تہذیب وتمدن اور علوم ومعارف کے درمیان تعلق

ایڈمن

(ذیل میں پروفیسر محمد رفعت، جامعہ ملیہ اسلامیہ (مدیر ماہنامہ زندگی نو )سے لیا گیا ایک مختصر انٹرویوپیش ہے، یہ انٹرویو محمد اشفاق عالم، اسلامی اکیڈمی ۔ نئی دہلی نے لیا ہے۔ ادارہ) جب ہم سائنس کا لفظ بولتے ہیں…

(ذیل میں پروفیسر محمد رفعت، جامعہ ملیہ اسلامیہ (مدیر ماہنامہ زندگی نو )سے لیا گیا ایک مختصر انٹرویوپیش ہے، یہ انٹرویو محمد اشفاق عالم، اسلامی اکیڈمی ۔ نئی دہلی نے لیا ہے۔ ادارہ)

جب ہم سائنس کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے آپ کیا مراد لیتے ہیں اور تہذیب و تمدن کی آپ کے نز دیک کیا تعریف ہے ؟

تہذیب ان اصولوں کو کہتے ہیں جن پر اجتماعی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے ۔زمانے کے بدلنے کے ساتھ ان اصولوں کے انطباق کے طریقے (کسی حد تک ) بدلتے جاتے ہیں ۔تہذیب کی بنیاد وں پر استوار اجتماعی زندگی کی ظاہری شکل کو تمدن کہا جاتا ہے ۔ سائنس کائنات کی اشیا ء کے متعلق علم کو کہتے ہیں ۔
عام طور سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان مغربی تہذیب وتمدن کا اثر قبول کرتے جا رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان مغربی علوم کا اثر قبول کر رہے ہیں یا مغربی تہذیب و تمدن کا اثر قبول کر رہے ہیں؟

مسلمان مغربی تہذیب کی طاقت سے مرعوب ہیں اس لیے اس کا اثر قبول کر رہے ہیں اگر وہ صرف علمی استفادہ کرتے اور مغربی تہذیب کے اصولوں کو قبول نہ کرتے تو کوئی تشویش کی بات نہیں تھی ۔
علوم وفنون کی ترقی سے تہذیب وتمدن کیسے پروان چڑھتے ہیں اور کیا علوم و فنون کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے تہذیب و تمدن بھی بدلتے ہیں یا اس کی وجہ تہذیب و تمدن کا ارتقاء ہوتی ہے؟

تہذیب کے اصولوں کی تشریح و تعبیر ہر دور میں ازسر نو کی جاتی ہے۔ یہ کام ضروری ہے اور اس کے انجام دینے کے لیے علمی ترقی درکارہے ۔ رہا اصولوں کا عملی انطباق (جسے تمدن کہتے ہیں ) تو اس کے لیے بہر حال علوم وفنون میں مہارت ضروری ہے ۔اس کے بغیر زندگی کے عملی مسائل کو تہذیب کے اصولوں کی روشنی میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ محض علوم و فنون کی ترقی سے تہذیب نہیں بدلتی۔ تہذیبی تبدیلی کے لیے اجتماعی تحریک چلانی پڑتی ہے البتہ علمی و فنی ترقی سے تمدن میں ترقی ہوتی ہے۔
عام طور سے مسلمان مصنفین کہتے ہیں کہ مغربی دنیا نے ہمارے علوم وفنون سے استفادہ کیا اور ترقی کے بام عروج پر ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اسلامی علوم و فنون کو اپنایا تو ان کی تہذیب و تمدن میں خوبصورتی پیدا ہوئی اور اخلاقی اقدار پروان چڑھے لیکن جب مغرب نے انہی علوم وفنون سے استفادہ کیا ،اور اس کے باوجود وہ اخلاقی بیماریوں میں مبتلاہیں ،اس کی وجہ کیا ہے؟

مغرب کی اخلاقی خرابیوں کی وجہ علوم و فنون کی تفصیلات نہیں ہیں بلکہ ان کا بنیادی نقطہ نظر ہے ۔اس نقطہ نظر کی اصل خرابی غیب کا انکار ،خدا اور خدائی ہدایت کا انکار اور مادہ پرستی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں نے علوم و فنون کی ترقی کے لئے جو کام کیا وہ خدا ئی ہدایت کی صداقت کو تسلیم کرکے کیا چنانچہ ان کی علمی ترقی اخلاقی ترقی کا بھی باعث بنی ۔
تہذیب و تمدن علوم و فنون کی تعمیر کرتے ہیں یا علوم و فنون تہذیب و تمدن کی؟

تہذیب کے اصول ،علم کے متعلق نقطہ نظر کا تعین کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ علمی ترقی ہو نے لگے تو اس کی مدد سے تہذیب کے اصولوں کی تعبیر نو کا کام ممکن ہوجاتا ہے ۔اس طرح تہذیب و تمدن اور علوم وفنون دونوں ایک دوسرے کو متأثر کرتے ہیں البتہ اساس کی حیثیت بہر حال تہذیب کو حاصل ہے ۔
عام طور سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی کے موجد و مخترع ہیں اور ان کی تہذیب و تمدن بھی ماضی میں کافی شاندار تھی لیکن ایسا کیا ہوا کہ مسلمان اپنی ایجادات کو آگے نہ بڑھا سکے اور ان کی تہذیب و تمدن بھی زوال کا شکار ہوگئی؟

سائنس میں مسلمانوں نے پچھلی دو صدیوں میں کوئی پیش رفت نہیں کی اس کی وجہ ان کی سیاسی محکومی ہے ۔رہا تہذیبی زوال تو اس کی اصل وجہ اپنے مشن (شہادت علی الناس )سے مسلمانوں کی غفلت ہے ۔مسلمانوں کی حالت کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ منصبی شعور زندہ ہو اور مسلمان محکومی کی کیفیت سے نکلیں۔
سائنسی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کاسماج میں موجود قدیم تہذیب و تمدن پر کیا اثر پڑتا ہے؟

سائنس کی بحثیں تصور کائنات کی تشریح پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر سائنس کے نظریات کی تشکیل خدا بیزارتصور کائنات کے سیاق میں ہوتی ہو تو اس سائنس کی تدریس کا مذہبی معاشرے پر منفی اثر پڑتا ہے ۔اسی طرح ٹکنالوجی اگر منضبط نہ کی جائے تو انسانی قدروں کو نقصان پہنچاسکتی ہے ۔اس لیے ٹکنالوجی کی پیش رفت کو اخلاقی حدود کا پابند بنانا ضروری ہے۔
دونوں میں ٹکراوکی صورت میں توافق اور ہم آہنگی کی صورت کیا ہو؟

تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹیکنالوجی دونوں کی بنیاد صالح تصور کائنات پر رکھی جانی چاہئے ۔اگر بنیاد کی درستگی کا اہتمام کیا جائے تو اجتماعی زندگی کے ان دونوں پہلوؤں کے مابین ٹکراؤ ختم ہوجاتا ہے۔
تہذیبوں کے تصادم میں سائنس کیا رول ادا کرتی ہے؟

سائنس کی سمت تہذیب کے تابع ہوتی ہے۔جہاں تک سائنس کی عملی شکل کا سوال ہے ،وہ ٹکنالوجی سے عبارت ہے۔ تہذیبوں کے مابین فکری تصادم میں سائنس کا رول ثانوی ہے اس لیے کہ سائنسی نظریات عموما محض اشیاء کے خواص سے بحث کرتے ہیں جبکہ تہذیبیں تصور انسان سے بحث کرتی ہیں ۔تہذیبوں کے علمبرداروں کے درمیان سیاسی اور فوجی تصادم میں ٹکنالوجی کی ترقی بہرحال اہم رول ادا کرتی ہے ۔
موجودہ سائنس خدا بیزاری پر مبنی ہے ایسی صورت میں کیا اسلام مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دے گا کہ وہ اس سے استفادہ کریں اور اس کی تعلیم حاصل کریں اور اس کو اپنائیں؟

مسلمان سائنس کی تحقیق اور تعلیم و تدریس کاکام اسلامی فلسفہ سائنس کی روشنی میں کریں گے ۔اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی بنیادوں پر فلسفہ سائنس کی تدوین کی جائے۔
کیا سائنسی آفاقی ترقی کے لیے آفاقی تہذیب و تمدن کا ہونا ضروری ہے؟

سائنس اجتماعی سر گرمی کا نام ہے۔ ہر اجتماعی سر گرمی کی مطلوب شکل آفاقی ہے ،چنانچہ اسلامی مزاج یہ چاہتا ہے کہ علم اور حصول علم کے سلسلے میں آفاقی نقطہ نظر پیش کیا جائے پھر سارے انسانی گروہ اس آفاقی نقطہ نظر سے فائدہ اٹھاکر علم کو (اور خصوصا سائنس کو )ترقی دیں۔
کیا سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کا مطلب تہذیب و تمدن کی ترقی ہوتی ہے؟

سائنس اور ٹکنالوجی کی حدود آشنا ترقی مطلوب ہے اور وہ یقیناًتہذیب و تمدن کی ترقی میں مدد گار ہوتی ہے ۔رہی غیر معتدل اور حدود سے بے نیازترقی تو وہ تمدنی مسائل کو جنم دیتی ہے ۔
سائنسی ترقی کن عوامل کی بنیاد پر ہوتی ہے ؟

سائنسی ترقی کا سب سے بڑا عامل انسان کا جذبہ تجسس اور جذبہ تعمیر ہے ،صالح تصور کائنات ان جذبات کو صحیح اساس فراہم کرتا ہے اور اخلاقی قدریں صحیح منہج (Method)فراہم کرتی ہیں۔
تہذیب و تمدن کی ترقی میں کون سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں ؟

تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ انسانی گروہوں کے سامنے وہ نصب العین ہو جس کی صداقت پر ان کو یقین ہو ۔دوسرا عامل حصول آزادی کا جذبہ ہے ۔کسی تہذیب کے تعمیر ی اصول اس وقت عملی جامہ پہن سکتے ہیں جب اس کے علمبردار اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے آزاد ہوں اور غیروں کے غلام نہ ہوں۔
وہ کون سے عوامل ہیں جو سائنس اور تہذیب و تمدن، دونوں کی ترقی میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں؟

مشترک عامل وہ انسانی ضرورتیں ہیں جو انسان کو حرکت و عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں