جدید افکارونظریات کا تجزیہ: رہنما خطوط

ایڈمن

آج کل طلبہ ونوجوانوں کے درمیان بالعموم اور تنظیمی رفقاء کے درمیان بالخصوص حالاتِ حاضرہ، افکارونظریات اور معاشرہ کودرپیش مسائل پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ علم سے شغف اور…

آج کل طلبہ ونوجوانوں کے درمیان بالعموم اور تنظیمی رفقاء کے درمیان بالخصوص حالاتِ حاضرہ، افکارونظریات اور معاشرہ کودرپیش مسائل پر تبصرہ اور تجزیہ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ علم سے شغف اور علمی رجحان ارتقاء کی راہ کا ایک اہم قدم ہے۔ البتہ یہ بات عموماً پائی جاتی ہے کہ لوگ عمرانی علوم(جس کا حصہ حالاتِ حاضرہ، افکار ونظریات وغیرہ ہیں) کے تجزیہ میں نہایت بنیادی غلطیاں کرجاتے ہیں جس سے تجزیہ میں نقائص کو جگہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ غلطیاں عمرانی علوم کے عمیق اور دقیق باہمی روابط کا تدارک نہ ہونے کی وجہ سے یا انہیں سمجھنے میں غلطی کرنے سے ہوتی ہیں۔ اس مقالہ کا مقصد انہیں چیزوں کی طرف توجہ دلانا ہے۔
چند وضاحتیں:
یہاں ان بنیادی اصولوں کی وضاحت کی جائے گی جو عمرانیات کے تجزیے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ساتھ ہی وہ اصول بھی واضح کئے جائیں گے جو اسلام کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجزیے کے لیے ضروری ہیں۔ ان اصولوں کے تعلق سے عموماً لوگوں کے ذہنوں میں کوئی واضح چیزنہیں ہوتی، اگر ان کی وضاحت ہو جائے تو بہت سارے اشکالات کا سدِباب ہوجائے گا۔
ایک قانونِ فطرت:
اللہ نے مختلف انسانوں کو مختلف طبیعتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کیونکہ سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف صلاحیتوں اور قابلیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اختلافِ مزاج سماج کے متنوع کاموں میں مفید ثابت ہوتا ہے، ذوقؔ کا مشہور شعر ہے ؂
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف میں
ہر انسان ہر کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے طبیعت، صلاحیت اور قابلیت کے مطابق سماج کے کسی شعبہ کا انتخاب کرتا ہے اور اپنی لیاقت اور تجربہ کے لحاظ سے اس میں آگے بڑھتا ہے۔ ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں کوئی تعلیم کے میدان سے تعلق رکھتا ہے تو کوئی طب سے، کوئی انجینئر ہے تو کوئی مینجمنٹ کا ذوق رکھتا ہے، کوئی سائنس داں ہے وغیرہ۔ صدارتِ مملکت سے لے کر گلی میں جھاڑو دینے تک کے تمام کام، کسی بھی معاشرہ کے اہم اور ضروری کام ہیں اور کسی ایک کو بھی بے جایا افضل نہیں کہا جاسکتا۔ ہر ایک کا اپنا مقام ہے اور وہ سماجی کل کا حصہ ہے۔ اس طرح یہ فطری قانون فرد اور سماج پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جوں جوں انسانی سماج کا ارتقا ہوا، سماج نے ایک منظم اور مربوط شکل اختیار کرلی۔
کسی بھی سماج کی تین اہم شاخیں ہوتی ہیں، وہ ہیں:
۱۔ معاشرت ۲۔ سیاست ۳۔ معیشت
یہ تینوں باہم مربوط اور ایک دوسرے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی معاشرہ ٹھیک ہو اور اس کی معیشت اور سیاست خراب ہو۔ اس طرح سے کسی بھی سماج کے ارتقاء اور ترقی میں ان تینوں شاخوں کا مل کر بڑھنا ناگزیر ہے۔
سماج ایک کل ہے اور اس کی ضروریات ہوں کہ مسائل، مفادات ہوں کہ نقصانات، مواقع ہوں کہ خطرات، ان سب کا اثر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے۔ اس لئے سماجی مسائل حل کرنا کسی فردِ واحد کے بس کاکام نہیں۔ اس گفتگو سے تین نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں:
(۱) سماج کے ہر شعبہ کا اپنا مسلم مقام ہے۔ اسی طرح ہر فرد، جس کسی بھی شعبہ سے متعلق ہو، سماجی کل میں اپنا مسلمہ مقام رکھتا ہے۔ (۲) اس لئے افراد کو تخصص اور مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ (۳) ارکانِ سماج اپنے تمام معاملات باہم مشورے سے طے کریں۔
اسلامی نظام: چند وضاحتیں:
دینِ اسلام ایک الٰہی نظام اور من جانبِ اللہ ہے۔ وہی رب جو تمام کون ومکاں کا خالق، مالک اور پالن ہارہے اور جس نے قوانینِ فطرت بنائے ہیں۔ اس نے اسلام کو تمام انسانوں کی رہنمائی کا مقام اور درجہ دیا ہے۔
اس لئے دینِ اسلام ہمہ جہت، مربوط ومستند، قوانینِ فطرت سے ہم آہنگ، آفاقی اور دائمی نظامِ زندگی ہے۔ البتہ ایک نکتہ کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ الٰہی ہدایت عموماً اصول، قوانین اور ضوابط طے کرتی ہے اوراس میں کسی بھی معاملہ کی جزئیات پر بحث سے عموماً گریز کیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کے حالات اور ضروریات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ معاشرت ہو کہ معیشت یا سیا ست، ان کے دائرہ کار، قوانین اور ضوابط متعین کئے گئے ہیں اور طریقِ کار لوگوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی سماج اپنے ضروریات، حالات اور مجموعی تجربات کے مطابق، دینِ اسلام کے حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کے سلسلے میں تفصیلات متعین کرسکتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ اسلام آفاقی اور دائمی نظامِ زندگی ہے، اورپھرقیدِ زمان ومکاں سے آزاد رہنے کے لیے ضروری ہے کہ نظام میں Flexibilityہو۔ یہی امتیازی خصوصیت اسلام کو دوسرے نظریات اور نظام ہائے زندگی سے ممتاز اور قابلِ عمل بناتی ہے۔
مغربی افکار و نظریات سے متعلق وضاحتیں:
مغربی فلسفے اور نظریات نے ایک خاص پس منظر میں جنم لیا ہے، اور ان کو مغرب کے اپنے مخصوص تاریخی اور عمرانی پس منظر میں پنپنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یورپ کا نشأۃ ثانیہ صرف یورپ کا نشأۃ ثانیہ تھا،جس نے یورپ کے تاریک دور (Dark Age)کے بعد اور اس کے ردِ عمل کے طور پر جنم لیا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب دنیا بھر میں مقامی تہذیبیں(Civilizations)پھل پھول رہی تھیں۔ یہ خیال جو مغرب بہت زور و شور سے پھیلا رہا ہے اور بدنصیبی سے مغربی تعلیمی نظام کے زیرِ اثر عوام اور بعض دانشور جس کا شکار ہور ہے ہیں کہ اصل علمی، ثقافتی، فنی اور تکنیکی اقدار اور صلاحیتیں صرف یونان اور روم کی قدیم تہذیبوں میں تھیں، اور تاریک دور کے بعد جب نشأۃِ ثانیہ ہوئی تو اہلِ یورپ نے ان کی قدر کی اور ان کو اپناتے ہوئے ہر میدان میں ساری دنیا پر بازی لے گئے۔ یہ نہایت غلط، بے بنیاد اور غیر منطقی بات ہے کہ صرف قدیم یونان اور روم منبعِ علوم، فنون اور ثقافت ہیں۔ جبکہ دنیا بھر کی تہذیبوں کا مختلف میدانوں میں نمایاں Contributionہے، جو کل انسانیت کا ورثہ ہے۔ رہی بات مغرب کے غلبہ کی تو وہ مختلف وجوہات پر مبنی ہے جن پر بحث کا یہاں موقع نہیں۔
چونکہ مغربی نشأۃِ ثانیہ کی راہ میں پاپائیت حائل تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ نشأۃِ ثانیہ اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے فلسفے اور نظریات کی بنیاد Secularism (مذہب سے سماجی امور کی جدائی)یا Humanism (جس کا فلسفہ خدا اور مذہب کا انکار اور انسانی خواہشات کا فروغ ہے) پرپڑی۔
سیکولرازم اور ہیومن ازم سے دوبڑے نقصانات یہ ہوئے کہ نشأۃِ ثانیہ کے بعد جو بھی ترقی مغرب نے کی وہ:
۱۔ ٹھیٹھ مادی ہے۔ (یعنی مغربی تہذیب dichotomyکا شکار ہوگئی)
۲۔ خودغرضی اور مفاد پرستی)یعنی (Hedonism پر مبنی ہے جس سے مغربی تہذیب نفاق اور دوہرے پن کا شکار ہوگئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علوم و فنون یا ٹکنالوجی میں صرف مادی ترقی کو اہمیت دی گئی ہے چاہے روحانی طورپر کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو، اور مادی مفاد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ معدودے چند کا فائدہ ہوتا ہے، چاہے اس فائدہ کے لئے کتنوں کا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔
ایک دوسرا معاملہ یہ ہوا کہ نشأۃِ ثانیہ کے محرک مسلمان بالخصوص ہسپانیہ کی جامعات بنیں، اور ان کے اثر سے علوم وفنون اور ٹکنالوجی فروغ پائے، (لیکن) مغربی دانشوروں نے غلط نتیجہ اخذ کیا کہ سیکولرازم کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے(نہ کہ تو ہمات اور روایت پرستی سے ہٹ کر علوم، عقل اور دلائل کی طرف آنے سے)۔ اس طرح اس نے اپنی ترقی اور غلبہ کی وجہ(جس کی متعدد وجوہات ہیں) سیکولرازم اختیار کرنے کو سمجھا اور اسے اپنے تعلیمی نظام کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلا دیا۔
مغرب کے غلبہ سے جہاں مرعوبیت عام ہوئی، وہیں مغربی نظامِ تعلیم نے بھی اپنا کام پورا کیا، اورمکمل فکری، ثقافتی، معاشی، سیاسی اور سماجی غلامی کی لپیٹ میں لینے کی سعی شروع کردی۔ اس کے نتیجہ میں تین طرح کے ردِ عمل ظاہر ہوئے:
۱۔ مزاحمت
۲۔ قبولیت
۳۔ بعض افراد بظاہر تو مزاحمت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن تحت الشعور مرعوب ہونے کی وجہ سے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر اسلام کو مغربی اقدار کے سانچہ میں ڈھالنے اور مغربی افکار و نظریات کو اسلام کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مغربی افکارونظریات کی امتیازی خصوصیت (یعنی روحانی پہلو سے عاری ہونا) کاسب سے بڑا مظہریہ ہے کہ مغربی افکارو نظریات بظاہر تو خوش نما اور جاذب نظر آتے ہیں لیکن فی الواقع کج فکری، ابہام، ظلم، استبداد، استحصال اور عدمِ توازن کا مرکب ہوتے ہیں، جو الٰہی ہدایت سے لاتعلقی کا لازمی نتیجہ ہے۔ اس لئے ان افکار ونظریات کو اندھادھند اختیار کرنا اسلامی نظام کے لئے مہلک ہوسکتا ہے۔ جہاں تک ان کو ’اسلامی‘ بنانے کا معاملہ ہے تو چونکہ مغربی افکار ونظریات بنیادی سطح پر ہی غلط ہیں تو ان کی تصحیح کا کام بھی بنیادی سطح سے ہونا چاہئے۔
ایک اور بنیادی فرق جس پر توجہ ضروری ہے، وہ یہ کہ مغربی افکار و نظریات یکساں مساوات کے ذریعہ عدلِ اجتماعی قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جب کہ اسلام مجردمساوات کی نفی اور تردید کرتا ہے۔ اسلام کا اصول ہر ایک کو، جس میں روح، بدن، صلاحیتیں، جذبات اور مختلف رشتے شامل ہیں، اور رشتوں میں ایک فرد کا اپنی ذات سے، معاشرے سے، اور خدا سے رشتہ، یہ سب شامل ہیں، ان کے صحیح اور پورے حقوق دینے پر مبنی ہے۔ تو ظاہر ہے یہ کام کسی انسان کے بس کا نہیں ہے۔ اس لئے اس کا فیصلہ صرف اور صرف الٰہی ہدایت کرسکتی ہے۔ چونکہ ہر ایک کے جملہ حقوق اور ان کی ادائیگی کا معاملہ یکساں نہیں ہے، اس لئے اسلام توازن یا عدل و قسط کی بات کرتا ہے نہ کہ مساوات کی۔
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ قدروں کے مشترک ہونے کو موافقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ قدروں کا اشتراک موافقت کی دلیل نہیں ہوتا، چاہے چند اقدار ہوں یا بہت۔ اصل معیار تو بنیادی فلسفہ یا تصور ہے جس پر نظریات مبنی ہوتے ہیں۔ اگر بنیادی فلسفہ اسلام سے متصادم نہ ہو تو ایسے افکار و نظریات قبول کرنے میں مضائقہ نہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے، اسلام میں اصول اور کلیات بیان کئے گئے ہیں اور جزئیات کو لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح کوئی تصور یا نظریہ قبول کرنے سے پہلے اس کو دو سطحوں پر پرکھا جائے گا:
۱)اسلامی اصولوں سے مطابقت۔
۲) اس تصور یا نظریہ کو اپنانے کی افادیت۔ (کیا اس تصور کو اپنانے کی واقعی کوئی گنجائش یاضرورت ہے؟)
یہ اس لئے ہے کہ اسلام کا مفاد ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر ہونا چاہئے۔ جو چیز بھی اسلام یا اسلامی کاز کے لئے ضرر رساں ثابت ہو اس سے گریز کرنا چاہئے۔ اور پھر حکمت کی بات بھی یہی ہے کہ مغرب سے کسی چیز کا اندھا دھند قبول کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ جدید مغربی افکار کی بنیاد سیکولرازم، ہیومن ازم اور ہڈو نزم پر مبنی ہے۔ اس لئے احتیاط نہایت ضروری ہے۔
نظریات کے تعلق سے وضاحتیں:
جب سماج مختلف معاشرتی، معاشی، سیاسی، تاریخی اور ماحولیاتی تجربوں سے گزرتا ہے تو یہ تجربے مختلف فلسفے اور نظریات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور سماج اور اس کے اداروں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور سماجی تبدیلیوں کا محرک بنتے ہیں۔
نظریات کے چار اہم اجزا ہوتے ہیں:
۱۔ فلسفہ یا تصور ۲۔ اصول
۳۔ ادارے ۴۔ اصطلاحات
۱)تصور یا فلسفہ:یہ تجربہ کا نچوڑ یا حاصل ہوتا ہے۔ انسان تجربات کی روشنی میں نقصانات اور خطرات سے حفاظت، مواقع اور صلاحیتوں کا صحیح اور بروقت استعمال، فائدہ کو بڑھانے اور زندگی کو صحیح رخ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کوششیں تصورات اور فلسفوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔
۲) اصول: ان تصورات اور فلسفوں سے چند اصول جنم لیتے ہیں اور اس تصور اور خیال کے اظہار یا تطبیق کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
۳) ادارے: تطبیقی عمل کے چند ادارے وجود میں آتے ہیں جو طبعی) (Physical بھی ہوسکتے ہیں اور غیر طبعی(Non-Physical)بھی۔ سماج میں، تصور کی مقبولیت کے مطابق، ان اداروں کی شکل وہیئت، مقام اور اثرور سوخ طے پاتا ہے۔ یہ ادارے اور سماج باہم ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ارتقاء میں معاون ہوتے ہیں۔
۴) اصطلاحات: اصطلاحات تصور کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اس لئے ان کی خاص اہمیت ہے۔ البتہ عمرانی علوم میں اصطلاحات طبعی علوم کے برعکس (جہاں سائنسی علوم کی مناسبت سے مخصوص اور مختص الفاظ استعمال ہوتے ہیں) روزمرہ کی بول چال کی زبان سے لئے جاتے ہیں کیونکہ جن تصورات کا اظہار اور ترجمانی مطلوب ہوتی ہے ان کا لوگوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے یہاں تین باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:
۱۔ جو لفظ اصطلاحاً مستعمل ہو اس کا لغوی معنی اور عمومی مفہوم کیا ہے۔
۲۔ وہ لفظ اصطلاحاً کس معنی و مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ (جس کے تصور کی ترجمانی مطلوب ہوتی ہے)
۳۔ بعض اصطلاحات مختلف علوم میں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں(جس سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں)
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے لسانیات (Linguistics) کی ایک مستقل شاخ ہے جسے علمِ اشتقاق الفاظ(Etymology) کہتے ہیں۔ اس میں الفاظ کے معنی، مفہوم، استعمالات، تاریخی اور عمرانی پس منظر اور ارتقاء پر بحث ہوتی ہے۔
اصطلاحات میں علمِ اشتقاقِ الفاظ کا مقام اور اہمیت نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح سے غلط فہمیوں پر مبنی بحث ومباحثہ کا ایک لامتنا ہی سلسلہ جنم لیتا ہے۔ اس لئے اس علم سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ بعض کا یہ کہہ کر اصطلاحات کو مسترد کردینا کہ یہ محض لفاظی ہے، نہایت غلط ہے اور کم علمی پر دلالت کرتا ہے۔
عمرانیات کے متعلق وضاحتیں:
عمرانی علوم طبعی علوم کے برعکس ٹھوس اور پائیدار قوانین اور اصولوں پر مبنی نہیں ہیں۔ جہاں انسان کا عمل دخل ہو، وہاں انسانی رویہ(Human behaviour)کارفرما ہوتا ہے۔ انسانی رویہ، مختلف حالات میں، نئی معلومات اور تجربوں کی روشنی میں تغیر پذیر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی عمرانیات کی مختلف شاخوں کے درمیان دقیق تعلقات اور عمیق روابط مزید مشکلات پیدا کردیتے ہیں۔ اس لئے عمرانی علوم کا تجزیہ مشکل ہے، اور عرق ریزی چاہتا ہے۔
عمرانی علوم کا تجزیہ کرنے کے لئے سماجیات، تاریخ، اخلاقیات، فلسفہ، معاشیات، جغرافیہ، سیاسیات، نفسیات، نظریات، علمِ اشتقاقِ الفاظ سے واقفیت ضروری ہے اور اگر ساتھ ساتھ اس کا اسلامی تجزیہ کرنا ہو تو قرآن مجید پر گہری نظراورعلومِ اسلامیہ سے واقفیت بھی ضروری ہے۔
آخری بات:
تجزیہ اور تبصرہ کرتے وقت، مذکورہِ بالا وضاحتوں کے ساتھ ساتھ، مندرجہ ذیل اصولوں کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے تاکہ حقائق تک رسائی آسان ہو، جو تجزیہ اور تبصرہ کا حقیقی مقصد ہے۔
۱۔ علمی بنیاد: جس موضوع پر بحث ہو، خیال رہے کہ بحث کی بنیاد علم پر ہو نہ کہ سنی سنائی باتوں پر ۔
۲۔ مطالعہ: یہ مطالعہ کی بنیاد پر ہو۔ مطالعہ وسیع بھی ہو اور گہرا بھی۔ کسی بھی موضوع کا کلاسیکی ادب، معاصر ادب، جاری تحقیقات اور اس موضوع سے متعلق مختلف آراء کا مطالعہ بہت ضروری ہے قبل اس کے کہ آپ اس پر تجزیہ کریں۔
۳۔ معیار: تجزیہ کرتے وقت خیال رکھا جائے کہ وہ معیاری ہو اور مروجہ معیارات پر پورا اترے۔ تجزیہFactually accurateحقائق پر مبنی دلائل کے ساتھ اور مآخدو حوالہ جات کے ساتھ ہو۔
۴۔ توازن اور غیر جانبداری: تجزیہ نگاری کے لئے توازن اور غیر جانبداری نہایت ضروری ہے۔ انتہا پسندی یا تعصب علم ودانش کے لئے مہلک ہیں۔ توازن اور غیرجانبداری کے بغیر حقائق تک رسائی مشکل ہے۔
۵۔ حق گوئی: تجزیہ نگاری کا اصل مقصد حقائق تک رسائی ہے اور یہ حق گوئی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے عصبیت، افواہ، سنی سنائی باتوں وغیرہ سے گریز کرنا ضروری ہے
سیداحمد مذکر، چنئی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں