نوید السحر
نوجوان طبقہ اپنی ہر حیثیت میں معاشرے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ خواتین کے تئیں نوجوانوں میں بیداری ناگزیرہے۔ انسانی سماج وجود زن کے بغیر نا مکمل ہے۔ عالمی انسانی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے ۔سماج کی تعمیر میں ان کا رول کتنا اہم ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً یہ قول دہرایا جاتا ہے کہ : ’’ایک عورت کی تعلیم کنبے کی تعلیم ہے اور مرد کی تعلیم صرف اس ایک مرد کی تعلیم ہے‘‘۔ سماج کی تعمیر میں بے حد اہم کردار ادا کرنے والی عورت خود ہی مسلسل استحصال کا شکار اور حقوق سے محروم ہو تو ایسے سماج کی ترقی کسی طور ممکن نہیں ۔چنانچہ ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں ، جائے ملازمت اور بازاروں میں خواتین کے تحفظ و سہولت کے لئے بنائے گئے قوانین سے متعلق بیداری لائی جائے۔
لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق گھر گھر میں بیداری لانااور اپنی حدود میں متعلقہ خواتین کی حوصلہ افزائی کرکے انہیںاس میدان میں آگے بڑھانامسلم نوجوانوں کی ذمہ داری ہے۔ تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے لئے سہولیات اور تحفظ کی سرکار سے اپیل نوجوان تنظیموں کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔ مزید برآں لڑکیوں کے لئے مختلف طریقہ تعلیم کو متعارف کروایا جاسکتا ہے۔ خود خواتین کو اخبارات و رسائل کی ذمہ داری دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔واضح ہو کہ ملک میں اس وقت اعلیٰ تعلیم میں مسلم خواتین کی تعداد3%سے بھی کم ہے۔
نکاح ، طلاق اور وراثت جیسے معاملات میں درستگی اور عورتوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے شرعی عدالتوں کا ہر جگہ قیام ساتھ ہی قائم شدہ عدالتوں کا استحکام اور انہیں موثر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نوجوانوں کے لئے خود لازمی ہے کہ وہ عورتوں کے تئیں سلوک ِ احسن کا مظاہرہ کریں اور معاملات کی مکمل اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں اور ان پر عمل بجا لائیں۔ گھر کے مختلف معاملات میں گھر کی خواتین سے بھی مشورہ لیں ۔اسی طرح نوجوان تنظیمیں معمولی اختلافات پر ٹوٹنے والے رشتوںکی کائونسلنگ کی کوشش کریں۔ جہیز کے ناسور کو ختم کرنے کے لئے خود نوجوانوں کو میدان میں آکر عملی اقدام کرنے ہوں گے۔ یہ سماج کے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود جہیز کی مخالفت کریں اور نوجوان طبقہ میں اس سے متعلق اسلامی تعلیمات کو عام کریں۔
خواتین کے حقوق کی پامالی
1۔ تعلیمی سطح پر:
خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے یا نہیں؟اگر دینی چاہئے توکیا اس کی کچھ حدود بھی ہیں؟ یہ مسئلہ آج بھی سماج کے کئی طبقوں میں موضوع بحث ہے۔ گو کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سرکار، مختلف تنظیموں اور NGOs کی جانب سے اس سلسلہ میں بیداری کی سینکڑوں مہمات چلائی گئیںتاہم آج بھی اچھے خاصے افراد کا خیال ہے کہ لڑکیوںکو اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کرنانقصاندہ ہے ،کیوں کہ تعلیم یافتہ ہوکر وہ سوالات کرنے کے قابل ہوجائیں گی اور یوںمعاشرہ کے بگاڑ کا سبب بنیں گی۔
2۔ معاشرتی سطح پر / سماجی سطح پر:
شادی میں رضامندی یا رائے کو شامل نہ کرنے سے لے کر معمولی اختلافات پر نکاح کو ختم کردینا یا مدتوں اسے خلع نہ دے کر مجبور وو بے بس کردینا ہمارے معاشرے کی عام صورتحال ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی خواتین سے مشاورت تو دور کی بات انہیں صرف خادمہ سمجھ کر اسی انداز میں ان سے پیش آیا جاتا ہے۔ طلاق، وراثت جیسے معاملات میں دیگر مذاہب کے رسوم و رواج اور روایتیں قبول کرلی گئی ہیں جس کی وجہ سے خواتین ایک مستقل کرب میں مبتلا ہیں۔ جہیز گھریلو زندگی کا ہی ایک مسئلہ ہے لیکن سماج اس مسئلہ کا اس کثرت سے سامنا ہے کہ اب یہ مسئلہ ایک سماجی ناسور بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سے جڑے کئی نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ جہیز کی لعنت نے نکاح کو مشکل بنا ہی دیا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں خوب صورتی کا معیار محض عارضی اور کھوکھلاہے ۔جس کی وجہ سے لڑکیوں کی عزت نفس کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔
3۔ تحفظ کا مسئلہ:
ہندوستان میں سڑکوں ، بازاروں ، تعلیمی داروں ، کمپنیوں وغیرہ جیسی ہر جگہ عورت کے ساتھ چھیڑ خانی اور جنسی زیادتی بڑھتی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں انہیںتحفظ فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے۔شر پسند عناصر حالات کو مزید پیچیدہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب گھر اور تعلیمی اداروں میں بھی حفاظت کا تصور کم ہونے لگا ہے ۔ ایسے میں بچیوں اور طالبات خود حفاظتی تدابیر اور ہنر سے ٓراستہ ہوں ،یہ اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔ مخالفین کی نیت اور اہداف سے مسلم سماج بخوبی واقف ہے۔
عہد رسالت میں خواتین اپنے ساتھ ساتھ دوسری خواتین کی بھی حفاظت کر تی تھیں ۔ ہمارے سامنے حضرت صفیہ ؓ اور حضرت اُمِ عمارہؓ کی روشن مثالیں موجود ہیں ۔ جنھوں نے میدان جنگ میں مدافعافہ کردار ادا کیے ۔وہ جسمانی اور ذہنی اعتبار سے مضبوط تھیں ۔ جدید دور میں بھی خواتین کے لیے ایسے انتظامات ناگزیر ہیں۔ مسلم خواتین میں اس وقت ایک ٹیم کافی اچھی کارکردگی انجام دے رہی ہے لیکن بعض ایسے مواقع ہیں جہاں مرد وں کی رہنمائی اور تعاون ضروری ہے ۔ جوڈوکراٹے اور ابتدائی طبی امداد وغیرہ کی ٹریننگ دی جائے۔عورت کو جتنی ضرورت محبت کی ہے اس سے کہیں بڑھ کر وہ عزت و تکریم کی خواہش مند ہوتی ہیں۔ حقوق و فرائض کی ادائیگی میں لازماً اس بات کا خیال رکھا جائے کہ عورتیں صرف بہن بیوی اور ماں نہیں ہیں بلکہ ان کا اپنا وجود ہے۔ وہ بھی انسان ہیں اور بہ حیثیت انسان انھیں تمام سہولیات ملنے چایئے جن کی اجازت اسلام دینا ہے ۔
مرد و وعورت اللہ کی یکساں مخلوق ہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے ان میں ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔البتہ خلقی فرق کی بنیاد پر ان کی ذمہ داریوں اور دائرہ کارمیں ضرور فرق ہوسکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں ابتدا ہی سے اس فرق کو اپنی مرضی کے مطابق مفہوم کا لبادہ اوڑھا کر مرد کو عورت پر ترجیح دی گئی۔ مرد کو حاکم اور عورت کو محکوم مان لیا گیا۔ مسلم سماج کی صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں صدیوں سے عورت پدرسری نظام (Patriarchal Society) میں اپنے بنیادی حقوق کے لئے لڑتی آئی ہے۔ مختلف مذاہب ، اقوام اور ذاتوں سے قطع نظر مجموعی طور پر عورت کا ہر سطح پر استحصال ہوتا رہا ہے۔ اس کے حقوق پامال ہوتے رہے ہیں۔دین دار گھرانوں میں بھی اس کی کئی مثالیں مشاہدے ہیں۔
اسلام وہ واحد دین ہے جس نے عورت کو اس کے مکمل حقوق فراہم کیے ہیں۔ اس کے تحفظ کا خیال رکھا ۔اسے عزت اور بلند مقام بخشا۔ لیکن صدحیف! ان حقوق کے نفاذ میں خود مسلم مردوں نے غفلت برتی ۔دیگر مذاہب کی ثقافت و روایات خود مسلم حلقوں میں معروف ہوگئیں۔نتیجتاً حقوق کی جنگ میں آج مسلمان عورتیں بھی صف اول میں نظر آتی ہیں۔ مولانا مودودی ؒ نے فرمایا تھا:
’’ہم مسلمان عورتوں کو بھی ضروری فوجی تعلیم دینے کا انتظام کریں گے اور یہ بھی انشاء اللہ اسلامی حدود کو باقی رکھتے ہو ئے ہوگا ۔میں بارہا اپنے رفقا سے کہہ چکا ہوں کہ اب قومیت کی لڑائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں اور انسان درندگی کی بد تر شکلیں اختیار کر رہا ہے ۔ہمارا سابقہ ایسی ظالم طاقتوں سے ہے جنھیں انسانیت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تامل نہیں ہے ۔ کل اگرخدا نخواستہ کوئی جنگ پیش آجائے تو نہ معلوم کیا کیا درندگی اور وحشت ان سے صادر ہو ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لئے تیار کریں اور ہر مسلمان عورت اپنی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرنے پر قادر ہو ۔انہیں اسلحہ کا استعمال سیکھنا چاہئے ،وہ سواری کر سکتی ہوں سائیکل اور موٹر چلا سکیں ،فسٹ ایڈ جانتی ہوں پھر صرف ذاتی حفاظت کی تیاری ہی نہ کریں بلکہ ضرورت ہو تو ہر قدم میں مردوں کا ہاتھ بٹا سکیں ۔ہم یہ سب کرنا چاہتے ہیں مگر اسلامی حدود کے اندر کرنا چاہتے ہیں ان حدود کو توڑ کر کرنا نہیں چاہتے۔قدیم زمانے میں بھی مسلمان عورتوں نے اسلحے کے استعمال اور مدافعت کے فنون کی تربیت حاصل کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلامی حکومت میں عور توں کو محض گڑیا بناکر نہیں رکھا گیا جیسا کہ بعض نادانوں کا گماں ہے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کا موقع دیا گیا۔‘ ‘ (دین اوردعوت،ص ۱۸۔۱۹)
خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اولین ضرورت’’ مسلم نوجوانوں میںبیداری‘‘ ،ان کی ذہن سازی اور ان کی تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا خواتین کے حقوق سے متعلق عوامی بید اری کے مختلف پروگراموں کا انعقاد کرنا اور اس موضوع پر علمی و فکری مضامین و موادبھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
NAVED US SAHAR
Maulana Azad National Urdu University
Email:[email protected]