خوب سے خوب تر کی جستجو

ایڈمن

تزکیے میں ایک آرٹ کی شان بھی پائی جاتی ہے اس لیے کہ تزکیے کا مطمح نظر صرف اسی قدر نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارا نفس کسی نہ کسی شکل میں راہ پر لگ جائے بلکہ تزکیہ اس سے آگے…

تزکیے میں ایک آرٹ کی شان بھی پائی جاتی ہے اس لیے کہ تزکیے کا مطمح نظر صرف اسی قدر نہیں معلوم ہوتا کہ ہمارا نفس کسی نہ کسی شکل میں راہ پر لگ جائے بلکہ تزکیہ اس سے آگے بڑھ کر نفس کو خوب سے خوب تر بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ تزکیہ صرف اتنا ہی نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کی شریعت کا کچھ علم حاصل ہوجائے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ بھی چاہتا ہے کہ ہمیں اللہ اور اس کی صفات کی سچی اور پکی معرفت حاصل ہوجائے۔ تزکیہ صرف یہی نہیں پیش نظر رکھتا کہ ہماری عادتیں کسی حد تک سنور جائیں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم تمام مکارم اخلاق کے پیکر بن جائیں۔ تزکیہ صرف اتنے پر ہی قناعت نہیں کرتا کہ ہمارے جذبات میں ایک ہم آہنگی اور ربط پیدا ہوجائے بلکہ وہ اس پر مزید ہمارے جذبات کے اندر رقت و لطافت اور سوز و گداز کی گھلاوٹ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ تزکیے کا مطالبہ صرف اسی قدر نہیں ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہمارا نفس احکام شریعت کے تحت آجائے، بلکہ اس کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا نفس اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ہر حکم کو اس طرح بجا لائے، جس طرح اس کے بجا لانے کا حق ہے۔ اس کا مطالبہ ہم سے صرف اللہ کی بندگی ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس بات کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم اللہ کی اس طرح بندگی کریں گویا ہم اپنے سر کی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہیں اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ مختصر الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ تزکیہ ایمان، اسلام اور احسان تینوں تقاضے بیک وقت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو اس کی تمام صفتوں کے ساتھ مانیں ، زندگی کے ہر گوشے میں اس کی اطاعت کریں اور یہ ماننا اور اطاعت کرنا محض رسمی اور ظاہری طریقے پر نہ ہو بلکہ پورے شعور اور گہری للہیت کے ساتھ ہو، جس میں ہمارے اعضاء و جوارح کے ساتھ ہمارا دل بھی پورا پورا شریک ہو۔
اس چیز نے تزکیے کو ایک مستمر جدوجہد اور ایک مسلسل تگ و دو کی چیز بنادیا ہے، اس میں کوئی وقفہ یا ٹھیراؤ نہیں ہے اور اس سفر میں کوئی موڑ یا مقام ایسا نہیں آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ سکے کہ بس اب آخری منزل آگئی ہے، یہاں پہنچ کر ذرا سستا لینا چاہئے یا یہیں کمر کھول دینی چاہئے۔ یہ ایک خوب سے خوب تر کی جستجو ہے۔ اس خوب سے خوب تر کی جستجو میں نگاہ کو کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جس رفتار سے اعمال و اخلاق اور ظاہر و باطن میں جلا پیدا ہوتا جاتا ہے اسی رفتار سے مذاق کی لطافت، حس کی ذکاوت اور آنکھوں کی بصارت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دامن کے پچھلے دھبے دھو کر ابھی فارغ نہیں ہوئے کہ نگاہ کچھ اور ڈھونڈ کر سامنے رکھ دیتی ہے کہ اب انہیں دھوئیے۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
(مولانا امین احسن اصلاحیؒ )
میں کون ہوں؟
میں کون ہوں
میں چاہت ہوں سب کی
ہر ایک کی خواہش ہوں
چاندنی ماند پڑجائے
خوبصورتی شرماجائے
رنگِ طاؤس ہوں
پھولوں کی مہک ہوں
شبنم کی تھرکتی تازگی ہوں
شہد کی چاشنی ہوں
زینتیں محتاج ہیں مری
طفلِ معصومیت ہے مری مظہر
زبانِ ادب بھی بے ادب ہے
مدح کو میری
نہ کوئی شاعر وصوفی کے تصور کی رسائی مجھ تک
دودھ کی نہریں
نعمتوں کی بارش ہوں
سجے پہاڑ،پُرمست بہاریں
کوئل کے لبوں پر ہیں
مرے گیت ادھورے
ساون کی بارش میں
اک مری جھلک پنہاں
بن میں مور تھرکتے ہیں
مرے دیدار کو
جنت
ہاں میں جنت ہوں۔۔۔
احمد سفیان قادری، مالیگاؤں،مہاراشٹر

طنز ومزاح
*جس طرح آج کل کتابوں اور رسالوں میں معنوی خوبیاں کم اور صوری خوبیاں زیادہ ہوگئی ہیں باورچی خانے بھی اسی طرح بہت خوبصورت دکھائی دینے لگے ہیں۔ کچھ خواتین کو تو یہ تک کہتے سنا گیا ہے کہ باورچی خانے کا لفظ یہ بتاتا ہے کہ مردوں کا صحیح مقام یہ ہے ورنہ اس جگہ کا نام ماماخانہ ہوتا۔ وہ اس خیال کی بھی حامی ہے کہ مردوں کو کھانا کھلانا ان کا کام نہیں،گُل کھلانا ان کا کام ہے۔(مضمون’’حق نمک کا‘‘ سے اقتباس)
* شیرخُرما ہی وہ تنہا ڈش ہے ،جو کسی ہوٹل میں نہیں ملتی اور اگر کسی ہوٹل میں شیر خُرما فروخت کیا جاتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ اصلی شیر خُرما نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے شراب کی ناجائز کشید۔ شیر خُر ما کی بھٹیاں نہیں ہوا کرتیں۔ یہ ہوٹل میں کشید کرنے کی چیز نہیں۔ اس کی تیاری میں جب نسوانی ہاتھوں کا دخل نہ ہو، تو وہ شیر خُرما شادی کی اس بارات کی طرح ہوتا ہے جس میں صرف جہیز لے جایا جارہا ہو دلہن نہ ہو۔ (مضمون ’’شیرخُرمے کے دو ایڈیشن ۔ایک عام ڈی لکس‘‘سے اقتباس) ۔۔۔(ماخوز:دامنِ یوسف۔مرتب:عنایت علی)

ہنسنا تھا کیا۔۔۔!!

صدام :مرتے ہوئے آدمی کو کھانے میں کیا دینا چاہئے؟
عاقب:’’امبوجا سمنٹ‘‘کیونکہ اس میں جان ہوتی ہے۔۔۔!
وکیل:جج صاحب قانون کی کتاب کے صفحے نمبر15کے مطابق میرے موکل کوباعزت بری کیا جائے۔
جج نے صفحہ کھولا تو اس میں 5ہزارکی چار نوٹ تھیں۔
جج:اس طرح کے دو ثبوت اور پیش کئے جائیں!
فرحان کے سر سے خون نکل رہا تھا ۔
ڈاکٹر:یہ کیسے ہوا؟
فرحان:میں ہاتھ سے دیوار توڑ رہا تھا تو میرے بیٹے نے آوازدی ۔
’’پا پا جی کبھی کھوپڑی کا بھی استعما ل کرلیا کرو۔‘‘

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں