ڈاکٹر سلیم خان
ایک سال قبل سپریم کورٹ نے اکثریت کی رائے سے یکمشت تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا اور حکومت سے قانون بنانے کی سفارش کی ۔ حکومت نے قانون بنایا کہ ایسا کرنے سے طلاق تو واقع نہیں ہوگی لیکن اس کا ارتکاب کرنے والے کو تین سال کی سزا ہوگی۔ یہ عجیب قانون تھا کہ کھلونے کی بندوق چلانے سے کوئی قتل تو نہیں ہوگا لیکن گولی چلانے والے کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ ایک عائلی معاملے کو اچانک تعزیراتی جرم بنادئیے جانے پر ساری دنیا چونک پڑی لیکن اس کو خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ اس سال ہم جنسی کے ایک تعزیزی جرم کو ختم کرکے اسے فطری عمل قرار دے دیا گیا۔ اب جو مرد اپنی بیوی سے ناراض ہو۔ اس کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو تو وہ بیوی کو طلاق دے کر آزاد کرنے کے بجائےاپنے نکاح میں رکھتے ہوئے کسی اور مردسے جنسی تعلقات قائم کرلے یہ جائز اور پسندیدہ ہے۔ اس پر کوئی سرزنش نہیں حالانکہ ایسا کرنے والے دونوں مرد اپنی اپنی بیویوں کی حق تلفی کریں گے۔
سیکولرزم یا لادینیت بنیادی طور پر الہامی قانون ا ور مستقل اقدار کا منکر نظام حیات ہے ۔ اس کے حق و باطل کا پیمانہ اور حرام و حلال کا معیار بدلتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں عدل و انصاف اور جرم وسزا سے کھلواڑ ہوتا رہتا ہے ۔ ہم جنسی کا قانون اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔انگریزوں نے ۱۸۶۱ میں ایک قانون بنایا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ مردوں کا آپس میں جنسی عمل یا عورتوں کا آپس میں جسمانی ملاپ اور جانوروں کے ساتھ ایسا کوئی بھی عمل ممنوعہ اور قابل سزا جرم ہے۔ آزادی کے بعد دستور ساز اسمبلی نے اسے جاری رکھا اس لیے کہ اس وقت وہ یوروپ میں یہ گھناونا عمل ممنوع تھا لیکن وقت کے ساتھ مغرب میں اباحیت کا سیلاب زور پکڑتا گیا اور یکے بعد دیگرے کئی ممالک نے اس غیر فطری رویہ کو حلال قرار دے دیا ۔ اس کا اثر ہمارے ملک کے روشن خیال لوگوں پر بھی پڑا اور ان لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا۔
۲۰۰۱ میں ناز فاونڈیشن نے دہلی ہائی کورٹ میں اس دفعہ کو کالعدم کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا جسے ۲۰۰۳ میں دہلی ہائی کورٹ نے مسترد کردیا ۔ ناز فاونڈیشن نے ۲۰۰۶ میں سپریم کورٹ کے اندر گہار لگائی تو اس نے ہائی کورٹ سےا پنے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ۔ ۲۰۰۹ میں دہلی ہائی کورٹ نے اپنا سابقہ فیصلے کوبدل دیا اور کہا کہ دو بالغ اگر اپنی مرضی سے کوئی رشتہ قائم کرتے ہیں تو اسے جرم نہیں کہا جاسکتا ۔ ہائی کورٹ کےاس فیصلے کو ہندو، عیسائی اور مسلم مذہبی تنظیموں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ ان کا موقف تھا کہ ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے اور اسے جرم کے زمرے میں شامل رہنا چاہیے۔ چار سال بعد ۲۰۱۳میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ یعنی ۱۸۶۱ تک جو حرکت حرام تھی وہ ۲۰۰۹ میں حلال ہوگئی اور ۲۰۱۳ پھر سے حرام ہوگئی اور اب ۲۰۱۹ میں دوبارہ حلال قرار پائی۔یہ مذاق نہیں تو کیا ہے؟جمہوریت کے علمبردار کہتے ہیں کہ سارے قوانین عوام کی مرضی سے بنتے ہیں ان تو یہ بتائیں کہ اس کھیل میں کتنی مرتبہ عوام سے ان کی مرضی معلوم کی گئی ؟
اس معاملے کادلچسپ پہلو یہ ہے کہ کہ کانگریس کے زمانے میں جب ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکال کر غلطی کی تھی تو کانگریس کی اعلی ترین قیادت نے ذرائع ابلاغ میں کھل کر اس فیصلے پر تنقید کی ۔ سابق وزیر قانون اور پرسنل بورڈ کے وکیل کپل سبل نے کہا اکیسویں صدی میں ایسا قانون لاگو کرنا نامناسب ہے۔ جدید معاشرے میں اس قانون کے لیے جگہ نہیں ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ ارون جیٹلی ہم جنسی کے حامی پائے گئے ۔ سب سے حیرت انگیز موقف آرایس ایس جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبولے کا سامنے آیا انہوں نے کہہ دیا کہ ہم جنس پرستی کو جرم کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے اور اس پر کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے لیکن حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا بڑا طبقہ ہم جنس پرستی کے خلاف قانون کے خاتمہ کی مخالفت کرتا رہا ۔ کانگریس پارٹی کے سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے ہم جنس پرستی کو غیر مجرمانہ فعل قرار دینے کے لیے پارلیمان کے ایوان زیریں میں جب قرارداد پیش کی تو حکمران بی جے پی کے ارکان نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسےنا منظور کر دیا اس کے باوجود حکومت نے اپنے ارکان کی مرضی کے خلاف عدالت کو یہ کہہ کر ہرا سگنل دے دیا کہ وہ اس کے فیصلے چیلنج نہیں کرے گی ۔
سپریم کورٹ نے گذشتہ سال اگست میں جب ‘پرائیویسی’ کے سوال پر کہا کہ ‘سیکس کے معاملے میں پسند ناپسند لوگوں کا نجی معاملہ ہے’ تو لوگ سمجھ گئے کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عین توقع کے مطابق ہے جس میں تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۷۷ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ہم جنسی کو غیر مجرمانہ ٹھہراتے ہوئے قدیم قانون کو ختم کر دیا گیا۔ آج عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ ’’ ہم جنسی تعلقات کو جرم قرار دینا بے دلیل اور غیر یقینی ہے‘‘ لیکن کل جب مغرب اس کے کڑوے کسیلے پھل کھانے کے بعد قانون بدلنے پر مجبور ہوجائے گا تو ہمارے معاشرے میں مغرب کے پیرو کار پھر عدالت سے رجوع کریں گے ۔ بعید نہیں کہ اس وقت سپریم کورٹ کی ۷ رکنی بنچ اپنی ۵ رکنی آئینی بنچ کے فیصلے کو مسترد کرکے ۲۰۱۳ والی دو رکنی بنچ کے فیصلے کو نافذ کردے لیکن اس وقت تک عالم انسانیت اس غلطی کی بہت بڑی سزا بھگت چکی ہوگی ۔ اس ایک غیر فطری عمل کوجس طرح خوشنما بنا کر پیش کیا جارہا ہے اس کے نتیجے میں جنسی بے راہ روی میں زبردست اضافہ ہوگا اور معاشرہ تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔مسلمانوں کی اکثریت تو خیر اپنی شریعت کے سبب اس طوفان بلاخیز سے محفوظ رہے گی لیکن جن کے پاس کوئی مستقل قانون وضابطہ نہیں ہے ان بیچاروں کے لیے بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی۔