یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شمالی ہند کی معروف دینی درسگاہ جامعۃ الفلاح میں زیر تعلیم تھا اور جامعہ کے دارالاقامہ میں رہتاتھا۔ اس زمانے میں وہاں جدید قسم کے بیت الخلاء نہیں تھے۔ ایک کنارے پر چند پرانے قسم کے بیت الخلاء بنے ہوئے تھے جن کو بعض طلبہ اکثر گندا کردیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں کو بڑی پریشانی ہوتی تھی۔ ایک دن فجر سے قبل درمیان رات میں مجھے بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اندھیری رات تھی۔ میں جب کچھ آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا سایہ ادھر سے ادھر آ جارہا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا خوف محسوس ہوا۔ ہمت کرکے کچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ کوئی شخص لالٹین کی روشنی میں بیت الخلاء کی صفائی کررہاہے ۔ قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ہمارے استاد گرامی مولانا شہباز اصلاحی ؒ ہیں،جو کچھ فاصلے پر لگے ہینڈ پمپ سے بالٹی میں پانی بھرکرلاتے اور خود ہی بیت الخلاء کی صفائی کررہے ہیں۔ میں نے مولانا کو سلام کیا اور ان سے عرض کیا کہ آپ یہ کیا کررہے ہیں ! کل صفائی والا اس کی صفائی کردے گا۔ یہ کہتے ہوئے میں نے مولانا کے ہاتھ سے بالٹی اور جھاڑو لینے کی کوشش کی مگر مولانا نے مجھے منع کرتے ہوئے فرمایاکہ صفائی ہوچکی ہے۔ تم اپنی ضرورت سے فارغ ہو،اور جاکر سو جاؤ۔
دارالاقامہ میں کچھ چھوٹے بچے بھی تھے جو بسااوقات کپڑے گندے کرلیتے تھے ۔ مولانا شہباز صاحب مرحوم ان بچوں کے کپڑے خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ۔
کچھ دنوں کے بعد جامعہ میں جدید انداز کے بیت الخلاء تعمیر ہوگئے اور حسن البنا ہاسٹل کے مشرق میں ایک بڑا ساٹینک (سیفٹی ٹینک) بھی بنادیاگیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ٹینک خراب ہوگیا اور اس کو صاف کرانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بستی سے صفائی کرنے والوں کو بلایا گیا ۔ انہوں نے اس وقت کے لحاظ سے ایک خطیر رقم اس کام کے لیے طلب کی۔ مولانا شہباز صاحب نے اس وقت ان لوگوں کو واپس کردیا۔ پھر کچھ سینئر طلبہ کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ اتنی بڑی رقم کا بوجھ جامعہ پرڈالنا مناسب نہیں ہے، جامعہ کے مالی حالات بھی اچھے نہیں ہیں، کیوں نہ ہم لوگ مل کراِس ٹینک کی صفائی کردیں۔ طلبہ فوراً تیار ہوگئے اور اسی وقت ٹینک کی صفائی کے کام میں جٹ گئے۔ مولانا مرحوم صفائی کے اس کام میں برابر کے شریک رہے۔ یہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ ہمارے ایک دوسرے استاد مولانا شبیراحمدا صلاحی ؒ کپڑے اتار کر لنگی باندھے ٹینک میں اترے ہوئے تھے اور غلاظت سے بالٹی بھربھر کر باہر کھڑے طلبہ کو دے رہے تھے ۔ اس طرح کچھ ہی گھنٹوں میں مکمل ٹینک صاف ہوگیا، جامعہ کی ایک خطیر رقم صرف ہونے سے بچ گئی اور ہم طلبہ نے جینے کا ہنر بھی سیکھ لیا۔
مولانا شہباز اصلاحی ؒ نے ایک بارایک واقعہ ہمیں سنایا ۔ممکن ہے یہ خودانہیں کے ساتھ پیش آیا ہو۔ مرحوم نے بتایا کہ ایک بار ایک مولانا ٹرین سے سفر کررہے تھے۔ ان کے پاس کی سیٹ پر بیٹھے ایک غیرمسلم بھائی نے مولانا سے کہاکہ میں بیت الخلاء جارہاہوں، براہ مہربانی آپ میرے سامان کو دیکھتے رہئے گا۔ وہ صاحب گئے اور فوراً ہی کچھ بڑبڑاتے ہوئے واپس آگئے۔ کہنے لگے کہ لوگوں کو ذرا بھی تمیز اور سلیقہ نہیں ہے، وہ بیت الخلاء گندا کردیتے ہیں ۔لوگوں کی ضرورت کا ذرا خیال نہیں۔ مولانا نے خاموشی سے یہ بات سن لی اور تھوڑی ہی دیر کے بعد سیٹ سے اٹھے اور بیت الخلاء کی طرف گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہ واپس آئے اور ان غیر مسلم بھائی سے کہا کہ بیت الخلاء تو بالکل صاف ہے، آپ چلے جائیں۔ ان صاحب نے مولانا سے کہاکہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، بیت الخلاء تو بہت گندا ہے، میں ابھی دیکھ کر آیا ہوں۔ مولانا نے عرض کیا کہ آپ جاکر تو دیکھیں وہ بالکل صاف ستھراہے ۔ مولانا کے اصرار پر وہ صاحب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو بیت الخلاء ابھی تھوڑی دیر قبل بہت گندا تھا، واقعی اب بالکل صاف پڑاہواہے ۔ وہ سمجھ گئے کہ ان مولانا صاحب نے ہی میری خاطر اسے صاف کیا ہے۔ وہ صاحب اس بات سے بہت متأثر ہوئے اور ان کے دل میں مولانا کا احترام اور قدربہت بڑھ گئی ۔ واپس آکر مولانا سے انہوں نے شکایتی انداز میں عرض کیا کہ آپ نے میرے لیے یہ زحمت کیوں اٹھائی۔مولانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس میں زحمت کی کیا بات ہے۔ ایک بھائی نے اسے گندا کردیا اور دوسرے نے صاف۔ ایسا کرنے سے میں چھوٹا تو نہیں ہوگیا۔
مولانا کے اس کردار کا اس شخص کے اوپر بڑا اثر ہوا اور اس نے مولانا کا مکمل تعارف حاصل کیا اور ان کا عقیدت مند ہوگیا۔
مولانا شہباز اصلاحی ؒ تحریک اسلامی میں نمایاں مقام رکھتے تھے ۔ وہ ایک جلیل القدر عالم دین، بہتر ین مقرر اور صاحب قلم انسان تھے۔ ان کی زندگی نہایت سادہ اور دوسروں کی خدمت کے لیے وقف تھی۔ وہ کسی کام کو حقیر نہیں سمجھتے تھے ۔ ایک عرصے تک وہ جامعۃ الفلاح میں خدمت انجام دیتے رہے اور پھر زندگی کے آخری دنوں میں ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے گئے۔
سیر ت رسولؐ سے
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے رسولؐ نے خانہ کعبہ کی دیوارپر بلغم ، تھوک یاانیٹ لگی ہوئی دیکھی توآپؐ نے اسے رگڑ کر صاف کردیا۔(بخاری: ۵۴۹)
ایک بار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر ایک یہودی مہمان آیا۔ آپؐ نے اسے کھانا کھلایا اور رات کو آرام سے سلادیا۔ وہ شخص غلط ارادے سے آیاتھا اور نبیؐ کو پریشان کرنا اس کا مقصد تھا۔ چنانچہ رات میں اس نے بستر پر گندگی کردی اور خاموشی سے نکل گیا۔ صبح کو پیارے نبیؐ مہمان سے ملاقات کے لیے تشریف لائے توکیا دیکھتے ہیں کہ وہ غائب ہے اور بستر گندا کرگیا ہے ۔ آپؐ نے اس گندگی کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا ۔ آپؐ نے دیکھا کہ وہ شخص اپنی تلوار بھول گیا ہے ۔ آپؐ نے اس کی تلوار ایک طرف رکھ دی ۔
کچھ ہی دور پہنچا تھاکہ اس یہودی کو اپنی تلوار یادآئی۔ اس نے خیال کیاکہ ابھی تو لوگ سوہی رہے ہوں گے، اس لیے وہ اپنی تلوار لینے کے لیے واپس آیا۔ وہ کیا دیکھتاہے کہ پیغمبر ؐ اس کا بستر گندگی سے صاف کررہے ہیں ۔ نبیؐ نے اسے دیکھا تو نہ آپؐ نے اسے برا بھلا کہا اور نہ لعنت ملامت کی۔ بلکہ صرف یہ فرمایا کہ تم اپنی تلوار بھول گئے ۔ یہ رکھی ہے اسے لے لو۔ وہ شخص نبیؐ کے اس کردارسے اس قدرمتأثرہواکہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
ایک بار ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس کی اس حرکت پر اس کی دھنائی کرنے کے لیے اس کی طرف لپکے۔ اللہ کے رسول حضرت محمدؐ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے روک دیا اور فرمایا کہ پیشاب پر پانی بہا کر صاف کردو۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ تم لوگ آسانی پیدا کرنے کے لیے برپا کیے گئے ہو، دشواری پیدا کرنے اور مشقت میں ڈالنے کے لیے نہیں۔ (بخاری)
زندگی کا لطف اٹھائیں:
یوں تو عام طورپر گلی، محلوں اور دفاتر وغیر ہ میں صفائی کے لیے نظم ہوتاہے ۔ کچھ لوگ اس کام پر مقرر بھی ہوتے ہیں لیکن اگر کبھی وہ لوگ بروقت صفائی نہیں کرسکے تو کیا ہم ان کے بھروسے بیٹھے رہیں، کیاا یسے ہنگامی مواقع پر ہم خود تھوڑی بہت صفائی نہیں کرسکتے ۔ کیا ایسا کرنے سے ہمارے ہاتھ اور ہمارے جسم گندے ہوجائیں گے ۔ کیا صابون سے ہاتھ دھونے پر وہ پہلے کی طرح پاک صاف نہیں ہوجائیں گے ۔ یاپھر ایساکرنے سے ہماری شان گھٹ جائے گی۔ کیا ہماری مائیں اور بہنیں اپنے بچوں کی گندگی صاف نہیں کرتیں ، کیا نرسیں اور ڈاکٹر مریضوں کی گندگی صاف نہیں کرتیں ، کیا ہم خود اپنے جسم کی گندگی صاف نہیں کرتے ؟ ذراسوچیے کہ ہم نے اپنے دل ودماغ میںیہ کیا غلط فہمی پال رکھی ہے کہ اگر ہم نے کبھی ایمرجنسی میں باہرکی صفائی کردی تو ہم ناپاک ہوجائیں گے یا ہماری شان گھٹ جائے گی۔
ایک باراکرم صاحب اپنے آفس گئے ۔ آفس بوائے علالت کے سبب اس دن آفس نہ آسکا تھا، اس لیے دفتروں کی میز وغیرہ کی صفائی نہ ہوسکی ۔ اکرم صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہی جھنجلا اٹھے۔ میری میز صاف نہیں کی اب میں کام کیسے کروں گا ۔ یہ بڑبڑاتے ہوئے وہ اپنے ساتھی دانش صاحب کے کمرے میں گئے کہ ان سے شکایت کریں اور ان کو ساتھ لے کر احتجاج کریں ، لیکن کیا دیکھتے ہیں کہ دانش صاحب بڑے اطمینان کے ساتھ کپڑے سے اپنی میز خود صاف کررہے ہیں ۔ اکرم صاحب نے انہیں عار دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ خود میزصاف کررہے ہیں۔ دانش صاحب نے مسکراتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ بھائی اس میں عار کی کیابات ہے ۔ آج ’جگو‘ بخار کی وجہ سے آفس نہیں آسکا۔ اگرہم نے اپنی میز صاف کرلی تو اس میں کیا حرج ہے ۔ کیا اس سے ہم چھوٹے ہوگئے ؟ کیا ہم اپنے گھر میں بہت سے کام خود نہیں کرتے ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر موڈ خراب کرنا کیا عقلمندی کی بات ہے ؟ اس کے صحت پر بھی برے اثرات پڑتے ہیں اور کام پربھی ۔ دانش صاحب کی بات کا اکرم صاحب پربہت اثر ہوا اور انہوں نے بھی چند منٹ میں اپنی میز صاف کرلی اورکام شروع کردیا۔ وہ اپنے اندر ایک خوشی اور سکون محسوس کرنے لگے۔ گھر ، محلہ اور آفس وغیرہ میں ماحول کو خوش گوار بنائے رکھنا دوسروں سے زیادہ خود اپنے حق میں بہتر ہوگا۔زندگی کا لطف اسی بات میں مضمر ہے۔
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ اب ہم ہمہ وقت صفائی کا کام خودہی کریں اور دوسروں سے یہ کام نہ کرائیں۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگرکبھی ضرورت پڑجائے توا س کام کو کرنے میں ہم عار محسوس نہ کریں۔ کیونکہ ہمارے بڑوں نے اور خود پیارے نبیؐ نے ان کاموں میں کبھی عارمحسوس نہیں کی، اورنہ ہی اس کی وجہ سے ان کا قد چھوٹا ہوا۔
مولانا نسیم احمد غازی فلاحی ، سکریٹری اسلامک ساہتیہ ٹرسٹ نئی دہلی