سلیمان خان ،نظام آباد
دوست کے معنی ہم راز اور رازدار کے ہے۔ راز ایک ایسا لفظ ہے جس کی سماعت سے انسان اپنے آپ میں خود کو غیر محفوظ خیال کرتا ہے کیونکہ اس کو اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں وہ اْس راز کو راز باقی نہ رکھ پائے۔ دوست ایک ایسا لفظ ہے جس کو سننے پر اطمینان قلب بھی ہوتا ہے اور انسان خود کو خوش نصیب بھی محسوس کرتا ہے ۔کیونکہ دوستی ایک ایسا واحد رشتہ ہے جہاں انسان اپنے سارے کاموں کا تذکرہ کرتا ہے، چاہے وہ مثبت ہو یا منفی، وہ جانتا ہے کہ اس کا رفیق اس کے خیالات کو سمجھے گا، اس کو اس کی سوچ کے مطابق صحیح راہ بتائے گا، اور اپنے دوست کے ان تمام خیالات کوسن کر اس کو اس راہ کے لئے رہنمائی کرے گا جو اس کے لیے بہتر ہو۔
یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں آدمی خود کو غیر معمولی طور پر محفوظ پاتا ہے، اپنی تمام باتوں کو کھل کر بیان کرتا ہے اور اس کے حل کے لئے اپنے دوست کی رائے کو اوّل درجہ دیتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنے دوست پر کامل یقین ہوتا ہے کہ میرا ساتھی میرے لئے مفید اور مثبت مشورہ ہی دے گا۔ یہی وجہ ہے جس کے لیے زندگی میںایک مخلص دوست کا ہونا ضروری ہے اور یقینا ایک اچھا دوست زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ انسانی زندگی میں دوست ایک ایسا رشتہ ہے جہاں ایک فردکا دوسرے فرد سے آپس میں نہ تو خونی رشتہ پایا جاتا ہے اور نہ ہی ایک فرد دوسرے فرد سے سماجی قانون سے جکڑا رہتا ہے، جہاں ہر لحاظ سے اسے پکڑا جائے،اس کو پوری چھوٹ اور مکمل آزادی ہوتی ہے کہ اس کو اپنے دوست کے ساتھ کے ساتھ کیسا رشتہ رکھنا ہے، اسے کتنا وقت اس کے ساتھ صرف کرنا ہے، اس کی کتنی مدد کرنی ہے اوراس کی کتنی قدر کرنی ہے۔عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس وقت دوستی کامعیار تبدیل ہورہا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ دوستی ایک ایسے فرد سے ہو جو مالدار ہو، جس کے پاس موٹر سائیکل ہو، جو مشہور و معروف ہو، جس کی دوستی سے آپ کو شہرت ملے، جو آپ کے اخراجات کی تکمیل کا ذریعہ بنے۔ یہ چیزیں اگر کسی کے پاس ہوں تو اس سے دوستی کرنے کے لئے لوگ مرے جاتے ہیں۔ دوستی کے لیے ایسا معیار اور اس طرح کے خیال رکھنے والے افراد کو یہ طے کر لینا چاہیے کہ وہ اپنی شخصیت کو چند دنوں کے آرام اور معمولی شہرت کے بدلے بڑے سستے داموں میں فروخت کر رہے ہیں۔ وہ اپنی خود اعتمادی کو پوری طرح مار ر ہے ہیں، آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک اچھا اور مخلص دوست بنانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
جبکہ مثبت اور تعمیری دوستی کے لیے ضروری ہے کہ دوستی ایسے فرد سے ہو جو مخلص طبیعت کا مالک ہ ،جو آپ کو اور آپ کے خیالات کو سمجھے، آپ کی اصلاح کرے،آپ کے جذبات کی قدر کرے، آپ کو اور آپ کی صلاحیتوں کو جانے اور اس کو مثبت رْخ دینے کی کوشش کرے،آپ کی غلطیوں پرمتنبہ کرے اور آپ کے لیے وہ صورت اختیار کرلے جسے حدیث میں آئینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ ؐنے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے آئینہ ہے۔حدیث میں آئینہ کی مثال یہ سمجھاتی ہے کہ جب انسان آئینے میں دیکھتا ہے توآئینہ اس کی حقیقی شکل دکھاتا ہے اگر چہرے پر داغ ہو تو وہ داغ چھپاتا نہیں بلکہ اس کو بالکل ویسا ہی دکھاتا ہے جیسا وہ ہے، لیکن انسان کبھی آئینہ پر غصہ ہوکر اس کو توڑتا نہیں بلکہ وہ اپنے داغ کو قبول کرتا ہے اور کو صاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک دوست جب غلطی کرے تو اس کے دوست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی غلطی کو بتائے۔
نبی کریم ؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے ہر آدمی کو غور کرلینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔(مشکوٰۃ) دوست کے دین پر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ دوست کی صحبت میں بیٹھے گا تو وہی جذبات اور خیالات اور وہی ذوق اور رجحان اس میں بھی پیدا ہو گا جو دوست میں ہے اور پسند اور ناپسند کا وہی معیار اس کا بھی بنے گا جو اس کے دوست کا ہے، اس لیے دوست کے انتخاب میں نہایت غور وفکر سے کام لینا چاہیے اور قلبی لگاؤ اس سے بڑھانا چاہیے جس کا ذوق اور رجحان، افکار وخیالات، دین اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
حضرت سعید بن المْسیبؓ نے حضرت عمر فاروق ؓکا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’اچھے اور سچے دوست بناؤ، ان کے سائے میں زندگی کے دن گزارو کہ وہ عیش کے وقت زینت اور مصیبت کے وقت سراپا مددہیں، جب بھی تم اپنے دوست کے متعلق بری خبر سنو تو اس کی بہتر تاویل کیا کرو، مگر یہ کہ تمہیں اس کی برائی کا یقین ہو جائے، اپنے دشمن سے دور رہواور اس دوست سے بھی بچو جو امین نہ ہو اور امین صرف وہی شخص ہے جو اللہ سے ڈرے، بد کار کی صحبت سے گریز کرو، ورنہ تم اس کی بد کاری سیکھ جاؤ گے، اسے اپنا راز دار مت بناؤ، مشورہ صرف ان لوگوں سے کرو جو اللہ سے ڈرتے ہوں‘‘۔
ان بنیادوں اور اصولوں پر جو دوستی قائم ہوتی ہے وہ ایک کامیاب اور مثالی دوستی ہوتی ہے۔ جس کی مثال نبیِ کریم صلعم کی سیرت مطہرۃ میں ملتی ہے۔آپ ؐ اور حضرت ابو بکر ؓ کی دوستی ایک مثالی دوستی تھی۔ ابوبکرؓ اور اللہ کے رسول ؐ کی دوستی ناپی نہیںجاسکتی، صرف مثال ہی دی جاسکتی ہے۔ ایک مشہور واقعہ کہ جب آپؓ کو دین اسلام اللہ کے نبی ؐ نے سمجھایا اور اسلام لانے کی دعوت دی توآپ ؓبغیر سوچے سمجھے ایمان لے آئے کیونکہ آپؓ کو نبی کریم ؐ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ تھا۔ یہ ایسی دوستی تھی کہ جب بھی نبیؐ نے آپ کو آواز لگائی آپؓ حاضر ہوجاتے یہاں تک کہ ہجرت کے موقع پر بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ آپ ؐ کے ساتھ تھے تبھی اللہ کے رسول ؐنے کہا تھا کہ میں زندگی میں دو لوگوں کا احسان نہیں چکا سکتا ایک آپؐ کی زوجہ حضرت عائشہ ؓ اور دوسرے آپؐ کے یار غار حضرت ابو بکر صدیقؓ۔
دوستی ایک اچھے مقصد کے لئے ہو تو بہت فائدہ مند ہوتی ہے اور دوست کے ساتھ سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ اس کو اخلاقی اعتبار سے زیادہ سے زیادہ اونچا اٹھانے کی کوشش کریں اور اس کی دنیا بنانے سے زیادہ اس کی آخرت بنانے کی کوشش کریں، خیر خواہی کا اصل معیار یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کے لیے وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہوں، اس لیے کہ آدمی اپنا برا کبھی نہیں چاہتا۔کہا جاتاہے کہ دوستی دریا کے مانند ہوتی ہے جو مخصوص راستے میں بہتی ہے اگر راستہ ہموار ہو تو آسانی سے بہتی ہے اور اگر مشکل ہو تو مشکل سے بہتی ہے، اگر دریا گاؤں سے گزرتی ہے اور اپنے قرب و جوار کے کھیتوں کو سیراب کرنے کی صلاحیت اس میںنہیں ہے، یا بالفاظ دیگر اس دریا کا پانی فائدہ مند ہونے کے بجائے کھیتی کے لیے نقصاندہ ثابت ہو تو اس کا ہونا بے جا ہے۔ اْسی طرح ایک دوست اگر اپنے دوست کی صحیح سمت میں رہنمائی نہ کرسکے اور اس کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ثابت ہوتو وہ دوست نہیںبلکہ دشمن ہے۔ مخلص اور اچھا دوست کتابوں سے زیادہ فائدہ مند ہ ہے ۔اے پی جے عبدالکلام کامشہور قول ہے کہ ’’ ایک بہترین کتاب سو اچھے دوستوں کے برابر ہے لیکن ایک مخلص دوست ایک لائبریری کے برابر ہے ـ‘‘۔
اب اگر کوئی شخص کسی سے دوستی قائم کرتا ہے تو اسے کم ازکم اس معیار کو مدنظر رکھناچاہئے کہ اس کا دوست اسے اچھے کاموں کے بجائے کہیں برے کاموں کی طرف راغب تو نہیں کر رہا ہے۔ وہ میری ذات میں بری صفات پیدا کرنے کا ذریعہ تو نہیں ہے، اس کی دوستی مجھے میری تعلیم اور مقاصد زندگی سے غافل تو نہیں کررہی۔ دوست وہ نہیں ہوتا جو آپ کو ضائع کردے بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو آپ کو اورآپ کی زندگی کو کامیابیوں کی طرف لے کر جائے،اور ایسی ہی دوستی تعمیری دوستی ہے ۔