محمد عبد اللہ جاوید، کرناٹک
رات اور دن کی طرح زمانے بھی بدلتے ہیںاقوام کی تقدیریں اورملکوں کے حالات بھی بدلتے ہیں۔تغیرکائنات میں ہو، انسانی معاشرہ میں یاکسی فرد کی زندگی میں، ایک ناگزیر اورمستقل عمل ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کارازاس تغیر کی روح سمجھنے، مثبت طرز عمل اختیار کرنے اور یقینی تبدیلی کے عزم وحوصلہ سے وابستہ ہے۔اگر تغیرات کا صحیح فہم ہو لیکن نئے طرز پر، نئے اورمتنوع طریقے اختیار کرنے میںتذبذب تو پھر تنزل یقینی بن جاتاہے۔علامہ اقبالؒ نے طرز کہن پر اڑنے کے معنی اسی ذیل میں بیان فرمائے ہیں۔
انسانی زندگیوں میں صالح انقلاب کیلئے درکار جواںعزائم اور بلند حوصلے نہ صرف تغیر اور تبدیلی کے ان مسلمہ اصولوں کی پابندی کا تقاضہ کرتے ہیں بلکہ ان پہلوئوں کا جائزہ بھی ضروری قرار دیتے ہیں جومنظم جدوجہد کیلئے رکاوٹ بنتے ہیں۔لہذاایک پہلو سے خوب غور وخوص ہونا چاہئے۔یہ وہ پہلو ہے جو ماضی اور حال دونوں سے تعلق رکھتا ہے اور جوہر ایک کیلئے قابل فہم بھی ہے۔
ماضی پر غور کیجئے ،معلوم ہوگاکہ اس وقت کے حالات ،اسوقت کے وسائل اورلوگوں کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق مزین ہیں۔دینی و دنیوی علوم کی ماہر ایسی ایسی شخصیات تاریخ کے منظر نامے پر نظر آتی ہیں جن کاعلم،جن کی فکر اور کارکردگی صدیوں تک لوگوں کیلئے استفادہ کاذریعہ بنتی رہی ہے۔
آج ترقی یافتہ ممالک جن علوم کی بنیاد پر انسانیت کے امام ہونے کا دم بھرتے ہیں ان کے حقیقی امام تووہ اسلاف تھے جن کی علمی وفکری بنیادوں پر ترقی کی یہ منزلیں طے کی گئی ہیں۔چاہے طبیعات اور کیمیا ہو یا ریاضی اور فلسفہ، رازیؒ اور غزالیؒ بھی ہیں اور فارابیؒ اورجابر بن حیانؒ بھی ہیں۔ابن الہیثمؒ اور ابن رشدؒ بھی ہیں جنہوں نے گلیلیو(galileo) سے پہلے ثقلی قوت (gravitational force) کا انکشاف کیا تھا۔ماضی قریب کی نامور شخصیات نیوٹن اور آئن اسٹائن وغیرہ کا بھی ان اسلاف سے فکری وعملی ترغیب پانے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ سائنسی ایجادات اور ترقی تدریجی مراحل کے ساتھ ہی منظر عام پر آتی ہیں۔ایک معروف مغربی تاریخ دان philip k hitti کے بقول:
not only most of the stars are named in European langauges of Arabic origins….but a number of technical terms too….are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe (Histroy of the Arabs)
یوروپ کی زبانوں میں نہ صرف کئی ستاروں کے نام عربی ناموں سے لئے گئے ہیں بلکہ متعدد اصطلاحات بھی شامل کی گئی ہیں جس سے عربی علم لسانیات کی برتری اور عیسائیوں کے یوروپ پراسلام کی قیمتی میراث کی مہر ثابت ہوتی ہے۔
بہرحال ماضی کے علم و ادب اور ترقی وایجادات کی تاریخ بڑی غیرمعمولی ہے۔اس پہلو سے غور ہونا چاہئے کہ انسانی عقل آخر کیسے علم نافع تک رسائی کرجاتی ہے اور کیسے بسااوقات ماضی کا فہم حاصل کرتے ہوئے حال اور مستقبل کا اندازہ کرلیتی ہے؟آخر وہ علم و عقل سے تعلق رکھنے والی کیا خاص خوبیاں ہیں جو انسان کو میسر آتی ہیں اور کیسے ا ن خوبیوں سے استفادہ ممکن ہوجاتا ہے؟
چلئے اس صدی کی ایک حیرت انگیز دریافت پر غور کرتے ہیں جس کا محرک بہت پہلے وجود میں آیا تھا۔ 1915میں آئن اسٹائن نے اپنے مشہور نظریہ اضافت عمومی (general theory of relativity) کے ذریعہ خلا میں کشش ثقل کی لہروں(gravitational waves) کے پیدا ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔ تقریباً سو سال بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور فروری2016 میں امریکہ میں ایک عالمی منصوبہ LIGOکے ذریعہ کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کا اعلان ہوا جس کو اکیسویں صدی کی عظیم ترین دریافت کہا جارہا ہے۔ علم طبیعات کے میدان میں سال 2017کا نوبل انعام اس دریافت کے روح رواں رہے تین سائنسدانوں، کیپ تھارن، رینروائیس اوربیری بیرش کو دیا گیا۔
ایک صدی پرانے خیال کے تعاقب میں ہوئی یہ دریافت کیا ایک صدی پرانے غیر معمولی ذہن کا کمال ظاہر کرتی ہے یا ایک صدی تک ایک نظریہ کے تعاقب کرنے کی انتھک جدوجہد کی داستان سناتی ہے؟ پھر جن ثقلی لہروں (gravitational waves)کی دریافت ہوئی وہ کوئی معلوم فاصلے سے نہیں بلکہ زمین سے1.8بلین نوری سال کے فاصلے پر موجود دو بلیک ہول کے تصادم سے پیدا ہونے والی لہروں کی دریافت ہے(ایک نوری سال کے معنی وہ فاصلہ جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے ،واضح رہے روشنی کی رفتارایک لاکھ 86ہزار میل فی سکینڈ ہے) 1.8 ارب نوری سال کے فاصلہ کی حیرت انگیز دوری کا اندازہ بہت مشکل ہے۔
ماضی کے انسان کی یہ خوبی کہ وہ مستقبل کی پیش گوئی کرسکے اور حال کے انسان کی یہ قابلیت کے وہ عربوں کھربوں میل دور کائنات میں ہونے والے ہزاروں سال پہلے کے تصادم کا پتا لگا سکے،کیا ایسا نہیں معلوم ہوتا کہ انسان کو قوت ادراک اور فہم وشعور کی بے پناہ صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں اور اس کیلئے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں مسخر کردی گئیں ہیں؟
انسانی ذہن، قدرت کا حیرت انگیز شاہکار ہے۔انسان اگر بڑھنا چاہے توکائنات کی وسعتوں میں بھی سما نہ سکے۔ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ کیسی کیسی عظیم دریافت ، ایجادات ، انکشافات اورعقل کو حیران کرنے والے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں۔اور اگر انسان ترقی کی بجائے تنزل کو پسند کرلے تو پھر اس میں اورجانوروں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ، انسانی تاریخ ظلم وبربریت اور غیر معمولی تباہی کی جو خونی داستان اپنے اندر رکھتی ہے ،انسان کی اسی جہالت کا نتیجہ ہے۔
ماضی اور حال کا موازنہ اور انسانی ترقی وتنزل کا صحیح فہم، مستقبل کی پیش قدمی کیلئے ناگزیر ہے۔ جو کوئی کامیابی وترقی کی بڑی بڑی منزلیں پانے کا خواہشمندہو اسے اس پہلو سے انتہائی غور وخوص کرنا چاہئے کہ آخرگذشتہ زمانوں کے لوگوں کے بڑے بڑے کارناموں کے پیچھے کیا راز تھا؟حالانکہ اس زمانے میں حصول علم کے طریقے محدود، وسائل محدود، انسانی روابط محدود، ذرائع ابلاغ بھی نہ صرف محدود بلکہ بلا کے سست رفتار۔اسکے باوجود وہ کیاعوامل تھے جوانسانی فکر کی پختگی اور ان کے عمل کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں؟ آج حصولِ علم کے ذرائع لامحدود، تمام ممکنہ وسائل کی فراہمی ممکن،اطلاعات و نشریات کی تمام تر سہولتیں دستیاب ،روابط وتعلقات کی ہمہ جہتی ممکن….آج کے ہر انسان کیلئے وسائل کی کثرت ہے گویا ایک چھوٹا گائوں بھی ہے تو اس کی دہلیز پرپوری دنیا اپنے ساز وسامان کے ساتھ آگئی ہے۔
لیکن آج کی ترقی بعض ایک میدانوں تک ہی محدود کیوںنظر آتی ہے؟ کیوں عبقری شخصیتیں ابھر نہیں رہیں ہیں؟ کیوں نامور سائنسدان اور ادیب اور فلسفی پیدا نہیں ہورہے ہیں؟ اگر امت مسلمہ کے حوالے سے غورکیجئے تو اس صورت حال میں مزید تشویش کا اضافہ ہوجاتا ہے۔کیوں اب،ابن تیمیہؒ وغزالیؒ، ابن سیناؒ وفارابیؒ اور اقبالؒ و غالبؒ پیدا نہیں ہورہے ہیں؟آخر وہ کیا وسائل و ذرائع تھے جو ماضی میں تو موجود تھے اور حال میں نہیں ہیں؟ اور وہ کیا عقل وفہم کی قابلتیں تھیں جو ماضی میں تو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آتی ہیں لیکن حال میں نہیں؟
ملت کے طلبہ ونوجوانوں کی علمی وفکری سرگرمیوں کو مہمیزکرنے کیلئے ماضی اور حال کاموازنہ، غور وفکر اوربلند عزائم کا ایک اہم حصہ ہونا چاہئے۔بعض اوقات ترقی کیلئے ماضی کا جائزہ ،تیزگامی کے ساتھ مستقبل کی صورت گری کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ بقول علامہ اقبالؒ ایسی قوم توزمانے میں صورت شمشیرہے۔
ماضی کے استحضار کے ساتھ حال کا جائزہ
ہمارے ملک میں نوجوانوں کی موجودہ صورت حال پر غورکیجئے، حسب ذیل امور سے اتفاق کیجئے یا انہیں سوال سمجھ کر دنیا کو حقیقت حال سے واقف کرائیے :
(۱) نوجوانوں کی اکثریت بے مقصدیت کاشکار ہے۔نتیجتاً طلبہ ہیں تو اعلیٰ تعلیم کے حصول اور علم و تحقیق کے میدان میں پیچھے ہیں تعلیم یافتہ ہیں تو مادہ پرستی کی دوڑ میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔
(۲) شخصی ارتقاء کا کوئی واضح شعور نہیں ہے۔نہ نظام تعلیم اس جانب متوجہ ہے اور نہ بحیثیت مجموعی معاشرہ۔نتیجتاً شخصیت سازی سے یا تو غفلت ہے یاپھر غیر متوازن طریقہ کار کے ذریعہ سطحی کوششیں۔
(۳) بے مقصدیت اور خودی سے غفلت،جیسے مہلک خطرات سے آج کے نوجوان دوچار ہیں۔نتیجتاً بلند عزائم اور حوصلوں کی کمی، منصوبہ بند علمی وفکری ارتقاء کی کوششوں کافقدان،بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان بڑھتے فاصلے، کم عمری میں جان لیوا بیماریوں کا شکار۔۔۔ آج کے سلگتے مسائل ہیں۔
(۴) دور حاضر کے مسائل نے بھی بڑی حد تک نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔غربت، بے روزگاری، نفرت وتعصب ،سیاسی استحصال،انسانی خدمت سے عدم دلچسپی، انسانی خیر خواہی اور معاشرتی بھلائی کیلئے سنہرے خوابوں کا فقدان جیسے امورایک تسلسل کے ساتھ قابل تشویش بنتے جارہے ہیں۔
(۵) دورحاضر کی ترقی نے بھی نوجوانوں کو حیرت انگیز طور پر متاثر کیا ہے۔مادہ پرستی، وقت کا بے جا استعمال، لوگوں سے ربط وتعلق کے بے ڈھنگے طریقے، ذرائع ابلاغ کا بے محل استعمال، مرد وزن کے درمیان گھٹتی تمیز،رہن سہن میں وقاراور شائستگی کا فقدان ،کھانے پینے میں صحت کا عدم خیال جیسے امور نوجوانوں کی فکر وسوچ اور روز مرہ کے معمولات پر غیر معمولی اثر ڈال رہے ہیں۔
(۶) صحیح سمت سفر کے تعین میں دشواری بھی ایک قابل توجہ پہلو ہے۔دور حاضر نے بعض نوجوانوں کو خواب دیکھنا توسکھایا لیکن خواب سچ کرنے میں وہ بوجوہ کامیاب نہ ہوسکے۔مگر بعض ایسے بھی ہیں جو خواب نہ دیکھنے میں عافیت سمجھتے ہیں،سستی وپسی ہمتی (dabblers)جن کی پہچان ہے۔
(۷) رہی بات ملت کے ان نوجوانوں کی جو کسی اجتماعیت سے وابستہ ہیں(ایس آئی او کے علاوہ)، اول تو ان کی تعداد بہت قلیل ہے اوربیشتر جگہ طلبہ اور نوجوانوں کواپنی علمی ،فکری اوراخلاقی تربیت کیلئے خصوصی مواقع میسر نہیں آتے۔ایسی کئی تنظیمیں اور ادارے ہیں جو طلبہ ونوجواں کیلئے کوئی خاص منصوبہ نہیں رکھتے۔ نتیجتاً سب لوگوں کے ساتھ ان کی بھی تربیت کا سامان ہوجاتا ہے۔اورسب کے ساتھ وہ بھی سرگرم عمل رہتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ مقصد کے لحاظ سے کسی بھی تنظیم کا نظام تربیت تشکیل بھی پاتا ہے اور اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ مقصدکی محدودیت ہوتو آفاقی فکر فروغ نہیں پاتی۔یہ بڑا المیہ ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو محدوددائروں میں سمیٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس لئے نہ اسلام کے آفاقی پیغام کے شایان شان سرگرمیاں انجام پاتی ہیں اور نہ ہی ہمہ جہت تربیت کا اہتمام ہوتاہے۔چنانچہ وطن عزیز میں بحیثیت مجموعی ملت کا اثر ورسوخ کم از کم ویسا بھی نہیں ہے جیسا دیگر اقوام کا یہاں پایا جاتا ہے۔
طلبہ ونوجوانوں پر ایک نظر!
وطن عزیز میں موجود نوجوان، دنیا میں تعداد کے لحاظ سے اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔نیشنل یوتھ پالیسی کے مطابق ہمارے ہاں تقریباً60کروڑ نوجوان ہیں جن کی عمریں25سال سے کم ہیں۔جبکہ ملک کی کل آبادی کا تقریباً70% حصہ40سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔اور40%آبادی کی عمر13سے 35سال کے درمیان ہے۔دنیا کے کسی ملک میں نوجوانوں کی اس قدر کثیر تعداد نہیں ہے۔ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کی دہری ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی علم و فضل اور کمال کے بلند سے بلند درجات کے حصول کی کوشش کریں اور ساتھ میں نوجوانوں کی اس کثیر تعداد کوبھی اپنا حقیقی مخاطب سمجھیں۔
علم وترقی کی ایک نئی دنیا بسانا،بڑے عزم وحوصلے کاکام ہے۔ اسکے تقاضے حقیقت پسندی اور قبولیت حق پر مشتمل ہیں۔ اس کام کی شروعات حقیقت پسندانہ اقرار اور ایجاب سے ممکن ہے۔اور اس حقیقت کے قبول کرنے سے کہ طلبہ و نوجوانوں کی موجودہ صورت حال، علم و فکر کے لحاظ سے اپنے مطلوبہ درجے میں نہیں ہے۔مخصوص میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والوں میں وطن عزیز کے نوجوان اور ملت اسلامیہ کے فرزندان کاکردار بھی نکھار اور تنوع کا تقاضہ کرتا ہے۔
منزل کوپانے کا یقین ہی منزل کا حاصل ہے
ملک و ملت کی تقدیر سنوارنا جس گروہ کے بس میں ہے ،آدھی کامیابی تواس کے حصہ میں اسی وقت آجاتی ہے جب وہ ایک واضح نصب العین سے اپنا تعلق استوار رکھتے ہوئے اپنی انفرادی واجتماعی زندگی للہ فی اللہ گزارنے کی شعوری کوشش کرتا ہے۔اس گروہ کے بلند عزائم اورحالات کی تبدیلی کا پختہ یقین اپنے وسائل اور اپنی قابلیتوں پر کم ، ان تھک جدوجہد اور رب کریم کی عنایات پر زیادہ ہوتا ہے۔اسکے نزدیک اسوہ رسول اللہؐ کا وہ پہلو ہوتا ہے جو بالکل ابتدائی زمانے میں دین اسلام کے غلبہ کی بشارت ہر اس عربی وعجمی کو دیتا ہے جو کلمہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرے۔اس گروہ کے پیش نظر وہ انتہائی ابتر اور نازک حالات بھی ہوتے ہیں جن میں رسول اللہؐ حضرت سراقہؓ کو قیصر وکسری کے کنگن پہننے کی بشارت دیتے ہیں۔اور صنعا سے حضر موت تک ایک اکیلی خاتون کے بےخوف وخطر سونا اچھالتے ہوئے سفر کرنے کی خوشگوار اطلاع مرحمت فرماتے ہیں۔
غرض بلندترین خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرناسازگار حالات اور وسائل کی فراوانی کی بنا نہیں بلکہ قوتِ ایمانی اور رب کی مہربانی پر منحصر ہے۔بلند عزائم اور حوصلوں کیلئے ایک واضح مقصد اور ہدف کا تعین اور اسکے مطابق استقلال کے ساتھ جدوجہد میں صرف ایک چیز فیصلہ کن رول ادا کرتی ہے۔نہ حالات کا اس میں زیادہ دخل ہوتا ہے اور نہ ہی وسائل کی تنگی کا کوئی مسئلہ۔فیصلہ کن چیز فرد کا کمٹنٹ اور کبھی نہ سرد پڑنے والا جذبہ ہے۔اگرکسی گروہ میں یہ کیفیات پیدا ہوں تو ان کے اور انکے خوابوں کے درمیان صرف وقت کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ صبر واستقلال کے ساتھ کی جانے والی کوششیں یقینا رنگ لاتی ہیں۔
ایسے پرعزم گروہ کیلئے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے فکر وخیال اور حرکت و عمل کا باقاعدہ جائزہ لیتا رہے۔ فکری پختگی اور استقلال عمل کے لئے ضروری ہے:
(۱) قرآن سے گہرا شغف، اس کی تعلیمات پر عمل اور حالات پر انطباق کی کوشش۔
(۲) سنت رسول اللہؐ سے گہری محبت اورانفرادی و اجتماعی حیثیت میں اس کے عملی نمونے کا اظہار۔
(۳) دین اسلام کا گہرا مطالعہ اوربنیادی فکر کے مطابق،انفرادی واجتماعی فکر کی پختگی پر توجہ۔
(۴) کسی ازم،کسی تحریک یا کسی فکر و خیال سے متاثر ہوئے بغیر اسلام کی آفاقی فکر کے تحت دلوں کو مسخر کرنے کاعزم اورمستقل کوشش۔
(۵) وضع و قطع ،بول چال اور رنگ ڈھنگ کوبلندمقاصد کے مطابق بتدریج ڈھالنے کی شعوری پہل۔
(۶) کسی ایک میدان میں تخصص کی باضابطہ منصوبہ بندی۔
(۷) علمی،فکری اور اخلاقی برتری کی باقاعدہ اور مستقل کوشش۔
غرض ان امور پر توجہ سے اس بات کایقین گہرا ہوتا ہوجائے کہ اعمال صالح کی انجام دہی،صالح فکر کی آبیاری، صالح صحبت کا حصول اور صالح ماحول کا فروغ ہی منزل کو پانے کیلئے زاد راہ بھی ہے اور قوت محرکہ بھی۔
منزلوں کی تمنا کیجئے
تمنا، دل کا حال بتاتی ہے۔ تمنا نیک ہو تو دل بھی نیک۔ تمنائیں بڑی ہوں تو دل میں خدا کی عظمت و بزرگی کا استحضار بھی بڑا۔ جب کوئی فرد یاگروہ بلند عزائم اور حوصلوں کے ساتھ انسانوں کے دل اور انسانی معاشرہ کی تسخیر کا منصوبہ روبہ عمل لاتے ہیں تو وہ دراصل اپنی خود ی کی پہچان اور اپنے رب پر بے انتہا توکل اور امید کے ترجمان بن جاتے ہیں۔
کچھ کردکھانے کی بات دراصل فرد کو اس کی ذات اور اسکے رب سے مربوط کرنے کی بات ہے۔آج کی دنیا صالح نوجوانوں کے حیات آفریں کارناموں کی منتظر ہے۔بس کچھ کرنے کی ٹھان لیجئے، اپنی صفوں میں اسلامی رنگ غالب رکھئے، کبھی نہ ٹوٹنے والا عزم اور حوصلہ پیدا کیجئے، رب کریم کی تائید ونصرت آپ سے ایسے ایسے کام لے گی کہ دنیا دنگ رہ جائے گی اور آپ کے دلوں کو مسخر کرنے والے کارناموں سے نسلیں کی نسلیں ترغیب پائیں گی۔
جائز اور بامقصد تمنائوں کا اپناایک اعلی مقام ہے، اسے اپنے دل میں جگہ دیجئے۔تمنائوں کا ایک تسلسل اپنے دل میں قائم کیجئے۔ایک ایک تمنا کو فرد ومعاشرہ کی تسخیر میں بدل دیجئے ،دوسری تمنا ازخود آپ کے دل میں آبس جائے گی۔یہی وہ راہ ہے جس پر چلنے کا شوق دن بہ دن جنون کی شکل اختیار کرنا چاہئے اور تمنائے خیر ، خیر وصلاح کی ایک لازوال تاریخ بننی چاہئے۔اسی لئے تو رسول اکرم ؐکی یہ بشارت ہے:
لَیَنْظُرَنَّ اَحَدُکُمْ مَّاالَّذِیْ یَتَمَـنّٰی فَاِنَّہٗ لَا یَدْرِیْ مَا یُکْتَبُ لَہٗ مِنْ اُمْنِـیَّـنْہٖ
(حضرت ابوسلمۃ ؓ- ترمذی)
تم میں سے ہرشخص دیکھے کہ وہ کیا تمناکررہا ہے،کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی تمنائوں کے بدلے میں کیا(اجر وثواب اسکے نامہ اعمال میں) لکھا گیا ہے۔