انسانی معاشرہ اخلاقی اقدار اور اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ یہ اقدار ہی انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرتے اور ایک منظم و پر امن معاشرتی نظام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب اخلاقی اصولوں کی پامالی کی جاتی ہے تو یہ عمل نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ انہیں اخلاقی رزائل میں سے ایک جھوٹ ہے۔ موجودہ دور میں جھوٹ نے جدید طرز اختیار کر لیا ہے۔ عصرِ حاضر میں جھوٹ کو پھیلانے کے نت نئے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں جنہوں نے ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اعلیٰ پیمانے پر جھوٹ کو عام کرنے کا رواج
جھوٹ بولنا انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے، تاہم ٹیکنالوجی سے پہلے جھوٹ اس قدر تیزی سے عام نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مخصوص سیاسی و مذہبی مفادات کی حصول یابی کی خاطر زبانی یا خط و کتابت کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کرتے تھے۔ بازاروں، میلوں یا تہواروں میں جمع شدہ لوگوں میں کسی پوشیدہ بات کو خفیہ انداز میں کسی مخصوص و ماہر شخص کے ذریعے اعلانیہ طریقہ سے عام کیا جاتا تھا۔ اس کی ایک اہم تاریخی مثال مشرکین مکہ کی ملتی ہے کہ انہوں نے رسولؐ کی ذات اقدس پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا مزید برآں یہ کہ حج کے اجتماع سے لے کر اس دور کے دیگر ذرائع ابلاغ کو اس جھوٹ کو پھیلانے کا ذریعہ بنایا۔ اس جیسی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے اورق پر ثبت ہیں ۔
ٹیکنالوجی: جھوٹ پھیلانے کا موثر ذریعہ
ٹیکنالوجی نے جھوٹ کو پھیلانے کے عمل کو سہل و آسان اور تیز تر کر دیا ہے۔ ابتدائی دور میں ریڈیو، اخبارات اور ٹی وی نے معلومات اور تفریح و ترسیل کو فروغ دیا، تاہم ان کے ذریعے جھوٹ کو بھی بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا۔ انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے اس عمل کو ایک نیا ہی موڑ دے دیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ جھوٹ محض چند لمحوں میں دنیا کے ہر کونے تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ سوشل میڈیا جو کہ معلومات اور رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے جھوٹ پھیلانے کا ایک مؤثر ہتھیار بن گیا ہے۔ جھوٹ پر مبنی خبریں اور پوسٹس وائرل کرنا اتنا عام ہو چکا ہے کہ ان کے منفی اثرات کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جھوٹ پھیلانے کا یہ رویہ بڑے پیمانے پر نہ صرف عوام کے ذریعے جاری ہے بلکہ مختلف سماجی سیاسی جماعتیں بھی اس کارہائے نمایاں میں بڑی مستعدی سے اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ یہ طرزِ عمل معاشرے میں عدم اعتماد، افواہوں اور مختلف تنازعات و منافرت کو جنم دے رہا ہے۔
ٹوٹتا بکھرتا سماجی تانا بانا
سیاسی مفادات کے حصول کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں عوام کو گمراہ کرکے انتخابات اور سیاسی مہمات کے دوران جھوٹے بیانات یا غلط معلومات کا استعمال کر کے رائے عامہ کو متاثر کرتی ہیں۔ فسطائیت پسند لوگ منافرت کو پھیلانے میں منصوبہ بند طریقوں سے سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں عام کرتے ہیں نتیجتاً روز بروز فرقہ وارانہ واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور سماجی تانا باناپوری طرح بکھرتا جا رہا ہے۔ 2023-24 ميں فرقہ وارانہ فسادات ریکارڈ کئے گئے ہیں ، جبکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے واٹس ایپ، فیس بک، اور ٹوئٹر پر نفرت انگیز مواد اور افواہیں پھیلانے سے کشیدگی میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی لیڈروں، تعصب پسند مذہبی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر اور بیانات (جن میں سراسر جھوٹ ہی شامل ہوتا ہے)اکثر ان فسادات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ نیز فرقہ پرست عناصر جھوٹے مواد اور افواہوں کے ذریعے عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہیں جو فوری طور پر وسیع پیمانے پر پھیل کر فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔
مذہبی، علمی وادبی مواد پر چڑھی دروغ کی تہہ
فیس بک، واٹس ایپ، یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے اسلامی تعلیمات کے متعلق پوسٹ اور ویڈیوز وائرل کی جاتی ہیں۔جن میں غیر مستند احادیث اور دیگر انبیائے کرامؑ، اصحاب رسولؐ اور بزرگان دین کے اقول کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات بزرگان دین کی کرامات کے من گھڑت واقعات کی ویڈیوز بنا کر عوام کو دین کے نام پر گمراہ کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ اس قسم کے مواد کو ہزاروں لاکھوں ویوز اور لائکس ملتے ہیں۔ ثواب کی نیت سے اس طرح کے مواد کو کئی مرتبہ شیئر بھی کیا جاتا ہے۔ یہی حال ادب کا بھی ہے۔ کئی مشہور کتابوں کے اقتباسات جس میں افکار و نظریات کے بیانیے کو جملوں کی تبدیلی کے ساتھ کچھ لوگ اپنے اپنے مذہبی فرقہ کی بڑی شخصیات کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ غیر معیاری اشعار کو علامہ اقبال کے نام سے منسوب کرکے دھڑلے سے شیئر کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سوشل میڈیا نے زندگی کے بہت سے شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ہے، ان میں سے ایک اسلامی عقائد و تعلیمات اور علم و ادب کا شعبہ بھی شامل ہے۔
سوشل میڈیا: ایک جائزہ
بھارت میں 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں تقریباً 8کروڑ 33 لاکھ (833 ملین) افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، جن میں سے تقریباً 4کروڑ 48 لاکھ (448 ملین) افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں۔ یہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارتی عوام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر روزانہ اوسطاً 194 منٹ (تقریباً 3 گھنٹے اور 14 منٹ) گزارتی ہے۔ 89 فیصد لوگ آن لائن ہر روز سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں ،جن میں بنیادی طور پر فیس بُک، انسٹاگرام اور یوٹیوب شامل ہیں۔ اسٹیٹسٹا (Statista) کے سروے کے مطابق ہندوستانی سوشل میڈیا یوزرز میں سے 19 فیصد نے غیر ارادی طور پر کاپی پیسٹ اینڈ شیئر کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے جھوٹی اور غیر مستند خبریں شیئر کرنے کا ازخود اعتراف کیا ہے۔ ایک دوسرے سروے سے یہ بات طشت ازبام ہوئی ہے کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا کے 22 فیصد یوزرز نے آن لائن جھوٹی خبروں کےذریعہ گمراه ہونے اور ٹھگے جانے کی اطلاعات درج کروائی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹ کس قدر عام اور معمول کا حصہ بنتا جارہا ہے۔
سوشل میڈیائی زندگی ایک سیاہ فتنہ
موجودہ دور میں ہر کوئی کسی نہ کسی درجے میں سوشل میڈیا کا استعمال کررہا رہا ہے۔ اور اپنی دلچسپی کا مواد سوشل میڈیا کے ذریعے یا تو اخذ کررہا ہے یا پھر شیئر کر رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر اپنی ذات کو ایسے پیش کررہے ہیں جو اصلاً وہ نہیں ہیں۔ علمی وادبی یا دیگر کسی بھی صلاحیت یا کسی بھی فیلڈ میں خود کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں جو ان کی شخصیت کا خاصہ نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا دور کا ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ لوگ حبِ ذات کے مرض میں اس حد تک مبتلا ہوچکے ہیں کہ جھوٹ کا سہارا لے کر دوسروں کے مقابلے میں خود کو سوشل میڈیا انفلوئنسر کی فہرست میں نمایاں کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کی سوشل میڈیائی زندگی حقیقی زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ یہ لوگ منظر عام پر اپنی ذاتی زندگی، لائف اسٹائل اور شب و روز کے معمولات کو کیمرے کے سامنے اس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ عام افراد سوشل میڈیا انفلوئنسرکی لائف اسٹائل کو دیکھ کر حسرت و یاس میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ لائک اینڈ شئیر کا طرز عمل دوسروں کو بھی ان کی تصنع بھری زندگی کو دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے۔ سوشل میڈیائی افراد مواد (کنٹینٹ)کے نام پر بعض اوقات جھوٹ پروس کر اچھے خاصے ویوز حاصل کرلیتے ہیں۔
پرینک کلچر (Prank Culture): ایک کذابی گیم
سوشل میڈیا کے فتنے میں سے ایک فتنہ مزید سراٹھا رہا ہے، جسے پرینک کلچر کا نام دیا گیا ہے۔ پرینک کلچز یعنی عوامی سطح پر ہنسی مذاق کر کے ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ذریعے تفریح اور دل لگی کا سامان کرنا۔ یہ کوئی نیا کھیل نہیں ہے۔ عہدِ قدیم میں روم کے باشندے اپنے تہواروں میں تفریح کے لئے اس طرح کی سرگرمیاں انجام دیتے تھے، جس کا اثر محدود افراد ہی تک ہوا کرتا تھا، تاہم جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اس کھیل کا انداز یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔
پرینک گیم کیا ہے؟
ایسا رویہ یا طرزِ عمل جس میں لوگوں کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے مذاق یا شرارت کی جاتی ہے اور اس پورے واقعہ کو خفیہ کیمرے کے ذریعے ریکارڈ کیا جاتا ہے،جس کا مقصد تفریح ہوتا ہے۔ یہ کلچر خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ عموماً سوشل میڈیا، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر اس کو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں دیکھا جا تا ہے۔ بطور خاص ان پرینکس ویڈیوز پر ویوز بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں بے ہودہ مواد شامل ہوتاہے جیسےمذاق کے بہانے لڑکیوں کو سر عام چھیڑنے سے لے کر شرم و حیا سے عاری مذاق کے ذریعے حراساں کرنے تک مختلف حرکتیں شامل ہیں۔ راہ گیروں پر پانی کے غبارے مارنا، ڈراؤنی شکل اختیار کرکے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران مسافروں کو ڈرانا، یا منچلے نوجوان لڑکوں کا لڑکیوں کا بھیس اختیار کرکے لوگوں کو فزیکل ٹچ کرنا وغیرہ بھی اسی میں شامل ہے۔ اگر کوئی ردعمل کرے تو کیمرے کی طرف اشارہ کر کے اسے مطمئن کیا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ پرینک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ بعض اوقات یہ پرینک گیم پوری طرح اسکرپٹ شده ہوتا ہے جس میں دونوں فریق شامل ہوتے ہیں اور راہگیروں یا اطراف کے لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ عام طور پر چوراہوں، کالج کیمپس یا لوگوں کے مجمع میں یہ پرینک گیم کھیلے جاتے ہیں اور مختلف چینلز پر اپلوڈ کیے جاتے ہیں۔ جن میں بنیادی اخلاقی اقدار کی پامالی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پرجھوٹ اور بے ہودہ و بد اخلاقی مواد ہی کی ترویج ہو رہی ہے، ملت کے کچھ افراد بساط بھر اس گند کو دور کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں اور شر کو خیر سے رفع کر رہے ہیں۔ ہم پر بھی یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ملک و ملت کے لیے نفع بخش ثابت ہوں۔ بلا سوچے سمجھے ہر خبر یا پوسٹ فارورڈ کرنا اپنا فرض نہ گردانیں بلکہ اس کی تصدیق کریں۔ سوشل میڈیا پر خودنمائی، غیر ضروری مباحث سے بچیں۔ اپنے آپ کو علمی و ادبی شخصیت ظاہر کرنے کا بخار ہر کسی کے سر چڑھ کر بول رہا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے بڑھ کر لائک، شیئر کمنٹ حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال دیا ہے۔
کتابچہ ‘سائبرستان سوشل میڈیا اور مسلم نوجوان’ کے مصنف سعادت اللہ حسینی صاحب لکھتے ہیں :
“جو بات بھی لکھئے، یا کسی اور کو فارورڈ کیجئے تو تحقیق کر لیجیئے۔ حدیث یاد رکھیے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے دوسروں تک پہنچادے۔ یاد رکھئے کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ابلاغ ہے۔ہمیں ہر لفظ کا خدا کے حضور جواب پیش کرنا ہے۔۔۔ ہر اچھے کام کے اپنے فتنے بھی ہیں۔میدانِ جہادمیں شہید ہونے والا مجاہد شجاعت و دلیری کی تعریف و تحسین کی آرزوکے فتنہ کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ فتنہ اس کی اس عظیم قربانی کے بھی ضیاع کا سبب بن سکتا ہے۔غیبت، طنز، بدگمانی، تنقیص و ناروا تنقید، اذیت رسانی انسانی تعلقات سے تعلق رکھنے والی یہ ساری برائیاں جو ہمارے نامہ اعمال کو دیمک کی طرح غیر محسوس طریقے سے چاٹ لیتی ہیں۔ سوشل میڈیا پران برائیوں کا ارتکاب بہت آسان بھی ہوتا جا رہا ہے اور ان کی ہلاکت خیز یاں بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔بہت خوبصورت ناموں اور نیک مقاصد کے حوالوں سے شیطان ان فتنوں کا شکار بناتا ہے۔ان کے تئیں حساس اور بیدار ہونا بھی ایک سوشل میڈیا صارف کے لیے ضروری ہے۔ اگر آپ پوسٹ کرنے کے بعد دن میں کئی دفعہ لائک اور فارورڈ کی گنتی کرتے ہیں تو یہ یقینًا اس بات کی علامت ہے کہ پیغام سے زیادہ پیغام کے واسطہ سے شہرت و ناموری کی ریا کارانہ آرزو دل میں ڈیرہ ڈالنے لگی ہے۔”
جھوٹ اور رسائل من القرآن
“اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو جاؤ۔” (الحجرات:6)
“اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔” (النور:19)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں رہنمائی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔” (صحیح مسلم)
ایک اور حدیث میں فرمایا: “جو شخص جھوٹ بولے یا جھوٹ پھیلائے، وہ ہم میں سے نہیں۔” (سنن ابو داؤد)
(مضمون نگار ایم اے اردو کی طالبہ ہیں)