کسی کام کی انجام دہی اور کسی پیشہ سے وابستگی، ان دونوں امور میں وقت مشترک ہے۔ کام کی انجام دہی، تھو ڑے یا زیادہ وقت کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ کسی پیشہ سے وابستگی کے لئے عمر کا خاصا حصہ درکار ہوتا ہے۔ بات چاہے کام کی انجام دہی کی ہو یا کسی پیشہ سے وابستگی کی، ہر دو صورت میں فرد کا کردار جھلکتا ہے، اس کی قابلیت ظاہر ہو تی ہے او ر نتیجتاً کام میں ماہرہونے یا نہ ہونے کی شناخت ہوجاتی ہے۔معاشرہ میں جدھربھی نگاہ دوڑائیے، مختلف علوم و فنون کے ماہر نظر آئیں گے۔ کوئی ماہر طبیب ہے جو مریض کو دیکھتے ہی مرض کا پتہ لگالیتا ہے، کوئی ماہر استاد ہے جو بچوں کاحال دیکھ کر ان کے مستقبل کے بارے میں بتادیتا ہے۔کوئی ماہر میکانک ہے جوگاڑی کی آواز سے اس کی خرابی پہچان لیتا ہے، پھر کوئی معاشیات کا ماہر تو کوئی میدان سیاست کا شہسوار، غرض معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔غور کیجئے، ایک بڑی حقیقت منکشف ہوگی کہ یہ سب انسان کی احسن تقویم پرپیدائش کے جلوے ہیں۔جو کام بھی احسن انداز سے انجام دیا جائے، اس کی روح سے انسانی صلاحیتیں جلا پاجاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مقصد زندگی کی تکمیل کے لئے میدان عمل کو ترجیح دی گئی او ر ایمان کے بعد نیک اعمال کامطالبہ کیا گیااور ان میں جدت و ندرت کو مطلوب قرار دیا گیا۔ قلب و ذہن پر ان اعمال صالحہ کے اثرات مرتب ہوں اس لئے احسان کی روش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔ نہ صرف نماز کا حکم دیا گیا بلکہ اسے بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کی گئی۔ نماز کی ادائیگی کسی کام کی ابتدا کی نوعیت ہے تو نماز میں خشوع و خضوع اس کام میں حسن کا مظہر ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کسی کام کی ابتدا کی حیثیت رکھتا ہو تو ہر حال میں، کھلے اور چھپے خرچ کرناگویا اس کام کی مہارت کی غمازی کرتا ہے۔وہ حدیث بھی اسی سلسلے کا بہترین تسلسل معلوم ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ہاتھ او ر پیربن جانے کا ذکر فرماتاہے۔یعنی بندۂ رب کا ذکر چہار دیواری ہی میں صحیح، لیکن اس کی پابندی سے اس کووہ نور میسر آجاتا ہے جس کی روشنی میں بندۂ خدا، بندگان خدا کے لئے رہنما بن جاتا ہے۔ ذِکْرٌ لَّکَ فِی السَّمَآءِ وَ نُوْرٌ لَّکَ فِی الْاَرْضِ(آسمان میں تمہارے ذکر اور دنیا میں نور کا ذریعہ ہوگا) کے توسط سے اللہ کے رسولؐ نے یہی بشارت واضح فرمائی۔
اگر اس تناظر میں تحریکی وابستگی کو دیکھا جائے تو بلاشبہہ نظریں ’’افراد کے کردار‘‘پر ٹک جاتی ہیں۔نہ صرف چند بلکہ تمام ہی رفقاء ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں،کیونکہ ہرفرد کے پیش نظر رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ تحریک سے وابستگی اور کاموں کی انجام دہی کے جو لازمی اثرات و نتائج ہیں، ان سے ہر فردِ جماعت کی شخصیت سجتی اورسنورتی رہنی چاہئے۔ گویا بیج کی زمین سے وابستگی ہوگئی اور ا ب اس کا بتدریج بڑھنا عین مطلوب ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت و اتباع اور عقیدہ و نصب العین کے پختہ شعور سے لے کر نصب العین کے لئے والہانہ جدوجہد تک وہ تمام خوبیاں روز افزوں پروان چڑھنی چاہئیں جن سے تحریک او رافراد تحریک کے تئیں جذبۂ خیر خواہی ظاہر ہوتا ہو۔ جماعت میں جائزہ و تقسیم کار کا معاملہ، فرد اور افراد تحریک کے ان ہی پہلوؤں کے پیش نظر انجا م پانا چاہئے۔ تاہم انسانی نفسیات اور صلاحیتوں کا فرق، اس میں کچھ گنجائشیں پیدا کردیتا ہے اور انہیں کا لحاظ رکھتے ہوئے افرادجماعت کے جائزہ و احتساب کا اہتمام ہونا چاہئے۔ یعنی ہر ایک فرد کو ایک ہی پیمانے سے چانچنے اور پرکھنے کی بجائے حسب مراتب و منازل معاملات کرنے چاہئیں۔
وابستگی کے نتیجے میں افراد پر پڑنے والے جن تحریکی اثرات و نتائج کا ذکر کیا گیا ہے وہ اسی طرح فطری اور لازمی ہیں جیسے معاشرہ کے مختلف افراد کا کسی پیشہ یا کام سے وابستگی کامعاملہ ہوتا ہے۔ اگر مختلف کاموں کے ماہر ین معاشرے میں دستیاب ہیں تو تحریکی معاشرے میں بھی مختلف کاموں کے ماہرین بدرجہ اتم موجود رہنے چاہئیں۔ ماہرین کے جو مراتب معاشرہ میں محسوس ہوتے ہیں اس سے بہتر معاملہ تحریکی معاشرے کا ہونا چاہئے۔اگر معاشرے کی ضروریات کے مطابق اہل افراد نہ ہوں تو مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایک صحت مند اور غیر صحت مند معاشرہ کے درمیان بس یہی ایک جوہری فرق رہتا ہے، ایک جگہ اہلکار موجود اور دوسری جگہ ان کا فقدان۔اگر تحریکی معاشرہ بھی مختلف میدانوں کے ماہرین اوراہل کاروں کے فقدان سے دوچار ہو تو تحریک دھیرے دھیرے اپنے نصب العین سے معنوی تعلق کھوتی چلی جاتی ہے اور اس کے وابستگان ایک دوسرے سے ہی نبردآزما رہتے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان مسابقت ہو بھی تو وہ صرف درس و تقریر یا کسی سطحی کام ہی کی حد تک محدودرہتی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ تحریک اسلامی کا اعلی و ارفع نصب العین، اس کی منظم جدوجہد و موثر نظام تربیت، اس کا اجتہادی تنظیمی ڈھانچہ اور ہر میقات میں حالات وضروریات کے تحت بننے والے منصوبوں سے فرد کا بامعنی وبتدریج ارتقاء اسی طرح فطری ولازمی ہے، جس طرح بیج کا زمین سے وابستہ ہونے کے بعد برگ وبار لانا او ر کسی رنگ کی آمیزش کے بعد پانی کا وہی رنگ اختیار کرنا۔
لہذانگاہیں اس اہم حقیقت پر ہمیشہ جمی رہیں کہ تحریک سے فرد کی وابستگی جتنی پختہ ہوتی چلی جائے اسی قدر اس کے ایمان میں پختگی ‘فہم ووشعور میں بالیدگی، تحریک و افراد تحریک کے لئے جذبۂ خیرخواہی اور قوت عمل میں اضافہ ہوتا رہنا چاہئے۔ہر فرد اپنی تمام ترقوتوں اور صلاحیتوں سے اپنی ذات اورتحریک میں تبدیلی کا خواہاں اور فکر مند محسوس ہو، ویسے ہی جیسے وہ اپنی ذات اورنجی معاملات کے لئے ہوا کرتا ہے۔ تحریک سے وابستگی اور عملی جدوجہد کے نتیجے میں حسب ذیل پہلوؤں سے فرد کے کردارکا نشوونما ہوناچاہئے۔
دل مست�ئکردار کا مسکن بن جائے
تحریکی وابستگی پر فرد کے جس پہلو کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ اس کا دل ہے۔ جی ہاں، فرد کے دل کا حال معلوم کرنا،اس کی بیرونی دنیا کے جائزہ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔بس فرد کے دل پرتوجہ دیجئے وہ فرد دنیا کو سنبھالنے کے قابل بن جائے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سے وابستہ صحابہ کرامؓ کا اگر اسی نقطہ نظر سے جائزہ لیں، تو معلوم ہوگا کہ ان کی اجتماعیت زندہ دلوں کی اجتماعیت تھی۔ معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضراتؓ کے سامنے دل کا ایک دلنشین نقشہ پیش فرمادیا تھا۔ ہر فرد اس دل کے آئینے میں، اپنی شخصیت دیکھ اور سمجھ سکتا تھا۔سلیم القلب‘ مخموم القلب‘ سلیم الصدر‘ افءِدۃ الطیر جیسی قلبی اصطلاحات کے پیش نظر ان برگزیدہ ہستیوںؓ نے پاکیزگ�ئ دل، الفت ومحبت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی جاں گسل جدوجہد کی مثالیں قائم فرمادیں۔ تحریک کی کامیابی اسی معاشرے سے مطابقت میں ہے، جس قدر مطابقت اسی قدر کامیابی۔ کیونکہ تحریک اسلامی نے فی الواقعی اقامت دین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی معاشرے کوبطور نمونہ پیش نظر رکھا ہے۔
دلوں کے جائزہ اور رسول اللہؐ کے متعین کردہ قلبی معیارات پر کھرااُ ترنے کی انفرادی و اجتماعی کوششو ں کی اہمیت بڑی بڑی کانفرنسوں اور عظیم الشان اجتماعات سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔تحریک سے وابستگی پر فرد کی قلبی کیفیت خوب سے خوب تر کی جانب برابر گامزن رہنی چاہئے۔جس کے معنی یہ ہوں گے کہ تحریک نے اپنے نصب العین کے شایان شان ایک فرد کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اگر ایسا فرد تیار نہ ہو تو تأثر یہ بنے گا کہ کہ تحریک اپنے اندرون پر اثرانداز نہیں ۔ظاہر بات ہے جو تحریک اپنے اندرون کی تبدیلی میں کامیاب نہ ہو وہ بیرون کی دنیا کو تبدیل کرنے کا دعوی کیسے کرسکتی ہے۔لہذا اجتماعیت سے وابستہ ہر فرد کی تربیت اور اس کے شخصی جائزہ کے لئے حسب ذیل نکات پیش نظر رہنے چاہئیں:
nدین اسلام کے حق ہونے پراس کے یقین میں بتدریج اضافہ ہو۔
nنصب العین سے وابستگی پراسے دلی اطمینا ن ہو۔
nعبادات میں خشوع و خضوع کی کیفیت او ر معاملات میں شفافیت ہو۔
nتحریک سے وابستگی عزیز تر ہو جس کے لئے متنوع قسم کے اعمال انجام دینے والا ہو۔
nاس کے نزدیک جماعت سے وابستگی کے معنی میدان عمل میں استقلال کے ساتھ کوشش کے ہوں۔
nوہ اپنے قول و عمل سے تحریک اور افراد تحریک کے لئے جذبۂ خیر خواہی ظاہرکرنے والا ہو۔
nفکر و خیال اورگفتگو اور اپروچ سے اس کے دل کا ہر طرح کی عصبیت اور تنگ نظری سے پاک ہونا ظاہر ہو۔
nکسی فرد کی عدم موجودگی میں گفتگو کرنے کا محتاط اندازاختیار کرتا ہو۔
nاحساس ذمہ دای اور کامو ں کی انجام دہی میں احسان کی روش اختیار کرتاہو۔
n لوگوں سے تعلقات، اللہ کی محبت اور آپسی حسن ظن پر استوار رکھتا ہو اور اس کا ہر چھوٹا بڑا عمل اسے اللہ اور اس کے بندوں سے قریب تر کرنے والا ہو۔
فرد کا کردار دل کا حال بیان کرتا ہے اور کردار کی عظمت دل کی ثبات سے ممکن ہے۔ دل کی کیفیت کا بدلنا اوربدلتے رہنااس کی فطرت ہے، لہذا قلب کو بلند کردار کا حامل بنانا بڑی محنت و مشقت چاہتا ہے۔ تحریک کی کامیابی’’مست�ئ کردار دل‘‘کے حامل افر اد کی تیاری سے ممکن ہے اگر یہ نہ ہو تو ظاہری طور پر چاہے افراد کا جم غفیرہی تحریک سے کیوں نہ وابستہ ہوجائے، ان کی سرگرمیوں سے بس کمیوں کا احساس ہوگا اوریہی ایک بازگشت سنائی دے گی کہ وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِیْ قُلُوبِکُمْ (الحجرات:۱۴)ابھی تو ایمان کو ان کے دلوں میں پناہ ہی نہیں ملی ہے۔
شخصیت عمل پیہم کا پیکر بن جائے
تحریک اپنے جس نصب العین کو جس طریق کار کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کے مطابق ہر فرد جماعت کا ڈھل جانا اورعمل پیہم کا پیکر بن جانا، کامیابی کی دلیل ہے۔تحریک جس حرکت وعمل کے ذریعہ دنیائے انسانی کو منور کرنا چاہتی ہے اس کے لئے ہر فرد کا عمل، روشن ستارے کی مانند ہوگا، جو اپنے وجود سے اطراف و اکناف کے ماحول کو منوّر کردیتا ہے۔ دیکھ جائیے اس وسیع وعریض آسمان کا روشنی سے جگمگا اٹھنا ایک دوستاروں اور سیاروں کے چمکنے سے نہیں ہے بلکہ آسمان کی گود میں موجود ہر ستارہ مقدور بھر روشنی بکھیرنے میں مصروف ہے۔ یہی حال تحریک اسلامی سے وابستہ روشن ستاروں کا ہونا چاہئے۔ جس معاشرے میں ان کا وجود ہے وہ شرک اورجاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ جن افراد کے درمیان انہیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں وہ مختلف قسم کی داخلی وخارجی کمزوریوں سے دوچار ہیں۔جن اچھائیوں کو وہ پھیلانا چاہتے ہیں ان کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں ہیں۔جن برائیوں کا ازالہ چاہتے ہیں ان کی جڑیں معاشرہ میں بڑی گہری ہیں۔ اگر ان تمام دشواریوں کا کوئی قابل عمل حال ہوسکتا ہے تو وہ فرد کی مستقل کوششیں اور اس کا وَمَاضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا (بغیر کمزور پڑے اور تھکے جدوجہد) کا عملی نمونہ بن جانا ہے۔
اجتماعیت سے وابستہ فرد کی سرگرمیاں نظم کے تحت ہوں تو وہ تحریکی منصوبے کے قالب میں ڈھل جاتیں ہیں۔جب فرد کا یہ ذوق عمل روز افزوں ترقی کرتا رہے تو تحریکی منصوبہ کی جامعیت ومعنویت کی وہ لذت محسوس ہوگی جس کے پیش نظر اسے وضع کیا جاتا ہے، جس کا شروع شروع میں سب کو احساس رہتا ہے لیکن وقت کے ساتھ یہ احساس ماند پڑتا چلاجاتا ہے۔ تحریکی کامیابی میں اللہ کے فضل کے بعد افراد جماعت کی یہی بتدریج بڑھتی قوت کارکردگی ہے جو انہیں تاریخ ساز کاررناموں کا اہل بنادیتی ہے۔لہذا حسب ذیل امور کے تحت ہر فرد کی تربیت و جائزہ کا نظم ہونا چاہئے:
nنصب العین کے حصول کے معنی استقلال کے ساتھ جدوجہد ہو۔
nذات کو نصب العین کے مطابق ڈھالنے کی شعوری کوشش کرتا ہو۔
nنصب العین کے حصول کا ذریعہ صرف اجتماعی سرگرمیاں نہ سمجھتا ہو۔
n نصب العین سے وابستہ کرنے کی غرض سے بیوی بچوں، خاندان اور پڑوس پر مستقل توجہ دیتا ہو۔
n اجتماعیت کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے ہر وقت تیاررہتا ہواور اپنے دیگر ساتھیوں کے لئے موجب ترغیب بنتا ہو۔
nہر وقت کسی خاص میدان ہی میں سرگرمی نہ دکھاتاہو اور نہ ہی بیک وقت کئی کام چھیڑنے والا ہو۔
nاس کے کسی کام سے سطحیت محسوس نہ ہو اور نہ ہی روایتی انداز اپنانے پر زور دیتا ہو۔
n اس کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی اطاعت امر کے دائرے میں آتی ہو۔
nاس کا ہر عمل، مزید عمل کے لئے راہیں ہموار کرتا ہواوراس کے اندرمزید علم حاصل کرنے کی تڑپ پیدا کرتا ہو۔
n کثرتِ عمل اسے اللہ اور تحریک سے قریب تر کرنے والا ہویعنی زیادہ عمل کی وجہ سے اس کے اندر تحریک، افراد تحریک یااجر آخرت سے بے نیازی پیدا نہ ہو۔
رضائے الہی اور فلاح آخرت جیسی حقیقی غایت کے لئے اختیار کی گئی تحریک سے وابستگی، فرد کو کسی کروٹ چین سے بیٹھنے نہ دے۔ اقامت دین کے لئے غار حرا سے حرکت و عمل کا یہی پیغام تو ملا ہے۔ تحریک سے وابستگی کے بعد حرکت و عمل کا مطالبہ، دراصل فرد کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ہے، اس کا ہرعمل اس نور کی کرن بن جائے گا جو قیامت کے دن اس کے ساتھ ہوگا : یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ یَسْعَی نُورُہُم بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَبِأَیْْمَانِہِم۔ (الحدید:۱۲) ترجمہ: اس دن تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نوران کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔
فہم و شعور،رفعت و بالیدگی اختیار کرجائے
نصب العین کا فہم وشعور،حرکت وعمل کا محرک ہوتا ہے، یہ جتنا گہرا ہوگا، عمل میں اسی قدر گہرائی و گیرائی آتی چلی جائے گی۔اس کے بغیر کسی فرد سے مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیہم کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی چھوٹے سے پودے سے پھل کی توقع رکھنا۔کسی درخت کے پھل و پھول اور برگ وبار لانے کے لیے جہاں اس کی جڑوں کو زمین میں اچھی طرح پیوست ہوجانا ضروری ہے وہیں اس کے تنے پتے اور شاخ کا وسعت اختیار کرنا اور تروتازہ رہنا بھی ضروری ہے۔ فہم وشعور کی اس اہمیت کے پیش نظر وابستہ ا فرادکی فکری نشوونما کی کوشش کی جائے تو بلاشبہہ جماعت کو ایسے افراد میسر آئیں گے جو، جذباتیت سے بالاتر ہوکر ہر حال میں عملی تعاون دینے کے لئے آمادہ رہیں گے۔اور ان تمام بری خصلتوں سے ان کی شخصیتیں پاک رہیں گی جو اجتماعیت سے چمٹے رہنے کے لئے ضروری ہیں۔ نہ وہ کسی بڑے کام سے بہت زیادہ خوش ہوکرسستی میں دن گذاریں گے اور نہ ہی بڑی سے بڑی تکلیف پر اضمحلال کی کیفیت ان پر تاری رہے گی۔نہ ہی جذباتیت کی رو میں بہہ کر دیوانہ وار سرگرم عمل رہیں گے اور نہ ہی ناامیدی و یاس کے نتیجے میں جمود کا شکار ہوجائیں گے۔ فرد کی اجتماعیت سے وابستگی کے بعد اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ اہمیت ہوگی تو بس وہ یہی فکر ی نشوونما ہے۔ جس فرد میں نصب العین کا صحیح فہم و شعور رچ بس گیا، اس کی ساری تگ ودو نصب العین کی عکاسی کرنے والی ہوگی۔بس فر د کی فکر و نظر پر توجہ دیجئے وہ فرد آپ سے آپ تحریکی بن جائے گا۔اگر وابستہ افراد کی فکری اصلاح پر توجہ مرکوز رہے توا س فرد سے دیگر افراد کی سطحی یا بے معنی توقعات کے وہ سارے دروازے بھی از خود بند ہوجائیں گے، جو عموماً اس وقت سامنے آتے ہیں جب کوئی باصلاحیت، ذی اثر یا صاحب ثروت فرد جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔فرد کے فہم و شعور میں پختگی کے لئے درج ذیل اموراصلاح و تربیت اور جائزہ کے مواقع بہم پہنچاتے ہیں:
nفرد کو اپنی وابستگی سے قبل کی زندگی کے حالات اور فکر کا بخوبی اندازہ ہو۔
nنصب العین اور طریق کار کے صحیح فہم کے لئے اس کی اپنی انفرادی کوشش ہو۔
nدستور جماعت میں بیان کردہ اقامت دین کی تشریح سے اس کی فکر اور عمل ہم آہنگ ہو۔
nقرآن مجید کا مطالعہ اس کی عملی کوششوں اور درپیش مسائل کے تحت بھی ہوتا ہو۔
nسنت رسول ؐ کا مطالعہ سیرت سے واقفیت اور حالات کو سمجھنے کی غرض سے کرتاہو۔
n تحریک کی بنیادی کتابیں اس کے مستقل مطالعہ میں ہوں نیزنصب العین کے تقاضوں کے تحت اسلامی اوردیگر کتابوں کا مطالعہ کرتا ہو۔
nتحریکی ترجیحات اور تقاضوں نیز حالات کے پیش نظر قرآن و سنت سے خصوصی استفادہ کرتا ہو۔
nحالات سے صحیح واقفیت کے لئے اپنے مطالعہ، مشاہدہ اور تحریکی تجزیوں سے استفادہ کرتاہو۔
nانفرادی اور اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں واضح ہونے والے امور کے تحت غور و فکر اور تحریکی افراد سے تبادلۂ خیال کا اہتمام کرتا ہو۔
nعلم و عمل اور عمل و علم کے ذریعہ اس کی فکر میں پختگی و بالیدگی محسوس ہوتی ہو۔
فہم و شعور میں پختگی و بالیدگی دراصل اعلیٰ وارفع نصب العین کی بلندیوں تک پہنچنے اور اس کا اہل بننے کی کوشش ہے۔ اعلیٰ نصب العین کے مطابق بلندسوچ و فکر نہ ہو تو قول میں کم مائیگی کا احساس اور عمل میں نقائص کا تأثر نمایاں طور پر محسوس ہوگا۔
ملت اسلامیہ کارجہاں بانی کی خوگر بن جائے
اقامت دین کے لئے متعین کردہ حکمت عملی اور طریق کار میں ملت اسلامیہ کاکردار وتعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے۔تحریک اسلامی کا قیام ہی اس مقصد کے لئے ہوا ہے کہ ملت اسلامیہ جو اس نصب العین کی حامل ہے، اپنے داخلی و خارجی مسائل کے سبب اس سے لاتعلق نظر آتی ہے، اس کو اس کی منصبی ذمہ داری یاد دلائی جائے۔لہذا اجتماعی نظم کے تحت یہ حکمت عملی بنی کہ ملت میں داعی الی اللہ ہونے کاشعور بیدارکیا جائے اور انہیں بھی اس عظیم مقصد کے لئے اپنی زندگیاں لگادینے کی ترغیب دلائی جائے۔ تحریک کا یہ مقصد اس سے وابستہ افراد کی نظر کو وسعت اور فکر کو وہ بالیدگی عطا کرتا ہے کہ ملت کے تئیں ہرمعاملہ تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر صرف خیرخواہی کی بنیاد پراستوار رہتا ہے۔ افراد جماعت چاہیں خلوت میں ہوں، یا جلوت میں، وہ دوسروں کی طرح بے معنی گفتگوؤں اورغیر صحت مند تنقیدوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے ۔ کسی فرد، ادارہ یا تنظیم کی تحقیر یا تذلیل نہیں کرتے بلکہ ا ن سے ہر آن خیر خواہی کا جذبہ روا رکھنے پر متوجہ رہتے ہیں ۔ جب مقصد بلند تر ہو تو اس کے لئے کیا جانے والا کام اسی کے شایان شان ہوتا ہے۔
ملت اسلامیہ کی تیاری کا عظیم کام، تحریک سے وابستہ ہر فرد سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کی ہر چھوٹی بڑی کوشش ملت میں داعی الی اللہ ہونے کا شعو ر بیدارکرنے کا ذریعہ بنے۔ اس کی انفرادی ملاقاتیں، اس کی گفتگو و تبادلہ خیال، لٹریچر کی تقسیم، سفر و حضر میں رابطہ، خطابات، ہر ہر کام ملت کو اس عظیم مشن کے لیے تیار کرنے کی غرض سے انجام پانا چاہئے۔ ملت کا ہرفرد،اپنے مقصد حیات سے واقف ہو، اس کے اندردین کا صحیح فہم و شعوربیدارہو، اس کی زندگی ہر طرح کی بدعت اور خرافات سے پاک ہواور وہ اپنے قول و عمل سے دین کی گواہی دینے والا داعی بن جائے۔اس کے کچھ محسوس پیمانے ہیں جن کے توسط سے نہ صرف ملت کی تیاری میں کامیابی کا اندازہ ہوسکتا ہے بلکہ افراد جماعت کی کوششوں کا مفید ہونا یا نہ ہونا بھی واضح ہوجاتا ہے۔متفقین کی تعداد میں اضافہ، علمائے کرام کا تعاون، مسلکی وگروہی تعصبات میں کمی اورتعاون عمل کے لئے سازگار ماحول، ملی تنظیموں سے اشتراک و تعاون، اہم ملی شخصیات اور اداروں سے روابط، جماعت کے عوامی پروگراموں اور کاموں میں افراد ملت کا تعاون وغیرہ۔
اس پس منظر میں ہر فرد جماعت پراچھی طرح واضح کیا جائے کہ کسی بھی مسلمان سے کم سے کم سے توقع یہ ہو گی کہ وہ دین سے واقف ہوجائے اور حسب استطاعت اس پر عمل پیرا ہواور زیادہ سے زیادہ توقع یہ ہوگی کہ وہ اپنے قول و عمل سے دعوت دین کا فریضہ انجام دینے کے لئے تحریک کا حصہ بن جائے۔ان دونوں کے درمیان ملت سے انفرادی و اجتماعی توقعات کی اور بھی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں مساجد کا مؤثر کردار،باہم تبادلہ خیال، ملی مسائل کے حل میں تعاون، عائلی اور خاندانی تعلیمات پر عمل درآمد، نوجوانوں کی تربیت، خاص مواقع پر رہنمائی‘تنظیموں اور اداروں کا تعاون، کارکردگی پر صحت مند تبصرے، ادارہ جاتی امور سے متعلق ہمت افزائی اور ضروری رہنمائی وغیرہ۔ملت سے متعلق تحریک کی جو توقعات اور مطمح نظر ہے انہیں صرف اجتماع میں شرکت کی حد تک ہرگز نہ سمجھا جائے بلکہ ملت میں نفوذ وتعاون کے وہ تمام مراحل پیش نظر رہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔اس ضمن میں فرد کی تربیت و جائزہ کے خاص پہلویہ ہوں گے:
nفرد پر یہ بات واضح ہو کہ ملت کی تیاری تحریکی نصب العین کا اہم ترین تقاضا ہے۔
nمسلمانوں سے توقعات کے تدریجی مراحل کا اسے صحیح ادراک ہو۔
nملت کی تنظیموں اور اداروں اور مسلکوں سے متعلق اس کا صحت مند طرز عمل ہو۔
nملی تنظیموں اور اداروں سے تعاون دینے اور لینے کے جماعتی اصولوں سے اس کی اچھی واقفیت ہو۔
nجماعت کے الجماعۃ نہ ہونے اور اس صورت میں ملت میں کام کرنے کی حکمت و مصلحت کو وہ خوب سمجھتا ہو۔
nملت کی تنظیموں اور اداروں نیز با اثر شخصیات سے روابط وتعلقات میں جماعتی اصولوں کا پاس و لحاظ رکھتا ہو۔
nاس پر یہ حقیقت واضح ہو کہ ملت میں داعی الی اللہ ہونے کا شعور بیدار کرنے میں افرادجماعت کے انفرادی و اجتماعی کردار ہی اہم وسیلہ بنتے ہیں۔
nوہ یہ حقیقت بھی جانتا ہو کہ ملت میں شعور کی بیداری ہر طرح کے تعصبات اور تنگ نظری سے بالاترہونے اور قلب و ذہن کو سطحی سوچ سے محفوظ رکھنے ہی سے ممکن ہے۔
nاسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے روبہ عمل لائے جارہے انفرادی و اجتماعی پروگرام کا وہ خود سے جائزہ لیتا ہو۔
nشخصی روابط کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ افراد کو نصب العین سے قریب کرنے کی کوشش کرتا ہو ۔
تحریک اسلامی اپنے بلند وارفع مقاصد کے حصول کی جانب فطری اور معنوی لحاظ سے پیش قدمی کے لئے ملت کی تمام تنظیموں او راداروں سے ایک انتہائی مربوط تعلق قائم کرلیتی ہے۔جیسے ایک عمارت کی تعمیر کے لئے ہر طرح کے کاریگر اور فن کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی دین کی عمارت کی تعمیر کے لئے رفقائے کار کے سامنے ایک بڑا ہی پاکیزہ اور بلند مقصد رکھا گیا ہے کہ مقاصد کی تکمیل نہ صرف ملت کو اپنے مقصد سے ہم آہنگ کرنے میں ہے بلکہ اس دین کے منشا او رمزاج سے مطابقت رکھنے والی ان کی تمام سرگرمیوں کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ سمجھنے اور انہیں صحیح رخ دینے میں ہے۔ اقامت دین کا نصب العین ساری انسانیت کو اپنے دائرے میں لے لیتا ہے، یہاں کوئی فریق نہیں بلکہ سب مخاطب ہیں، جو قبول کرلیں وہ بھی اپنے اور جنہوں نے انکار کیا وہ بھی اپنے، اس لحاظ سے کہ ان پرمستقل توجہ رہے گی۔ یہاں کسی کی پسند و ناپسند معیار نہیں، بلکہ ملت اور اقوام کی خیر خواہی کے لئے جو باتیں قرآن وسنت سے معیار بن سکتی ہیں، وہی رہنما اصول ہوں گی۔ پیش نظر بس یہی ہوکہ ملت کے ہر فرد میں یہ جذبہ پھونک دیا جائے کہ اس کا وجود لوگوں کے لئے باعث رحمت و عافیت ہے۔ انسانیت کی بھلائی اسی سے وابستہ ہے ۔ کار جہاں بانی وجہاں بینی کے انہیں لازمی اجزاء کا استحضار‘ملت اسلامیہ کو ’’خیر امت‘‘ کے منصب سے وفا کرنے کا اہل بنا دے گا۔
جذبۂ دعوت بندگانِ خدا سے بے لوث محبت کا مظہر بن جائے
دین اسلام اپنے ماننے والوں اورسارے انسانوں کو دنیا اور آخرت کی جن کامیابیوں سے ہمکنار کرنے اس دنیا میںآیا ہے اور جن مسائل حیات سے نجات دلانا چاہتا ہے اس کا انتہائی باوقار وبارعب اظہار ’’دعوت‘‘ ہے۔جذبۂ دعوت انسانی فلاح و بہبود کے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح ماں کی مامتا بچے کی پروش کے لئے اور استاد کی شفقت و محبت شاگرد کے شخصی ارتقاء کے لئے ہوتی ہے۔
دعوتی کام، فرد کے سامنے دین اسلام کا تعارف پیش کرنے سے اس کی حجت قائم کردینے تک، مختلف مراحل سے گذرتا ہے۔ لہذا دعوتی کام کی اگر کسی جامع لفظ سے وضاحت ہوسکتی ہے تو وہ بس ’’استقامت‘‘ہے۔قرآن مجید میں اسی حوالے سے اقامت دین کاذکر کیا گیا- فَادْعُ وَاسْتَقِمْ۔ جب ان مراحل کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے افرادِ تحریک دعوتی حجت کا اتمام کرنے لگیں تو نہ صرف انہیں دین حق کی بے پنا ہ خوبیوں کا ادراک ہوگا بلکہ معاشرہ بھی جان جائے گاکہ فی الواقعی یہ دین کس قدر اپنے اندرر رحمتوں اور برکتوں کے جلوے رکھتا ہے۔
دعوتی کام استقلال کا تقاضا کرتا ہے۔ایک فرد جس نے برسہابرس ایک خاص فکر اور عقیدے کے ساتھ زندگی گذاری، اس کی نظر و فکر میں یکلخت تبدیلی رونما نہیں ہوگی بلکہ دھیرے دھیرے اثرات مرتب ہوں گے اور اس دھیمے مرحلے میں داعی حق کا یہی استقلال بڑا نمایاں رول ادا کرتا ہے۔ محض دو چار ملاقاتوں کے بعد کتاب تھما دینا،کسی اجتماع میں ان کی تعداد سے متأثرہوجانااور لوگوں کا اسلامی لٹریچر کی جانب رجوع اتمام حجت نہیں۔کتاب کے ساتھ صاحب کتاب ؐ کا دنیا میں آنا،داعیان حق کے لئے پیغام ہے کہ دین کے مطابق ان کے بے مثال اخلاق وکردار ہی سے انسانی زندگیوں میں حیرت انگیزانقلاب رونما ہوسکتا ہے۔
افراد تحریک میں جذب�ۂ دعوت کا فروغ ان کی وابستگی سے راست مماثلت رکھنا چاہئے۔ تحریک سے وابستگی کے بعد جیسے قرآن و سنت سے تعلق قائم ہوجاتا ہے، بولنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں جلا پاجاتی ہیں اور دیگر نظم و انصرام کی خوبیاں نکھر جاتی ہیں ویسا ہی معاملہ جذبۂ دعوت کے فروغ کا ہونا چاہئے۔ جب جذب�ۂ دعوت اور دیگر تحریکی کاموں میں یکسانیت نمایاں ہوتو سمجھ لیجئے کہ تحریک جس نظام حیات سے سارے انسانوں کو فیض یاب کرنے کی خواہاں ہے اس کے فیوض وبرکات سے بہرہ مند ہونے والے خوداس کے اپنے وابستگا ن ہیں۔ یہی وجہ ہے دعوتی کام روز اول سے اہمیت کا حامل رہا ۔یہ کسی شعبہ یاچند افراد کی حد تک محدود نہیں رہا، بلکہ یہ تحریک ہی ایک دعوتی تحریک کے طور پر منظر عام پر آئی۔ فرد کے جذبہ دعوت کے فروغ اور جائزہ کے لئے حسب ذیل نکات پیش نظر رہنے چاہئیں:
nدعوتی کام کووہ مخصوص افراد اور مخصوص ایام کی حد تک محدودنہ سمجھتا ہو۔
nدعوتی ملاقاتوں میں تسلسل اور استقلال کا مظاہرہ کرتا ہو۔
nبرادران وطن سے ہمہ جہت تعلقات طے شدہ پالیسی و ترجیحات کے مطابق قائم کرتاہو۔
nلٹریچر کی تقسیم کو دعوتی کام نہیں بلکہ اتما م حجت کی جانب ایک ٹھوس قدم سمجھتا ہو۔
n دعوتی کاموں کے نتیجے میں پھیلنے والے اثرات کا جائزہ لیتا ہو۔
nمختلف طبقات میں نفوذ کے لئے راہیں تلاش کرتا ہو۔
nاپنی دعوتی کاوشوں کوقرآن و سنت سے مضبوط تعلق کا ذریعہ بناتاہو۔
n دعوتی گفتگو کو حالات حاضرہ اور اس کے تحت ہونے والے مطالعہ و مشاہدہ کی حد تک مرکوز رکھتا ہو۔
n دعوتی روابط و تعلقات کے ذریعہ مقامی کاموں کی توسیع کی کوشش کرتا ہو۔
nزیرربط برادرا ن وطن کے تعاون واشتراک سے بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالے کی بھی کوشش کرتا ہو۔
دعوتی کام دراصل انسانوں سے بے لوث محبت اور ان کی خدمت سے متعلق تحریکی تربیت کا حاصل ہے۔ اگر کسی فرد میں دعوتی جذبہ نہیں تواس کو انسانوں سے محبت بھی نہیں ۔ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جس خطرے سے وہ خود اپنے آپ کو بچاتا ہے اس سے اپنے بھائی کو بچانے کی فکر نہ کرے۔اور جس خد ا سے اس کا تعلق مضبوط ہے اسی کی جانب اس کے بندوں کو متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرے۔اللہ سے تعلق کا اظہار ہی گویا دعوت ہے، جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب کی زبان بننے، لوگوں کو ببانگ دہل متوجہ کرنے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس راہ کا راہی بنانے کی فکر میں اپنی ساری زندگی لگادیتاہے: قُلْ ہَذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلَی بَصِیْرَۃٍ أَنَاْ وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔ (یوسف:۱۰۸)ترجمہ: کہو میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میر ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
تحریکی سرگرمیوں میں صحرا کی جیسی وسعت آ جائے
طے شدہ مقاصدکے حصول کے لئے انجام دی جانے والی سرگرمیوں کو ناپنے، جانچنے اور پرکھنے کا قابل اعتبار معیاران کا بے لاگ جائزہ ہے۔ مزید دو پہلوؤں سے سرگرمیوں کی وسعت کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اولاً انجام پانے والی سرگرمیوں سے تعاون دینے والے افراد کی تربیت کے امکانات پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ راہ خدا میں سرگرمی، تربیت کے لئے راہیں ہموار کرتی ہے جبکہ تربیت مزید تندہی کے ساتھ راہ خدا میں مصروف رہنے کا جذبہ بہم پہنچاتی ہے۔ ثانیاً جس قدر سرگرمیوں میں وسعت آئے گی، جائزہ بھی اسی لحاظ سے مؤثر ثابت ہوگا۔ اور جب جائزہ کا نظم مؤثر ہوتو تحریک اور افراد تحریک کی پیش قدمی اپنے اندر بے پنا ہ تاثیر پیدا کرلیتی ہے۔تحریکی سرگرمیوں میں گہرائی اور وسعت کے معنی ہیں:
nمعمول کے مطابق انجام پانے والے پروگراموں (ہفتہ وار اجتماعات، خطابات وغیرہ) میں جدت و ندرت پیدا ہو۔
nمستقل نوعیت کے پروگرام، اپنے اجزاء اور شرکاء کے لحاظ سے وسعت اختیار کرنے والے ہوں۔
nکسی بھی مقام کے ان تمام محلوں میں جماعتی سرگرمیاں ہوں جہاں مسلمانوں کی متعد بہ تعداد پائی جاتی ہو۔
n ہر پروگرام اپنے پچھلے پروگراموں سے نکھرا ہوا محسوس ہو ۔
n تمام جماعتی محاذوں پر یکسا ں توجہ ہواور اہم مقامی مراکز میں نفوذ ہو۔
nکسی بھی مقامی یونٹ کا پروگرام وابستہ تمام افراد کے تعاون سے روبہ عمل لایا جاتا ہواور تمام ہی افراد شخصی روابط و تعلقات کااہتمام کرتے ہوں۔
nاجتماعیت اپنی افرادی قوت و وسائل کے ذریعہ نہ صرف معاشرتی مسائل کو حل کرتی ہو بلکہ مختلف ذرائع (سروے، ریالیاں،ڈور ٹو ڈور ملاقاتوں) سے عوام اور حکومت کو بھی متوجہ کرتی ہو۔
n دعوتی نوعیت کے پروگرام عوامی بھی ہوں اور خصوصی بھی اور زیر ربط برادران وطن کے لئے خصوصی تبادلہ خیال کا اہتمام ہو۔
n ذیلی اداروں اور تنظیموں کی سرگرمیوں کو نصب العین کا حصہ سمجھنے، انہیں تحریکی رخ دینے اور ان کے لئے متعلق افراد جماعت کو یکسو کرنے پر توجہ دی جاتی ہو۔
nکسی بھی مقام پر تحریک اور افراد تحریک مرجع خلائق کی حیثیت رکھتے ہوں جن سے مختلف امور و مسائل میں عوام وخواص رجوع کرتے ہوں۔
تحریکی سرگرمیوں میں وسعت، افراد کی خیر خواہی کا پرتو ہوا کرتی ہے۔ افراد جس طرح جذب�ۂ خیراہی سے اپنے گھریلو اور نجی معاملات احسن طریقے سے نپٹاتے اور انہیں وسعت دیتے ہیں، ان کاجذبۂ خیر خواہی تحریک کے لئے اس سے بڑھ کر ہو نا چاہئے۔اس تحریک کے لئے جو انہیں دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے حرکت و عمل کے بے پناہ مواقع فراہم کرتی ہے۔
مرجع خلائق کا مقام حاصل کرے
تحریک اپنے بلند مقصد اورحکیمانہ منصوبوں کے ذریعہ جو تبدیلی پیش نظر رکھتی ہے اس میں وابستگان کا انتہائی اہم کردار ہوتاہے۔تحریک کا وجوداس کے وابستگان کے وجود سے جانا پہچاناجاتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ کے دور کی تحریک اور افراد تحریک کا ایسا ہی معاملہ رہا۔ اس معاشرہ میں ایسے متعدد مرد و خواتین موجودتھے جنہوں نے اپنے وجود سے تحریک اسلامی کے بلند نصب العین کا برحق ہونا واضح کیا۔ انسانی محبت، بے لوث خدمت، علمی و فکری رہنمائی کی مثالیں قائم کیں۔ حضرات ابوبکرؓ و عمرؓوعثمانؓوعلیؓ جیسے عالم وخادم بھی تھے اور حضرت عائشہؓ، زینبؓ و ام حکیمؓ جیسی عالمہ و خادمہ بھی تھیں۔جو اپنے سراپاوجودسے حق کی پیاسی روحوں، یتیموں، بیواؤں،مسکینوں اور بے سہاروں کے لئے مرجع بن گئے ۔یہ پاکیزہ ہستیاں انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ اونٹوں اور چیونٹیوں تک کے لئے وجہ تسکین بن گئیں۔ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد،مرد وخواتین کو اپنی ایسی ہی مرجع خلائق کی شناخت بنالینی چاہئے۔جن کا وسیع علم، صالح فکر اور بے لوث جذب�ۂخدمت خلق انہیں دیگر افراد سے ممتاز کردے۔اس کاز کے لئے کچھ زیادہ نہیں بس خلوص،جذبۂ ایثار و قربانی، سیکھنے اور سمجھنے کی بے پناہ چاہ اور ایک میدان عمل کا انتخاب درکار ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے بڑے خو ب صورت انداز سے اس کی اہمیت وضرورت کا احساس کرایا ہے:
ہمارے پیش نظر صرف یہ نقشہ ہے کہ عوام کی سربراہی کے لئے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کرلی جائے جس کا ایک ایک فرد اپنے بلند کریکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقہ کے عوام کو سنبھال سکے،اس کی ذات عوام کا مرجع بن جائے اور اس کی مصنوعی کوشش کے بغیر بالکل فطری طریقہ سے عوام کی لیڈر شپ کا منصب اسے حاصل ہوجائے، ایک ٹھوس، پائیدار اور ہمہ گیر انقلاب کا لازمی ابتدائی مرحلہ یہی ہے، اس مرحلے کو صبر ہی سے طے کرنا پڑے گا۔
دیکھنا یہ چاہئے کہ مدتوں کی کوششوں کے بعد ایسے کتنے مرد و خواتین تحریک میں ہیں جنہیں ’’مرجع خلائق‘‘ کا مقام میسرآیا ہے۔سچ بات تویہ ہے کہ انسانوں کامختلف ضروریات کے تحت رجوع ہونا،تحریکی نصب العین کی حقانیت، وابستگان تحریک کے بلند�ئ اخلاق اور دین اسلام کے سراپا رحمت ہونے کی روشن دلیل ہے۔
محمد عبد اللّٰہ جاوید،دار الخیر، بیرون قلعہ، رائچور، کرناٹک