باضابطہ پابندی کے باوجود پورے ملک میں ریگنگ کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس سے ایک کالج کیمپس میں رہنے والے طلبہ کے درمیان اختلافات کی کھائی بڑھتی جارہی ہے۔ اس خطرناک مسئلے کا آج پورے ملک کے تعلیمی ادارے سامنا کررہے ہیں۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں ایسے واقعات باربار سامنے آرہے ہیں۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یوجی سی (یونیورسٹ ی گرانٹ کمیشن) نے یوجی سی سے ملحق یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نگرانی کا سسٹم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس فیصلے کے بعد یوجی سی نے غیر سرکاری اداروں (این جی اوز) سے اس سلسلے میں پلان بھی طلب کیا ہے۔
منتخب این جی اوز ملک بھر کے کالجوں میں ریگنگ کے معاملوں کو عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق مختلف قوانین اور ضابطوں کا نفاذ کریں گی۔ ادارے کی دستوری کمیٹی اس بات پر غور کرے گی کہ مختلف اداروں کے ذریعہ ان کے نصاب میں ریگنگ کے خلاف کیا ہدایات واصول دیئے گئے ہیں۔ اور کمیٹی یہ بھی جانچ کرے گی کہ اداروں نے داخلے کے دوران سرپرستوں سے تحریری عہدنامہ پر دستخط کرائے ہیں یا نہیں کہ اگر ان کے بچے ریگنگ کے معاملوں میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جانچ کا موضوع یہ بھی ہوگا کہ اداروں کے ذریعہ سینئر اور جونیئر طلبہ کے درمیان اعتماد بحالی کا کام کیا جارہا ہے یا نہیں۔
ریگنگ کا مسئلہ ہندوستان میں نیا نہیں ہے اور اس وقت ریگنگ کے معاملوں کا طوفان برپا ہے، مرکزی حکومت نے فروغ انسانی وسائل کی وزارت، یوجی سی، اور دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر اس ضمن میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ جن میں قومی سطح پر اینٹی ریگنگ ہیلپ لائن شروع کرنا وغیرہ ہیں۔ لیکن یہ ایک قدم ریگنگ کے معاملوں میں اضافے کو روکنے میں ناکافی ثابت ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریگنگ کے کئی خطرناک معاملے نمایاں ہوکر سامنے آئے ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں دہلی کے مشہور اسکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹکچر کے ابتدائی سال کے طالب علم کے ساتھ اس کے سینئر طلبہ نے سخت ریگنگ کی۔ اس کی پیٹھ پر اینٹیں رکھ کر اسے کافی لمبے وقت تک مرغا بنائے رکھا، اور اس کے بعد اس سے ایک ہزار بار اُٹھک بیٹھک کروائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے گھٹنوں کو سخت نقصان پہنچا، اور چھ ماہ بعد بھی وہ چلنے لائق نہیں ہوپایا۔ اسی طرح کا ایک گمبھیر معاملہ اسی سال اپریل میں تمل ناڈو کے نمکل کے ایک پرائیویٹ کالج میں پیش آیا، جس میں کیرل سے متعلق سات طلبہ نے اپنے جونیئر ساتھیوں کے ساتھ خطرناک ریگنگ کی۔ جس میں ایک جونیئر کی موت بھی ہوگئی۔ بعد میں ان طلبہ پر قتل وقتل کی کوشش کرنے اور فساد کرنے کی سنگین دفعات لگاکر عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا۔
ریگنگ کے واقعات کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ گزشتہ اگست کے مہینے میں بھوپال کے آرکے ڈی ایف کالج میں فارمیسی سال دوم کی ایک طالبہ نے اپنے ساتھ ہوئی ریگنگ سے عاجز آکر خود کشی کرلی۔ اس کی لاش کے پاس ایک تحریر بھی برآمد ہوئی، جس کی بنیاد پر بعد میں پولیس نے کیس درج کر کے چار طالبات سمیت کالج پروفیسر کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد ستمبر میں کلکتہ کے ’دم دم اسکول‘میں ریگنگ کا خطرناک واقعہ پیش آیا، اس واقعے میں سینئر طلبہ نے ایک طالبہ کو بے رحمی سے پیٹا، اور پھر ٹوائلیٹ میں اس کو بند کردیا۔ جہاں اس کی موت ہوگئی۔
ایک اور واقعہ میں کلکتہ میں واقع جادھاپور یونیورسٹی میں بھی ریگنگ کے خطرناک معاملے میں معطل طلبہ کی معطلی ختم کرنے کے لیے طلبہ نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سووک بھٹا چاریہ سمیت پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار کا ۵۱؍گھنٹے طویل گھیراؤ کیا، جس کے بعد یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت ان تمام عہدیداران نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا۔
ریگنگ کے یہ معاملات یہیں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ غیرسرکاری ادارے CURE کے ذریعہ ۲۰۰۹ ء تا ۲۰۱۰ ء کے سیشن میں ملک بھر میں کرائے گئے سروے میں ۱۶۴؍ریگنگ کے معاملے درج کئے گئے۔ جس میں ۱۹؍طلبہ وطالبات کی موت ہوگئی، جبکہ ۲۰۰۸ ء تا ۲۰۰۹ ء کے سیشن میں ۸۸؍معاملات درج کئے گئے تھے، جس میں ۱۲؍موتیں ہوئی تھیں اور ۵؍نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔ ۲۰۱۱ ء تا ۲۰۱۲ ء میں بھی یہی صورتحال برقرار تھی۔ان رپورٹوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے جو قدم اٹھائے جانے چاہئے تھے، وہ نہیں اٹھائے گئے۔ اب یوجی سی کا یہ قدم مستقبل میں کیا رنگ لاتا ہے، دیکھنے والی بات ہوگی۔
ماہرین تعلیم کی رائے میں یوجی سی کا کسی غیرسرکاری اداروں کے ذریعہ ریگنگ معاملوں کی نگرانی کا قدم بہت زیادہ موثر نہیں ہوسکے گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ موجود صورتحال میں کسی ایک این جی او کے ذریعہ کل ہند تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنا ایک بڑا کام ہے جو کہ ناممکن لگتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی باہری ذرائع یعنی غیرسرکاری ادارے کو تعلیمی اداروں کی پرائیویسی میں شریک کرنے کا خیال صحیح نہیں ہے، اگر مختلف اداروں کو ہی تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کرنے کا کام سونپا جاتا ہے، تو بھی تعلیمی اداروں کا ایک سے زائد مسائل پر ان ایجنسیوں کے ساتھ تصادم ہونا لازمی ہے۔ اس لیے یہ سسٹم ریگنگ کو روکنے سے زیادہ آپسی اختلافات کو ہی بڑھائے گی۔
اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے طلبہ کو ہی آگے آنا ہوگا۔ ریگنگ ایک غیرانسانی روایت ہے، جو اپنے ماتحتین کے ساتھ غلط برتاؤ کو فروغ دیتی ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ طلبہ خود عہد کریں کہ اس غیرانسانی وغیرصحتمندانہ رواج کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔اور اس کام میں سب سے اچھا کردار وہ طلبہ ادا کرسکتے ہیں جنہوں نے گزشتہ برس اس غلط روایت کا سامنا کیا ہے۔ یہ دلیل بھی صحیح ہے کہ ریگنگ کے واقعات میں انہی لوگوں کا کردار اہم ہوتا ہے، کیونکہ یہ انتقام کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں۔ اگر یہ طلبہ ریگنگ کے خاتمے کا عہد کرلیں تو یہ روایت جلد ہی ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے طلبہ کے اندر عزم مصمم اور انسانی فکربیدار ہو۔
طیب احمد، مدیر معاون ’چھاتر ومرش‘ ہندی ماہنامہ