل طے ہیں۔ ایک یہ کہ تبدیلی کا وہ خواب کبھی پورا نہیں ہونے والا ہے اور دوسرا یہ کہ ملک کی ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری ہم کو چاہیے وہ نہیں آنے والی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار ان ممالک میں سرمایہ کاری کرنے نہیں جاتے ہیں، جہاں جنگل راج کے اثرات اس ملک کی دارالحکومت کی حدود تک پہنچ جاتے ہیں۔

اشرف بستوی، سب ایڈیٹر سہ روزہ دعوت، نئی دہلی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں