محمد اقبال ملا،
سکریٹری جماعت اسلامی ہند
دعوت سے مراد وطنی بھائیوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلانا ہے۔ اللہ کی بندگی کا مفہوم بہت وسیع اورہمہ جہت ہے۔ برادران وطن سے اتنی بات کہہ دی جائے کہ اللہ کی بندگی اختیار کرو ،اس سے پورامفہوم سمجھ نہیں پائیں گے۔ انھیں پوری بات سمجھانے کے لیے اللہ کا جامع تعارف، توحید ،اس کے تقاضے، شرک کی حقیقت اوراس کے نقصانات سمجھانا ہوں گے۔ برادران وطن اللہ کی عظیم ہستی، اس کی صفات اورتقاضوں سے بے خبر زندگی بسر کررہے ہیں۔ البتہ وہ خداکے منکر نہیں ہیں۔ نیز اسی طرح بندگی سے مراد کیاہے،بندگ�ئرب کا جامع تصور ان کے سامنے پیش کرنا ہوگا، انفرادی اوراجتماعی زندگی میں اس کے تقاضوں سمجھانا ہوگا۔
تعارفِ اسلام اورغلط فہمیوں کے ازالہ کی کوششوں کوبرادران وطن دلچسپی سے سنتے ہیں۔ یہ افہام وتفہیم ممکن ہے ایک نشست میں نہ ہوسکے بلکہ اس کے لیے کئی ملاقاتوں کی ضرورت ہوگی۔
جس امت کو دعوت دین کے لیے برپاکیاگیاہے وہ اس اہم فریضہ کی ادائیگی سے بالعموم غافل ہے۔ نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ جیسے فرائض سے شغف مسلمانوں میں پایاجاتاہے، لیکن فریضہ دعوت کی ادائیگی کے لیے وہ جذبہ ان کے اندرموجود نہیں ہے ۔
دعوت کا ایک جامع تعارف درج ذیل اقتباس کے ذریعہ معلوم ہوتاہے:
ابوداؤد کی ایک حدیث ہے: آپؐ نے فرمایا: ’’نوع انسانی کے تمام افرادآپس میں حقیقی بھائی ہیں کیوں کہ وہ سب ایک باپ اورماں (آدم وحوا) سے پیداہوئے ہیں‘‘، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: واناعلی ذالک شہید یعنی میں اس پر گواہ ہوں،میں اس کا اعلان کرتاہوں۔ا وراسی حقیقت کا اعلان حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے ایرانی سپہ سالاررستم اوراس کے فوجی کمانڈروں کے سامنے کیاتھا، انھوں نے سب سے پہلے ایرانیوں کی غلط فہمی دورکی، فرمایا:ہم تاجر نہیں ہیں،ہمارامقصداپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا نہیں ہے، ہمارا نصب العین دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے‘‘، یہ سن کررستم نے کہا: وہ دین حق کیاہے اس کا تعارف کراؤ،تب مغیرہؓ نے فرمایا: ہمارے دین کی بنیاد اورمرکزی نقطہ جس کے بغیر دین کا کوئی جز ٹھیک نہیں ہوتا، وہ یہ ہے کہ آدمی اس حقیقت کا اعلان کرے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اوریہ کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ (مطلب یہ کہ توحید کو اپنائے اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت اوررہنمائی تسلیم کرے۔ ) ایرانی سپہ سالار نے کہا: یہ توبہت اچھی تعلیم ہے، کیا اس دین کی کچھ اوربھی تعلیم ہے؟ حضرت مغیرہؓ نے فرمایا: واخراج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ(اس دین کی تعلیم یہ بھی ہے کہ انسانوں کوانسانوں کی بندگی سے نکال کر خداکی بندگی میں لایاجائے۔ ‘‘ ایرانی سپہ سالار نے کہا: یہ بھی اچھی تعلیم ہے، کیا تمہارادین کچھ اوربھی کہتا ہے؟ حضرت مغیرہؓ نے کہا:ہاں ہمارا دین یہ بھی کہتاہے کہ
والناس بنوآدم،فہم اخوۃ لاب وام۔
’’تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، پس وہ سب کے سب آپس میں بھائی ہیں، سگے بھائی ،ایک ماں باپ سے پیدا!!‘‘
یہ ہے اس دین کی بنیادی تعلیم جومغیرۃؓ نے پیش کی، اوراسی سپہ سالارکے سامنے حضرت ربعی بن عامرؓ نے اپنے مقصدکی ترجمانی ان الفاظ میں کی:
’’اللہ نے ہم کو اس بات پر مامور کیاہے کہ خداجن کوتوفیق دے انھیں ہم انسانوں کی بندگی سے نکالیں اوراللہ کی بندگی میں داخل کریں،اوردنیا کی تنگیوں سے نکال کروسیع وکشادہ دنیا میں لائیں اورظالمانہ نظام ہائے زندگی سے نکال کراسلام کے عدل وانصاف سے روشناس کرائیں۔ پس اللہ نے ہمیں اپنا دین دے کر اپنی مخلوق کے پا س بھیجاہے تاکہ ہم لوگوں کواس کے دین کی طرف بلائیں۔‘‘
(البدایہ والنہاےۃ،ج:۷،ص:۳۹)
ہم نے البداےۃ سے یہ طویل اقتباس دوباتیں سامنے لانے کے لیے پیش کیاہے:
ایک یہ کہ اسلام میں صلہ رحمی کا دائرہ پوری نوع انسانی پر پھیلا ہوا ہے۔
دوسری اہم بات وہ ہے جس کا اعلان حضرت ربعی بن عامرؓ نے کیاہے یعنی امت مسلمہ کی ’’بعثت‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ وہ خداکے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالے اوراسلام کا نظام عدل قائم کرے تاکہ ظلم وجورکی ماری ہوئی دنیا عدل وانصاف کے سایہ میں امن وسکون سے رہ سکے۔
یہی عادلانہ نظام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ قیادت اورصحابۂ کرامؓکی۲۳؍سالہ جاں فشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،جسے خلافتِ راشدہ کا نام دیاگیاہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کا محافظ ادارہ کہہ سکتے ہیں۔
جذبہ دعوت
جذبہ دعوت سے مرادیہ ہے کہ مسلمان دعوتِ اسلام کو قولاً اورعملاً وطنی بھائیوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپنے اندر سچا جذبہ پیداکریں اورعملاً اس پر کاربند ہوجائیں۔ ان کے دوستانہ اور خیرخواہانہ تعلقات وطنی بھائیوں سے قائم ہوں ۔ وہ کوشش کریں کہ خاندانی سطح پر بھی وطنی بھائیوں سے ان کے روابط ہوں۔ دعوت کی گفتگو اوردعوتی کام محض زبان کا مشغلہ بن کر نہ رہ جائے۔ دعوت کا کام ان کی پوری عملی زندگی پر چھاجائے۔ ان کی تمام سرگرمیوں اورجدوجہد کا مرکز ومحور کارِدعوت بن جائے ۔ جذبہ دعوت اوردعوت کی عملی جدوجہد میں مسلمان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سرگرم عمل ہوں۔ زندگی کے آخری سانس تک دعوتی کام ان کے قلب میں موجزن رہے۔ دعوت محض فکر وخیال کی چیز نہ ہو بلکہ اسے فریضہ سمجھ کر انجام دیں۔
جذبہ دعوت کا محرک رضائے الٰہی اورفلاح آخرت کا حصول ہے۔ یہ محرک صرف اس مادی دنیا تک ہی نہیں بلکہ موت کے بعد ابدی زندگی اوراس میں کامیابی کی ضمانت دیتاہے۔
مسلمان کی شناخت ایک داعی جماعت کی بنے۔ ایک ایسی جماعت جو خدا پرست اورخدا ترس ہو، اور خداکے بندوں سے بے پناہ محبت کرنے والے افراد پر مشتمل ہو۔ یہ داعی جماعت انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا بے پناہ جذبہ اور تڑپ اپنے اندررکھتی ہو۔
جذبہ دعوت کن کے اندرپیداکر نا ہے؟
l اپنے اندر
l اپنے اہل خانہ اورخاندان کے اندر
l مسلمانوں کے اندر
lمسلم تنظیموں/اداروں/جماعتوں کے قائدین، کارکنان اوروابستگان کے اندر
l قبول حق کرنے والوں کے اندر
جذبہ دعوت اوردعوتی کام کیوں ضروری ؟
مسلمانوں کا منصبی فریضہ کارِدعوت ہے۔ کارِ دعوت کو زندگی کا مشن بنانے کے لیے جذبہ دعوت کا ہونا اوردعوت کے لیے عملی جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے جذبہ دعوت اوردعوتی کام کا فطری ذوق ہونا چاہیے۔ کاردعوت کی ذمہ داری قرآن وحدیث کی تعلیمات ،اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرامؓ کی مبارک زندگیوں سے ثابت ہے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کی بعض آیات کے ترجمہ پر غورکیجئے:
’’اوراسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وسط بنایاہے۔ تاکہ تم سارے انسانوں کے لیے دین حق کے گواہ بنواورہمارے رسول تمہارے لیے گواہ ہوں۔ ‘‘ (سورہ بقرہ:143)
’’تم وہ بہترین امت ہوجوسارے انسانوں کے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘(آل عمران:110)
’’اس نے تمہیں منتخب فرمایالیاہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ پیروی کرواس دین کی جوتمہارے باپ ابراہیمؑ کا دین ہے۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اوراس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہواورتم لوگوں پر ‘‘(الحج :78)
اس عنوان ن پر قرآنی آیات بہت زیادہ ہیں بطورنمونہ چندآیات کے ترجمے درج کئے گئے۔
دعوت کی عظیم ذمہ داری کا احساس اور اللہ کے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی تڑپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدرتھی۔ اسے قرآن ہی کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں:
’’لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں ،تمہارا گمراہی میں پڑنا ان پر انتہائی شاق ہے۔ تمہاری ہدایت کے وہ انتہائی حریص ہیں اور مومنوں کے لیے انتہائی شفیق اور مہربان‘‘۔ (توبہ: ۱۲۷؍۱۲۸)
’’پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جان ان لوگوں کی خاطرغم وافسوس میں نہ گھلے ‘‘۔ (فاطر: ۸)
’’شاید اس رنج وغم میں آپ اپنے کو ہلاک ہی کرڈالیں گے۔ اگریہ لوگ اس کلام ہدایت پر ایمان نہ لائیں۔‘‘ (کہف:6)
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’آپ صرف اتناکہہ کرنہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اورہم نے خداکو اوراس کے دین کو مان لیا۔ بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدااوراس کے دین کو اپنا دین مانا ہے۔ تواس کے ساتھ آپ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ جن کا شعور آپ کو ہوناچاہیے اور جن کے اداکرنے کی فکر آپ کو ہونی چاہیے۔ اگر آپ انہیں ادا نہ کریں گے، تواس کے وبال سے دنیا میں چھوٹ سکیں گے اورنہ آخرت میں ۔ وہ ذمہ داریاں کیا ہے ؟ وہ صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ خداپر ،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر،اس کے رسولوں پر اوریوم آخرت پر ایمان لائیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نماز پڑھیں ،روزہ رکھیں،حج کریں اورزکوۃ دیں۔ وہ صرف اتنی بھی نہیں ہیں کہ آپ نکاح،طلاق،وراثت وغیر ہ معاملات میں اسلام کے مقررکیے ہوئے ضابطے پرعمل کریں بلکہ ان سب کے علاوہ ایک بڑی اوربہت بھاری ذمہ داری یہ عائدہوتی ہے کہ آپ تمام دنیا کے سامنے اس حق کے گواہ بن کر کھڑے ہوں جس پرآپ ایمان لائے ہیں۔ مسلمان کے نام سے قرآن میں آپ کو ایک مستقل امت بنانے کی جوواحدغرض بیان کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ تمام بندگانِ خداپر شہادت حق کی حجت پوری کریں۔ قرآن مجید میں ارشادہے:
’’اوراسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایاہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہواوررسول تم پر گواہ ہوں۔(بقرۃ:143)
یہ آپؐ کی امت کا عین مقصدوجودہے جسے آپ نے پورانہ کیا توگویااپنی زندگی یوں ہی بے کار گنواں دی، یہ آپ پر خداکا عائدکیاہوا فرض ہے کیوں کہ خداکا یہ حکم ہے کہ
’’اے لوگو!جوایمان لائے ہو خداکی خاطراٹھنے والے اورٹھیک ٹھیک راستے کی گواہی دینے والے بنو‘‘۔ (مائدہ:8)
اوریہ صرف حکم ہی نہیں بلکہ اس کی تاکیدکی گئی ہے، کیوں کہ اللہ تعالی فرماتاہے :
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم اورکون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو،اوروہ اسے چھپائے ‘‘(بقرۃ:140)
پھراللہ تعالی نے آپ کو یہ بھی بتادیاہے کہ اس فرض کو انجام نہ دینے کا نتیجہ کیاہے؟ آپ سے پہلے اس گواہی کے کٹگھرے میںیہودی کھڑے کیے گئے تھے مگرانھوں نے کچھ تو حق کو چھپایا اورکچھ حق کے خلاف گواہی دی اورفی الجملہ حق کے نہیں بلکہ باطل کے گواہ بن کر رہ گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے انھیں دھتکاردیا اوران پر وہ پھٹکارپڑی کہ ’’ذلت وخواری ، پستی وبدحالی ان پر مسلط ہوگئی اوروہ اللہ کی غضب میں گھرگئے۔‘‘(بقرۃ:61)
قرآنی آیات کے بعد چند احادیث پر غور فرمائیے:
’’میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ تمہیں ایک آیت پہنچی ہو۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے :
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے ،اس امت میں سے جوشخص بھی چاہے یہودی ہو یا عیسائی میری دعوت کو سنے اور اس دن پر جسے دے کر میں بھیجاگیا ہوں ایمان لائے بغیرمرجائے وہ یقیناًدوزخی ہوگا۔‘‘
یعنی قیامت تک دنیا کے تمام انسان خواہ ان کا تعلق کسی بھی عقید ہ اورمذہب سے ہو ایک اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں داخل ہیں،مسلمانوں پر اتنی بڑی اورعظیم ذمہ داری ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں تک دعوت پہنچائیں تاکہ وہ سن کر اور سمجھ کراپنی آزادانہ مرضی سے قبول کریںیا انکار۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے فرمایاتھا:
’’اے لوگو! خدائے برتر نے مجھے تمام عالم کے لیے رسول اورپیغمبررحمت بناکر بھیجاہے۔ میں پوری دنیا کے لیے خداکا رسول بنا کر بھیجاگیاہوں، اس لیے رب السموات والارض کا پیغام تمام دنیا تک پہنچادینا چاہتا ہوں تاکہ خداکی حجت پوری ہوجائے ،دعوت ربانی اورپیغام الٰہی سے کائنات کی کوئی جماعت محروم نہ رہے ۔جاؤخداکے بھروسے پر دنیا کے بادشاہوں کو اسلام کاپیغا م سنادو۔ دیکھو تمہارا وجود اور تمہاری زندگی اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے وقف ہوناچاہیے خداکی جنت اس شخص پر حرام ہے جو لوگوں کے معاملات میں توشریک رہتاہے اوران کو اچھے کاموں کی نصیحت اورتلقین نہیں کرتا۔‘‘
مشکوۃ کی ایک حدیث ہے، رسول ؐ نے فرمایا:
’’میں تمہاری طرف خاص طورسے اوردوسرے انسانوں کی طرف عمومی حیثیت سے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں اورایک سخت عذاب سے اوردوزخ سے ڈرانے والا ہوں۔‘‘
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشادہے:
’’میں نے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ فرائض عائد کیے ہیں جو نبیوں اوررسولوں پر عائد کیے تھے۔ ‘‘(وہب بن منبہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پرسوزپیغمبرانہ کوششوں اورگمراہ بندوں کی احمقانہ حرکتوں کو ایک بلیغ تمثیل میں یوں بیان فرمایاہے:
’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اورجب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا توکیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اوروہ شخص پوری قوت سے ان کیڑوں پتنگوں کو آگ سے روک رہاہے۔ لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوششوں کو ناکام بنائے دے رہے ہیں اورآگ میں گررہے ہیں۔ (اسی طرح )میں تمہیں کمرسے پکڑپکڑکر آگ سے روک رہاہوں اورتم ہو کہ آگ میں گرے پڑرہے ہو۔
(داعی اعظم ص:51-50)
اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دین کی ذمہ داری کے بارے میں سمجھاتے ہوئے کہا: ’’آپ کو ہم نے محض اس لیے بھیجاہے کہ آپ انجام نیک کی خوشخبری سنائیں اورانجام بد سے ڈرائیں ۔‘‘ (فرقان:56)
لیکن ان تمام تسلیوں کے باوجودآپ کا حال یہ ہے کہ آپ خداسے بھٹکے ہوئے نادان انسانوں کی ہدایت کے لیے گھلے جاتے ہیں اور آپ کے فکرواضطراب میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ گمراہی سے بچانے اورہدایت کی طرف بلانے کا شوق ،تڑپ اورولولہ اس حدتک بڑھاہواہے کہ حضرت ابوہریرۃؓ کی روایت کے مطابق جب آپ اپنے چچاابوطالب کو بسترمرگ پر دیکھتے ہیں، تواحساسِ فرض اورشوقِ ہدایت سے بے تاب ہوکر سوزمیں ڈوبی ہوئی ،دلگیر آوازمیں دھیرے سے کہتے ہیں:چچاجان آپ اب بھی کلمہ توحیدپڑھ لیجئے ،میرے کان ہی میں آہستہ سے کہہ دیجئے ۔اگرآپ اس وقت بھی کلمہ توحیدکا اقرارکرلیں تو خداکے حضورمیں بھری عدالت میں آپ کے ایمان کی گواہی دوں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری حج کے موقع پر عرفات کے میدان میں اونٹنی پر سوارہوکر تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے عظیم اجتماع کو یقین واذعان اورجوش وجذبے کی پوری قوت سے خداکے احکام بتاتے اورہدایتیں دیتے ہیں، لیکن ذمہ داری کے احساس کا یہ حال ہے کہ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ کل قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھاجائے گا (کہ میں نے خداکا پیغام تم تک پہنچادیایا نہیں؟)لوگو!ذرامجھے جواب دواس وقت تم کیاکہوگے؟‘‘مجمع نے ایک آواز ہوکرکہا’’خداکے رسولؐ ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ؐ نے خداکا پیغام پہنچادیا۔آپؐ نے رسالت کا حق ادا کردیا۔ آپؐ نے کھرے کھوٹے کی خوب خوب نصیحت فرمادی ۔ ‘‘ مجمع کی اس اجتماعی شہادت اورفضا کو لرزاں کر دینے والی اجتماعی آواز سے بھی آپ کو تسکین نہ ہوئی اورآپ ؐ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے لوگوں کی طرف جھکائی اورفرمایا: خداتواپنے بندوں کی گواہی پر گواہ رہنا ،پھرفرمایا:خدایاتواپنے بندوں کی گواہی پر گواہ رہنا۔ پھرتیسری بارفرمایا: خدایاتواپنے بندوں کی گواہی پر گواہ رہنا۔خدایایہ صاف صاف اقرارکررہے ہیں کہ میں نے ٹھیک ٹھیک تیرادین لوگوں کو پہنچادیا‘‘۔
اورایک بار آپ کو احساسِ فرض نے پھرجھنجھوڑا کہ نہ معلوم امت کے کتنے افرادیہاں موجودنہ ہوں اوران تک آپ کی بات نہ پہنچ سکے توآپ نے حاضرین کو وصیت فرمائی :’’جولوگ یہاں موجودہیں ان کا فرض ہے کہ ان تمام لوگوں کو جویہاں موجودنہیں ہیں ،میری باتیں پہنچادیں۔‘‘
اوریہ آپ کے اسی شدت احساس کا نتیجہ ہے کہ چودہ سوسال سے برابریہ پیغام ان کروڑوں انسانوں کو برابرپہنچ رہاہے جو اس دن عرفات میں موجود نہ تھے۔
(دعوت کی )ذمہ داری کے شدیدترین احساس کی جومثال محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی اس سے پہلے نہ آسمان نے کبھی دیکھا اورنہ اولاد آدم نے کبھی سنا اورنہ آئندہ اس کی توقع ہے۔(داعی اعظم ؐص: 57-56)
قرآن کی ان آیات ،احادیث رسول اوراسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح ہے کہ فریضہ دعوت اصلاً اللہ تعالی کا حکم ہے اوراپنی امت کو رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھرپور تاکید کی ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ صحابہ کرامؓ ،تابعین اور ہمارے اسلاف نے اس حکم پر کس طرح عمل کیا اور دعوت کی راہ میں کیسی کیسی قربانیاں دیں۔
ایک اہم پہلو
جذبہ دعوت اوردعوتی جدوجہد کی ضرورت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج کے دور میں تعارف اسلام اور غلط فہمیوں کو دور کرنا نہایت ضروری ہے۔ کیوں کہ قومی سطح پرمیڈیا، اسلام دشمن عناصراورمختلف ذرائع سے اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں مسلسل غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہیں۔ اس کی وجہ سے وطنی بھائیوں اورمختلف طبقات کے سامنے اسلام کی شبیہہ اچھی نہیں بن رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں کیاکرنا چاہیے۔ ایسے حالات میں ہم اگر اسلام کی دعوت دینے اور اسلام کے پغام کو عام کرنے کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوتے تو یہ انتہائی بے غیرتی اوربے حمیتی کی بات ہوگی۔ کیاہم اپنی شخصی اورخاندانی زندگی میں ایسی صورت حال کو لمحہ بھر برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں؟ ہر گزنہیں، تو یاد رکھئے! اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو برادران وطن کے سامنے مثبت انداز میں پیش کرنا ضروری ہے، تاکہ ان کی غلط فہمیاں اوربدگمانیاں دور ہوں۔یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ ہمارے اندرجذبہ دعوت بیدارنہ ہو اورہم دعوت کودینی فریضہ نہ سمجھنے لگیں۔
کتمان حق سے بچنا ضروری
آج دنیا میں صرف مسلمان ہی وہ گروہ ہیں جس کے پاس خالص حق پایاجاتاہے۔ مسلمانوں کے علاوہ دنیا کی تمام قومیں بالخصوص اس ملک کے باشندے دینِ حق سے محروم ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان نہ تو اپنی اس حیثیت کا شعور رکھتے ہیں، اور نہ یہاں کے باشندوں کے بارے میں صحیح طور سے واقف ہیں۔ ان سب کو اللہ تعالی نے دیگرانسانوں کی طرح دین حق کی فطرت پر پیدا کیا، یہاں کے وطنی بھائی دین حق سے محروم ہیں لیکن متنفرنہیں ہیں، کیوں کہ ان کی اصلی فطرت شرک اورکفرکے باوجود پوری طرح مسخ نہیں ہوئی ہے۔ اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ ان کے اندربے شمار روحیں دین حق کی تلاش میں ہیں۔ دین حق کا تعارف سامنے آتے ہی وہ اپنی فطرت کے اس مطالبے کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح کوئی باپ اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے۔ اس لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ دین حق کو چھپایانہ جائے، اور اس میں مداہنت نہ برتی جائے بلکہ دین کا مکمل اورجامع تعارف ان کے سامنے لایاجائے نیزقبولیت حق کے لیے ان کو دعوت دی جائے ۔ مسلمانوں کے پاس یہ بہت بڑی امانت ہے جسے ان تک پہنچانا امانت داری کا تقاضا ہے، اگرمسلمان اس ذمہ داری کوادا کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے توپھر ان تک دین حق آخر کون پہنچائے گا؟ اس کام کے لیے آسمان سے فرشتوں کی جماعت تونہیں آئے گی یاکوئی اورنئی مخلوق تو پیدانہیں ہوگی۔ خلاصہ یہ کہ مسلمان جتنی جلد اس ذمہ داری کواداکرنے کے لیے تیارہوں گے، ان کے حق میں اتناہی اچھاہے ورنہ وہ کتمان حق کے مجرم قرارپائیں گے۔اگرمسلمان اسلام کی عالمگیر اور آفاقی حیثیت ،اس کے مکمل نظام حیات اورمسائل کا واحد حل ہونے کی حیثیت کو غفلت، مرعوبیت، یا احساس کمتری کی بناء پر وطنی بھائیوں سے چھپاتے ہیں توجرم عظیم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ قرآن کی درج ذیل آیات پر غورفرمائیں:
’’جولوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں ،درآں حالانکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں، تویقین جانوکہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتاہے اورتمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ جواس روش سے بازآجائیں اوراپنے طرز عمل کی اصلاح کرلیں اورجوکچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں ،تو ان کو میں معاف کردوں گا اور میں بڑادرگزرکرنے والا اوررحم کرنے والاہوں‘‘ (بقرہ:160-159)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کو بغیرکسی کمی بیشی کے انسانوں تک پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے ،لیکن جودین آپ کو خداکی طرف سے ملاتھا وہ جوں کا توں باقی ہے اورقیامت تک باقی رہے گا۔اب یہ اس دین کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے دنیاوالوں کے سامنے پیش کریں۔ اگروہ اس فرض کوادارکرہے ہوں توخداکے محبوب ٹھہریں گے اوراگراسے انھوں نے بھلادیاہے توخداکی پکڑسے کوئی چیزانھیں بچانہیں سکتی۔ قرآن مجید نے صراحت کی ہے کہ شہادت علی الناس کی ذمہ داری محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی امت پر رہے گی اوراسے وہ کام انجام دینا ہوگا جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیاہے ۔ آپ نے جس طرح امت کے سامنے اللہ کے دین کی شہادت دی اسی طرح اس امت کودوسروں کے سامنے اس کی گواہی دینی ہوگی:
وکذالک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا۔(بقرہ:143)
’’اوراس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایاہے تاکہ تم لوگوں پر(حق کے)شاہدبنواوررسول تم پر شاہد بنیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ قوموں کی قسمت اس امت سے وابستہ ہے۔ وہ دین کی شہادت کا فرض انجام دے کران کی ہدایت کا سامان فراہم کرسکتی ہے۔ اس سے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگی اورخداکے یہاں بے پایاں اجروثواب کی مستحق ٹھہرے گی لیکن اگراس نے اس سے غفلت برتی تودنیا بھر کی گم راہی کے لیے اس سے بازپرس ہوگی، اورڈرہے کہ بڑی سخت بازپرس ہوگی لیکن افسوس کہ امت اپنی اس عظیم ذمہ داری کوبھول چکی ہے، شاید اس کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔
ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے بارے میں ارشادفرمایا:
انتم شہداء اللہ فی الارض۔ (بخاری ومسلم)
’’تم زمین میں خداکے گواہ ہو۔‘‘
یہ اس بات کا اعلان ہے کہ یہ امت خداکی طرف سے حق کی شاہد ہے، یہ اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ لوگوں کو بتائے کہ کون سی راہ خداتک پہنچانے والی ہے اورکون سی راہ خداسے دورکرنے والی ہے، حق کیاہے اورباطل کیا ہے؟ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اورکس نے ضلالت کی راہ اختیارکررکھی ہے؟
یہ امت خداکے دین کی امین ہے ،کیوں کہ خداکے آخری رسولؐ نے اس کے دین کواسی امت کے حوالے کیاہے۔ اسی کی ذمہ داری ہے کہ اس دین کودوسروں تک پہنچائے۔ اگراس نے یہ کام نہ کیاتوپھر دنیا میں یہ کسی طرح انجام نہ پاسکے گا۔ یہی بات ہے جسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایاتھاجب مشرکین مکہ اس امت کو ختم کرنے کے ارادے سے میدان بدرمیں جمع ہوئے تھے:
’’اے اللہ اگراہل اسلام کا یہ گروہ ختم ہوجائے گا توپھر زمین میں تیری پرستش نہ ہوگی‘‘(مسلم)
آپ خداکے نزدیک صرف اسی وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش قرارپائیں گے جب آپ دنیا سے اس حال میں جائیں کہ خداکے بندوں تک اس کا پیغام پہنچاچکے ہوں۔ اِس وقت دین حق صرف آپ کے پاس ہے، اگرآپ نے اِس کی شہادت نہ دی تو دنیا ہمیشہ کے لیے اِس سے محروم رہے گی اوراِس محرومی کا وبال آپ کو اٹھاناپڑے گا۔ ایسی شکل میں قیامت کے روزخدائے تعالیٰ آپ کے بارے میں دنیا والوں سے پوچھے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس میرانازل کردہ دین تھا، اورجومیری ہدایت کے حامل تھے۔ انھوں نے اس سے تمہیں آگاہ کیاتھا یا نہیں؟آپ کی غفلت کی وجہ سے دنیا والے یہی جواب دیں گے کہ خدایاتیرے دین کے حامل سوئے ہوئے تھے اورہمیں گمراہی میں چھوڑرکھاتھا۔ انھوں نے ہمارے ساتھ خیرخواہی نہیں کی اورتیرادین ہم تک نہیں پہنچایا۔ آپ کے بارے میں ان کا یہ جواب بالکل صحیح جواب ہوگا، اس سے آپ پرانسانیت کوتباہ کرنے کا الزام ثابت ہوجائے گا اورآپ کسی طرح اپنے اس جرم کوچھپا نہیں سکیں گے۔ پھر بتائیے وہ کون سی چیز ہے جوآپ کواس وقت خداکی گرفت سے محفوظ رکھے گی۔ آج آپ کو اپنے اس جرم کی سنگینی کا احساس نہیں ہے ،ورنہ آپ کی راتوں کی نینداڑجاتی اوردن کا سکون ختم ہوجاتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی ہراس شخص سے جواس کی وفاداری کا دعوی کرے یہ کام لیناچاپتا ہے کہ وہ گمراہ انسانوں کواس کی راہ دکھائے۔اس لیے اسلام قبول کرنے کے بعد یہ ہماری اورآپ کی مستقل ذمہ داری ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچائیں، اس احساس سے ہمیں شب وروزبے چین رہنا چاہیے کہ انسان خداکی ہدایت کے تابع ہوجائے ۔دعوت کا کام ٹھیک اسی ڈھنگ سے انجام پاسکتاہے جس طرح خداکے پیغمبروں نے اسے انجام دیاہے۔ اس کے لیے وہی خلوص ،وہی محبت اوروہی دردمندی چاہیے جوخداکے پیغمبروں میں ہوتی تھی۔ اسے ہماری زندگی کا بہترین مصرف اورہماری جدوجہدکا حقیقی مقصدبن جانا چاہیے۔ اس وقت دنیا اپنے تاریک ترین دورسے گزررہی ہے۔ آئیے اسے خداکے نورسے روشن کردیں۔ لیکن یہ کام صرف فرصت کے اوقات میں کرنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ کام ہمارا پورا وقت اورہماری پوری توجہ چاہتاہے۔ اس کے لیے ہم اپنے دوسرے کاموں کوچھوڑدیں لیکن دوسرے کسی بھی کام کے نتیجے میں اسے غافل نہ ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس کام کو ہم جواہمیت دیتے ہیں ،اس کے لیے اتنی ہی تگ ودوکرتے ہیں۔ اگردعوت کایہ کام ہماری تمام مصروفیات میں مقدم ہے تواس کا مطلب ہے کہ ہم اس سے غافل نہیں ہیں۔ لیکن اگردوسری مصروفیات نے ہمارے اوقات کواس طرح گھیررکھاہے کہ ہم اس کام کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتے تویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔(اسلام کی دعوت، ص:62-63)