پچھلے دنوں حیدرآباد کے ایک افسوسناک واقعے نے ملک کے ضمیر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک طالب علم نے یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے نارواسلوک سے عاجز آکر خود کشی کرلی۔ اس انتہائی اقدام سے قبل ایک خط لکھ کر طالبِ علم نے اس کیفیت کی تفصیل بیان کی جو اُس پر گزری تھی۔ اس واقعے کے متعدد پہلو ہیں جو عبرت ونصیحت کا سامان اپنے اندر رکھتے ہیں۔ غالباً ملک کے باشعور طبقے کے لیے سب سے زیادہ اضطراب انگیز امر یہ ہے کہ سائنس، ٹکنالوجی اور تیز رفتار ابلاغ کے اِس دور میں، آزادی و انصاف کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اور ترقی کے نعرے کے باوصف، ظلم و نا انصافی کی وہ ہولناک شکلیں ہمارے ملک میں موجود ہیں جو بعض انسانوں کو یاس و نا امیدی کی آخری سرحد تک پہنچادیتی ہیں۔ یہ صورتِ حال اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ محض سائنس اور ٹکنالوجی کے علم کے حصول اور دنیا کے حالات سے واقفیت سے انسان کے دل ودماغ اور فکر و نظر کی وہ تربیت نہیں ہوتی جو اسے انسان بناسکے اور انسانوں کی تکریم اس کو سکھاسکے۔ عصرِ حاضر کا انسان سازی کا نظام — جو تعلیمی اداروں اور ذرائعِ ابلاغ کی شکل میں موجود ہے — اچھے انسان پیدا کرنے میں یکسر ناکام ہے۔ اس نظام سے وہ افراد تو پیدا ہوتے ہیں جو حالات کو جانتے ہوں، ٹکنالوجی کا استعمال کرسکتے ہوں اور اعداد و شمار سے باخبر ہوں لیکن ایسے افراد پیدا نہیں ہوتے جو بھلے انسان ہوں، انسانوں کی عزت کرتے ہوں، اور دوسروں کی حق تلفی نہ کرتے ہوں۔
زیرِ بحث واقعے کے مماثل واقعات ہمارے ملک میں نادر نہیں ہیں تاہم یہ غنیمت ہے کہ کبھی کبھی ایسے واقعات پر مُلک کا اجتماعی ضمیر جاگ جاتا ہے اور کچھ دیر کے لیے ہی سہی — لوگ اُن اسباب کو تلاش کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں جو اضطراب و بے چینی اور ظلم و ناانصافی کو جنم دینے والے اصل عوامل ہیں۔ غور کیا جائے تو چند بنیادی عوامل کی نشاندہی کی جاسکتی ہے:
(الف) ملک میں پایا جانے والا ذات پات کا نظام
(ب) اِس نظام کو تقویت پہنچانے والے افکار و تصورات
(ج) نا انصافی کے تدارک کی ناقص تدابیر
(د) مظلوم طبقات کی صالح نظریہ حیات سے محرومی۔
مندرجہ بالا عوامل کا مختصر تعارف ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔
ذات پات کا نظام:
ہمارے ملک میں صدیوں سے ذات پات کا نظام رائج ہے۔ اس نظام میں پیدائش کی بنیاد پر انسانوں کو اعلیٰ اور ادنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ان اعلیٰ و ادنیٰ قسموں کو ’’ذات‘‘ کی اصطلاح کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے چنانچہ جن افراد کو اعلیٰ ذات سے متعلق فرض کیا گیا ہے اس نظام میں اُن کے بچے بھی اسی اعلیٰ ذات سے متعلق سمجھے جائیں گے۔ اس کے برعکس جن افراد کے بارے میں فرض کیا گیا ہے کہ وہ ادنیٰ ذات کے ہیں اُن کے بچوں پر بھی ادنیٰ ذات کا لیبل اپنے آپ لگ جائے گا۔ گویاذات کی بنیاد پر اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کا وصف ایک ایسا وصف ہے، جو ایک نسل سے دوسری نسل تک اپنے آپ منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔
ذات پات کے نظام میں ہر شخص کو کسی نہ کسی ذات سے متعلق سمجھا جاتا ہے یعنی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص اُس سماج کا (جو ذات پات کا قائل سماج ہے) فرد تو ہولیکن اُس کی کوئی ذات نہ ہو۔ عموماً ایک فرد کا جو نام رکھا جاتا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی جُز ایسا ہوتا ہے جس سے اُس فرد کی ذات معلوم ہوجاتی ہے۔ مختلف ذاتوں کی ایک واضح اور متعین درجہ بندی موجود ہے جسے سماجی روایت کی تائید حاصل ہے۔ اس درجہ بندی کے ذریعے معلوم ہوجاتا ہے کہ کون سی ذات کس ذات سے بالاتر ہے اور کس کے مقابلے میں کم تر ہے۔ اعلیٰ وادنیٰ کی اس تقسیم کے نتائج یہ ہیںکہ کسی اعلیٰ ذات کے فرد کو ادنیٰ ذات والے کے مقابلے میں زیادہ احترام کا مستحق سمجھا جاتا ہے اور اس کے دیگر حقوق بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ملک کے بہت سے مقامات پر چھوت چھات بھی موجود ہے یعنی کسی ادنیٰ ذات کے شخص کو محض چھولینے سے اعلیٰ ذات والا فرد ناپاک ہوجاتا ہے اور اسے پاکی حاصل کرنے کے لیے کچھ خاص رسوم ادا کرنی پڑتی ہیں۔ چھوت چھات کو ملک کے قانون نے ممنوع قرار دیا ہے، اس لیے چھوت چھات کے مظاہر میں کچھ کمی آئی ہے لیکن اُن مظاہر کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ اب بھی ادنیٰ سمجھے جانے والوں کا پکایا ہوا کھانا، اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرنے والے نہیں کھاتے اور اُن کو اپنے کنوئیں سے پانی نہیں لینے دیتے۔ مجالس اور تعلیم گاہوں میں ادنیٰ ذات والوں کو الگ بٹھایا جاتا ہے۔ پست درجے کے کاموں کے لیے اُن کو موزوں سمجھا گیا ہے اور برسرِ عام اُن کا سر اٹھا کر چلنا گوارا نہیں کیا جاتا۔ مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان شادی ایک بڑا مشکل کام ہے۔ اس طرح کی شادی کی سماج، شدت سے مزاحمت کرتا ہے۔ بہت سی عبادت گاہوں میں ادنیٰ سمجھے جانے والوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اکثر دیہی آبادیوں میں اُن کے محلے الگ ہوتے ہیں اور وہ اعلیٰ ذات والوں کے پڑوس میں آباد ہونے کی جرأت نہیں کرسکتے۔
ذات پات کے نظام کی فطرت ایسی ہے کہ اس کے ذریعے اعلیٰ ذات والے سارے حقوق، اختیارات، وسائل، اور مواقع پر قابض ہوجاتے ہیں جبکہ ادنیٰ سمجھے جانے والے حقوق سے بھی محروم ہوتے ہیں اور وسائل سے بھی۔ چنانچہ نام نہاد اعلیٰ افراد، نچلی ذات والوں کا بآسانی استحصال کرسکتے ہیں اور اس استحصال سے چھٹکارا پانا، ادنیٰ ذات کے افراد کے لیے بڑا مشکل امر ہوتا ہے۔ یہ استحصال مختلف شکلیں اختیار کرتا ہے جن میں تذلیل، بہ جبر خدمت لینا اور جنسی استحصال جیسی مکروہ حرکتیں شامل ہیں۔
افکار و تصورات اور رسوم و روایات:
ذات پات کے نظام کا مشاہدہ کرنے والوں کو دو حیرت انگیز حقائق، اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ یہ نظام صدیوں سے قائم ہے۔ حکومتوں کی تبدیلی کا اس نظام کے تسلسل اور دوام پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دورِ جدید کی روشن خیالی اور آزادی و مساوات کے نعرے، اس نظام کو ختم نہیں کرسکے ہیں۔ ذات پات کے زیادہ مکروہ مظاہر میں تو یقینا کچھ کمی آئی ہے لیکن اس نظام کے بنیادی اجزاء جوں کے توں قائم ہیں یعنی ہر فرد کا لازماً کسی نہ کسی ذات سے متعلق ہونا، ذاتوں کے درمیان اعلیٰ و ادنیٰ کی تفریق اور اعلیٰ سمجھے جانے والوں کا زیادہ محترم سمجھا جانا نیز اُن کا زیادہ حقوق کا مالک ہونا۔ ذات پات کا نظام اپنی اِن کلیدی خصوصیات کی حد تک — آج بھی ہمارے ملک میں پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے— شہروں وقصبات میں بھی ذات پر مبنی شناخت اور اعلیٰ وادنیٰ کا امتیاز اسی شان کے ساتھ نظر آتا ہے جس طرح گاوؤں میں نظر آتا ہے۔ بے پڑھے لکھے افراد ہوں یا تعلیم یافتہ لوگ سب ذات پر مبنی شناخت کے قائل و حامل ہیں اور اعلیٰ و ادنیٰ ذات کی پہچان، ان کے سماجی شعور کا لازمی جزو ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذات پات کے نظام کی اس پائیداری کی وجہ کیا ہے۔ اس سوال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خاص افکار و نظریات نے — جو مذہبی تقدس کا رنگ رکھتے ہیں — اس نظام کو پائیداری عطا کی ہے۔ ان خیالات میں سے ایک یہ ہے کہ سارے انسان، خالق کے منصوبہ تخلیق میں یکساں حیثیت اور درجہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ برہما نے برہمن کو اپنے سر سے، کشتری کو بازو سے، ویش کو ناف سے اور شودر کو اپنے پاؤں سے پیدا کیا ہے۔ اس اعتبار سے برہمنوں کا مقام اعلیٰ ترین اور شودر کا پست ترین ہے۔ یہ روایت دیومالائی سہی لیکن ذہنوں پر اس کی گرفت بڑی مضبوط ہے۔
اس پیدائشی فرق سے ذات پات کے نظام کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کی فکری بنیاد مستحکم کرنے کا کام تناسخ (یا آواگون) کا تصور انجام دیتا ہے۔ تناسخ کے فلسفے کے مطابق روح، ایک قالب سے دوسرے قالب میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اچھے اعمال انجام دینے کے نتیجے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ روح کو اگلے جنم میں بہتر قالب ملے گا چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آج جو شخص برہمن ہے ، ضرور اس نے پچھلے جنم میں صالح اعمال انجام دیے ہوں گے۔ اپنی سابقہ نیکیوں کے صلے میں اسے برہمن کا اعلیٰ مقام حاصل ہوا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص شودر ہے، قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ضرور اس نے پچھلے جنم میں گناہ کیے ہوں گے جن کی پاداش میں اسے ایک پست قالب مل گیا ہے۔ اس طرح یہ فلسفہ، پست سمجھے جانے والوں کی پستی کو اور اعلیٰ سمجھے جانے والوں کی برتری کو اخلاقی جواز عطا کردیتا ہے۔ جو چیز ظلم تھی وہ عین انصاف قرار پاتی ہے۔ذات پات کے نظام کی مندرجہ بالا کلیدی بنیادیں مذہبی رنگ لیے ہوئے ہیں اس لیے پست سمجھے جانے والے بھی ان بنیادوں پر یقین رکھتے ہیں۔چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اس نظام کی زیادتیاں ہر آن سہنے کے باوجود، نظام کی بنیادوں کو غلط نہیں سمجھتی۔ عموماً اس کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ چھوت چھات کے نسبتاً سنگین مظاہر سے اسے نجات مل جائے اور بعض معاشی سہولیات فراہم ہوجائیں۔
ذات پات کے نظام کو تقویت پہنچانے والا تیسرا عامل وہ کہانیاں، داستانیں اور روایات ہیں جو عوام کی نفسیات کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہ قصے ایک نسل دوسری نسل کو منتقل کرتی جاتی ہے، روز مرہ کی گفتگو میں ان کہانیوں کی تلمیحات سنائی دیتی ہیں، لوک گیتوں کے مضامین خیالی داستانوں کو حقیقت کا رنگ دے دیتے ہیں اور مختلف قسم کے ناٹک اور لیلائیں دیومالائی حکایات کو عوامی یادداشت کا جز بنادیتی ہیں۔ ان داستانوں میں ذات پات کا نظام ایک زندہ حقیقت کے طور پر نظر آتا ہے گویا وہ فطرتِ کائنات کا جز ہے۔ مثلاً ایکلویہ کی کہانی سننے والوں کو بتاتی ہے کہ نچلی ذات کا فرد، کسی ہنر میں کمال حاصل کرنے کے باوجود اس ہنر سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔ تیرکمان چلانے میں مشاقی کے حصول کے بعداس کا انگوٹھا کاٹ لیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی تیر اندازی کی مہارت کا استعمال نہ کرسکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ بہ خوشی اپنے انگوٹھے سے محرومی گوارا کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ گرو (استاد) کی مبالغہ آمیز تعظیم کے مشرکانہ تصور نے اس کے شعور پر پردے ڈال دیے ہیں اور اسے انسانی عزت و شرف اوراحساسِ خودی سے بے گانہ کردیا ہے۔
آخری عامل جو ذات پات کے نظام کو زندہ رکھتا ہے وہ سماجی رسوم و رواج ہیں۔ پیدائش سے لے کر شادی بیاہ تک اور تقریبات سے لے کر ارتھی (جنازے) کے اٹھائے جانے تک، ایک فرد کو متعدد رسوم کی ادائیگی سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان رسوم کو مذہبی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور ان کے انجام دینے والے عموماً برہمن ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی اور متعلقہ رسوم کو انجام نہیں دے سکتا۔ جو لوگ اس سلسلے میں برہمن، پنڈت یا پجاری کی عنایت کے طالب ہوتے ہیں، عموماً ان مواقع پر اُ ن کو نذرانہ بھی پیش کرتے ہیں اور اس پیش کش کے بغیر متعلقہ تقریب انجام نہیں پاسکتی۔ چنانچہ ذات پات کا نظام، اعلیٰ ذات والوں کو نہ صرف عزت واحترام کا مقام دیتا ہے بلکہ مالی منفعت کا باعث بھی بنتا ہے۔ دوسری جانب ایک عام فرد جسے بہرحال شادی بیاہ جیسے مراحل سے گزرتا ہے، مذہبی رنگ کی رسم کے بغیر اطمینان محسوس نہیں کرتا۔ اس طرح ذات پات کا نظام ایک سماجی ضرورت بن جاتا ہے۔
ناقص تدابیر:
ہمارے ملک میں چھوت چھات کے خاتمے کے لیے قانون موجود ہے اور ماضی و حال میں چھوت چھات کے خلاف مہمات اور تحریکیں بھی چلائی گئی ہیں لیکن خود ذات پات کے نظام اور اس کی فکری بنیادوں کو چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کوششوں کو ناقص تدبیر ہی کہا جاسکتا ہے۔ جو باشعور افراد، فی الواقع ظلم و ناانصافی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ان کو سمجھنا چاہیے کہ ذات پات کی فکری بنیادوں کو رَد کیے بغیر، ذات پات کے نظام کی خرابیوں سے نجات ممکن نہیں ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان مذہب اور مذہبی تصورات کے بغیر زندگی نہیں گزارسکتا۔ اس کے سماجی روابط اور معاشرتی رشتے، مذہبی سند کے محتاج ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا حقیقت کے ادراک سے ایک اہم نتیجہ نکالا جاسکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مذہب انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ انسان کا سماجی وجود بہرحال مذہبی بنیاد چاہتا ہے۔ چنانچہ ذات پات کے نظام کو فروغ دینے والے مذہبی تصورات سے نجات مطلوب ہو تو محض مذہب کی نفی سے کام نہیںچل سکتا بلکہ متبادل مذہبی تصورات کے اثبات کی ضرورت پیش آئے گی۔ شرک کے بجائے توحید، انسانوں کے درمیان تفریق کے بجائے وحدتِ آدم اور تکریمِ انسانیت کے تصورات اور تناسخ کے بجائے یومِ حساب پر یقین وہ متبادل بنیادیں ہیں جو مذہبی سند بھی رکھتی ہیں اور فرد و سماج کو عدل و انصاف اور مساوات سے ہم کنار بھی کرتی ہیں۔ ذات پات پر مبنی ظلم سے چھٹکارا پانے کے لیے محض چھوت چھات کے خاتمے کی تلقین کافی نہیں بلکہ ان تصورات و اقدار سے انسانی ذہن کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے جو اسے خدا شناسی و خود شناسی کا اہل بنائیں اور دوسرے انسانوں کا، بحیثیتِ انسان، احترام کرنا سکھائیں۔
حصولِ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں (ذات پات کے نظام کو چیلنج کیے بغیر)، پست سمجھی جانے والی آبادی کی سماجی و معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے رزرویشن کی تدبیر اپنائی گئی۔ محدود نقطۂ نظر اور مقصد کے باوجود، یہ تدبیر اچھے نتائج پیدا کرسکتی تھی لیکن اس کے نفاذ میں بدنیتی اور بے تدبیری کو راہ دی گئی جس نے اس کے اچھے اثرات کو مضمحل کردیا۔ ابتدائی اورپرائمری سطح پر تعلیم کا معقول انتظام کرنے کے بجائے محض اعلیٰ تعلیم کی سطح پر نچلے سمجھے جانے والوں کے لیے رزرویشن کو کافی سمجھا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ پست کہلانے والی آبادی کے ایک قلیل حصے کو ہی اس تدبیر سے فائدہ پہنچ سکا۔ ایک قابلِ لحاظ آبادی، تعلیم اور اس کے فوائد سے اسی طرح محروم رہی جس طرح آزادی سے قبل تھی۔ اس تجربے کا سبق یہ ہے کہ زیادہ باریک بینی اور مستعدی کے ساتھ تعلیمی نظام اور تعلیمی سہولیات کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔ ابتدائی و پرائمری تعلیم کے حصول کی راہ میں جو نفسیاتی، سماجی، معاشی و انتظامی رکاوٹیں اس وقت حائل ہیں اُن کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ و منصوبہ بند کوشش کرنی چاہیے۔ اس اہتمام کے ساتھ رزرویشن کی سہولت سے کچھ اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے ورنہ بحالتِ موجودہ، اس کی افادیت بہت محدود ہے۔
صالح نظریہ حیات سے محرومی:
محرومی کی ایک سطح یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس وسائل نہ ہوں، روپیہ پیسہ نہ ہو، وہ تعلیم نہ حاصل کرپایا ہو، اس کے پاس تسلّی بخش ذریعہ معاش نہ ہو،اس کو عالی شان گھر میسر نہ ہو۔ سماج میں اس کو عزت کا مقام نہ حاصل ہو اور اس کے ہمدردوں و دوستوں کا دائرہ محدود ہو۔ بلاشبہ محرومی کی یہ سطح بڑی تلخیاں اپنے اندر رکھتی ہے اور انسان فطری طور پر محرومی کی اس کیفیت سے نجات پانے کا خواہش مند ہوتا ہے۔
لیکن محرومی کی ایک اور سطح بھی ہے جو شدید تر ہے۔ وہ محرومی یہ ہے کہ ایک شخص حق و صداقت سے محروم ہو، صالح نظریہ حیات کا ادراک نہ کرسکا ہو، اپنی حقیقت سے بے خبر ہو، حیات و کائنات کا راز اس پر منکشف نہ ہوا ہو،اسے اپنی منزل معلوم نہ ہو، مقصد حیات کا پتہ نہ ہو، صحیح اور غلط، حق اور باطل کے درمیان امتیاز سے وہ قاصر ہو اور ان سب محرومیوںکے نتیجے میں وہ یقین و اطمینان سے محروم ہو، شکوک، یاس، نا امیدی اور بے یقینی کا شکار ہو اور اس کی زندگی اضطراب و بے چینی کے عالم میں گزر رہی ہو۔ یقینا اس نوعیت کی محرومی زیادہ تلخ اور اذیت ناک ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی کے وہ لوگ جن کو پست بنادیا گیا ہے اور اپنی پستی پر قناعت بھی جِن کو سکھادی گئی ہے، دونوں طرح کی محرومیوںکا شکار ہیں، وسائل حیات سے بھی محروم ہیں اور شعورِ حیات سے بھی۔ ان کو پست رکھنے کے خواہش مند، نام نہاد بڑے لوگ، ان کی اس محرومی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن ان مظلومین کو جاننا چاہیے کہ اپنی حالت کو بدلنا خود ان کے اختیار میں ہے۔ وسائلِ حیات چاہے انھیںنہ مل سکیں لیکن صالح نظریہ حیات کو وہ فوراً اپناسکتے ہیں۔ ضرورت صرف جرأت کی ہے۔ اگر شعورِ حیات انھیں حاصل ہوجائے تو وہ مشکلات سے تنگ آکر خود کشی نہیں کریں گے بلکہ ظلم و نا انصافی کی موجودگی کے باوجود اپنی انسانی شخصیت کی تکمیل کے لیے کوشاں ہوں گے جس کا راستہ بندگی رب، تعمیرِ کردار، خدمتِ انسانیت اور قیامِ عدل کی جدوجہد کی راہوں سے گزرتا ہے۔