ملک میں جب بھی کہیں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پولیس اور میڈیا کی مشکوک نظر سب سے پہلے مسلمانوں پر جاتی ہے، اور پھر میڈیا میں یہ خبریں عام ہوجاتی ہیں کہ فلاں تنظیم کے اس معاملے میں شامل ہونے کا اندیشہ ہے اور فلاں افراد اس کے ماسٹر مائنڈ ہیں، اور ان ہی افواہوں کے ارد گرد پولیس کی تفتیشی کارروائی شروع ہوجاتی ہے، اور نتیجہ یہ نکل کر آتا ہے کہ کچھ روز بعد داڑھی ٹوپی والے کچھ مسلم نوجوانوں کا کسی تنظیم سے نام جوڑ کر انہیں ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے، اور انہیں حوالات میں بند کردیا جاتا ہے، لیکن جب حقائق سامنے آتے ہیں تو نتیجہ کچھ اور ہی نکل آتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کا معاملہ جرمن بیکری بم دھماکے کی تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
۳؍ فروری ۲۰۱۰ ء کوپونہ کی جرمن بیکری میں ہوئے بم دھماکے کے بعدمہاراشٹر اے ٹی ایس نے اس معاملے کا ماسٹر مائنڈ حمایت بیگ کو قرار دیا، اورحمایت بیگ کو مجرم قرار دینے کے لیے اے ٹی ایس نے جھوٹے گواہوں کو تیار کرنے اور مسلم نوجوانوں پر ظلم وزیادتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،لیکن صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والے اشیش کھیتان کی ڈاکیومنٹری نے اے ٹی ایس کے ان تمام کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کردیا ہے۔اس ڈاکیومنٹری میں ایسے افراد کے انٹرویو لیے گئے ہیں جن کے ساتھ اے ٹی ایس نے ظلم و زیادتی کرتے ہوئے انہیں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا تھا۔
پونہ کی جرمن بیکری بلاسٹ کے بعد اے ٹی ایس نے اودگیر کے گلوبل نیٹ کیفے کو بم بنانے کا مرکز قرار دیا، اور نیٹ کیفے کو سیل کرکے ہارڈ ڈسک ضبط کرلیے، لیکن نیٹ کیفے سے انہیں کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکا، لہذاوہاں سے ملی ناکامی کے بعد اے ٹی ایس نے حمایت بیگ کے دوستوں سے پوچھ تاچھ شروع کردی، اور انہیں عدالت میں حمایت بیگ کے خلاف گواہی دینے کے لیے مجبور کیا گیا،لیکن جب ان افراد نے جھوٹی گواہی دینے سے انکار کیا تو اے ٹی ایس کے افسران نے ان پر ظلم وزیادتی کی اور انہیں بھی فرضی کیسوں میں پھنسانے کی دھمکی دی۔ اے ٹی ایس کی اس ظلم وزیادتی کو دیکھتے ہوئے مسلم نوجوان اپنے ہی دوست حمایت کے خلاف گواہی دینے اور سرکاری گواہ بننے پر مجبور ہوگئے، اور ان ہی جھوٹی گواہیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پونہ کی عدالت نے حمایت بیگ کو پھانسی کی سزا سنائی۔
اودگیر کے رہنے والے شیخ غوث کو اے ٹی ایس نے تفتیش کے دوران جھوٹا پنچ نامہ بنواکر اس پر زبردستی دستخط کروائے۔ شیخ غوث نے کہا کہ مجھے جھوٹی گواہی دینے کے لیے مجبور کیا گیا، اور مجھ سے کہا گیا کہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو میری اور میرے گھر والوں کی زندگی تباہ کردیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہی ہمیں سکھایا کہ عدالت کے سامنے ہمیں کس طرح کابیان دینا ہے۔ غوث کے مطابق پیشی سے دو روز قبل انہیں پونہ بلایا جاتا تھا، اور جھوٹی گواہی دینے کی ٹریننگ دی جاتی تھی، اور اس کی ریہرسل بھی کرائی جاتی تھی، اور ٹریننگ کے بعد انہیں اے ٹی ایس افسر سنجے لاڑکر کے پاس لے جایا جاتا تھا، جہاں وہ ان سے کورٹ کی طرح سوال کرتے تھے۔ جن اے ٹی ایس افسران نے ڈرانے اور دھمکانے کا کام کیا، ان میں سدھاکر ریڈی، سنجے لاڑکر، ملند گائکواڑ اور پونے کی پوری ٹیم شامل ہے۔
حمایت بیگ کے ایک اور دوست شیخ ریحان کو جھوٹی گواہی دینے کے لیے اے ٹی ایس نے بری طرح ٹارچر کیا، اورانہیں الکٹرک شاک تک دئیے۔ واضح رہے کہ ۳؍ فروری ۲۰۱۰ ء کو پونہ کی جرمن بیکری میں بلاسٹ ہونے کے بعد ستمبر ۲۰۱۰ ء میں اے ٹی ایس نے پونہ سے حمایت بیگ کو گرفتار کیا تھا۔ حمایت بیگ کی گرفتاری کے بعد اے ٹی ایس سربراہ راکیش ماریہ نے جرمن بیکری بلاسٹ معاملے میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ان دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ حمایت بیگ ہے۔ راکیش ماریہ کے اس بیان کے بعد اے ٹی ایس نے مزید تفتیش کے لیے شہراودگیر کا رخ کیا جہاں اے ٹی ایس کئی مہینوں تک مقامی افراد سے پوچھ تاچھ کرتی رہی۔ ابتدا میں مسلسل دو ماہ کی تفتیش کے بعد پونہ کے ڈی آئی جی نے اودگیر کے ریسٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ اس پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’ ہماری دو ماہ کی تفتیش یہ ثابت کرتی ہے کہ جرمن بیکری بلاسٹ معاملے کا ماسٹر مائنڈ حمایت بیگ نہیں بلکہ محسن چودھری ہے‘۔ پونہ ڈی آئی جی کی اس پریس کانفرنس کے بعد اے ٹی ایس چیف راکیش ماریہ کے بیان پر سوال اٹھنے لگے جس کے پیش نظر راکیش ماریہ نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے پونہ کے DIGکو جرمن بیکری معاملے کی تفتیش سے ہٹا دیا، اور ان کی جگہ ناندیڑ کے سدھاکر ریڈی کو مقرر کیا، اور انہیں میڈیا کو کسی بھی طرح کی معلومات دینے سے روکے رکھا۔ سدھاکر ریڈی کی ٹیم نے اودگیر کے کئی مسلم نوجوانوں سے ریسٹ ہاؤس میں پوچھ تاچھ کی، جبکہ تین افراد کو ممبئی اور پونہ لے جا کر تفتیش کی گئی۔ جن افراد سے پوچھ تاچھ کی گئی ان میں سے ایک فرد خورشید عالم صدیقی گورنمنٹ ڈی ایڈ کالج میں جونیئر کلرک کے عہدے پر فائز تھے۔ ATS کی مسلسل پوچھ تاچھ کو دیکھتے ہوئے انہیں نوکری سے معطل کردیا گیا۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کو بے قصور پھسائے جانے میں ایک طرف جہاں اے ٹی ایس ذمہ دار ہے وہیں سیاسی عہدیداران بھی اس معاملے میں برابر کے شریک ہیں۔حال ہی میں جب حمایت بیگ کے کیس کی دوبارہ جانچ کا مطالبہ سامنے آیا تو مہاراشٹر کے وزیر داخلہ آرآر پاٹل نے کہا کہ بیگ کو قانون کے تحت مجرم قرار دیا جاچکا ہے، اب اس معاملے کی دوبارہ جانچ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے بھی دوبارہ جانچ کرانے سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ بے قصور مسلمانوں سے ہورہی پوچھ تاچھ کے معاملے میں شہر اودگیر کے مقامی میڈیا نے بھی بے اعتدالی سے کام لیتے ہوئے اودیگر کو جہادی فیکٹری کے نام سے موسوم کیا، اور پر امن شہر اودگیر کو دہشت گروں کا مرکز قراد دینے کی انتہائی گھناؤنی کوشش کی، لیکن مسلم تنظیموں کی مسلسل کوششوں اوربعض افراد کی تحقیق نے ان تمام سازشوں کا پردہ فاش کردیا۔اب جن افراد نے ان کے سامنے اپنا دکھ درد پیش کیا ہے اے ٹی ایس سادہ لباس میں ان کے گھروں کے چکر لگارہی ہے اور انہیں ابھی بھی ہراساں کیا جارہا ہے۔
ہاشمی سید شعیب قمرالدین(جرنلسٹ)۔اودگیر، مہاراشٹر
جرمن بیکری معاملہ
ملک میں جب بھی کہیں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو پولیس اور میڈیا کی مشکوک نظر سب سے پہلے مسلمانوں پر جاتی ہے، اور پھر میڈیا میں یہ خبریں عام ہوجاتی ہیں کہ فلاں تنظیم کے اس معاملے میں شامل…