شجاع الدین فہد انعامدار
ایک ۱۹ سال کا نوجوان شلوار کرتے میں ملبوس اور سر پر ٹوپی لگائےہوئے اپنے بھائی کے ساتھ ریلوے پلیٹ فارم پر کھڑا تھا۔ دور سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ کس مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسے ہی ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رکی، ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ ہر کوئی جلد از جلد سیٹ حاصل کرنا چاہتا تھا، اور سیٹ کی اسی دوڑ میں جھگڑے بھی شروع ہو گئے۔ اس نوجوان کی بھی سیٹ کے لئے کسی مسافر سے لڑائی ہو گئ، اور یہ تنازعہ اتنا بڑھ گیا کہ اختتام اس نوجوان کی موت پر ہوا۔ یہ کام ٹرین میں موجود بھیڑ نے کیا، ہجومی تشدد یا Mob Lynching کا واقعہ۔ جو ہجوم حملہ آور ہوا، نہ صرف اسے مارا بلکہ غدار، دہشت گرد اور پاکستانی جیسے القاب سے بھی نوازا۔ اس واقعہ میں نوجوان کی موت اور اس کے بھائی کو شدید چوٹیں آئیں۔ اس قدر مایوس کن واقعہ سننے میں تو کوئی افسانہ لگتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے واقعات اب ہندوستانی سماج میں قدرے عام ہو چکے ہیں۔ یہ واقعہ بہیترے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ قتل کی وجہ کیا ہو گی؟ جگہ کی بحث میں پاکستانی اور دہشت گرد کے طعنے کہاں سے آئے؟ کیا واقعی یہ جگہ کا مسئلہ تھا؟ یا کیا واقعی وہ دونوں نوجوان دہشت گرد تھےوغیرہ وغیرہ؟ ان سوالات کے جوابات سے قبل ایک اور کہانی ملاحظہ کر لیجئے۔
مجاہد کا داخلہ اپنے شہر سے دور ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ہوا۔ داخلہ کی کاروائی مکمل کرنے کے بعد وہ کالج کے نزدیک کمرہ کی تلاش میں نکلا۔ وہ تقریباََ دس سے زائد کمرہ مالکان کے پاس گیا، مگر جواب منفی رہا۔ اگلی بار اپنا نام اور پہچان چھپاتے ہوئے جب اس نے ایک مالک سے بات کی تو وہ کمرہ دینے پر تیار ہو گیا۔ مجاہد نے اپنے کاغذات اس کو دیئے، جو اس کا نام اور پہچان ظاہر کرتے تھے۔ مالک نے کہا کہ جب وہ اپنا سامان لے آئے تو پیشگی کرایہ ادا کرے۔ مگر سامان لئے جب مجاہد وہاں پہنچا تو حیرت کی انتہا نہ رہی جب مالک نے اس سے کہا ’’مجھے لگا کہ آپ نہیں آئو گے، اس لئے میں نے وہ روم کسی اور کو دے دیا۔‘‘ آخر کا ر مجاہد کو کالج سے بہت دور اپنی ہی برادری کی کسی بستی میں کمرہ حاصل کرنا پڑا۔ اس واقعہ کے ضمن میں بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا واقعی کمرے خالی نہیں تھے؟ اگر تھے تو مالکان کیوں مجاہد کو کمرہ دینا کیوں نہیں چاہتے تھے؟ کمرے کی کمی کا مسئلہ اسے دوسری بستی میں کیوں نہیں پیش آیا؟
مندرجہ بالا دونوں واقعات ہندوستانی سماج کی سچائی دکھاتے ہیں۔ دونوں ہی واقعات کے ضمن میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات بھی نہایت آسان ہیں، جو معمولی عقل کا استعمال کر کے بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ لیکن زیر نظر مضمون میں اس موضوع کے علمی و نفسیاتی پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس مسئلہ کا تعلق سماجی نفسیات (Social Psychology)سے ہے، جس میں افراد کے مجموعی برتاو کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں اس طرح کا سماجی رجحان دقیانوسی تصورات (Stereotype)، تعصب (Prejudice)، یا تفریق (Discrimination) کہلاتا ہے۔
دقیانوسی تصورات (Stereotype):
ایک مخصوص گروہ کے افراد کے بارے میں عام رائے قائم کرنا۔ جس میں کچھ خصوصیات گروہ کے ہر ممبر سے وابستہ کر دی جاتی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ ان کے درمیان انفرادی سطح پر کیا تغیرات پائے جاتے ہیں۔ (Aronson) ۔یہ دراصل ایک ذہنی عمل ہے، جس میں انسانوں کے کسی گروہ کے بارے میں ایک خیالی تصویر بنا لی جاتی ہے، جو مثبت اور منفی دونوں ہو سکتا، جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ اسے پسند کرتے ہیں یا نا پسند۔
تعصب (Prejudice):
کسی گروہ اور اس کے ممبران کے بارے میںذہن میں بیٹھے منفی فیصلے تعصب کہلاتے ہیں۔ (Mayers)۔ تعصب دراصل وہ منفی جذبات و احساسات ہیںجو کسی گروہ کے بارے میںمنفی Strereotype کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ جو ہمیں اس گروہ کے بارے میں منفی رویہ یا عمل رکھنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
تفریق (Discrimination):
کسی مخصوص گروہ کے ممبران کی جانب منفی ، غیر منصفانہ اور نقصاندہ رویہ رکھناتفریق کہلاتا ہے۔ اس میں فرد کی سیرت و کردار کو نظر انداز کر کےمحض اس کے کسی گروہ سے متعلق ہونے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ (Gilovic)۔ تفریق در اصل ذہن میں موجود تعصب پر کاروائی کا رجحان ہے۔
Stereotype خاص طور پر ذہن اور خیالات سے متعلق ہے، جو اچھا اور برا دونوں قسم کا ہوتا ہے۔ منفی Stereotype سےتعصب جنم لیتا ہے۔ تعصب میں فرد منفی جذبات یا احساسات سے مغلوب ہو کر منفی فیصلے لیتا ہے اور تفریق تعصب پر عملی اقدام کا نام ہے۔ گویا یہ ایک لڑی ہے۔
کرتا پائجامہ اور ٹوپی والے لڑکے کی مثال لیں تو Stereotype کی رو سے وہ ایک مسلم لڑکا گردانہ گیا۔ اب یہ افراد پر منحصر تھا کہ وہ مسلمانوں کو کیا سمجھتے ہیں۔ کسی فرد کے نزدیک مسلمان سچے اور ایماندار ہو سکتے ہیں اور کسی دوسرے فرد کے لئے وہی مسلمان دہشت گرد اور قوم کے غدار ہو سکتے ہیں، یہی منفی اور مثبت Stereotypeہیں۔ اسی طرح تعصب سوچ اور عقائد پر کام کرتا ہے۔ ہر سوچ کے ساتھ ہمارے احساسات جڑے ہوتے ہیں، اگر فرد کے ذہن میں کسی گروہ کے متعلق منفی جذبات و احساسات ہوں، جیسے نفرت، کینہ، بدلے کے جذبات وغیرہ تو اسے تعصب کہیں گے اور جس زنجیر کی آخری لڑی سماجی تفریق ہے جس میں جذبات و احساسات پر عمل آوری ہوتی ہے۔ جتنے قوی احساسات ہوں گے اتنا ہی شدید اس کا ردّعمل ہو گا۔ کسی معاملے میں وہ قتل ناحق ہو سکتا ہے اور کسی دوسرے معاملے میں روم کرایہ پر نہ دینا۔ ہمارے سماج میں گوناگوں قسم کے تعصبات موجود ہیں، جیسے ذات پات کی بنیاد پر تعصب، مذہبی تعصبات، سماجی و معاشی سطح پر تعصب، جغرافیائی تعصب، سیاسی تعصب، لسانی تعصب وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر اختلاف جو سماج میں گروہ بندی کی بنیاد ہے سماج میں تعصب اور تفریق پیدا کرتا ہے۔
تعصب کے اقسام:
تعصب کی دو اقسام ہیں۔ واضح تعصب
(Explicit / Overt) اور دوسرا غیر واضح تعصب (Implicit / Subtle) ۔ جیسا کہ ناموں سے ہی ظاہر ہے کہ جو تعصب کھلے طور پر واضح ہو جائے وہ واضح یا کھلا تعصب ہے، اور جو ڈھکے انداز میں سامنے آئے وہ غیر واضح ۔ جیسے پہلے واقعہ میں تعصب واضح تھا جبکہ مجاہد کے واقعے میں غیر واضح۔ چونکہ بہت سارے ممالک میں تعصب کی بنا پر تفریق غیر قانونی ہے، اس لئے ڈھکے چھپے انداز میں تعصب کا کھیل کھیلا جاتا ہے، اس لئے غیر واضح تعصب کو جدید تعصب بھی کہتے ہیں۔
تعصب کے محرکات:
تعصب کو ختم کرنے کے لئے اس کی وجوہات کا علم نہایت ضروری ہے۔ تعصب کے پیدا ہونے کے تین محرکات ہیں۔
۱۔ سماجی محرکات:
تعصب کو پنپنے کے لئے جو سماجی محرکات مدد کرتے ہیں وہ تین ہیں۔فرد کا سماجی کرن (Socialisation) : یہ در اصل ایک عمل ہے جس کے ذریعے فرد اپنی تہذیب کے قوانین، اصول و مبادی اوررویوں کو سیکھتا اور اپناتا ہے۔ Cambridge dictionary of Psychology ۔ یہ خاص طور پر بچپن میں ہوتا ہے۔ لیکن سیکھنے اور اپنانے کا یہ عمل پوری زندگی جاری رہتا ہے، جس میں فرد سماجی اور تہذیبی قدریں، اصول و عقائد اور رویوں کے ساتھ ساتھ غیر محسوس طریقے سے تعصب بھی سیکھتا ہے۔ سماجیانے کا یہ عمل فرد کی ذہنی ترقی، احساس و رویوں میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ یہ عمل والدین، بھائی بہن ، دوست احباب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہوتا ہے۔ سماجی کرن کا یہ عمل تین طریقوں سے تعصب پیدا کرتا ہے۔
آمرانہ شخصیت:
بچوں کو بچپن میں سختی کی جائےاور ان کی آزادی سلب کر لی جائے تو نفسیاتی طور پر ان میں آمرانہ شخصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ تمام دنیا کے لوگوں کو اپنے گروہ کے زیر اثر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہی چیز تعصب کو جنم دیتی ہے۔ آمرانہ شخصیت دائیں بازو کے نظریات کے حاصل افراد میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔
مذہب اور تعصب:
مذہب کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تعصب کی وجہ دراصل سطحی عقیدہ ہوتا ہے۔ جیسے یہودیوں کی سوچ کہ وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں اور اپنی کھوئی ہوئی سماجی حیثیت حاصل کرنا ہی ان کا کام ہے۔ یہ ان کے اندر تعصب پیدا کرنے کی وجہ بنی۔ ایک جانب مذہب کا نام لے کر تعصب کو بڑھانے کی کوشش ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ مذہب کے سچے پیروکار اور خدا کے عبادت گذار بندوں کے درمیان عام طور سے بہت کم تعصب پایا جاتا ہے۔
طبقاتی مطابقت (Conformity):
یہ دراصل اپنے سماجی گروہ کے اصولوں اور قدروں کے ساتھ مطابقت کی بنا پرپیدا ہونے والا تعصب ہے۔ کس مخصوص گروہ کی سماجی قبولیت اور معاشرے میں اس کی پسندیدگی کی وجہ سے سماجی مطابقت بڑھتی ہے، یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو سماجی قدروں کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ زیادہ متعصب ہو جاتے ہیں۔ موجودہ سماجی قدریں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں، جس طرح فیشن اور رجحانات تبدیل ہوتے ہیں، اس لئے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایسے سماجی اصول بنائے جائیں جو تعصب کو کم کر سکیں، ہو سکتا ہے کہ ہم ایک تعصب سے پاک معاشرے کا خواب دیکھ سکیں۔
۲۔ سماجی عدم مساوات:
سماج میں عدم مساوات تعصب پیدا کرتی ہے۔ ہندوستانی سماج، طبقاتی نظام پر مبنی ہے، جو عدم مساوات اور نا انصافیوں کو پیدا کرتا ہے اور جس کے نتیجے میں تعصب بڑھتا ہے۔ Social Dominance Theory یہ کہتی ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا سماجی گروہ دیگر سماجی گروہ پر غالب رہے۔ اس کی نظر میں سماج کی ایک ایسی درجہ بندی ہوتی ہےجس میں اس کا گروہ سب سے اوپر ہوتا ہے۔ یہی چیز ذات پات کے نظام میں نسلی برتری اور صنفی تعصب میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
۳۔ ادارہ جاتی محرکات:
بعض دفعہ سماجی ادارے جیسے اسکول، کالج، حکومتی ادارے اور میڈیا اپنی تفرقہ ڈالنے والی پالیسیوں کے ذریعے تعصب کو بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ در اصل اکثریت کی مانگ جو سامنے رکھ کر بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے اسکول کی درسی کتابوں میں نفرت پھیلانے والے مواد کو ڈالنا اور میڈیا کا سب سے زیادہ وقت ہندو یا مسلم ایشوز کے لئے مختص کرنا۔ حکومتی ادارے ہندوتوا کے شیطانی ایجنڈا کے لئے اپنی پالیسی اور اقدامات سے کام کر رہے ہیں۔ تعصب کی یہ ادارہ جاتی شکلیں سب سے زیادہ خطرناک، دیرپا اور عوام کی زیادہ تعداد کو متاثر کرنے والی ہیں۔
۴۔ ترغیبی محرکات:
یہ مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔
غصہ اور مایوسی (Scapegoat Thoery): مقاصد اور ضروریات کے حصول میں رکاوٹ کی وجہ سے غصہ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ اس مایوسی اور غصہ کا اظہار تعصب کی صورت میں ہوتا ہے۔ وسائل زندگی اور نوکریوں کی فراہمی، ضرورتوں اور رتبہ، قوت کی چاہ ان سب چیزوں کے لئے مقابلہ مایوسی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے جیسے جیسے ہی مقابلہ کے شرکا کی تعداد بڑھتی ہے مایوسی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے کسی خاص گروہ کے خلاف تعصب بڑھتا ہے۔ اس لئے جہاں فوائد کے حصول کے لئے تصادم ہو گانتیجہ تعصب کی صورت میں رونما ہوگا۔ یہی Realistic Group Conflict Theory ہے۔ مثال کے طو پر ممبئی میں شمالی بھارت کے لوگوں تئیں تعصب۔ اسی طرح ہندوستانی میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے، جو تعصب میں اضافہ کا باعث ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر فرقہ وارانہ تعصب ملک میں ریزرویشن دینے کی وجہ سے نچلی ذاتوں کے خلاف اونچی ذاتوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ روزگار کی شرح بڑھانے اور معاشی بحران کے خاتمے کے بعد ہی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔
سماجی شناخت کا نظریہ Social Identity Theory : میں کون ہوں؟ اس سوال کا جواب ہمارے سماج کی رو سے ہماری گروپ ممبر شپ سے آتا ہے۔ ہم افراد کو پہچاننے کے لئے انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جیسے ہندو، مسلم، ڈاکٹر، بس ڈرائیور وغیرہ۔ کسی فرد کے بارے میںکچھ دیگر باتوں کو کہنے کا یہ ایک آسان طریقہ ہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو کچھ گروہوں سے منسلک کر کے خود اعتمادی حاصل کرتے ہیں۔ ہم اپنے گروہ اور دوسرے گروہوں کا موازنہ کر کے خود کو برتر سمجھتے ہیں۔ یہ احساس دوسروں سے ناپسندیدگی اور تعصب کو جنم دیتا ہے۔
۴۔ ذہنی محرکات:
یہ مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔
Stereotype:
اس ضمن میں گفتگو آ چکی ہے، کہ کس طرح ذہنی سطح پر تعصب پیدا کرنے کا عامل یہی ہے۔
منفرد نظر آنا Distinctiveness:
اپنے خاص رہن سہن، لباس ، رکھ رکھاو، زبان اور ساخت وغیرہ کے اعتبار سے سماج میں کچھ لوگ منفرد نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اور پھر انکے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے انہیں ایک گروہ گردانتے ہوئے، ان سے تعصب برتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کالج کیمپس میں طالبعلم کا کرتا اور ٹوپی میں نظر آنا۔
خود شعور Self Consciousness:
منفرد اور مخصوص ہونا خود شعوری کو پروان چڑھاتا ہے جس کی وجہ سے افراد خود کو دیگر سماج میں مختلف اور کمتر محسوس کرتا ہے، اور سماج کے افراد کے سلسلے میں غیر ضروری تعصب کا تصور کرتے ہوئے ، ان سے متعصب ہو جاتا ہے۔ ایک امریکی تجربہ میں ایک لڑکی کے چہرے کو میک اپ کے ذریعے داغدار بنایا گیا اور لوگوں سے ملاقات کرائی گئی۔ ان ملاقاتوں میں رفتہ رفتہ اس داغ کو مٹایا گیا۔ لڑکی کے خیال کے مطابق اس داغ کے باعث لوگوں نے اس سے متعصب برتا، مگر ویڈیو گرافی کے ذریعے جو نتائج سامنے آئے اس میں لوگوں کی جانب سے ایسا کوئی رویہ نہیں نظر آیا بلکہ وہ لڑکی Distinctiveness کا شکار ہوئی۔ اس طرح اکثر مسلمانوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔
تعصب کا حل:
(۱) سماجی میل جول یا Socialisation کو نفرت کا نہیں بلکہ سیکھنے کا ذریعہ بنانا چاہیئے۔ ماں کی گود سے ہماری تربیت کچھ اس طرح سے ہو کہ ہمارے بچےکسی بھی طرح کا تعصب نہ سیکھیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے ایسی کوئی بات کریں۔ جس سے ان میں بچپن ہی سے صنفی تعصب پیدا ہو۔ ہمارے والدین اور اساتذہ کو حد درجہ محتاط رہنا ہوگا کہ وہ کسی گروہ کے بارے میں نفرت آمیز بات بھی اپنی زبان سے نہ نکالیں۔
(۲) سماجی روابط: جب تک سماج کے افراد Ghettos میں رہیں گے تو تعصبات شدید ہوتے جائیں گے۔ سماج میں افراد اور مختلف گروہوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنا ہوگا۔ لوگوں کو گروہ بندی کے بجائے انسان کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
(۳) نو درجہ بندی Recategorisation : نو درجہ بندی، نئے گروہوں کو بنانا نہیں بلکہ اپنی حدود کو وسعت دینا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم دیکھیں کہ ریاستوں کے مابین کرکٹ مقابلے منعقد ہوں تو ہم ریاست کی طرفداری کرتے ہیں، جبکہ مقابلہ اگر ملکی ٹیم کا کسی غیر ملکی ٹیم سے ہو تو ریاستوں کو بھول کر ہم ملک کی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ گروہ کی حدود جتنی زیادہ وسیع ہوں گی تعصب اتنا ہی کم ہوتا جائے گا۔
(۴) احساس جرم: بیشتر افراد جو تعصب برتتے ہیں، اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتے کہ وہ متعصب ہیں اور دوسرے کے ساتھ ان کا رویہ عدل سے خالی ہے۔ یہ احساس جرم پیدا ہو نے کے بعد ہی ان میں تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے کاونسلنگ سینٹر اور سماجی بیداری کے پروگرام منعقد کئے جا سکتے ہیں۔
ہر شخص کسی نہ کسی درجہ میں متعصب ہے، جو ایک نفسیاتی مرض ہے، اور اس مرض سے چھٹکارا پانے کی ملک و ملت کو سخت ضرورت ہے۔