
بیسویں صدی کا نصف آخر عالم اسلام کے لیے ایک سنہری سوغات لے کر آیا۔ یہ دور عالم اسلام کا مغربی تسلط سے آزادی کا دور تھا۔ اس صدی کی انتہا ہوتے ہوتے اسلام جديد دنیا کے تمام علاقوں تک اپنے وجود کی دستک دے چکا تھا۔
دراصل یہی وہ دور تھا جس میں امت نے ایک طویل دفاعی پوزيشن سے ایجابی پوزیشن کی طرف کروٹ لی۔ اس سے پہلے کی تمام اسلامی کوششیں مغربی استعمار کے ردِ عمل میں کی گئی تھیں۔ جن کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ ان کا اثر زمانہ کی کروٹوں میں دب کر رہ گیا، باوجود اس کے کہ وہ تمام اصلاحی اور دفاعی کوششیں اپنے زمانے میں ایک قابل رشک اِنقلاب برپا کرنے میں بھرپور کامیاب تھیں۔
بیسویں صدی میں سیکولرازم کا بڑھتا ہوا نفوذ، کہیں لبرل تو کہیں اشتراکی نظریات سے مرعوب حکُومتیں اور دوسری جانب مسلمانوں کی تن تنہا سیاسی وحدت کا مظہر سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ اور امت کو پھر سے ایک بینر تلے جمع کرنے کی فکر، یا معروف اصطلاح میں ” خلافت کی بازیافت”، یہ اور اسی قبیل کے دیگر واقعات نے امت کی ذہنیت کو اپنے تک ہی محدود رکھا جس کے نتیجے میں بہت سی علمی وعالمی شخصيات مستقبل کے لیے اسلام کی اسٹریٹیجی کی جگہ ان زمانی مسائل سے دو چار رہیں، یہاں تک کہ زمانہ اُن سے دراز ہو گیا۔ ان تمام علما اور مردانِ حق کی خدمات کا اتنا اثر تو ضرور ہوا کہ اسلام اپنے وجود کی جنگ میں پھر سے ایک صالح نظریے کے طور پر عالمی منظر نامے پر تن تنہا سر فراز قرار پایا اور باطل نظریوں کی تاریں بکھر گئیں ۔لیکن دوسری طرف یہ ہوا کہ اسلام کے مستقبل کی اسٹریٹیجی اور اسلام جیسی بے مثال خدائی رحمت کی ارض الٰہی پر حقیقی تنفیذ وتطبیق اور اس کے لیے خطوط کاری اب تک اپنے ابتدائی مرحلہ سے تجاوز نہ کر سکی اور دنیا اس نظام رحمت کی برکتوں سے تشنہ رہی۔
اکیسویں صدی کے ظہور کے ساتھ ہی عالم اسلام میں متعدد شخصيات اسی مشن و وژن کو مطمح نظر بنا کر نمودار ہوئیں اور اسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے معتدد علمی ڈسکورسز وجود میں آئے، جن میں مقاصد ڈسکورس سب سے نمایاں ہے۔ اس ڈسکورس کی رہنمائی اور توجیہہ میں جن شخصيات نے سب سے زیادہ کوششیں اور محنتیں کیں اُن میں ایک نمایاں شخصیت ڈاکٹر جاسر عودہ کی ہے، جن کی نذر ہمارا یہ مقالہ ہے۔
پیدائش اور تعلیم
ڈاکٹر جاسر عودہ 1966ء کو مصر میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کو حفظ بسینہ کیا۔ ابتدائی تعلیم جس میں قرآن، سنت، فقہ، اصول وغیرہ مسجد الازہر قاہرہ، مصر میں حاصل کی۔ اس کے علاوہ آپ نے اسلامی اور معاصر علوم کا ایک خوبصورت امتزاج اور اصالت ومعاصرت کو ہم آہنگ کرنے کا ذوق بچپن ہی میں پیدا کر لیا تھا، جس کے چلتے آپ نے دونوں جہتوں سے درسی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے سب سے پہلے قاہرہ یونیورسٹی سے کمیونیکیشن میں بیچلر آف سائنس، پھر اسی مضمون میں ماسٹرس کیا۔ اس کے بعد آپ نے اسلامک امریکن یونیورسٹی سے اسلامیات میں بیچلر آف آرٹس کیا اور پھر اسی یونیورسٹی سے اسلامی قانون میں ماسٹرس کیا۔مزید برآں آپ نے دو بار ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ایک بار سسٹمس اسٹڈیز میں اور دوسری بار اسلامی قانون میں۔
اس کے علاوہ آپ متعدد اکیڈمک عہدوں پر فائز رہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ موجودہ اکیڈمک عہدے
- آپ عالمی امن یونیورسٹی کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ میں ایک ممتاز پروفیسر اور الشاطبی چیئر برائے مقاصد مطالعات ہیں۔
- آپ مقاصد انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔
2۔ موجودہ مشاورتی عہدے
آپ کئی علمی اداروں سے بحیثیتِ رکن وابستہ رہے ہیں۔ جن میں سے چند نمایاں نام ذیل میں مذکور ہیں:
- رکن، یورپی کاونسل برائے فتویٰ وتحقیق – (ECFR)، آئرلینڈ
- رکن، شمالی امریکہ کی فقہ کاونسل – FCNA- USA
- فیلو، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
- ایڈوائزری کاونسل ممبر، فقہ کاونسل آسٹریلیا
- رکن، مشاورتی بورڈ، انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ، انقرہ، ترکی
- بانی چیئرمین، فقہ کاونسل، کینیڈا
اس کے علاوہ دنیا بھر کی مشہور جامعات میں مدتوں آپ نے اپنی فکری توانائیاں طالب علموں کے ساتھ بحث ومباحثہ اور تحقیق وتدوین میں لگائی ہیں۔ جس میں قطریونیورسٹی، جامعہ اسکندریہ، کیمبرج یونیورسٹی، ویلز یونیورسٹی، جامعہ بیرونی دار السلام، کارتلان یونیورسٹی کینیڈا اور الفرقان اسلامک ہیریٹیج فاؤنڈیشن بہت نمایاں نام ہیں۔ آپ مشہور مجلہ “دراسات مقاصدیہ معاصره” کے صدر اعلیٰ کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔
ڈاکٹر جاسر عودہ نے تقریباً پچیس کتابیں لکھیں اور علمی وفکری مجلات اور سیمینارز کے لیے کئی سو مضامین سپرد قلم کیے ہیں۔ آپ کی متعدد کتابیں دنیا بھر کے اہل علم لوگوں نے اپنی زبانوں میں منتقل کر لی ہیں اور بہت سی علمی شخصيات آپ کی فکر کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے اپنے حلقوں میں اس کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ آپ کی نمایاں کتابیں “المنہجیہ المقاصدیہ”، “مقاصد الشریعہ – كفلسفہ للتشريع الاسلامي”، “نقد نظریہ نسخ”، “مقاصد الشریعہ دلیل للمبتدئ” اور “مراہ ومسجد” ہیں۔
اللہ کے فضل سے اُستاذ عودہ کی بیشتر کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا جس کی روشنی میں آئندہ سطور میں ہم اُن کی فکر کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور ان کی فکری نشوونما کے مختلف مراحل سے گزرنے کی کوشش کریں گے۔
فکری سفر
ابتدائی دور
جاسر عودہ کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تفصیلات معدوم ہیں یہاں تک کہ اُن کی تاریخ ولادت کا بھی کوئی مصدر پتہ نہیں دیتا۔ البتہ اُن کی درسی تعلیم کو دیکھ کر یہ اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں روایتی فکر ہی کے امین رہے ہوں گے جو اس وقت کے مصر کو اپنے آغوش میں لئے ہوئے تھی۔ روایتی فکر سے ہماری مراد وہ فکر ہے جو علوم اسلامیہ کو ایک ہی ڈگر پر جوں کا توں منتقل کرنے کو اپنی دینی ذمہ داری سمجھتی ہے اور عموماً کسی بھی طرح تبدیل منہج کو روا نہیں رکھتی، چاہے حالات کتنا ہی تقاضا کیوں نہ کر رہے ہوں۔ ہمارے اس احساس کو تقویت خود اُن کے ایک قول سے بھی ملتی ہے جس میں وہ اپنے فکری اسالیب کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ کی تقدیر کہ اس پورے سفر میں ،میں اسلام کے فہم، اس کی تدریس اور اس کی دعوت کے کئی اسالیب سے گزرا، عمر کی دوسری دہائی میں میرے اس سفر کا آغاز ہوا تو میں نہایت حرفی قسم کا تھا، اس زمانہ میں، میں نے قرآن حفظ کیا، احادیث یاد کیں، فقہی مسالک کے کچھ متون یاد کیے، منتخب عربی، انگریزی اور فرنچ اشعار یاد کیے۔۔۔”(علم و اجتہاد کا مقاصدی تصّور: جاسر عودہ، ص 21) گو کہ اس ابتدائی مرحلہ میں آپ نے اسلام کی بنیادی تعلیمات میں کافی عبور حاصل کر لیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ آپ عربی، انگریزی اور فرنچ زبانیں بھی اچھی طرح جان چکے تھے۔ لیکن فکری اعتبار سے کوئی خاص منہج یا نمایاں بات اس وقت تک آپ سے متعارف نہ تھی۔
دوسرا دور
فکر کے دوسرے دور کا آغاز آپ کی عمر کی تیسری دہائی سے ہوتا ہے۔ یعنی بیس سے تقریباً چالیس یا پچاس سال کی عمر تک، جس کا بہت بڑا حصہ آپ نے طالب علمی اور کچھ دیگر حصہ درس وتدریس میں گزارا۔ اس سفر کی ابتدا میں آپ عازمِ امریکہ ہوتے ہیں اور خود اس نقل مکانی کو فکر کی تشکیل میں بڑی اہمیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں “۔۔۔پھر عمر کی تیسری دہائی میں میں عالم عرب سے بر اعظم امریکہ منتقل ہو گیا، وہاں میں نے بیک وقت تطبیقی علوم،فلسفہ اور اصولِ فقہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور میری سرگرمیوں پر تصوف ودعوت اور طلبہ کے حقوق کی جدوجہد کا مخلوط رنگ غالب رہا، اس وقت میرا رجحان تقلیدی تھا، یعنی میں ہر فن کے ماہرین کی آراء ومناہج سے استفادہ کرتا اور بنا تنقید اُن کی تقلید کرتا۔”(علم و اجتہاد کا مقاصدی تصّور: جاسر عودہ، ص 22) گویا کہ آپ کا مصر سے امریکہ منتقل ہونا آپ کی زندگی میں فکر کے نکھرنے اور بالیدگی حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب بنا۔ چہ جائے کہ عمر کے اس سفر تک بھی آپ “تقلید” اور “تقدیس” کی گرفت میں تھے۔ بعد ازاں آپ نے روایتی مقاصدی ڈسکورس میں کافی تحقیق ومطالعہ سے وہ ملکہ پیدا کر لیا تھا کہ بہارِ عرب میں اس کی روشنی میں مسلسل ارشاد وتوجیہہ کا کام سرانجام دیتے رہے، جس کی ضرورت کا احساس اُن کو عمر کی چوتھی دہائی میں ہوا جس وقت آپ عالم اسلام کے کئی عالمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس سفرِ تدریسی نے آپ کو اس گہرے منہجی وعقلی بحران سے نبردآزما کر دیا جس کا سامنا نہ تو اسلامی روایتی منہج کر پا رہا تھا نہ ہی مغربی منہج کر پا رہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں “پھر عمر کی چوتھی دہائی میں، میں تدریس اور ساتھ ہی مغربی طرز کی یونیورسٹیز میں مختلف تخصصات میں تحقیق کے کام میں مشغول ہو گیا، مجھے مختلف ممالک میں قائم اسلامی تعلیمی اداروں میں تدریس، تالیف اور دعوتى کاموں کا موقع ملا تو میرے سامنے یہ حقیقت واضح ہونى شروع ہوئی کہ اس وقت امت بلکہ انسان کس قدر گہرے منہجی اور عقلی بحران کا شکار ہے۔ اسی کے ساتھ مجھ پر یہ بھی آشکار ہوا کہ مسلمانوں کا روایتی منہج اور مغربی منہج دونوں اُن ہمہ گیر اصولوں کا کردار ادا کرنے کے سلسلے میں کوتاہ ہیں جو عصر حاضر میں مطلوب اسلامی علم اور اسلامی طرزِ زندگی کو وجود میں لا سکیں اور اسلامی تجدیدی کوششوں کو ثمرآور بنا سکیں۔ اس لیے میں نے عمر کی پانچویں دہائی میں اپنی تمام تر علمی، ادارہ جاتی اور تدریسی سرگرمیوں کو معاصر فقہ اور فکر اسلامی بالخصوص علم مقاصد پر مرکوز کر دیا۔ اس سلسلے میں میں نے سسٹمس فلاسفی سے متعلق اپنے مطالعات سے استفادہ کیا۔۔۔” (علم و اجتہاد کا مقاصدی تصّور: جاسر عودہ، ص 22)۔ اسی کے چلتے آپ نے “فقہ المقاصد” اور اسی طرح کی دوسری تحریرات سپرد قلم کیں جن کی بدولت آپ علم مقاصد میں ایک مرجع کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے اور اس میدان میں ایسا قیمتی اثاثہ تیار کیا کہ اس سے کوئی بھی مقاصدی طالب علم مستغنی نہیں ہو سکتا۔ مقاصدی نظریہ کی ماہیت اور وقعت پر لکھتے ہیں کہ ” بہارِ عرب کے سیاق میں اپنی تحریروں اور گفتگؤوں میں، میں نے مقاصد شریعت کو (اس کے روایتی نظریات کے اعتبار سے) عملی شکل دینے کی کوشش کی تھی، اس لیے کہ مقاصد شریعت میں مشرقی ومغربی اقوام، قدیم وجدید رجحانات، دینی وتمدنی نظریات اور اسلامی مسالک وفرقوں کے مابین مکالمہ وتعاون کے لیے مشترک بنیاد دیکھی جا سکتی ہے۔” (علم و اجتہاد کا مقاصدى تصّور: جاسر عودہ،ص 22) اسی کی روشنی میں آپ نے بہارِ عرب کے تناظر میں عرب عوام اور تحریکات اسلامیہ کو تقویت اور قانونیت فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں، جس کے مظاہر آپ کی معتدد کتابوں میں ملتے ہیں۔ جیسے:
- الدولہ المدنیہ : نحو تجاوز الاستبداد و تحقیق مقاصد الشریعہ
- بین الشریعہ و السیاسہ: اسئلہ لمرحلہ ما بعد الثورات
تیسرا دور
فکر کے اس تیسرے دور کا آغاز آپ کی عمر کی چھٹی دہائی سے ہوتا ہے۔ اس وقت آپ تقلید وتقدیس، تبریر وتلفیق اور روایت پسندی کے تمام تر مناہج فکر سے تجاوز کر چکے تھے۔ اس دور میں آپ کا ذہن تجدیدی تھا۔ ایک طرف روایتی علمى مناہج واسالیب (جس میں روایتی مقاصد ڈسکورس شامل ہے) کو دیکھتے اور دوسری طرف کروٹ در کروٹ بدلتا عصر حاضر، مطمئن نہ ہوتے۔ اس وقت آپ کے ذہن میں دو منصوبے تھے، لکھتے ہیں، ” ایک یہ کہ میں قرآن مجید اور سنت نبوی کا براہ راست مطالعہ کر کے ان سے (ایک) تجدیدی منہج کی رہنمائی حاصل کر لوں،۔۔۔دوسرا ممکنہ منصوبہ یہ تھا کہ میں سسٹمس فلاسفی کا مطالعہ جاری رکھوں اور اس کی اسلامی تشریحات کرتا رہوں، تا کہ اصول فقہ اور مقاصد شریعت کے جدید وقدیم مطالعات کو آگے بڑھایا جا سکے اور معاصر فتاویٰ اور جدید مسائل میں ان کی تطبیق کی جا سکے۔ “(علم و اجتہاد کا مقاصدی تصّور: جاسر عودہ، ص22)
اس ضمن میں آپ نے استخارہ کیا۔ استخارہ کے نتیجے میں آپ پر یہ واضح ہو گیا کہ آپ کا کام تجدیدی ہے۔ یعنی قرآن وسنت پر غور وفکر کے ذریعے اس تجدیدی منہج کی تلاش جو قدیم وجدید اُصولوں اور مقاصدی نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ، قابل تطبیق اور اسلامی اقدار سے مانوس نظریے کو جنم دے۔ اس غرض کو مطمح نظر رکھتے ہوئے آپ نے تقریباً 5 سال مسلسل قرآن وسنت پر غور وفکر، اس وسیع وعریض کائنات کے ہر ہر ذرہ کے باہمی اور با معنی ربط کی الٰہی سنت اور جزئیات سے کلیات کی تشکیل کے آفاقی قانون کی روشنی میں ایک ہمہ جہت تجدیدی منہج کی طرح ڈالی، جس کو “المنہجیہ المقاصدیہ” کا نام دیا گیا۔ آپ نے اس تجدیدی منہج کو اس کی تمام تر تفاصیل کے ساتھ اپنی کتاب “علم واجتہاد کا مقاصدی تصور “(المنہجیہ المقاصدیہ : نحو اعادہ صیاغہ معاصرہ للاجتہاد الاسلامی) میں پیش کیا ہے۔ یہاں اس کا موقع تو نہیں ہے کہ اس کتاب کے مضامین کا ایک تفصیلی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا جا سکے، جو ایک پہلو دار اور مستقل مضمون چاہتا ہے۔ البتہ یہ ہم سے دور نہیں کے ہم اس کتاب کے مرکزی موضوع اور غایت پر مختصر روشنی ڈالیں۔ کتاب “علم واجتہاد کا مقاصدی تصور” مرکزی طور پر تصورعلم پر بات کرتی ہے۔ اسلامیات کے طالب علموں کے لیے یہ معروف بات ہے کہ اسلامی تاریخ کی ایک بڑی اور بہت پیچیدہ بحث “التعارض بین العقل والنقل” یا “علم و وحی میں تعارض” کی رہی ہے۔ یہ کتاب اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، علم کے ایک نئے اور منفرد پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ “المنہجیہ المقاصدیہ” علم کو اس طرح سے اپروچ کرتی ہے کہ ایک طرف علم کو بغیر کسی تفریق واضافہ وحی سے ماخوذ سمجھتی ہے، یعنی علم میں وحی کی مرکزیت کو تسلیم کرتی ہے، اور اس طرح عقل ونقل کے ضمن میں ہونے والے سوالات کو خارج از بحث سمجھتی ہے اور دوسری جانب اجتہاد کو، جو اسلامی تمدن کی روح ہے، صرف فقہ تک محدود نہ رکھنے کی طرف بحث کرتی ہے۔ مزید تمام علوم کو فقہ کا میدانِ کار قرار دیتی ہے اور تمام علوم کے ماہرین کو، اگر وہ اسلامی(انسانی) مقاصد کے لیے تحقیق وتالیف کا کام انجام دیتے ہیں، قرآن کی روح سے فقیہ قرار دیتی ہے۔ مزید اجتہاد کے نتائج کو جزوی مسائل تک محصور نہ مانتے ہوئے،تاسیسی اصول ونظریات کو اجتہاد کی غایت تسلیم کرتی ہے۔
ان کے بین الاقوامی ادارہ معہد المقاصد اور اس کے ضمن میں ہونے والے کاموں میں اسی مقاصدی منہج كو تحقیق وتدریس میں برتا جا رہا ہے، تاکہ اُمت اور انسانیت کو قرآن اور سنت سے قریب تر لایا جا سکے، اور ایک ہمہ جہت فقہ تشکیل پاسکے جس کی ضرورت کا احساس ہم سب کو ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے اس منہج اور اس کے نفع کا دائرہ وسیع کرے، اور کو پڑھنے والوں، پڑھ کر سمجھنے والوں، تنقید کرنے والوں، اور اس مشن کو عملی شکل دینے والوں کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔ آمین۔۔۔
