ضحیٰ ملاحت
یہ الفاظ کئی بار ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔کبھی کسی معصوم کے قتل کے بعد تو کبھی کسی معصوم کی خود کشی کے بعد اور پھر ایک زبردست تحریک اٹھتی ہے جو جہیز کے نام پر بھینٹ چڑھنے والی معصوم جانوں کے لیے انصاف کا تقاضہ کرتی ہے ، معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کا عزم کرتی ہے اور پھر کچھ وقت بعد یہ تحریک کہیں گم ہو جاتی ہے۔کسی واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ذہنی دباؤ ، گھریلو تشدد اور نجانے ایسے کتنے ہی عنوانات پر بحث اور خیال آرائی شروع ہوجاتی ہے، بعض دفعہ قتل کی سزا یا خودکشی کے حرام ہونے پر گفتگو زور پکڑتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کہاں ہے ؟ جہیز اور اس کی وجہ سے ہونے والے واقعات میں شاید کچھ حد تک کمی آئی ہو۔ لیکن کیا یہ ناسور معاشرے سے ختم ہو چکا ہے؟ اور اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیوں ہر بار کسی کی موت ہی اس معاشرے میں تحریک پیدا کرتی ہے ؟ یہ تحریک وقتی کیوں ہوتی ہے؟ کیوں اس کے اثرات دائمی نہیں؟ یہ کچھ ایسے سوال ہے جو اپنے ساتھ ایسے جواب لاتے ہیں جس کے بعد ہمارا اپنا وجود ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
کسی بھی واقعے کے بعد الزام معاشرے کو دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ معاشرہ یوں ہی وجود میں آگیا؟ نہیں۔اس معاشرے کو بنانے والے ہم خود ہیں، یہ معاشرہ ہم جیسے ہی اور انسانوں سے بنا ہے، ہم ہی اس میں موجود بھلائی اور برائی کے ذمہ دار ہیں، معاشرے میں ہونے والے ہر واقعے میں ہمارا کردار یکساں ہے ۔ لیکن افسوس کہ ہم خود کو اس پورے منظر سے الگ کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے آس پاس موجود ٹوٹے اور بکھرے ہوئے افراد کو نہیں دیکھ پاتے، ہم ذہنی دباؤ اور مایوسی کے شکار افراد کو کمزور ایمان رکھنے کا طعنہ دیتے ہیں، ہمیں لوگوں کا کرب اور آنسو بے معنی اور بے مقصد زندگی کا نتیجہ نظر آتے ہیں۔زندگی کی تلخیوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے موت کو گلے لگانے والے حساس افراد ہماری نظر میں کمزور ہیں۔ بےشک یہ کمزور ایمان اور کم علمی کا ہی نتیجہ ہے لیکن ان افراد کی دین سے یہ دوری ہمارے سامنے وہ واضح دلیل ہے جس کی بنا پر ہم ان کے متعلق رائے قائم کر لیتے ہیں ۔معاشرے کی بے حسی اور ظالمانہ رویہ وہ دوسری دلیل ہے جس کے ذریعہ ہم خود کو ایسے تمام واقعات سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا ہمارے ہمسائے میں لگی اس آگ سے ہمارا گھر محفوظ ہے؟ اوراگر ہے بھی تو کب تک؟ ہماری نظر محض جہیز کی اس آگ پر ہے جس سے نہ جانے کتنے ہی گھر اب تک جل چکے ہیں اور اب بھی جل رہے ہیں۔ ہم اصل مسئلہ جہیز کو سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے کو تمام مسائل کا حل مانتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی اصل مسئلہ جہیز ہے؟؟؟ کیا جہیز اپنا کوئی وجود رکھتا ہے ؟ کیا اس چیز کو سنت کا نام دینے والے افراد اس کی حیثیت واضح کرتے ہیں؟ کیا اس کا مطالبہ کرنے والے افراد کبھی اس کی حیثیت کا ذکر کرتے ہیں؟ نہیں ۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جہیز اپنا کوئی وجود نہیں رکھتا۔ یہ محض نام ہے ایک رسم کا جو پوری کی جاتی ہےاپنے نفس کو تسکین پہنچانے، اپنے ارمانوں کو پورا کرنے، اپنے طریق زندگی کو اپنے سکون اور آرام کے مطابق ڈھالنے اور اپنی خواہشات کو حقیقت میں بدلتا دیکھنے کے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رسم کہیں جہیز کہلاتی ہے تو کہیں لوگ اسے کم علمی کی بنا پر سنت کا نام دیتے ہیں۔ کچھ لوگ معاشرے کے خوف و دباؤ میں آکر اسے پورا کرتے ہیں تو کچھ لوگ استطاعت ہونے پر بخوشی اسے پورا کرتے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اصل مسئلہ جہیز کا ہے یا اس وجہ کا جس کے لیے یہ رسم الگ الگ ناموں اور نیتوں سے پوری کی جاتی ہے؟ اگر اصل مسئلہ اس کی وجہ ہے! تو کیا ہے وہ وجہ؟ جس کے نتیجے میں ایک ایسی رسم وجود میں آئی جس نے نہ جانے کتنے والدین کی زندگی اجاڑ دی ، نہ جانے کتنی معصوم بیٹیوں کی جان لے لی اور نہ جانے کتنے بے گناہ نوجوانوں کو سزا دلوائی۔اگر ہمارے ماحول پر اور اردگرد موجود افراد پر نظر ڈالیں تو وجہ ہمارے سامنے واضح آجاتی ہے۔نوجوانوں کے ارمان اور ان کی خواہشات ، والدین کے ارمان اور ان کی خواہشات، لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ حرص اور دکھاوا ، ایک دوسرے سے حسد اور بغض وغیرہ یہ وہ اصل بنیادیں ہیں جس نے ہمارے معاشرے کا حال ایسا بنا دیا کہ یہاں نکاح ایک مشکل ترین اور بدکاری ایک آسان عمل ہے۔ جہاں قتل ایک آسان اور خود کشی ایک بہترین حل نظر آتا ہے۔ سورۃ الفرقان کی یہ آیت اس چیز کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے ، “کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے”۔ خواہشات کو پورا کرنے کی غرض سے انجام دی جانے والی یہ رسم بھی ایسے ہی افرادکی وجہ سے عام ہوئی ہے۔ لیکن کیا اس رسم کو ختم کرنے کا عزم رکھنے والے اور اس کے لیے تحریک چلانے والے افراد خود اس رسم سے واقعی دور ہیں ؟
“معاشرے کو تبدیل کرنا اب ضروری ہے” ۔ کیا یہ الفاظ کہنے والے افراد خود اپنے اندر تبدیلی لانے کے لئے تیار ہیں ؟ کیا میں اور آپ واقعی اس اصل وجہ کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں؟ وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم اس رسم کے وجود میں آنے کی اصل وجہ کو سمجھتے ہوئےاس کو دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھائیں۔ یہ دیکھیں کہ کیا بحیثیت بیٹی ہم اس قابل بن سکے ہیں کہ اپنی خواہشات اور ارمانوں کو حالات کے مطابق ڈھال سکیں؟ کیا بحیثیت بیٹا ہم اس قابل بن سکے ہیں کہ کہ ہمارے سارے افراد خاندان کو سکون اور اطمینان بخش زندگی مہیا کرسکیں؟ کیا بحیثیت والدین اپنے آپ کو اس قابل بنا سکے ہیں کہ معاشرے کی باتوں اور ان کی بنائی ہوئی حدوں کا ڈٹ کر سامنا کر سکیں؟ کیا ہم اپنی اولاد کی تربیت اس طریقے پر کر سکے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے غلام نہ بنے؟ کیا بحیثیت مسلمان میں اس قابل بن سکی / سکا ہوں کہ خدا کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کا اعتراف کر اس کا شکر بجا لاؤں اور مشکلات اور اور آزمائشوں کے وقت قناعت اور صبر کا رویہ اختیار کرسکوں؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ہمارے اپنے وجود کو سوالیہ نشان بنا رہا ہے۔
جہیز کو ناسور کہنے والے افراد خود اس رسم کو کسی دوسرے نام اور طریقہ سے انجام دیتے ہیں لیکن وجہ ان تمام کی ایک ہی ہے۔ کیا ہمارے والدین اپنی بیٹیوں کو مشکل حالات میں ڈالنے تیار ہوتے ہیں ؟کیا ہماری بیٹیاں ایسے حالات میں ڈھلنے تیار ہوتی ہیں ؟ کیا ہمارے والدین اپنی بیٹوں کو محنت اور خودداری کی تعلیم دیتے ہیں؟ کیا ہمارے بیٹے اپنے حالات کو محنت اور مشقت سے بدلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں؟ کیا ہمارے والدین اور ہمارے بزرگ معاشرے میں موجود غلط رسومات کی خلاف ورزی کرنے تیار ہوتے ہیں؟ ایسے بہت کم خاندان ہمیں نظر آتے ہیں۔اکثریت ان افراد کی ہے جو کبھی بیٹیوں کے آرام تو کبھی استطاعت ہونے پر تو کبھی محض ایک رسم کی ادائیگی کی طرح اس رسم کو انجام دیتے نظر آتے ہیں۔جہیز کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم اس کی اصل وجہ کو ختم کریں ۔ جسکے لیے اپنے نوجوانوں کو قناعت اور صبر کی تعلیم دینا لازمی ہے۔ اورمشکل حالات میں کاوشوں اور توکل کے راستے کو اپنانے کا سبق دینا لازمی ہے۔والدین کا خود کو معاشرے کے بنائے ہوئے اصولوں سے آزاد کرنا لازمی ہے۔ہمارا خود کو اس معاشرے کی بنیاد سمجھنا لازمی ہے۔ اور اپنے اندر تبدیلیلا کر اس ناسور کے خاتمے کی طرف پہلا قدم اٹھانا لازمی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر غور کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ اب اسے چاہیے جو باقی ہے اس میں اللہ سے ڈرتا رہے۔” ہمارے لیے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ نکاح کا مقصد محض دنیا کی زندگی میں خوشیاں حاصل کر لینا نہیں بلکہ ایک دوسرے کے دین کو مکمل کرنا ہے اور دین کو کامل کرنے کے لئے ہمارا اپنی خواہشات پر قابو پانا پہلا اور بنیادی قدم ہے۔ لہذا محض آگ کو بجھاتے رہنے کے بجائے اس وقتاً فوقتاً بھڑکتی آگ کی اصل وجہ کو ختم کرنا ہماری تحریک اور ہمارے مباحثوں کا اصل مقصد ہونا چاہیے اور اسکی شروعات خود احتسابی اور ذاتی تبدیلی سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں زندگی کو ہمت، توکل اور صبر کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔