بھارت ماتا کی پاون دھرتی میں نفرت کا بیج ڈال کر اگر اسے معصوموں کے خون سے سینچا جائے تو اس میں زعفرانی ووٹوں کی زبردست فصل نکل آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ لوگوں سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں اور محمد اخلاق کی موت کو بدبختانہ قراردیتے ہوئے تمام شہریوں سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ واقعات میں اضافے کے پیش نظر وزارت داخلہ کی جانب سے ریاستوں کو تلقین کرتے ہیں کہ مذہبی جذبات بھڑکاکر سیکولر تانے بانے کو کمزور کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے لیکن اس کے باوجود نفرت کی آگ بجھنے کے بجائے کیوں پھیلتی جاتی ہے؟
اس سوال کا جواب دراصل سنگھ پریوار کے قول و عمل کا تضاد ہے۔ راجناتھ سنگھ جیسے لوگوں کی آواز صدا بہ صحرا اس لیے ثابت ہوتی ہے کہ وہی راجناتھ اور وزارتِ داخلہ مظفر نگر فساد کے ملزم سنگیت سوم کو زیڈ پلس سیکورٹی بھی فراہم کردیتی ہے۔مظفر نگر فساد سے قبل حکم امتنائی کے باوجود جس سنجیو بالیان نے مہا پنچایت کا انعقاد کرکے فساد کی آگ کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اسے پارلیمانی انتخاب کا ٹکٹ دیا جاتا ہے اور جب وہ ۴؍ لاکھ کے فرق سے کامیابی حاصل کرتا ہے تو اسے وزارت سے بھی نواز دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی پاگل بھگواداری ہی ہوگا جو سنجیوبالیان کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے وزارت داخلہ کے مگر مچھ کے آنسو سے متأثر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بابری اور دادری جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
قومی سیاست میں دادری کو بابری جیسی اہمیت اس لیے حاصل ہو گئی کہ اس واقعہ نے بھی ملک بھر کے انصاف پسند وں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ذرائع ابلاغ میں سنگھ کے خلاف ایسی سونامی آئی کہ جس نے ہندو احیاء پرستوں کو مدافعت میں ڈھکیل دیا ۔ انسانیت ، اخلاقیات، رواداری اور نفرت کی نفسیات جیسے مختلف موضوعات کے ذریعہ زعفرانی فسطائیت کے کریہہ چہرے کو بے نقاب کیا گیا۔ اس کے باوجود کچھ سیاسی عوامل اوجھل ہی رہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ۲۱؍ ستمبر کو اترپردیش میں پنچایتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان اس طرح ہوا کہ ۹؍اکتوبر سے شروع ہونے والے یہ انتخابات چار مرحلوں میں ہوں گے۔ یکم نومبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔
پنچایتی انتخابات کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس بار اپنی سابقہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے بی جے پی نے اترپردیش میں اس دنگل میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ بی جے پی کی اترپردیش یونٹ کے انچارج اوم پرکاش ماتھر کے مطابق پنچایتی انتخابات میں اب تک پارٹی الگ رہتی تھی لیکن پہلی بار اس میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے۔ خیال رہے کہ پنچایتی انتخابات میں اب تک سماج وادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے درمیان مقابلہ ہوتا تھالیکن بی جے پی نے اب اسے سہ رخی بنادیا ہے۔ ماتھر نے اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ ان انتخابات میں مقامی موضوعات زیادہ کامیاب رہتے ہیں، لیکن بی جے پی ریاستی حکومت کی ناکامیوں کو بھی موضوع بنائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی اس حقیقت سے واقف ہے کہ مرکز میں اس کا بلاشرکتِ غیرے اقتدار اترپردیش کی غیر معمولی کامیابی کا مرہونِ منت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کامیابی میں سب سے اہم کردار مظفر نگر کے فسادات نے ادا کیا۔ قومی انتخابات کے بعد ہونے والے یکے بعد دیگرے تین ضمنی انتخابات میں بی جے پی اپنی اس کامیابی کو دوہرانے میں بری طرح ناکام رہی ۔ خود وزیراعظم کے حلقۂ انتخاب میں بھی بی جے پی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس لیے ان پنچایتی انتخابات میں دوبارہ کامیاب و کامران ہونے کے لیے اسے ایک اور مظفر نگر جیسے فساد کی ضرورت تھی جس کے لیے عصمت دری کی گھسی پٹی افواہ کے بجائے گؤ کشی کو بنیاد بنایا گیا ۔
سماجوادی پارٹی کو بی جے پی کے ارادوں کا اندازہ ہوگیا تھا اس لیے اس نے پنچایتی انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے مرکزی دستوں کو تعینات کرنے کا اعلان کیااور پہلی بار سی آر پی ایف کی مدد لینے کا فیصلہ کیا لیکن بی جے پی نے انتخابات کا انتظار کرنے کے بجائے اس کی ابتداء سے ۱۳؍ روز قبل ۲۸؍ ستمبر کو ہی دادری میں محمداخلاق کو شہید کرکے سارے اتر پردیش کی فضا کو مکدّر کرنے کی مذموم کو شش کردی۔ اس حرکت سے بی جے پی گؤ رکشا کی بنیاد پر ہندووں کو اپنے قریب کرنے لگی۔ اس نے ظالموں کی پشت پناہی کھل کر کی تاکہ پھر ایک بار مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکی جائیں۔
بی جے پی کی ایک مستقل حکمت عملی ہے کہ مسلم ووٹ جو فی الحال سماجوادی پارٹی کے ساتھ ہے تقسیم ہوجائے اور کچھ مسلمان مایا وتی کی جانب لوٹ جائیں اور کچھ اتحاد المسلمین کی طرف چلے جائیں۔ اس بار پنچایتی انتخاب میں ایم آئی ایم بھی پہلی مرتبہ شریک ہورہی ہے اور اس پس منظر میں بیرسٹر اسدالدین اویسی کا دادری میں یہ اعلان کہ محمد اخلاق کو ان کے مسلمان ہونے کے سبب قتل کیا گیا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ مسلم ووٹ کی تقسیم فی الحال بی جے پی کی بہت بڑی سیاسی ضرورت ہے اور اس کے لیے مسلم عوام کو ریاستی حکومت سے بددل کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر مسلمانوں کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ سنگیت سوم کا جواب اعظم خان نہیں بلکہ اسدالدین اویسی ہیں تو ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی الحال اعظم خان کے جارحانہ بیانات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اعظم خان نے دادری کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کو خط لکھا تو اویسی نے اس کی مذمت کی۔
اس طرح کی صورتحال میں مسلمانوں کا معاملہ عجیب و غریب ہوجاتا ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ اسے نظر انداز کرے تو انہیں بجا طور پر غصہ آتا ہے اور ہم جانبداری کا الزام لگانے میں حق بجانب ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر میڈیااسے خوب اچھالنے لگے تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر شدید خوف وہراس پیدا ہوجاتا ہے اور امت مایوسی کا شکار ہونے لگتی ہے۔ یہ صورتحال بلاواسطہ فسطائی عناصر کے لیے کارآمد ہو جاتی ہے اس لیے کہ ان کا تو مطمح نظر ہی یہ ہے کہ مسلمان مایوس ہو کر جذبۂ عمل سے عاری ہوجائیں۔ فسطائی عناصر کو علم ہے کہ مسلمانوں جیسی سیاسی بصیرت کسی اور طبقہ میں نہیں ہے۔ جس طرح دیگر طبقات کو ورغلایا اور بہکایا جاسکتا ہے اس طرح سے مسلمانوں کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔
دادری کوئی تنہا واقعہ نہیں ہے بلکہ عین پولنگ کے دن خود ملائم سنگھ یادو کے گڑھ مین پوری میں رونما ہونے والے ایک واقعہ نے اس سازش کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے۔ مین پوری کے کرہل گاوں میں ایک ہندو کی گائے مر گئی۔ اس نے یہ گائے لائسنس یافتہ مسلمان قصائیوں کے حوالے کی تاکہ اس کی کھال اتار کر اسے دے دیں۔ قصائی جس وقت اپنا کام کررہے تھے اسی شخص نے یہ افواہ پھیلا دی کہ مسلمان نگریا علاقہ کے محلہ قریشیان میں کھلے عام گائے ذبح کررہے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی اور پہلے سے تیار مجمع جائے واقعہ پر پہنچ کر ان قصائیوں پر پل پڑا۔
اتفاق سے پولس دستہ قریب ہی موجود تھا اور وہ بھی فوراً پہنچ گیالیکن جب اس نے دیکھا کہ ۲۰؍تا ۲۵؍ سال کے نوجوانوں کا جم غفیر وہاں موجود ہے تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ نوجوان پولیس سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم انہیں کیفرِ کردار تک پہنچا ئیں۔ جب پولیس نے قصائیوں کو تحفظ دیا تو بندوقوں سے لیس نوجوان پولس سے بھڑ گئے اور ابتداء میں اسے پسپا بھی کردیا لیکن بہت جلد پولیس والے کامیاب ہوگئے اور انہوں نے ۲۲؍ فسادیوں کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کے مطابق سارا کچھ منصوبہ بند تھا۔ اس نے افواہ پھیلانے والے کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرلی ہے۔ یہ لوگ پہلے تو نارنگی گمچھے سے اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھے مگر لاٹھی چارج کے بعد سارے چہرے بے نقاب ہو گئے۔ ووٹنگ کے دن اس واقعہ کا رونما ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پتہ لگایا جائے آیاگائے اپنی فطری موت مری تھی یا سیاسی فائدے کے لیے ان ’’دیش بھکتوں‘‘ نے اپنی ماں کو زہر دے کر ماردیا تھا۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران ایسے کئی واقعات ہوئے۔ غازی آباد کے بادل پور میں دیپک شرما نے ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتارنے کی ویڈیو بنائی اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلا دیا تاکہ فساد بھڑکایا جاسکے۔ شرما نے اس واردات کی خبر پولیس کو بھی دے دی۔ تفتیش کے بعد پتہ چلا کہ وہ بچھڑا ایک ہندو کا تھا جو بیماری کے سبب مرگیا تھا لیکن جب اسے دفنانے سے قبل اس کی کھال اتاری جارہی تھی تو شرما نے اس کی ویڈیو بنالی بالآخر بے شرم شرما گرفتار ہوگیا۔کوڑا کھیڑی گاؤں میں ایک ہندو کسان کی گائے کے مرجانے کے بعد بھی یہی مذموم کوشش کی گئی لیکن کسان نے خود جاکر پولیس کو فسادیوں کی خبر دے دی۔ چھتیرا گاؤں میں مسلمان محلے کے پاس ایک بچھڑے کا گوشت اور ڈھانچہ لاکر پھینک دیا گیا اور اسی کے ساتھ افواہوں کا سلسلہ گرم ہو گیا لیکن ایک مقامی رہنما وریندر چوہان نے اسے شرارت پسندوں کی سازش قرار دے کر معاملہ کو رفع دفع کردیا۔
مظفر نگر فسادات کے وقت سماجوادی پارٹی اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس وقت وہ تذبذب کا شکار ہوگئی کہ اگر مسلمانوں کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کئے گئے تو مباداجاٹ برادری ناراض ہو کر اجیت سنگھ کی جانب لوٹ جائے گی۔نتیجہ یہ ہوا کہ فسادیوں کو کھلی چھوٹ مل گئی اوراتر پردیش میں آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر بڑی تعداد میں مسلمانوں کو نقلِ مکانی کرکے کیمپوں کا رخ کرنا پڑا۔ سماجوادی کی لاکھ منہ بھرائی کے باوجود جاٹ برادری ملائم سنگھ سے بد ظن ہو کر بی جے پی کی گود میں چلی گئی اور وہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے یادوں کے ساتھ ملائم سنگھ کو نہ صرف مین پوری بلکہ اعظم گڑھ سے بھی کامیاب کیا۔ اپنی پرانی غلطی سے عبرت پکڑ کر اس بار سماجوادی پارٹی نے فسادیوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور یہی وجہ ہے مظفر نگر کا اعادہ نہ ہوسکا۔
اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت بساہڑا گاؤں کے حکیم نامی شخص کی دو بیٹیوں زیتون اور ریشماں کی تقریب نکاح ہے جو ۱۱؍ ستمبر کو منعقد ہوئی۔ بارات سعداللہ پور اور پیاوالی نامی قریب کے دیہاتوں سے آنے والی تھی لیکن محمد اخلاق کے قتل کے بعد ناظم اور مبین کے اہل خانہ نے خوف و ہراس کے پیش نظر بساہڑا آنے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں حکیم صاحب اپنے گاؤں سے باہر جاکر کہیں تقریب نکاح کا منصوبہ بنانے لگے،لیکن گاؤں کے ہندو بزرگوں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے خود آگے بڑھ حکیم کو کہیں اور جانے سے منع کیا، نیز تقریب کے اہتمام میں دست تعاون دراز کیا۔
گاؤں کے ایک بزرگ ایچ کے شرما نے بتایا کہ ہم نے پرائمری اسکول میں خیمہ لگوانے کا انتظام کیا ہے اور گو کہ ۱۰۰۰؍ لوگوں کی شرکت متوقع ہے مگر ہم ۱۵۰۰؍ لوگوں کے لیے طعام کا بندوبست کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے ہمارا گاؤں ایک بڑے سے خاندان کی طرح ہے اور ایسے مواقع پر ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہماری اپنی بیٹی کی شادی ہورہی ہے۔ گاؤں کے مکھیا سنجے رانا نے کہا کہ ماضی میں بھی ہم لوگ ایک دوسرے کاتعاون کرتے رہے ہیں بلکہ ہندووں نے یہاں مسجد کی تعمیر تک میں ہاتھ بٹایا ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان یہی خیر سگالی کی فضافرقہ پرستوں کے لیے سمِ قاتل ہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ سنجے رانا نے اوپر جس دوستانہ ماحول کا ذکر کیا ہے ۱۸۵۷ء سے قبل بھارت کے بیشتر حصوں کی یہی صورتحال تھی۔ فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوتے تھے۔ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ صلح وآشتی کے ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ مسلم حکمرانوں نے فرقہ پرستی کی بیخ کنی کردی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان سرے سے کوئی اختلاف ہی نہیں پایا جاتاتھا لیکن اس اختلاف کی بنیاد پرمخاصمت نہیں تھی۔ دونوں مذاہب کے ماننے والے مل جل کر رہتے تھے۔یہی وجہ ہے بابری مسجد کو توڑنے والے بھی گائے ماتا کی سرکشا کے لیے کبھی تزک بابری کا حوالہ دیتے ہیں تو کبھی اکبر اعظم کے گن گاتے ہیں مگر چندر گپت موریہ یا سمراٹ اشوک کی بات نہیں کرتے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں نے اپنے دوراقتدار میں تو غیر مسلمین کے ساتھ تفریق و امتیاز نہیں برتا مگر آج کے جمہوری نظام میں جبکہ اقتدار کی باگ ڈور عملاًہندووں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف سرکاری ملازمتوں میں بھید بھاؤ کیا جاتا ہے بلکہ آج کل تو کرائے پر مکان حاصل کرنے میں بھی دشواری پیش آتی ہے۔اوپر سے فسادات اور دھماکوں کے نتیجے میں اصلی مجرمین کو پکڑنے کے بجائے بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری انتظامیہ کا معمول بن گیا ہے اور اب یہ تنگ نظری عدالت تک میں پہنچ گئی ہے۔
۱۸۵۷ء کے بعدبرطانوی استعمار نے اپنے مفاد کی خاطردانستہ طور پر ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت پھیلانے کی پالیسی اختیارکی۔ اس لیے کہ انگریزوں کے خلاف بغاوت میں ہندو اور مسلمان دونوں برطانیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بغاوت کو کچلنے کے بعد انگریزوں نے بھارت پر تسلط جمانے کے لیے ’تقسیم کرو اور راج کرو‘کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ہندوستان کے لیے وزیر خارجہ سر چارلس ووڈ کا وائس رائے لارڈ الجن کو ۱۸۶۲ء میں لکھا جانے والا خط اس حقیقت کا گواہ ہے جس میں وہ رقمطراز ہے:’ہم نے بھارت میں اپنا اقتدار ایک برادری کو دوسری برادری کے خلاف کھڑا کر کے قائم رکھا ہے اور ہمیں اسے جاری رکھنا چاہیے۔ اس لیے ان کو ایک متحد قوم کے احساس سے باز رکھنے کے لیے آپ جو کچھ کر سکتے ہیں کریں۔‘
اسی طرح کا ایک اور خط ۱۸۸۷ء میں وزیر خارجہ وسکاؤنٹ کراس نے گورنر جنرل ڈفرن کو لکھا: ’مذہبی تقسیم ہمارے مفاد میں ہے اور ہم ہندوستانی تعلیم اور تعلیمی مواد پر آپ کی تفتیشی کمیٹی سے اچھے نتائج کی امید کرتے ہیں۔‘
وزیر خارجہ جارج ہیملٹن نے تو گورنر جنرل لارڈ کرزن کو لکھے اپنے خط میں اس مقصد کے حصول کی خاطراپنی حکمت عملی بھی بیان کردی : ’اگر ہم ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو دو حصوں ہندو اور مسلمان میں تقسیم کر سکتے ہیں تو اس سے ہماری پوزیشن مضبوط ہوگی۔۔۔ ہمیں درسی کتب کو اس طرح تیار کرنا چاہیے کہ دونوں مذاہب کے اختلافات میں مزید اضافہ ہو۔‘
اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی کیے گئے مثلاً اپنے ایجنٹوں کو مذہبی لباس پہنا کر ایک دوسرے کے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانا اور مندر پر اللہ اکبر لکھ کر یا گائے کا گوشت پھینک کریا نمازکے اوقات میں بلند آوازموسیقی بجوا کر عوام کو لڑانا۔ انگریزوں کا ایک ایک سبق ان کے وفا دار سنگھ پریوار نے گرہ سے باندھ لیا ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی سیاسی دوکان چمکانے میں لگا ہواہے۔
ملائم سنگھ کوسنگھ پریوار حقارت کے ساتھ ملاّ ملائم سنگھ کہہ کر پکارتاہے مگراس خطاب پر ملائم کا سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے۔ مظفرنگر فساد کے بعد چودھری اجیت سنگھ نے ملائم سنگھ کو اتر پردیش کا مودی کہہ کر جو گالی دی ہے تو ملائم کا سر شرم سے جھک گیا۔ ملائم سنگھ نے آگے چل کر آگرہ میں اجیت سنگھ کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھامظفرنگر کا گجرات کے گودھرا سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔گجرات میں فساد زدگان کوانصاف نہیں ملا مگر اترپردیش میں ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور مجرمین کو قرارواقعی سزا ملے گی۔اس اعلان کے بعد ملائم سنگھ نے جو کچھ کہا اس پرموجودہ حالات میں یقین کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ وہ بولے میں نے کبھی بھی ذات پات یا مذہب کی سیاست نہیں کی۔ہم متأثرین کی زیادہ سے زیادہ امداد کریں گے اور مجرمین کے خلاف ایسے اقدام کریں گے کہ وہ اس کا اعادہ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔
ملائم مظفر نگر فساد کے بعد تووہ سب نہیں کرسکے لیکن دادری کے بعد وہ اپنے دعویٰ کو عملی جامہ پہنانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں ۔ اس بار انتظامیہ مستعد تھی۔ وہ بروقت حرکت میں آئی۔ دادری کے بعد پولیس فائرنگ میں ایک نوجوان ہلاک ہوا ، بی جے پی والوں نے اس پر سیاست کرنے کی کوشش کی مگر اس کی پرواہ نہیں کی گئی۔۔ اس کے بعد مختلف ملزمین کو برقت گرفتار کرکے ان کے خلاف ان کے تمام تر سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود مقدمات قائم کئے گئے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بحال کرنے کے لیے زمینی سطح پر کام کیا گیا۔ انتظامیہ میں تساہلی برتنے والے افسران کے خلاف اقدامات کیے گئے اور محمد اخلاق کے خاندان کی ٹھیک ٹھاک مددکی گئی لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہے مجرمین کو سزا ملے۔ یہی وہ بس ایک گانٹھ ہے جس کے بغیر اس فتنہ کی بیخ کنی ممکن نہیں ہے۔ محمد اخلاق کے بیٹے سرتاج نے بھی یہی کہا ہے کہ میں محب وطن ہوں۔ میں نہیں چاہتاکہ میرے والد کی موت پر سیاست ہو لیکن یہ ضرور چاہتا ہوں کہ انصاف ملے یعنی انصاف یہی ہے کہ قاتلوں کو قرار واقعی سزا ملے، اس کے بغیر دادری کی دادرسی ممکن نہیں ہے۔
جولوگ یہ پوچھتے ہیں کہ اس طرح کے حالات میں کیا کرنا چاہئے انہیں مندرجہ بالا واقعات میں اپنے سوال کا جواب مل گیا ہوگا۔ ویسے خلاصہ کے طور پراول تو ظلم وجبر کے خلاف صدائے احتجاج اس زور سے بلند کی جائے کہ ظالم مدافعت پر مجبور ہوجائے۔ مایوسی اورحزن و ملال کی کیفیت سے جلد از جلد نکلنے کی کوشش کی جائے۔ حالات کی تبدیلی کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے۔ بساہڑہ گاؤں کے اس حصے میں جہاں مسلمانوں کے ۴۰؍۵۰؍ گھر ہیں، جہاں ہندو فرقہ پرستوں نے حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی بلکہ محمداخلاق کا جو تنہا گھر ہندو محلے میں تھا اس پر ہلہ بول دیا۔ اس لیے یہ خیال خام دل سے نکال دیں کہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔عصر حاضر میں دوست کو دشمن بنانے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگتا۔ غیر مسلمین سے برادرانہ تعلقات بحال رکھ کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی جائے تاکہ فرقہ پرستوں کے لیے انہیں ورغلانا مشکل ہو جائے۔ انتظامیہ سے ربط و ضبط کے ذریعہ منافرت کو پھیلنے سے روکنے کی سعی کی جائے۔ کسی بھی دوست یا دشمن کو اس طرح کے سانحات سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع ہرگز نہ دیا جائے اس لیے کہ سارے فساد کی جڑ وہی سیاسی مفاد پرستی ہے۔ اللہ پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے عزم و حوصلہ کے ساتھ آزمائشوں کا مقابلہ کیا جائے۔
ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار