دائیں بازو کی تاریخ نویسی سماجی تنوع کے لیے خطرہ

ایڈمن

سید سعادت اللہ حسینییہ مقالہ ایک ایسے دورمیں لکھا جارہا ہے جب کہ پوری دنیااکثریتی انتہاپسند نسل پرست تحریکات کے دوبارہ ظہور کامشاہدہ کررہی ہے۔تشدد،نسل پرستی اور اکثریت پرستی اس عہد کا ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔اس پس منظر…

سید سعادت اللہ حسینی

یہ مقالہ ایک ایسے دورمیں لکھا جارہا ہے جب کہ پوری دنیااکثریتی انتہاپسند نسل پرست تحریکات کے دوبارہ ظہور کامشاہدہ کررہی ہے۔تشدد،نسل پرستی اور اکثریت پرستی اس عہد کا ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔اس پس منظر میں حاشیے پر رکھے گئے طبقات کی آوازوں کو سامنے لانااور انہیں اصل دھارے کے علمی مباحث کا حصہ بنانابے حد اہمیت کا حامل ہے۔ چوں کہ تاریخ کابڑے پیمانے پر غلط استعمال ماضی میں بھی کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے،اور یہ نسل پرستی اور انتہا پسندی پر مبنی تحریک کا ایک طاقتور ہتھیار بن چکی ہے، تاریخ اور تاریخی معلومات کے مناسب اور غیر متعصب فہم کو نشو و نما دینا بہت ضروری ہے۔حاشیے پر رکھے گئے طبقات کی تاریخ کا مطالعہ انہیں با اختیار بنانے کا اہم وسیلہ ہے۔اس طرح کا مطالعہ متعلقہ طبقات کے مثبت کردار اور خدمات کو نمایاں کرتا ہے۔ساتھ ہی یہ ان طبقات کے خلاف موجود فرقہ وارانہ، ذات پات اور نسل سے متعلق تعصبات کا بھی خاتمہ کرسکتا ہے۔

            ہم تاریخ کیا مطالعہ کیوں کرتے ہیں؟تاریخ موجودہ صورت حال کو سمجھنے،اور مستقبل کے تئیں مناسب لائحہ عمل اختیار کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔تاریخ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے اور موجودہ حالات کو سمجھنے کے قابل بناتی ہے۔تاریخ دنیا اور امور دنیاکوسمجھنے کے لیے میں ہمیں پس منظر فراہم کرتی ہے۔  فقدان یادداشت (amnesia)ایک ذہنی بیماری ہے جو دماغ کے خلیوں کے نقصان کے سبب لاحق ہوتی ہے،اور مریض اپنی یادداشت کھو دیتا ہے۔یہ انتہائی درد ناک اور اذیت ناک بیماری ہوتی ہے کیوں کہ یہ مریض سے اس کا ماضی چھین لیتی ہے۔مریض اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔وہ اپنے تجربات بھول جاتا ہے۔زندگی بھر کا حاصل کردہ علم اور مہارت سب ختم ہوجاتی ہے۔تاریخ سے اس قسم کی لاتعلقی بذات خود ایک معذوری بن جاتی ہے۔ٹھیک اسی طرح سے تاریخ سے عدم واقفیت یا غلط واقفیت اجتماعی فقدان یاد داشت (collective amnesia)کی ایک وسیع شکل ہے۔تاریخ ہمیں اپنے ماضی سے، پوری انسانیت کے مشترکہ علم و حکمت اور تجربات سے جوڑتی ہے۔لہذا اگر کوئی سماج تاریخ کو نظر انداز کردے یا تاریخ سے غلط واقفیت رکھے تو یہ پورے سماج کی اجتماعی معذوری کی علامت ہوگی۔

            اسلام میں قرآن نے مطالعہ تاریخ کو غیر معمولی اہمیت دی ہے۔نص قرآنی کا ایک معتد بہ حصہ تاریخی معلومات پر مشتمل ہے۔ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اور آدم، نوح،ابراہیم، موسی،عیسی اور یوسف علیہم السلام وغیرہ نبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن ماضی کے صالح انسانوں اور فاسد انسانوں، نیک کرداروں اور بدکرداروں کی مثالیں فراہم کرتا ہے۔تاریخ کے بیان کے بعد قرآن تاریخی واقعات، عذاب،عمل اور ردعمل اور رویوں پرتبصرے کرتا ہے۔ ان سے سبق کشید کرتا ہے اور پھر اس کی روشنی میں قاری کو مناسب لائحہ عمل عطا کرتا ہے۔

            اٹھارہویں صدی کے معروف اسکالرشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآن کے مشمولات کی درجہ بندی کی ہے۔اس میں ایک اہم قسم جسے وہ بیان کرتے ہیں اس کا نام ہے ”ایَّامُ اللَّہ“ یعنی اللہ کے دن جس سے ان کی مراد تاریخی واقعات اور تاریخی معلومات ہیں۔جو کہ قرآن کی اچھی خاصی آیات پر محیط ہیں۔استقرائی منطق کا اطلاق کرتے ہوئے قرآن تاریخی تذکروں سے تمام انسانوں کے لیے اور ہر زمانے کے لیے عالمگیر دروس و اصول اخذ کرتا ہے۔قوموں کا عروج وزوال انہیں اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے،جنہیں قرآن ”سُنَّۃُ اللَّہ“ یعنی قانون الہی کا نام دیتا ہے۔” فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبدِیلًا وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحوِیلاً“ (تم سنت الہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ سنت الہی کو ٹلتے ہی پاؤ گے، سورہ فاطر،آیت 43)

            الغرض،مطالعہ تاریخ کا مقصد ان آفاقی و عالمگیر اصولوں کو سمجھنا ہونا چاہیے۔ابن خلدونؒ اور پروفیسر ٹوائن بی جیسے علمائے تاریخ نے تاریخ کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اور تاریخ کے مطالعہ سے انسانی تہذیب کے لئے عالمگیر اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔

            تاریخ نویسوں نے عام طور پر مادی پہلوؤں پر مبنی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔انہوں نے معیشت، فوج، سیاسی قوت،آبادیات،جغرافیائی سیاسیات،جغرافیائی حکمت عملی وغیرہ کوتاریخی محرکات کے کلیدی عوامل کے طور پر قبول کیا ہے۔اس کے برعکس قرآن اخلاقی و تعبدی عوامل کو اہمیت دیتاہے۔”وَلَو أَنَّ اَئہلَ القُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیہِم بَرَکَاتِِ مِّنَ السَّمَاءِ وَالاَئرضِ وَلَکِن کَذَّبُوا فَاَئخَذنَاہُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ“  (اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے،،لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان کو پکڑلیا، سورہ الاعراف،آیت 96)

            اللہ تعالی،جو سب سے زیادہ علم و حکمت رکھتا ہے، نے انسانوں کو باخبر کرنے اور انہیں تنبیہ دینے کے لیے تاریخ کو ذریعہ بنایا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی فطرت میں دوسروں کی مثالوں اور ان کے ماضی سے سبق سیکھنے کا رجحان موجود ہے۔

            لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ سے صحیح سبق حاصل کرنے کا یہ کام اسی وقت انجام پاسکتا ہے جب کہ جو تاریخ ہم پڑھتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی، غیر تحریف شدہ اور کسی بھی قسم کے امتیاز و تعصب کی آلائش سے پاک و صاف ہو۔بدقسمتی سے تاریخ سماجی علوم کے ان شعبوں میں سے ایک ہے جن میں علمی تفریق و امتیاز کا دخل سب سے زیادہ ہے۔تاریخی بیانیے ہر عہد میں مؤرخ کے سیاسی جھکاؤ،حکمران وقت اورسیاست وقت کے ذریعے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔اس قسم کی جعلی تاریخ اجتماعی فقدان یادداشت (collective amnesia) سے زیادہ ضرررساں ہے۔افسانے اور فرضی قصے کہانیوں کوحقیقت کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔سچے واقعات کو یاتو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی یا ضرورت سے بھی کم۔مؤرخین کے سیاسی افکار کی بنیاد پر حقائق کو دانستہ طور پرمخفی رکھاگیا یا انہیں مسخ کیا گیا۔مبالغہ آرائی مؤرخین کا بہت معروف ہتھیار ہا ہے۔اس قسم کے نام نہاد مؤرخ تلاش حق کی جستجو میں نہیں بلکہ ایک مشن پر کام کررہے ہیں۔ایک محقق یا سنجیدہ مؤرخ کا فرض سنجیدہ تحقیق اور سچ کی سراغ رسانی ہے۔جب کوئی محقق یا مؤرخ ایک مشنری کارکن بن جاتا ہے تو وہ تاریخی مواد کے ذریعے اپنے معاصر سیاسی، قبائلی اور نسلی حتی کہ مذہبی ایجنڈے کی توجیہہ تلاش کرنے لگتا ہے۔وہ محض اپنے مفاد کے حوالے تلاش کرنے لگتا ہے۔اور نا موافق حوالوں اور ذرائع کو نظر انداز کرنے لگتا ہے یا ان کی سوئے تعبیر سے کام لیتا ہے۔وہ صحت،صداقت،احتمال،منطقی استحکام،معنویت، تکمیل اور انصاف جیسے علمی تقاضوں اور علمی اصولوں سے انحراف کرنے لگتا ہے۔

            اِس عہد میں جب کہ تاریخ قومیت بلکہ قوم پرستی کا ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے،تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کا مقابلہ ایک بڑا علمی چیلنج بن چکاہے۔لوگوں نے فرقہ-مرکوز(ethno-centric) تاریخ لکھنا شروع کر دیا ہے۔نازی مؤرخین کے ذریعے لکھی گئی تاریخ اس قسم کی کوششوں کی ایک بہترین مثال ہے۔جوزیہ پرسٹ اور انیسویں صدی کے دیگر امریکی مصنفین نے جعلی تاریخی بیانیے رقم کیے۔جنہوں نے افریقی امریکی اور مقامی امریکی باشندوں کوانتہائی منفی طور پر پیش کیا۔اس قسم کی تاریخ نویسی یقیناً بے حد مضر ہے۔گروہی اور فرقہ وارانہ دشمنی، تصادم اور تعصبات بنیادی طور پر اسی قسم کی تاریخی تحریفات سے پیدا شدہ ہیں۔لہذا مؤرخین کا کردار انتہائی ذمہ دارانہ کردار ہے۔

            اسلام کے ایک طالب علم کے طور پر میں دوبارہ اسلامی تاریخ نویسی کی روایات کا حوالہ دوں گا۔اسلامی تاریخ نویسی کے خد وخال نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال فرمانے کے فوراً بعد ہی ظہور پذیر ہوگئے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے واقعات اور ان کی احادیث مبارکہ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم ذریعہ تھیں، لہذا انہیں غایت درجہ احتیاط سے محفوظ کرنا ضروری تھا۔ان کی سند مختلف ذرائع سے آ رہی تھیں،لہذا ذرائع کے قابل اعتماد ہونے کی توثیق کرنا بھی ضروری تھا۔اس احتیاط کے نتیجے علم الاسناد، علم الأسماء الرجال، علم درایت جیسے عظیم الشان علوم کو فروغ ملا۔ان اصولوں کا اطلاق بعد میں مسلم دنیا کی دیگر تاریخی شخصیات پربھی کیا گیا۔ علم الاسناد اور اسماء الرجال کے یہ اصول کسی بھی روایت کو قبول یا رد کرنے کے لئے ایک سائنسی،جدید ترین اور قابل اعتماد نظام تحقیق پیش کرتے ہیں۔ان اصولوں کے ذریعہ راوی کے ممکنہ تعصبات کو کم کیا گیا اور تمام بے بنیاد قصے، کہانیوں، توڑ مروڑ اور مبالغہ آرائیوں کو الگ کر دیا گیا۔ یہ مؤرخین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوؤں کے تئیں ذمہ دار ہوں اورتاریخی مواد کی چھان بین اور تحقیق کے لیے اس قسم کے قابل اعتماد اور جدید ترین ذرائع کو فروغ دیں۔

            اگر ہندوستان کی صورت حال کی بات کریں تو ہندوستانی تاریخ نویسی کے موجودہ مکاتب فکربرطانوی سامراجی طاقتوں کے منہج کے خوشہ چیں ہیں۔برطانیہ ہندوستان پر حکمرانی کررہا تھا۔اپنی نوآبادیات اور نوآبادیاتی موضوعات کو سمجھنا ان کی ضرورت تھی۔یہ وہ عہد تھا جب کہ یورپی نشاۃ ثانیہ اپنے عروج پر تھی اور تمام علمی روایات بنیادی طور پر یورپ-مرکوز(euro-centirc)تھیں۔یورپ مرکوز حوالہ نے استشراقی تصور کو جنم دیا۔ اور انہوں نے استشراقی سماج جیسی لغو چیز کو فروغ عطا کیا۔ ہندوستان کی تاریخیں بھی غیریت (otherness)کے اسی استشراقی احساس کے ساتھ لکھی گئی تھیں۔سامراجی طاقتوں نے تاریخ کو اپنے تسلط کو مضبوط کرنے اور اپنے کردار کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرنے کے ذریعہ کے طور پر بھی استعمال کیا۔برطانوی تسلط کو جائز ٹھہرانے کے لیے ہندوستانی سماج کو غیر عقلی،پسماندہ اور بے شمار داخلی تضادات اور مسائل رکھنے والا دکھانا ضروری تھا۔انہوں نے تاریخ ہند کوتین ادوار میں تقسیم کیا۔قدیم ہندو دور، قرون وسطی کا مسلم دور اور جدید برطانوی دور۔ برطانوی سامراجی مؤرخین نے ہندوستان کے ابتدائی عہد کو بدترین اور بربری دور ثابت کرکے برطانوی تسلط کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی۔بعض دیگر برطانوی سامراجی مؤرخین نے ہندوستان کے عظیم ماضی،جسے ’مسلم حملہ آوروں کے ذریعے برباد کردیا گیا‘،کی رومانوی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔ جب ہندوستانی عوام نے مزید شہری آزادیاں عطا کرنے کا مطالبہ کیا،توبرطانوی سامراجی انتظامیہ نے اس کا جواب ایسی تاریخیں لکھ کر دینا شروع کیا جس نے بتایا کہ مسلم دور حکمرانی کتنا وحشی اور خون کا پیاسہ تھا۔اس کا مقصد برطانوی حکومت کو زیادہ قابل قبول اور جائز بتانا تھا۔انہوں نے ان بیانیوں کا انتخاب کیا جو ایک مسلم حکمرانوں کی ایک وحشی اور مردُم کُش تصویر پیدا کرسکتے ہیں۔1857 کی بغاوت کے بعدانہوں نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں اپنے قبضہ کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلم طبقات میں دشمنی پیدا کردی جائے۔لہذا انہوں نے ہندو اور مسلم کو ایک دوسرے کا حریف اور مخاصم دکھانا شروع کردیا۔قرون وسطی کی پوری تاریخ کو ہندو مسلم تصادم اور جنگوں سے عبارت کردیا گیا۔

            سامراجی تاریخ نویسی کے چیلنج کے بعد ہمارے سامنے ایک اور چیلنج ہے۔جسے ہم ’غیر معمولی طور پر تعصب سے بھر پور،سیاسی طور پر تحریک حاصل کردہ تاریخ نویسی‘ کا چیلنج کہہ سکتے ہیں۔یہ دائیں محاذ(Right Wing)کی تاریخ نویسی ہے،جو محب قوم ہونے کی دعوی داربھی ہے۔یہ مکتبہ فکر برطانوی طرز تاریخ نویسی سے بری طرح مرعوب و متاثر ہے۔اس فکر کے مؤرخین برطانوی مؤرخین کے ذریعے پیش کردہ تاریخی مواد سے بڑی حد تک اتفاق کرتے ہیں۔آزادی سے پہلے کے دور میں مذہبی بنیاد پر سماج کی تقسیم اور دوقومی نظریہ کے فروغ کا ذمہ دار بھی یہی مکتبہ فکر تھا۔ایک جانب کی فرقہ پرستی نے دوسری جانب کی فرقہ پرستی کو طاقت بہم پہنچائی۔بالآخر یہ کوششیں تقسیم ہند پر منتج ہوئیں۔

            دائیں بازو کی تاریخ نویسی بنیادی طور پر ہندو مسلم تفریق (Binary)کے ارد گرد گردش کرتی ہے۔یہ قدیم ہندوستان میں (قدیم ہندوہندوستان)کسی بھی برائی اور قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں (قرون وسطی کا مسلم ہندوستان)کسی بھی اچھائی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ذات پات کی بنیاد پر امتیاز اور تفریق وغیرہ جیسے ہندوستانی معاشرے کے بدترین مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حتی کہ ان کی جڑیں بھی مسلم حکمرانی کے دور میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔’ہزارسال کی غلامی‘ایک عام محاورہ بن گیا ہے، جس میں برطانوی استعمار اور مسلم عہد حکمرانی کو ایک ہی سکے کے دو رخ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

            یہ بات صحیح ہوسکتی ہے قرون وسطی کی تمام سلطنتیں ظالم اور استحصالی تھیں۔اور ان کا بنیادی مقصد اپنی سلطنت اور اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا تھا۔لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ برطانیہ کی طرح سامراجی طاقتیں تھیں۔قرون وسطی کے مسلم حکمرانوں میں سے کسی نے بھی استعماری طاقت کے طور پر کام نہیں کیا۔انہوں نے مقامی وسائل کو غیر ملکی زمین پر منتقل نہیں کیا، بلکہ ان کا تو اپنے اصل ممالک کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ہندوستان آنے کے بعد، وہ ہندوستانی معاشرے کا ایک مستقل رکن بن گئے۔انہوں نے صرف اپنے ہم مذہب اور اپنے ہم قبیلہ افراد کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ہندوستان کا قرون وسطی دوراشرافیہ سے عبارت ہے۔جو ہندوبھی تھے اور مسلمان بھی۔چنانچہ ان کے استحصال کا شکارطبقے بھی ہندو اور مسلم دونوں تھے۔اس نظام کا موازنہ جدید برطانوی سامراج کے ساتھ کرنا مکمل طور پر گمراہ کن ہے۔

            دائیں بازو کی تاریخ نویسی فرقہ وارانہ تصادم پر منحصر ہے۔یہ بیانیے نہ صرف علمی اہمیت کے حامل ہیں،بلکہ یہ غیر معمولی سماجی اور سیاسی اثر رکھتے ہیں۔اعلی سطحی دانشوروں اور میڈیا کے حلقوں سے بہت سنجیدہ اور منجھے ہوئے انداز میں بیان کیے گئے یہ بیانیے،جنہیں تنقید نگاروں نے بجا طور پر ’واٹس ایپ اسکول آف رائٹ ونگ ہسٹوریوگرافی‘ کا نام دیا ہے،نام نہاد مسلم درندگی سے متعلق مکمل طور پر افسانوی،مگر بے حد اشتعال انگیز اور زہر آلود، تاریخی مواد پیش کرتے ہیں۔

            برطانوی اور دائیں بازو کی تاریخ نویسی کے یہ دونوں مکاتب فکر، ایک نقطہ اشتراک بھی رکھتے ہیں۔دونوں کی زندگی قرون وسطی کے مسلم عہد حکمرانی کو بدنام کرنے سے وابستہ ہے۔دونوں کا مقصد موجودہ ہندوستان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے۔دونوں ہندوستان کے کثیر ثقافتی اور جمہوری تانے بانے کے لئے سنگین خطرہ ہیں۔

            ان تمام غلط بیانیوں کو چیلنج کرنا اس وقت مؤرخین کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔دنیا بھر میں کسی سیاسی اور سماجی تعصب کے بغیر تاریخ کے مطالعے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں۔تاریخ نگاری نے ہمیشہ اپنی توجہ ریاست، حکمراں،اشرافیہ اورمڈل کلاس پرمرکوز کی ہے۔تاریخ میں جب تک عوام اور ان کی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا جائے گا،تاریخ کا ہمارا فہم نامکمل رہے گا۔ماضی کا ہمارا فہم ہماری موجودہ سیاست پر منحصر نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ایسے پیشہ ور تاریخ نویسوں کی ضرورت ہے جو علمی اصول و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے دیانت داری کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کریں۔ایک افریقی ضرب المثل کے مطابق”جب تک جنگل کے شیر کے پاس اپنا خود کا تاریخ نویس نہیں ہوگا،تاریخ ہمیشہ شکاری کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گی۔“ لہذا ضرورت ہے کہ شیروں کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

SYED SADATULLAU HUSSAINI

Ameer, Jamat-e-Islami Hind

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں