کہتے ہیں تخیل، انسانی زندگی کا ایک ناگزیر جز ہے۔ دنیا کے سبھی انسانوں میں تخیلاتی صلاحیت ہوتی ہے، کسی میں کم تو کسی میں زیادہ ۔ چاہے آپ Van Goghکی پنٹنگس دیکھیں یا پھر آئنسٹائن کا پیش کردہ نظریہ، آپ کو یہ ماننا پڑے گاکہ یہ دونوں ہی تخیل اورتخلیقیت (Imagination and Creativity)کی عمدہ مثالیںہیں۔ تخیل وہ جذبہ ہے جو ہمیں اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس دلاتا ہے، اور ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ دنیا کو اس کی وسعتوں کے ساتھ ہم پر آشکار کرتا ہے اور پھر ان وسعتوں کی حدود سے آگے بڑھ کر ہمیں، نئے خیالات، ایجادات اور دریافتوں یعنی تخلیقیت کے درجہ تک لے جاتا ہے۔ البتہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم اپنے اس تخیل کی صلاحیت کو استعمال کیسے کریں؟ اور تخیلقیت کے درجہ تک کیسے پہنچائیں؟ اس سوال کے جواب میں سائنس ہمیں تخیل کی تین قسمیں بتاتی ہے۔
(۱) تخلیقی تخیل (Creative Imagination):
اس سے مراد اپنے ذہنی تصورات کے ذریعے سے کسی تخلیقی مرحلے تک پہونچنا ہے۔ مثلاََ عام گھریلو مسائل کو نت نئے اور موثر طریقوں سے حل کرنے کی کوشش، یااپنی ذہنی اپج کوکوئی مفید تخلیق کی شکل دینا۔ تخلیقی تخیل کی صلاحیت ہر شخص میں، کسی نہ کسی درجہ میں ہوتی ہے۔ اور تحقیق کے مطابق سازگار ماحول اسے پروان چڑھانے کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ تو جدت و ندرت کی اس فضا کو ہم جتنا پروان چڑھائیں گے، اتنا ہی افراد میں تخلیقی رجحان بڑھے گا۔ اس تخلیقی تخیل کے دو مراحل ہیں۔
(۱لف)اختلافی سوچ (Diversion Thinking): یہ پہلا مرحلہ ہے، جہاں کسی مسئلہ یا موضوع پر مختلف نقطہ ہائے نظر سے آزادانہ طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ان میں فوری اور فطری، وجدانی تصورات ہو سکتے ہیں۔
(ب) مرکوز سوچ (Conversion Thinking): اس مرحلے میں اب اسی مسئلہ یا موضوع کے تحت اپنی سوچ کو مرکوز کرتے ہوئے کسی ایک نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس میں تصورات تجزیاتی، سست اور دانستہ نوعیت کے ہوں گے۔
لیکن یاد رکھیں، اس کے باوجود بھی یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنے تخیلات کی بنیاد پر مناسب اورتخلیقی نتائج حاصل کر لیں۔ تحقیق کے مطابق تخلیقیت کے حصول میں، تجربہ بھی اہم رول ادا کرتا ہے۔ اپنے تخیلات کی سمت میں جتنا زیادہ آپ کا سابقہ متعلقہ افراد اور اشیاء سے ہوتا رہے گا، اور اپنی غلطیوں سے مستقل سیکھنے کی جتنی سکت آپ میں ہوگی، اتنا ہی آپ کے تصورات میں پختگی اور تخیل میں راستی پیدا ہوگی، اوربالآخر تخلیقیت کا ظہور بھی ہو گا۔
(۲) ماورائی تخیل (Fantastical Imagination):
کچھ لوگوں کا انداز تخیل، نرالا اور ماورائی ہوتا ہے۔ وہ کسی ایک انوکھے (Hyothetical) خیال کو مکمل طور پر جذب کر کے ایک کامیاب اور تخیلیقی پراجکٹ تیار کر لیتے ہیں۔ لیکن یہاں قوی امکان ہے کہ انسان دن میں خواب دیکھنے کا عادی ہو جائے اور عملی دنیا سے دور ہوتا چلا جائے۔ اس لئے ابتدائی صورت میں اس کو قبول کر لینا مناسب نہیں۔ لیکن وہیں یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ماورائی تخیل بچوں میں تخیلاتی صلاحیت، قوت بیان، زاویہ نگاہ اور بڑوں میں قوت حافظہ کی مضبوطی، منصوبہ بندی اور مسائل و مشکلات کے تخلیقی حل تلاش کرنے جیسی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے۔
(۳) حقیقی تخیل (Episodic Imagination):
جب ہم اپنے ذہن کی آنکھوں سے کچھ چیزیں ترتیب دے رہے ہوتے ہیں حقیقی تخیل، محض خیالی دلائل کے بجائے حقیقی دلائل کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں عملی نتائج تک پہونچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی کی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کرکے اچھا مستقبل بنانے میں حقیق تخیل انتہائی کارآمد ہے۔ یہاں یہ بات جان لینابھی ضروری ہے کہ مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی میں نتائج کے بالمقابل طریقہ کار پر زیادہ توجہ رکھنا، کامیابی کے امکان بڑھا دیتا ہے، جو حقیقی تخیل کا سبق ہے۔
یا د رکھیں، آئنسٹائن نے کہا تھا ’’ذہانت کا حقیقی مظہر علم نہیں، تخیل ہوتا ہے۔‘‘
(بشکریہ، ورلڈ اکنامک فورم)