انسان کی اندرونی کیفیت کا نام جذبہ ہے۔ اسی پر فرد یا قوم کی ترقی اور تنزلی کا دارو مدار ہوتا ہے۔
جذبوں کا اتار چڑھاؤ انسانی رویے،سوچ اور اندرون میں ہونے والی ہلچل پر منحصر ہے، وہ فروغ پاتے
ہیں جب زمانہ سے ہم آہنگ رہے اور کبھی سرد ہوجاتے ہیں جب سوچ کو بلندی نہ مل سکے،گویا جذبات
ایک سیل رواں،ایک موج رواں،ایک تابندہ کرن کی طرح انسانی جسم میں پنپنے والی صلاحیت کا نام ہے،
جو انسانی وجود کو متحرک رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ یہی جذبے تو ہیں جن سے معرکے سر کیے جاتے
ہیں ۔جذبے جب جسم میں خون کی طرح دوڑنے لگتے ہیں تو عالم یہ ہوتا ہے کہ بستر مرگ پر پہنچ کر
بھی بندے کو قرار نہ آئے، اور وہ ان جذبوں کو اپنے چہیتوں میں منتقل کرنے کے لیے بے قرار ہوکر
پوچھنے لگے کہ ‘ما تعبدون من بعدی’ ، ‘تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟’۔یہ سوال تو ان لبوں پر آتا
ہے جن کو سچے جذبے سینہ بہ سینہ منتقل کرنے کی روایت آخری دم تک بے چین رکھتی ہے۔ سراقہ اپنا
گھوڑا سرپٹ دوڑاتے رسول خدا کو گرفتار کرنے دوڑے تو اس کے پیچھے جذبہ ہی کارفرما تھا قطع
نظر اس سے کہ وہ کس غرض کے لیے تھا۔ اسلامی تحریکات میں سچے اور مخلص جذبے انقلاب کی
راہیں ہموار کرتے ہیں۔
سچے جذبے عمل میں ڈھلتے ہیں
مرد یٰسین کا وہ جذبہ جو اسے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے آتا ہے ، قرآن اس جذبہ
سیل رواں کو خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان کرتا ہے کہ گویا ایک تصویر کھینچ کر رکھ دی گئی ہو،’و
جاء من اقصیٰ المدینۃ رجل یسعی قال یا قومی اتبعوا المرسلین اتبعوا من لا یسئلکم اجر و ھم مھتدون’ (سورہ یٰسین)
آیت مذکورہ میں دو جذبوں کا ذکر ہمیں ملتا ہے ۔ایک جذبہ ایمانی اس مرد یٰسین کاجو دوڑ ک
قوم کے پاس پہنچا اور دوسرے پیغمبر علیہ السلام کا بے غرض و بے لوث جذبہ، ‘من لا یسئلکم اجر و ھم
مھتدون’، “جس ہدایت کی جانب وہ تمہیں بلاتے ہیں کوئی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے”۔
بندہ جس حق کو تسلیم کرتا ہے اس کے دل میں اس بات کی خواہش کہ اس چراغ سے دوسرے چراغ
روشن ہوجائیں ،یہ آرزو کہ اس حق کے لیے میرے لہو کا آخری قطرہ بھی وقف ہوجائے ،یہ تمنا کہ اس
حق کی وفاداری میں میری صبح شام گذر جائے، یہ جذبے سمندر کی مانند وسعت ،خاموشیاں
،گہرائیاں،موج رواں اور فراست و حکمت کے موتیوں کو سیپ کی طرح رولنے کی صلاحیت سے
مزین ہوتے ہیں ۔
رواں و متحرک جذبے
قرآن انسانی وجود میں جذبوں کی روانی پسند فرماتا ہے ”والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنو و
عملوا الصا لحات”۔۔۔۔۔۔۔الآخر، بندہ مومن کو یہاں ایمان ،عمل صالح ،تواصی حق کے ذریعہ ایک کامل مشن
پر لگ جانے کی تلقین کی گئی ہے اور قرآنی اسلوب نے زمانہ کی گواہی کے ذریعہ اس مشن میں بڑی
معنویت و اہمیت پیدا کردی ہے۔
وہ زمانہ،جس کا نام ہی گردش ہو جو ہر گزرتے لمحے پر بندے کو پیغام دیے جاتا ہے کہ تھمنے والوں کا
میں ساتھ نہ دے سکوں گا،رک جانے والوں کو مزید پیچھے دھکیل دوں گا،میں گزرتے ہوئے ہر زاویہ پر
نئی سوچ کی تشکیل کرنے والے،نئے راستے بنانے والے،نیا سورج اگانے والے، نئی صبح کے
متلاشی،امکانات کی دنیا میں جینے والے اور ہر نئی تبدیلی اور نیا چیلنج قبول کرنے والوں کو ساتھ ساتھ
لیے چلتا ہوں۔ چنانچہ میرے ساتھ چلنے والے زمانہ شناس ہوتے ہیں ، زمانے کے خسران سے بچاؤ کے
تقاضے اس چھوٹی سورۃ میں قید کردیے گیے اور وقت کی لگام تھام کر ایمانی اسلحہ سے لیس ، پیہم و
جاوداں زندگانی کا درس اس میں پوشیدہ ہے ۔
توانائی سے بھرپور جذبے
گردش زمانہ جذبوں کو ہر دور میں نیا چیلنج عطا کرتا ہے ، لگن و جستجو ،یکسوئی اور تیز گام جذبے
چیلنج کو فوراً قبول کرلیتے ہیں۔ پھر ان کو کسی کام کی طوالت بوجھل نہیں کرتی،منزل دور بھی ہو تو وہ
جذبے تحریک کی جان ہیں
تحریکات سرگرم جذبے اور جلا بخشنے والے جذبوں سے زندہ رہتی ہیں،اسی لیے قائد تحریک معلم اعظم
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دور رس نگاہ نے حضرت عمر ابن خطاب کے وجود میں
موجزن جذبے کو تحریک کا حصہ بننے کے لیے اپنے رب کے سامنے دست سوال دراز کیا اور پھر دعا
کے قبول ہوتے ہی اس جذبہ عمرؓ نے وہ جوہر دکھائے جو تاریخ میں جلی حروف سے لکھے گئے۔ معاذ
اور معوذؓ اسلام کے ننھے سپاہی جہاد کے لیے مصر ہوئے تو سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کے
ننھے جسموں میں مچلتے جذبات کی قدر کی اور شرکت کی اجازت دے دی ،ان معصوم جسموں میں توانا
جذبے موجود تھے اسی لیے دشمن خدا ابو جہل ان کے ہاتھوں سے تہہ خاک ہوگیا ۔
جذبے منتقل ہوتے ہیں
جذبات کا تعلق جسم میں دوڑنے والے خون اور پانی جیسا ہے ۔اور سوچ و فکر سے اسے غذا ملتی ہے،
اسی لیے اکثر نسلوں کے لیے سرمایہ بن کر منتقل ہوتے ہیں۔ ہم نے جس مشن کو حرز جاں بنایا ہے
جس مشن کے لیے سرگرم عمل ہے اس کے جذبے ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگیں تو آنے
والی نسلیں اس تھرکتی لو کو زندہ رکھنے کی تدبیریں کرنے لگتی ہیں ،نسلوں میں یہ لگن محض جذبوں
کی تپش سے پروان چڑھتی ہیں ۔
جذبوں کو لاحق خطرات
ہنگامہ آرائی اور جلد بازی جذبوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، خدائی نظام میں ہر چیز اپنے طے شدہ مراحل
سے گذر کر ہی تکمیل پاتی ہے۔ پودا درخت بننے کے لیے کئی مراحل طے کرتا ہے،کھیتیاں فصل تیار
کرنے میں طویل مراحل سے گذر کر برگ و بار لاتی ہیں،انسانی وجود بھی اپنی تخلیق کے مراحل طے
کرتا ہوا نمو پاتا ہے۔ گویا زمین کا سارا نظام ترتیب،مراحل اور یکسوئی کے ساتھ گذرنے کا نام ہے۔ انسان
کو جلد بازی نہ صرف نقصان پہنچاتی ہے بلکہ مایوسیوں کا راستہ دکھاتی ہے۔ ہمیں تو جس کام کے لیے
اپنے آپ کو لگانا ہے وہاں ان ستاروں کی مانند بننا ہوگا جو راہ چلتے مسافروں کو روشنی بانٹنے کے
لیے اپنے وجود کو وقف کردیتے ہیں ۔اس کام کے لیے وہ اول دن سے لےکر اپنے وجود کے مٹنے تک
لگے ہوئے ہیں ،نہ ہی کسی قسم کی اکتاہٹ اور نہ کسی ٹال مٹول کا امکان، بس جذب باہمی کے ساتھ
اپنے وجود سے فیض پہنچا رہے ہیں ،انسانوں کی جماعتیں ستاروں کا وجود رکھتی ہیں ،ان کے جذبے
ٹمٹماتے چراغ ہوتے ہیں ، جذبوں کی توانائی سفر کی دشواریوں اور صعوبتوں سے کمزور نہیں پڑتی،
تھکن ان کو مزید تیز گام کرتی ہے، گر انھیں راستے میں ہی ابدی دنیا کا بلاوہ آجائے تو وہ اس امید پر
آنکھیں بند کرتے ہیں کہ۔۔۔۔ بیج تو ہم نے بو دیا زمانہ فصل کاٹے گا۔۔۔
پھر آخرت میں لہلہاتی کھیتیاں ان کا انتظار کررہی ہوں گی۔ یہی اصل کامیابی اور سچے جذبوں کی پہچان ہے۔
مایوس نہیں ہوتے ،رات کی تاریکی صبح کا یقین تیز کردیتی ہے، وہ اس چھوٹی سی چڑیا کے مانند نظر
آتے ہیں جو لگن کے ہاتھوں ایک ایک تنکا جوڑ کر گھونسلہ تیار کرتی ہے۔جس کی تڑپ نے تنکوں کو
جوڑ کر ایک خوبصورت گھونسلے کی شکل دے دی۔اس تڑپ اور زندہ جذبوں سے وہ خدا کے مزدور بن
کر اپنے ہاتھوں کو اس راہ میں زخمی کرتے ہیں،آبلہ پائی کے مزے لیتے ہوئے مزید آگے بڑھتے
ہیں،شب تاریک میں قندیل رہبانی تھامنے کے مشتاق ہوتے ہیں۔۔مایوس دنیا کو امید کے روشن دیے تھما
دیتے ہیں۔
عمارہ فردوس