تعلیمی پسماندگی کے اسباب اورحل

ایڈمن

ہندوستان میں تقریباَ ۴۷؍فیصد گریجویٹ روزگار کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ۳۵؍فیصد گریجویٹ صرف کلرک کی نوکری کے قابل ہیں۔ ۱۵؍فیصد گریجویٹ ہی بہتر روزگار کے لائق ہیں۔ ورلڈ بینک کے تجزیے کے مطابق صرف دس سے پندرہ فیصد گریجویٹ ہی…

ہندوستان میں تقریباَ ۴۷؍فیصد گریجویٹ روزگار کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ۳۵؍فیصد گریجویٹ صرف کلرک کی نوکری کے قابل ہیں۔ ۱۵؍فیصد گریجویٹ ہی بہتر روزگار کے لائق ہیں۔ ورلڈ بینک کے تجزیے کے مطابق صرف دس سے پندرہ فیصد گریجویٹ ہی بہتر روزگار کی اہلیت رکھتے ہیں۔ پانچویں کا طالب علم دوسری کلاس کا حساب نہیں لگاسکتا، حالانکہ سروشکشا ابھیان کے تحت انرولمنٹ میں اضافہ ہوا ہے، لیکن صرف رجسٹر میں کیونکہ کسی بھی طالب علم کو نہ فیل کرنا ہے اور نہ ہی اس کا نام کاٹنا ہے۔ اس لیے ہائر ایجوکیشن میں آتے آتے یہ نوجوان بے کار ہوجاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن میں انرولمنٹ ہندوستان میں اٹھارہ فیصد ہے۔ یعنی ایک تو دنیا کے دیگر بڑے ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے اور اس میں بھی ۴۷؍فیصد بے کار ہیں۔ اپنی زندگی کا پندرہ سال تعلیم میں خرچ کرنے کے بعد بھی ۵۵؍فیصد گریجویٹ صرف ۶؍ہزار کماپاتے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں دنیا کی دوہزار اعلی یونیورسٹیز میں ایک بھی ہندوستانی یونیورسٹی کا نام نہ ہونے پر صدر جمہوریہ افسوس ظاہر کرچکے ہیں۔
ایک طرف بے روزگاروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور دوسری طرف بے روزگاری بھی بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے سماج کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔ غریبی ومفلسی سماج کے لیے ناسور بنتے جارہے ہیں۔ کیونکہ اعلی تعلیم کی بنیاد پرائمری ایجوکیشن پر ہی ہوتی ہے۔ ہندوستان کا تعلیمی تناسب ۰۴ء۷۴ ہے۔ جب نارتھ انڈیا، بالخصوص یوپی، بہار اور جھارکھنڈ کو دیکھتے ہیں تو یوپی کا ۷ء۶۹، بہارکا ۸ء۶۳، اور جھارکھنڈکا ۶ء۶۷ہے۔ حالانکہ ہمارے یہاں صرف اپنا دستخط کرلینا ہی تعلیم میں شمار کیا جاتا ہے، نارتھ انڈیا کے صوبے اس پسماندگی سے کچھ زیادہ ہی متأثر ہیں، آئیے اس کی وجوہات پر غور کرتے ہیں، اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تعلیمی پسماندگی کے اسباب
(۱)فنڈ کی کمی: فنڈ کی کمی ہونا ایک بہت بڑی حقیقت ہے، اور جو فنڈ الاٹ کیا جاتا ہے، اس کا صحیح استعمال نہ ہوپانا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ فنڈ کی کمی ہونے کے بعد بہت سارے دیہی علاقوں کے اسکولوں میں بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ بجٹ کا تقریبا تیس فیصد حصہ ہائر ایجوکیشن کے لیے مخصوص ہے۔
(۲)اساتذہ کی کمی:ٹیچرس کا تقررایک سیاسی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ فند کی کمی ہونے کے سبب لاکھوں ٹیچرس کی جگہ خالی ہیں۔ تقریبا پچاس اسٹوڈنٹس پر ایک ٹیچر لگتا ہے، جس کی وجہ سے تعلیم متأثر ہورہی ہے۔
(۳) ایجوکیشن پالیسیز میں کمزوریاں: موجودہ تعلیمی پالیسی حقیقت میں برطانوی پالیسی ہے ، یہ پالیسی امیروں اور بااثر لوگوں کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے، حالانکہ نارتھ انڈیا کے صوبے معاشی اعتبار سے بہت زیادہ پچھڑے ہوئے ہیں، یہاں دلت، پسماندہ اور اقلیتی طبقات کی تعداد زیادہ ہے۔
(۴) ڈراپ آؤٹ: ۲۰۰۴ ؁ء اور ۲۰۰۵ ؁ء کی رپورٹ کے مطابق ایک سے پانچ تک کا ڈراپ آؤٹ تناسب ۷۵؍فیصد اور ایک سے آٹھ کلاس تک ۵۸؍فیصد ہے، یہ ڈراپ آؤٹ غریبی اورر مہنگی فیس کی وجہ سے ہے، کیونکہ اس عمر میں گھر کی غربت کے سبب پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، اس وجہ سے وہ تعلیم جاری نہیں رکھ پاتا۔
(۵) شہریوں کی عدم شمولیت: کیونکہ نارتھ انڈیا کی اکثریت غریبی اور جہالت کا سامنا کررہی ہے، اس کے سب وہ تعلیم کے میدان میں شامل نہیں ہوپاتے۔
(۶) خودغرض اور غیر مؤثر نگرانی: جو باڈی اس کی نگرانی کرتی ہے،وہ حقیقت میں خود غرض واقع ہوئی ہے، اس کے اندر سماج کی خدمت اور اپنے کام کے تئیں وہ خلوص، جذبہ اور لگن نہیں پائی جاتی جس کے نتیجے میں ایک بہترین تعلیمی ماحول پروان چڑھ سکے۔
(۷) سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس کی مداخلت: ان لوگوں کی مداخلت کے سبب پورا تعلیمی نظام سیاست بازی کا شکار ہوجاتا ہے،یہ سیاست اساتذہ اور طلبہ کے اندر بھی سرایت کرجاتی ہے، جس کے نتیجے میں اسکول ایک سیاسی اکھاڑہ بن کر رہ جاتا ہے۔
(۸) دیہی لوگوں کے ان ڈفرنٹ رویے: گاندھی جی کے مطابق بھارت گاؤں میں بستا ہے، ۲ء۷۲؍ فصد آبادی گاؤں میں بستی ہے، اس لیے گاؤں کے لوگوں کو جب تک تعلیم سے نہیں جوڑا جائے گا تعلیمی نظام کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔
(بقیہ صفحہ نمبر۲۵؍پر)
(۹) مڈ ڈے میل: مڈڈے میل کا نفاذ غیر مؤثر ہے، یہ چیز اساتذہ اور طلبہ دونوں کے لیے مسئلہ بن گئی ہے، اساتذہ کا قیمتی وقت ان سب انتظامات میں گزر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک تو اساتذہ متأثر ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ اس کا صحیح انتظام بہت مشکل ہوجاتا ہے، اور پھر اس کا اثر پورے تعلیمی نظام پر پڑتا ہے۔
ان مسائل کا حل کیا ہو؟
(۱)ٹیچرس کو پرفیشنل انداز میں تربیت دی جائے اور ان کے اندراحساس ذمہ داری پیدا کیا جائے۔
(۲) پرائمری ایجوکیشن سسٹم پر نظرثانی کی جائے، اس میں غریبوں کا لحاظ رکھا جائے اور کوالٹی سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔
(۳) نصاب کو از سر نو ترتیب دیا جائے، جو سماج کے ہر طبقے کی رعایت کرتا ہو۔
(۴) ایک مانیٹرنگ باڈی تشکیل دی جائے،جو اس پورے تعلیمی نظام کا ہمہ وقت جائزہ لیتی رہے۔
(۵) بالخصوص دیہی علاقوں میں تعلیمی بیداری مہمات چلائی جائیں۔
(۶) تعلیم کو روزگار سے جوڑا جائے۔
(۷) پورے ایجوکیشن سسٹم کو ماہرین تعلیم کے حوالے کیا جائے ، نصاب، پالیسی، اور پورا سسٹم ماہرین تعلیم کے ذریعہ ترتیب دیا جائے، اس پورے سسٹم سے سیاسی اثرورسوخ ختم کیا جائے۔
(۸) یونیورسٹی اور کالج کے اسٹوٖڈنٹس کو تعلیم کے سلسلہ میں حساس بنایا جائے۔
(۹) نارتھ انڈیا کے لیے الگ سے تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔
(۱۰) اقلیتوں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کا صحیح نفاذ ہو، اور اس کا پروسیس آسان بنایا جائے۔

 

نجم الثاقب،لکھنؤ
(صدر حلقہ ایس آئی او یوپی سینٹرل)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں