تربیت وتزکیہ کا ایک شاندار موقع

ایڈمن

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ البقرۃ: 183) اﷲ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فرمائی اور اس کو اس دنیا میں بھیجا،لیکن اس دنیا میں بھیج کر اﷲ تبارک و…

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (سورۃ البقرۃ: 183)
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق فرمائی اور اس کو اس دنیا میں بھیجا،لیکن اس دنیا میں بھیج کر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو شتر بے مہار نہیں چھوڑدیا بلکہ اس کی عملی و فکری رہنمائی و ہدایت کے لیے نبیوں کا بھی انتظام فرمایا۔وہ نفوس قدسیہ جن کا اﷲ سبحانہ وتعالی نے انتخاب فرمایا اور وہ نبوت کے مناصب جلیلہ پر فائز ہوئے ان کی بعثت کا مقصود ہی یہ تھا کہ وہ بندگان خداکو وحی کی روشنی سے منور کریں،انہیںآدمیت وانسانیت کے مقام بلندتک پہنچائیں اور ان کی تربیت وتزکیہ کا اہتمام کرکے ایک صالح معاشرہ کو وجود میں لائیں۔اس طرح انبیاء کرام علیہم السلام کی عملی و فکری کاوشوں کا تسلسل قائم رہتا ہے تاکہ معاشرہ کج روی کا شکار ہونے اور بے اعتدالی سے محفوظ رہے۔ اس کے لیے اﷲوحدہ‘ لا شریک نے عبادات کا نظام قائم کیا ہے،مثلاً قیام صلوٰۃکا ایسا نظام قائم کیا کہ ہر لمحہ اﷲ یاد رہے اور بندے کو وفائے عہدکا احساس رہے۔زکوٰۃ کے ذریعہ بندگان خدا کے حقوق پورے ہوتے رہیں، محبت کے آفاقی رشتہ کو مستحکم کرنے کے لیے بیت اﷲ کی زیارت کا حکم فرمایا، اور روح کی غذاکو بے چین کر دینے والی آلائشوں سے بچانے کے لیے ایک منفرد اور امتیازی نوعیت کی عبادت کو فرض قرار دیا جسے قرآن نے’صیام‘ یعنی روزے کا نام دیا ہے۔
صوم کا حقیقی مفہوم
لغوی اعتبار سے صوم کے معنی رک جانے کے آتے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں روزہ کی تعریف یہ ہے کہ مسلمانوں کا مخصوص دنوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ عبادت کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک قصداًکھانے پینے اور جنسی خواہشات سے رک جانا۔
اہم فطری مطالبات:
انسانی حرص اور خواہشات نفسانی کا مظہر تین چیزیں ہیں: کھانا، پینا اورجنسی خواہشات کی تکمیل سے ایک متعینہ مدت تک رکے رہنا،یہ نفس کے نہایت ہی طاقتور مطالبات ہیں۔ان میں بلا کی کشش ہے اور یہ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان کو دبائے رکھناخاصا دشوارکن ہے،کیونکہ ان ہی پر انسانی ذات کی بقا بھی موقوف ہے اور انسانی جنس کی بقا بھی۔ان مطالبات پر مسلسل ایک ماہ تک بند لگائے رکھنے اور صبر وضبط سے کام لے کر ان بے قرار اور قوی خواہشات کو روکے رکھناانتہائی مشکل اور مشقت طلب عمل ہے۔ ایک متعینہ مدت تک یہ سرگرمی اگر اپنے تمام تر آداب وسلیقہ سے روبہ عمل لائی جائے، ایمان و احتساب کے ساتھ اس کے تمام مراحل کو بہ حسن وخوبی طے کیا جائے تو شیطان کی تمام دلفریبیاں اور حربے خس و خاشاک بن کر رہ جاتے ہیں اور تقویٰ کی کمال درجہ روشنی سے قلب وذہن کے ساتھ ساتھ انسان کامکمل وجودمنور ہو جاتا ہے۔اور پھر انسانیت کے وجود سے ایسی روشنیاں بکھرتی ہیں کہ باطل اپنی تمام تر رعنائیوں اور سحر انگیزیوں کے باوجود بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔
رمضان المبارک ماہ تربیت:
روزہ اسلام کے نظام تربیت و اصلاح کا ایک بنیادی رکن ہے۔ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے اﷲ تعالی نے اسلام کے نظام تربیت میں عبادات ا ور معاملات کے ذریعہ نہ صرف فرد، بلکہ معاشرے اور پوری انسانیت کے کرنے کے لیے ایسے کام فرض کیے ہیں جن میں سے ہر ایک اس نظام تربیت کو قوت و سہارا دیتا ہے۔ روزے کے بارے میں جامع تعریف مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے یوں فرمائی ہے:
’’روزہ سال بھر میں ایک مہینہ کا غیر معمولی نظام تربیت (Special Training Course)ہے جو آدمی کو تقریباً720گھنٹہ مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجہ میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہو جائیں۔‘‘(مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ ،اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر)
روزہ :تقویٰ کا سرچشمہ
روزہ نہ صرف تقویٰ پیدا کرتا ہے ،بلکہ تقویٰ کی نہ جانے کتنی کرنیں اسی سرچشمہ سے پھوٹتی ہیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا نہیں ہوتی ۔ جب کسی عمل میں ریا نہ ہو تو وہ اﷲ سے تعلق بڑھانے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نماز،زکوٰۃ اور حج کے اعمال دوسروں کے مشاہدہ میں آتے ہیں اور انہیں کوئی چھپاکرکرناچاہے تو بھی نہیں کر سکتا،مگر روزہ کی نوعیت سراسر مختلف ہے،وہ کچھ کاموں کے نہ کرنے سے وجود میں آتا ہے۔اس امتیازی وصف کی وجہ سے قرآن نےْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون کے الفاظ استعمال کیے،کسی اور عبادت کے ساتھ ان الفاظ کو نہیں جوڑا گیا ہے۔ روزے کی اسی منفرد شان کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے اس عبادت کو اپنے لیے خاص فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ابن آدم کا ہر (نیک)عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ایک نیکی ۱۰؍نیکیوں کے برابر،حتیٰ کہ ۷۰۰؍گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔اﷲ کریم فرماتا ہے ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے،سوائے روزے کے۔روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔‘‘(مسلم)
روزہ اور روزمرہ کے معاملات
روزہ میں صرف فاقہ مطلوب نہیں ، اس لیے کہ کھانے، پینے اور جنسی خواہشات کی تکمیل سے اجتناب روزہ کی ظاہری اور قانونی صورت ہے،اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ روزہ کی حقیقی شان پیدا ہو۔اسی لیے حضورؐ نے فرمایا :
’’جس کسی نے (روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنااور جھوٹ پر عمل کرنانہ چھوڑاتو (وہ جان لے کہ)اﷲکو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ شخص اپنا کھانا، پینا چھوڑ دے۔‘‘(صحیح بخاری)
معمولات زندگی کا نرالا انداز
ماہ رمضان میں معمولات زندگی کا اندازبھی نرالا ہے۔ سحری کی پر سکون فضا،روح پرور وسکوت افزا لمحوں میں بندۂ مؤمن اپنے آپ کو آہ سحر گاہی سے سرفراز کرتا ہے، کچھ کھا پی لیتا ہے اور پھر سورج غروب ہونے تک اکل وشرب سے اپنے آپ کو روکے رکھتا ہے۔ادھر سورج غروب ہوا،ادھراس نے ٹھنڈے مشروب سے اپنے آپ کو مسرور کیا۔ کھانے پینے کی لذتوں سے اپنی استطاعت اور خواہش کے مطابق لطف اندوز ہوا اور پھر رات کو بارگاہ رب العزت میں قیام سے مشرف ہونے لگا۔راتوں میں عبادات کے ذریعہ ان کی خیر و برکات سے مستفید ہونے لگا، اور رب کے حضور گریہ وزاری میں لگ گیا کہ اﷲ اس کی گناہوں اور قصوروں سے مغفرت کر دے۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐنے فرمایا :
’’جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے بھی وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
گویا اﷲ تعالیٰ روزے کی بے حد وحساب جزا دے گا۔ شرط یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ روزہ رکھا جائے ، اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے۔ یہ بندۂ مؤمن کی سعی و جہد پر منحصر ہے کہ وہ اجر کی بالیدگی و افزونی کے حصول کو ممکن بنائے اور اس خیر و صلاح کے پھلنے پھولنے والے موسم میں رب رحمن و رحیم کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا طالب رہے۔
رمضان المبارک میں قرآن سے خصوصی تعلق
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَان (البقرۃ : 185)
’’رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو تمام انسانوں کے لیے سراسرہدایت اور ایسی واضح ہدایت پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘
سورۃالدخان کی آیت نمبر 3؍میں ارشاد ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃ
’’ہم نے اسے (قرآن) ایک بڑی خیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے۔‘‘
سورۃ القدر میں وضاحت موجود ہے کہ وہ بابرکت رات ’لیلۃ القدر ‘ہے جس میں نزول قرآن ہوا۔ قرآن میں جسے ہدی للناس کہا گیا ہے وہ اسی ماہ مقدس میں ایک قدر کی رات، جو ہزار مہینوں سے افضل ہے،اس میں نازل ہوا۔ یعنی ان ایام میں روزے رکھے جائیں اور شب و روز میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید سے تعلق مضبوط کیا جائے۔ قرآن اور رمضان کا آپس میں گہرا ربط وتعلق ہے۔ کیونکہ رمضان کی فضیلت قرآن میں آئی ہے اور قرآن کا نزول رمضان میں ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان قرآن کی سالگرہ منانے کا مہینہ ہے۔ اس لیے رسول اﷲؐ اس مہینے میں حضرت جبرئیل کے ساتھ قرآن کا دور فرمایا کرتے تھے۔ آخری سال میں آپؐ نے دو بار دور فرمایا۔ اس ضمن میں مولانا عبد الغفار حسنؒ اپنی تصنیف ’رمضان المبارک‘ میں رقم طراز ہیں :
’’ قرآن کے نزو ل کا مقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کو بے سمجھے بوجھے تراویح میں پڑھ لیا جائے بلکہ قرآن مجید کا حق صحیح معنی میں اس وقت ادا ہو سکتا ہے جب اس کے نزول کے تین مقاصد پیش نظر رکھے جائیں:
لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ (بنی اسرائیل :106)
’یعنی ہم نے قرآن کو اتارا ہے تاکہ اسے آپ وقتاً فوقتاً اطمینان سے پڑھیں۔‘
کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ (ص:29)
’ ہم نے برکت والی کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں۔اور تدبر سے کام لیں۔‘
إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللّہُ (النساء :105)
’ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب اتاری تاکہ اﷲ تعالیٰ نے حق کی جو راہ آپ کو دکھائی ہے اس کے مطابق آپ فیصلہ کریں۔‘
یعنی انسان اپنے نفس پر ، اپنے گھر پر ، ماحول پر، پورے ملک پر،بلکہ پوری دنیا پر اﷲ تعالیٰ کی کتاب کا غلبہ اور حکمرانی قائم کرنے کی جدو جہد میں لگ جائے، زندگی کا کوئی شعبہ اور معاشرہ کا کوئی حصہ بھی اس کی رہنمائی سے خالی نہ رہے۔‘‘
قیام اللیل (تراویح)
رمضان المبارک کا مہینہ اپنے دامن میں رحمتوں،برکتوں اور مغفرتوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے۔ چونکہ اس مہینہ میں انوار و برکات کا نزول کثرت سے ہوتا ہے اس لیے اس مبارک مہینے میں دن کی عبادت کے بعد راتوں میں ایک خاص عبادت مقرر ہوئی ، جسے قیام اللیل یا تراویح کا نام دیا گیا۔اس سے مراد راتوں کو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ سورۃالفرقان میں ربّ العزت نے رحمان کے بندوں کی جو خصوصیات بتائی ہیں ان میں سے ایک راتوں کا قیام کرنا بھی ہے۔
اعتکاف
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَأَنتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِد (البقرۃ : 187)
یعنی ’’تم اپنی بیویوں سے مباشرت مت کرو جبکہ تم مسجدوں میں حالت اعتکاف میں ہو۔‘‘
اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے ۔نبی کریمؐپابندی سے رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارتے تھے۔ ایک سال آپؐ کسی وجہ سے اعتکاف نہ کر سکے تو اگلے سال آپ ؐ نے دس کے بجائے بیس روز کا اعتکاف کیا۔
اسلام نے رہبانیت (ترکِ دنیا)سے منع کیا ہے لیکن انسان کی یہ خواہش بھی فطری ہے کہ وہ یکسوئی کے ساتھ گوشۂ تنہائی میں اپنے رب سے سرگوشیوں میں مصروف ہو، نوافل پڑھے ، اﷲتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرے، قرآن مجید کی تلاوت کرے، اور اس میں غور و تدبر کرے،اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور آئندہ کے لیے از سر نو اطاعت و وفاداری کا عہد وپیمان باندھے ۔ اعتکاف کو مستحب قرار دے کر انسان کی اسی خواہش کو پورا کیا گیا ہے۔
شب قدر کی عظمت
اﷲ تعالی قرآن میں فرماتا ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْر(القدر:۱)
’’بے شک ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔‘‘
یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ ہی بے پناہ فیوض وبرکات کا حامل ہے، لیکن آخری عشرہ میں ایک ایسی رات واقع ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ نبی کریمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔ راتوں کو ذکر الٰہی سے زندہ کرتے اور اہل وعیال کو بھی عبادت کے لیے جگاتے۔
حضرت انسؓروایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐنے فرمایا :
’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آیاہے،جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ یقیناًہر قسم کی بھلائی سے محروم رہ گیا۔‘‘ (ابن ماجہ)
آئیے ،عزم کریں
ہمیں چاہیے کہ ہم ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے کاعزم کریں۔اپنی زبان کو غیبت ،چغلی،جھوٹ، بہتان تراشی اور فضول باتوں سے آلودہ ہونے سے بچائیں۔ زیادہ سے زیادہ وقت ذکر و فکر اور تسبیح وتحمیدمیں صرف کریں ۔تدبر اور تفکر کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کریں ۔ وقت سحر نماز تہجداہتمام کریں،اپنے مال کا کچھ حصہ اﷲ کی راہ میں صرف کریں،اپنی روز مرہ کی عادات واطوار پر غور کرکے انہیں سنواریں اور ان کو اﷲ کی اطاعت کے سانچے میں ڈھالیں ۔دعوت دین کے لیے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لائیں،خشوع و خضوع کے ساتھ نمازیں ادا کریں ،بندوں کے حقوق ادا کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لیں اور بارگاہ رب العزت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں کہ وہ ہمیں بھلائی کے کام کرنے کی توفیق دے۔آمین!
طیب احمد بیگ، معاون مدیر ماہنامہ چھاتر ومرش

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں