کسی بھی قوم کا زوال دراصل اس کی فکری پسماندگی ہوتی ہے۔وہی تحریکیں اور قومیں بقا و ترقی کے مراحل طے کرتی ہیں جن کی فکر زندہ رہتی ہے، جو تجدید و اجتہاد کی راہ پر چلتی ہیں، فکر و تحقیق کے میدان میں پیش پیش رہتی ہیں اور بدلتے حالات میں اپنا سوچا سمجھا لائحہ عمل تیار رکھتی ہیں۔
اگر کوئی قوم سوچنا، تحقیق کرنا اور نئی نئی معلومات جمع کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ جمود کا لازمی نتیجہ انحطاط ہوتا ہے، اور انحطاط کا نتیجہ آخر کار کسی دوسری قوم کی ماتحتی ہوتا ہے۔ پھر جب کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو لامحالہ وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے غالب نہیں ہوتی بلکہ سب سے بڑھ کر اس کا غلبہ فکری حیثیت سے ہوتا ہے یعنی اس کی تہذیب مغلوب قوم کی تہذیب پر غالب آجاتی ہے۔ اس کے بعد مغلوب قوم کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی تقلید کرنا شروع کردیتی ہے۔ اور یہ تقلید اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ نہ جانے کتنی قومیں اس طرح فنا ہوچکی ہیں اور ان کی تہذیب محض تاریخ کا سرمایہ بن چکی ہے۔
فطری قانون یہ ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و انکشافات کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے۔ اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے۔ چونکہ غلبہ نتیجہ ہے قوت کا اور مغلوبیت نتیجہ ہے کمزوری کا، اس لیے ذہنی و مادی حیثیت سے درماندہ اور ضعیف قوموں کی درماندگی اور ضعف میں جس قدر اضافہ ہوتا جاتا ہے اسی قدر وہ غلامی اور محکومیت کے لیے موزوں ہوتی چلی جاتی ہیں اور ذہنی اور مادی دونوں حیثیتوں سے طاقتور قومیں ان کے دماغ اور ان کے جسم دونوں پر حکمرانی کرنے لگتی ہیں۔ اور ذہنی غلبہ دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق کے میدان میں تیز تر پیش رفت سے قائم ہوتا ہے۔
اسلامی تحریک جب دنیا میں اٹھی تھی اس وقت مسلمانوں نے دوسری قوموں پر محض سیاسی یا فوجی غلبہ ہی حاصل نہیں کیا تھا بلکہ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنے دور میں بڑی بڑی تحقیقات کیں، اور علم کو اپنے نقطہ نظر، اپنے طرز فکر اور اپنے عقیدے کے مطابق ایک رُخ دیا، چنانچہ دنیا اسلامی تہذیب کے زیر نگیں آگئی اور صدیوں دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اگر تہذیب و تمدن ہے تو مسلمانوں کا ہے۔ فکر و عمل ہے تو مسلمانوں کے پاس ہے۔ اور جب مسلمانوں نے نئی تحقیقات کا کام قریب قریب ترک کردیا۔ جو کچھ علوم محققین سلف سے ملے تھے ان ہی کو پڑھتے پڑھاتے رہے۔ ان ہی کے اوپر حاشیے چڑھاتے رہے۔ وہیں دوسری طرف اہل مغرب نے فکر و تحقیق کا بیڑا اٹھالیا، نئی نئی دریافتیں شروع کیں اور نئے نئے فلسفے اور نظام ہائے فکر و عمل کی تشکیل شروع کردی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان رفتہ رفتہ جمود کا شکار ہوتے چلے گئے اور دوسری طرف علمی تحریک کی بدولت مغرب کی طاقت روز بہ روز بڑھنی شروع ہوگئی۔ اٹھارہویں صدی آتے آتے مسلمانوں پر مغربی قوموں کی یورش اور ان کی فتوحات نے انہیں مغلوب قوم بنادیا، صورت حال ایسی پیدا ہوگئی کہ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ کوئی تہذیب ہے تو اہل مغرب کی ہے۔ کوئی تمدن ہے تو مغرب کا ہے۔ علم و فن جو کچھ بھی ہے اہل مغرب کا ہے اور ہمارا کچھ نہیں۔ اسی مغلوبیت نے ایک طرف مسلمانوں پر جمود کی کیفیت طاری کردی اور دوسری طرف مغرب کی تقلید میں آتے چلے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
مغرب میں فکر و تحقیق کا رجحان کیسے فروغ پایا، اور امت مسلمہ کا زوال کیسے ہوا۔ اس کی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی کے یوروپ میں حدر درجہ دقیانوسیت اور روایت پرستی پائی جاتی تھی۔ جس کی بنیادا پر اہل کلیسا نے وہاں کے باشندوں کو ظلم کے خونیں پنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ چنانچہ ایک تحریک اٹھی اور عہد وسطی کے اس دور کو تاریک دور قرار دیا، اور مذہبی عصبیتوں، روایت پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کو اپنا ہدف بنایا۔ جدیدیت کی اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں فرانس بیکن، این ڈی کارٹ، تھامس ہومس ہوبس وغیرہ کے افکار میں پائی جاتی ہیں۔ جن کا نقطہ نظریہ تھا کہ یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ اور مشاہدے کے ذریعہ قابل دریافت ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمے مثلاً وحی یا نبوت کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ جدیدیت کی یہ تحریک مذہب سے بغاوت کے نتیجہ میں شروع ہوئی۔ اس تحریک نے ازسرنو تحقیق کرتے ہوئے نئے طرز ہائے زندگی اور نئے فلسفے دریافت کرنا شروع کردیئے۔ بیسوی صدی کے آتے آتے یوروپی قوموں کی بالادستی کے نتیجے میں مسلمانوں میں اپنے صحیح اور فطری دین اسلام سے جو ذہنی اور فطری دوری پیدا ہوئی اس نے زندگی کے ہر پہلو پر برے اثرات مرتب کیے، یہاں تک کہ قومیں کی قومیں اجتماعی طور پر غیر ذمہ دار اور اباحیت پسند ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ اس کے خلاف علمائے دین نے اپنی سی کوششیں جاری رکھیں لیکن یہ حضرات اپنی تمام تر علمیت اور تقوی کے باوجود مسلمانوں میں اس لادینی افکار و اعمال کے سیلاب کو نہ روک سکے جس میں وہاں کے افراد اور جماعتیں غرق ہونے لگیں بلکہ اُلٹا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ذہنی و فکری انتشار پیدا ہوگیا اور ہر طرف افرا تفری پھیل گئی۔ اسلامی تحریک کو ابتدائی دور میں مغرب کے جن نظریاتی، سیاسی اور تہذیبی چیلنجز سے سابقہ پیش آتا تھا وہ موجودہ چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلے مغربی فلسفے کی بنیاد جدیدیت پر تھی ۔ لیکن آج جدیدیت کو خود مغربی دنیا میں سخت چیلنجز درپیش ہیں۔ مابعد جدیدیت نے جدیدیت کی بنیادیں کمزور کردی ہیں۔ مغرب کے ہمہ گیر سیکولرزم اور تمدن کا زوال بہت واضح ہوچکا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک میں سیکولرزم کی ایک نئی تعریف وضع کی جارہی ہے۔ یہاں کی قومی، مذہبی اور تہذیبی روایتیں ایک نئے اعتماد کے ساتھ اپنااثر دکھانا شروع کرررہی ہیں۔ اس صورتحال میں تحریک اسلامی کو جن خطوط پر فکر و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم وفنون کو نئے اسلوب اور نئے طریقے پر مرتب کیا جائے تاکہ وہ اسلامی تہذیب کی بنیاد بن سکیں۔(۲) مغربی فکر اور مغربی فلسفہ حیات کا جو طلسم آج بندھا ہوا ہے اس کوتوڑ ڈالا جائے، ایک معقول اور مدلل علمی تنقید کے ذریعے یہ بات ثابت کی جائے کہ مغربی علوم و فنون میں جتنے حقائق اور واقعات ہیں وہ دراصل تمام دنیا کا مشترک علمی سرمایہ ہے۔(۳) آج اسلامی دعوت کی ایک بڑی علمی ضرورت یہ ہے کہ اسلامی علم کلام کو ترقی دی جائے اور اسلامی عقائد کو فلسفہ کی اعلیٰ ترین سطح پر ثابت کیا جائے۔(۴) تحریک اسلامی کا موجودہ لٹریچر عام پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا شدہ سوالات کا تشفی بخش جواب تو دے سکتا ہے لیکن اپنے وہ افراد جنہوں نے اسلام کے خلاف فلسفیانہ بنیادوں پر تیار شدہ لٹریچر کو پڑھاہے ، ان کو اس کا عالمانہ اور فلسفہ کی سطح پر جواب دینے کی ضرورت ہے جیسے عہد وسطی میں امام غزالی نے یونانی فلسفہ کا جواب دیا۔(۵) ہندوستان کے قدیم فلسفے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا اثر و رسوخ دکھانا شروع کردیتے ہیں، فلسفہ کی سطح پر ہندو اور بدھ فلسفوں کی طرف ساری دنیا میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے، جیسے آرٹ، طب اور فنون لطیفہ وغیرہ۔ ایسے وقت میں ہندوستانی مذاہب کا راست مطالعہ اور اس تناظر میں لٹریچر کی ضرورت ہے۔جس کا آغاز ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب نے کیا تھا۔(۶) تحریک اسلامی نے عملی سیاست کی حد تک تو اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ اسلامی اقدار کو بنیاد بنا کر اور ہم خیال غیر مسلموں کو ساتھ لے کر ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے گی لیکن خود اسلامی تحریک کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے یہ سوال ابھی حل طلب ہے۔ مسلم امت کا تحفظ اور اس کے مسائل کا حل ہماری سیاسی حکمت عملی تو ہوسکتی ہے لیکن اسلامی تحریک کی نہیں ہوسکتی۔ مذہب اور سیکولرزم کو جو سیاسی اور نظریاتی چیلنجز درپیش ہیں ان کو کیسے حل کیا جائے یہ تحریک اسلامی کی ایک اہم ضرورت ہے۔(۷) تحریک اسلامی کو اب تہذیب و تمدن کی سطح پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے محض سیاسی حکمت عملی کے بجائے فلسفہ، تہذیب، علوم و فنون، اخلاق اور تمدن کی سطح پر آگے بڑھ کر کام کرنے اور دوسرے تمدنوں کے ساتھ نتیجہ خیز انداز میں مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔(۸) ایک ایسا تعلیمی نصاب تیار کیا جائے، جو اسلامی طرز تعلیم کی مکمل عکاسی کرتا ہے، اس کو کالجز اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ پڑھایا جائے۔ تاکہ اس سے آئندہ نسل مستفید ہو اور فکری آبیاری کا کام انجام پائے۔
تجدید و اجتہاد کی ضرورت: دین ایک ہے۔ یہ دین ابدی طور پر قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ بعد کے زمانوں میں انسانی آمیزش سے الگ کرکے دین کو اس کی اصل صورت میں واضح کرنے کا نام تجدید دین ہے تاکہ خدا کا دین انسانی آمیزشوں سے پاک ہو کر دوبارہ اپنی اصل صورت میں نکھر کر سامنے آجائے۔
تحدید دین کے لیے اجتہاد واحد راستہ ہے۔ امت مسلمہ ایک اجتہادی امت ہے۔ امت کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ امت نے اجتہادی کام کو ترک کردیا ہے۔ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’جب مسلمان تھک گئے، ان کی روح جہاد سرد پڑگئی، قوت اجتہاد شل ہوگئی تو ان کی ترقی کی رفتار رک گئی اور وہ امامت کے منصب سے معزول ہوگئے۔ جہاد اور اجتہاد کا جھنڈا جس کو مسلمانوں نے پھینک دیا تھا مغربی قوموں نے اٹھا لیا۔ وہ علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھے، مسلمان سوتے رہے اور امامت کا منصب ان کو مل گیا۔‘‘ (تنقیحات، ص: ۳۹۔۳۸)
مندرجہ بالا تعریف سے تحدید دین کا جو مفہوم واضح ہوتا ہے اور اس کے بعد تحریک اسلامی کو جن محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ اس طرح ہیں:
(۱) عصر حاضر میں امت مسلمہ نے قرآن کو کتاب تلاوت اور کتاب ثواب بنا دیا ہے۔ تجدیدی کام یہ ہے کہ قرآن کو دوبارہ لوگوں کے لیے ہدایت و نصیحت اور فکر و تدبر کی کتاب بنایا جائے۔
(۲) موجودہ زمانے میں امت نے عبادت پر مسائل کو ترجیح دی ہے۔ ضرورت ہے کہ صحیح تصور عبادت کو نمایاں کیا جائے جس میں عابدین کے خشوع والے عنصر کو ابھارا جائے۔
(۳)امت مسلمہ نے عشق رسولؐ کو اتباع رسولؐ کے ہم معنی سمجھ لیا ہے۔ اتباع رسولؐ کے صحیح قرآنی مفہوم کو امت میں بیدار کیا جائے۔
(۴) مسلمانوں کی اکثریت نے خدا پرستی کے بجائے اکابر پرستی کو رائج کرلیا ہے، اس کھلی گمراہی کو ختم کرکے مسلمانوں کے اندر سچی خدا پرستی عام کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد آصف علی بگدل،
سابق سکریٹری ایس آئی اوآف انڈیا