عمر فراہی
عورت کو ہماری کائنات کی ایک کمزور مخلوق شمار کیا جاتا ہے۔اسی لئے اسے عرف عام میں’ صنف نازک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انسان کی فطرت میں جہاں قربانی کا جذبہ ودیعت کیا گیاہے وہیںاس کی فطرت میں لالچ،مفاد اور ریاکاری بھی شامل کی گئی ہے۔اسی طرح انسان اپنی فطرت میں رحم اور صبر کی طاقت کے ساتھ ساتھ تشدد،شہوت اور برائی کی خواہشات بھی رکھتاہے تاکہ ۔ خالق انسان نے انسان کو اپنے نفس اور جذبات پر قابو رکھنے کیلئے انفرادی طاقت اور اختیار بھی دیا ہے ۔اس طرح انسان کے اپنے نفس پر جو جذبات غالب آتے ہیں وہ اس پر عمل کرنے پر آمادہ ہوتا ہے ۔قرآن میں ہے کہ تم میں ہر ایک کا اپنا رخ ہے۔پس تم خیر کی طرف سبقت حاصل کرو۔یہی مشیت ایزدی اور اللہ کا امتحان ہے۔ انسان کو اختیار ہے وہ چاہے جو راستہ پسند کرے۔
اس کے علاوہ مشیت ایزدی کے فیصلے میں انسانوں کے درمیان ابلیس کی موجودگی بھی کسی فتنے سے کم نہیں ہے۔ابلیس ایک اسلام مخالف نظریہ ہے اور وہ کسی صورت نہیںچاہے گا کہ دنیا میں اسلام غالب ہو۔ابلیس کو بھی پتہ ہے کہ مردوں کی سب سے بڑی کمزوری عورت ہے ۔خود عورت کی کمزوری فیشن اور شوق و سنگار ہے ۔عورت جب تک ایک مشترکہ سماج اور معاشرے کے حصار میں ہوتی ہے اس کی حیاء اور عزت و آبرو بھی محفوظ رہتی ہے مگر جب وہ گھر ،حجاب اور معاشرے کے بندھن سے آزاد ہوکر آزادانہ باہر قدم رکھتی ہے تو شیطان اس پرڈورے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔اس کی یہ بے پردگی جہاں اسے غیر محفوظ کردیتی ہے اس کے شوق و سنگار سے مردوں کی نظروں کا خراب ہونا بھی لازمی ہے۔
اس طرح ابلیس اور ابلیسی طاقتیں عورت اور مرد کی اس کمزوری کے راستے سے ایک پورے معاشرے کو گندہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔موجودہ فلم انڈسٹری ہو یا سیریل یہ تمام ادارے فیشن، فحاشی، گلیمر اور عریانیت کے ذریعے مرد وزن کی خواہشات میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کا ہی ایک خوبصورت طریقہ ہے۔لوگوں کو اس طرف راغب کرنے کیلئے اسے تجارت جیسے پرکشش پیشے میں تبدیل کردیا گیا ہے بھی ۔لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس راستے سے سماج کے ہر طبقے کی اپنی خواہش پوری بھی ہوجائے۔لیکن تفریح کی یہ صنعت اتنی خوشنما اور پرکشش ہے کہ سماج کا ہر طبقہ اس طرف ذہن اور دولت کو لگانے کے لیے آمادہ ہے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ ہمارا سماج کئی طبقات میں منقسم ہے اور ہر سماج کی معاشرتی زندگی بھی اس کے اپنے معاشی حالات کے وجہ سے مختلف ہے۔خاص طور سے فلموں اور سیریلوں میں جو مناظر دکھائے جاتے ہیں یا جس طرح سے خوبصورت دوشیزاؤں کو میک اپ اور سنگار میں رقص و سرور میں بتایا جاتا ہے یہ معاشرہ صرف اونچے گھرانوں سے ہی تعلق رکھتا ہے یا محلوں میں فلمائی جانے والی تقریباً تمام کہانیاں امیر کبیر گھرانوں کی ہی تصویر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ یہ بھی کہہ لیں کہ اکثر امیر گھرانوں میں بھی یہ معاشرہ ایسے اونچے گھرانے والوں کا ہوتا ہے جہاں کچن بھی نوکرانیاں سنبھالتی ہوں اور جہاں پردے کا کلچرل تو دور کی بات ہے، عورتوں کے دیگر مردوں کے ساتھ گھومنے پھرنے یا دوستی کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور یہاں عورت مرد کاروباری اداروں میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔
غور کیجئے کہ ایک ایسی تصویر جو ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتی ہو اور اسے فلموں اور سیریلوں کے ذریعے عام معاشرے میں پیش کی جائے گی تو کیا اس کے منفی اثرات سماج کے دیگر طبقات پر نہیں پڑیں گے؟کیا اس سماج کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جن کی اپنی بھی خواہشات ہیں اسے پوری کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟جہاں عورتیں خو ب صورت نظر آنے کے لیے اپنے مردوں سے شوق و سنگار اور اچھے گھر کی متمنی ہوتی ہیں مرد بھی چاہتا ہے کہ اسے خوبصورت عورت ملے اور وہ ہمیشہ خوبصورت دکھائی دے۔لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں ٹھیک سے روٹی اور کپڑے کا بندوبست ہونا ممکن نہیں ہوتا، جہاں ٹھیک سے سر چھپانے کیلئے دو کمرے کا مکان مشکل سے حاصل ہو ،جہاں عورت کو پورا دن ساس سسر کی خدمت اور بچوں کی پرورش سے فرصت نہ ملے ،وہ اپنے مرد کی خواہشات کے لیے میک اَپ اور سنگار کیسے کرسکتی ہے ۔
لیکن ایسے پسماندہ گھرانوں کے مرد بھی جو فلموں اور سیریلوں کو دیکھ کر اپنے ذہن کو خراب کرلیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی بیویاں بھی اسی طرح خوبصورت دکھائی دیں اور خود عورت بھی چاہتی ہے کہ اس کا بھی ایسا ہی خوبصورت گھر ہو اور پیار کرنے والا شوہر ہو ۔بدقسمتی سے پسماندہ اور غریب گھرانے کے مرد و خواتین کی جب یہ خواہش پوری نہیں ہوپاتی تو آپس میں تکرار شروع ہوجاتی ہے اور نوبت مارپیٹ اور تشدد تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی ذہنی انتشار اور تشدد سے پریشان جہاں کچھ نوجوان شراب پینا شروع کردیتے ہیں آزاد خیال عورتیں بھی یا جہاں دین مذہب اور سماج کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا ،آزادانہ مردوں کے ساتھ اپنی اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے باہر نکل جاتی ہیں۔بظاہر عورت اپنی گھریلو ضروریات کیلئے باہر تو نکلتی ہے لیکن اسے یہ نہیں پتہ ہوتا ہے کہ انسانوں میں بھی حیوان نما جانور ہوتے ہیں جو عورت کے جسم کے بھوکے ہوتے ہیں۔اکثر کمرشیل اداروں میں جہاں پرکشش تنخواہوں کے ذریعے عورت کااستحصال ہوتا ہے کہیں عورت خود سے اور کہیں اپنے خوبصورت مستقبل کے جھانسے میں اس استحصالی دنیا کا استعمال ہو جاتی ہے۔حال میں ’#می ٹو‘ تحریک نے ہمارے استحصالی سماج کی اسی تصویر کو بے نقاب کیا ہے ۔