تعلیم کا جدید بحران اور حکومت کا رویہ

مبشر الدین فاروقی
مارچ 2025

ان تمام کے علاوہ  ایک اہم پہلو  توجہ کا شدید متقاضی ہے، وہ ہے تعلیمی اداروں میں اظہار رائے کی آزادی پر شکنجہ کسنے کی مستقل کوشش۔

 قومی تعلیمی پالیسی 2020ء کے  ذریعے حکومت ِہند نے دعویٰ کیا کہ وہ ملک کے تعلیمی نظام کو مساوات پر مبنی،شمولیتی اور اکیسویں صدی کے لیے درکار صلاحیتوں  سے ہم آہنگ کرنے کے لیے  پرعزم ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے ملک کے تعلیمی نظام میں کئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں جیسے  تعلیم کے موجودہ ڈھانچے (اسٹرکچر) کو   10+2 کے بجائے 5+3+3+4 سے تبدیل کرنا، جماعت ششم ہی سے ووکیشنل  ٹریننگ کو نصاب کا حصہ بنانا،چارسالہ انڈر گریجویٹ پروگرام کو متعارف کروانا( درمیان میں  اخراج کے مختلف متبادل کے ساتھ)، بنیادی تعلیم مادری زبان میں فراہم کرنے پر خصوصی زوروغیرہ۔ ملکی سطح پر  اس پالیسی کے مرحلہ وار  نفاذ کا آغاز ہوچکا ہے۔   ملک کی سو سے زیادہ یونیورسٹیوں میں چار سالہ انڈرگریجویٹ پروگرام کی شروعات ہوچکی ہے، جس کے لیے نصاب میں بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اے آئی سی ٹی  ای کی جانب سے  مختلف پروفیشنل کورسوں کو  مقامی زبانوں میں متعارف کروایا  جارہا ہے۔ تعلیم سے متعلق کئی ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کی شروعات کی جاچکی ہے۔

قومی تعلیمی پالیسی کے علاوہ  تعلیم کے محاذ میں حکومت کی جانب سے یکے از بعد دیگرے کئی چیزیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ گذشتہ دو مہینے کے عرصے کو ہی لیجیے۔ اس دوران   ‘ون نیشن ون سبسکرپشن’ اسکیم کے تحت سینکڑوں تحقیقی مجلات کو ایک ہی سبسکرپشن کےماتحت  لانے کے منصوبہ کا نفاذ، یوجی سی کی جانب سے  ‘یوجی سی کیر لسٹ’ کی تنسیخ، تعلیمی اداروں میں تقرری کے لیے نئے ضوابط کے مجوزہ  مسودہ(ڈرافٹ ریگولیشن) کی تیاری جیسے اقدامات  کیے گئے ہیں۔

قومی تعلیمی پالیسی سے لے کر مذکورہ بالا اقدامات کے پس منظر، نوعیت  کو سمجھنا اور ان کے ممکنہ اثرات کا اندازہ کرنا بہت ضروری ہے۔ دیگر محاذوں کی طرح اس محاذ میں بھی باتیں زیادہ ہوئی ہیں  اور کام کم۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ  عرصہ دراز سے   تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 6 فیصد مختص کرنے کا مطالبہ ہنوز زیر التواء ہے۔

ملک میں تعلیمی نظام سے جڑے مسائل مختلف جہتی ہے۔  معیاری تعلیم تک رسائی کے غیر مساوی  مواقع،  نصاب اور  جدید تقاضوں کے درمیان فصل،  تربیت یافتہ تدریسی عملے کی کمی، تعلیم کا تجارتی کرن جیسے  کارپوریٹ اداروں اور مفادات کا تعلیم پر اثر انداز ہونا  جیسے امور ملک میں نظام تعلیم کی بحرانی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔  تعلیم کے میدان سے تعلق رکھنے والے بہی خواہان اور ماہرین مستقل اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مخصوص کورسوں میں داخلے کے لیےمسابقت کے غیر فطری ماحول نے تعلیمی تناؤ کی اس کیفیت کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں کئی طلبہ خودکشی جیسا راستہ اختیارکرنے پر مجبور ہوئے  ہیں۔  موجودہ حکومت کی اقلیتوں کی تعلیم کے متعلق بے حسی  ، ان  کے لیے مختص بجٹ کی  مستقل کمی سے بھی عیاں ہے۔ 

ان تمام کے علاوہ  ایک اہم پہلو  توجہ کا شدید متقاضی ہے، وہ ہے تعلیمی اداروں میں اظہار رائے کی آزادی پر شکنجہ کسنے کی مستقل کوشش۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں متعدد ایسے واقعات پیش آئے جس میں طلبہ کو جمہوری طریقے سے کسی سماجی یا سیاسی موضوع پر اپنی آواز اٹھانے سے روکا گیا، ان کی حمایت کرنے والے اساتذہ کو تنبیہ کی گئی، کچھ معاملات میں انہیں برطرف بھی کیا گیا۔    یونیورسٹیوں میں  ایسے موضوعات پر کلام کرنا جس کے ذریعے حکومت کی پالیسیوں پر  نقد و جرح کا امکان ہو،مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یونیورسٹیاں  بنیادی طور پر  علم کے حصول،  سماج اور سماجی مسائل کو سمجھنے، انسانوں کی صلاحیتوں کے بہتر سے بہتر استعمال کے راستوں کو تلاش کرنے کی جگہیں ہیں۔ یہ فکر و نظر کو جلا بخشنے، تخلیقیت کو فروغ دینے کی جگہیں ہیں۔ مختلف طرح کا دباؤ اور شکنجے  علمی و تخلیقی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔

تعلیم   انسانی شخصیت کو نکھارتے ہوئے اپنی معراج پر پہنچنانے کا سفر  ہے۔ اس عمل میں جبر، رکاوٹیں، روایتی طرز و بندشیں جتنی کم ہو گی، یہ  عمل اتنا ہی پائیدار اور نتیجہ خیز ہوگا۔ لہذا  جتنا یہ ضروری ہے کہ معیار تعلیم کی بلندی اور مساوی مواقع کی فراہمی پر توجہ دی جائے  اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم کے تصور کی روشنی میں ایک جامع نظام تشکیل دیا جائے۔یہ درست تصور جدید حکومت کے یہاں ناپید ہے۔ اس کے برعکس یہاں تعلیم کو ایک محاذ سیاست گردانا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ  موجودہ حکومت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس نے تعلیم اور نظامِ تعلیم کا ویپنائزیشن کر دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں صرف انہی امور پر توجہ دی جاتی ہے جنہیں حکومت کی سندِ جواز حاصل ہو۔ بہت بڑے بڑے اداروں میں بھی جاہل نیتا اہل علم کو درس شکستگی عقل دیتے نظر آتے ہیں۔ اس شمارے میں ہم نے اسی ضمن میں کچھ اہم ایشوز کو زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے۔

حالیہ شمارے

جدید تہذیب اور اسلامی اخلاق

شمارہ پڑھیں

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں