دورِ حاضر کی تاریخ خون آشام داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں جنگ کا ماحول تو کہیں جنگ کی تیاری، کہیں جبرو استبداد کا نظام مسلّط کیا جا رہا ہے تو کہیں اسلام پسند تخأہ دار پر لٹکا ئے جارہے ہیں، کہیں ڈرون کے حملے سے خون کے فوّارے اُبل رہے ہیں تو کہیں معاشی بائیکاٹ سے بچّوں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ داستانِ ظلم کا مبلّغ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی راکشس نما تصویر بنانے میں مصروف تو کہیں عدلیہ انصاف کے پرخچے اڑانے میں بے حیا وبے باک نظر آرہا ہے۔ الغرض خونِ مسلم کی ارزانی، اسلام پسندوں کی مظلومیت، مسلم سر زمین کی مغلوبیت اور امتِ مسلمہ کے سوادِا عظم کی غفلت و بے مقصدیت دورِ حاضر کے وہ نمایاں پہلو ہیں جو درد مند دِلوں کو رلا تی ہیں۔
یہ حالات حق وبا طل کی کشمکش کی ایک کڑی ہیں، حق سے لرزہ با ندام باطل کا یہ ظلم اس کا قدیم شیوہ رہا ہے۔ دورِ حاضر کی مسلم ممالک پر جار حیت کا سبب دراصل یہ ہے کہ مغرب اپنی تہذیب کا تسلط چاہتا ہے، اس تہذیب کے امتیازی نکات اس طرح بتائے گئے ہیں:
۱) مادّی مسا بقت سیاسی و معاشی ادا روں کی مر کزیت کو ختم کرنا اور سرمایہ داری کے فروغ کے لئے ساز گار قانون سازی کرنا۔
۲) سائنس ساری دنیا کا مطالعہ و تحقیق جس کے نتیجہ میں I.T انقلاب کا رونما ہونا، انسانوں کی آزادی و پرائیویسی پردست درازی کرنا، عسکری قوت کا حصول اور اس کے ذریعہ دنیا پر تسلط۔
۳) حق ملکیت کارپوریٹس اور دورِ حاضر کے قا رونوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون و ادارے۔
۴)میڈیسین انسانیت کی نفع رسانی کے ساتھ صحت و معالجہ کے حوالے سے دوا بنانے والی کمپنیوں کی لوٹ مار، اسقاطِ حمل، تغییر خلق،Stem cell Research,Cloning TV babies, Surrogate mother hood وغیرہ کی گمراہیاں۔
۵)صارفیت نیا طرزِ حیات جہاں لباس، Consumer goods, mall culture, shopping اشیا ئے ضرورت سے لے کر بے جا سامانوں کی خریداری کی ہوس۔
۶) کام کے ضوابط کام کے لئے اخلاقی ضوابط کی تدوین جو عموما پروٹسٹنٹ عیسائیت سے مستعار ہیں۔ ( تفصیلات کے لئے دیکھئے:\’\’Civilization-The West and The Rest\’\’ by Niall Ferguson
إِن یَدْعُونَ مِن دُونِہِ إِلاَّ إِنَاثاً وَإِن یَدْعُونَ إِلاَّ شَیْْطَاناً مَّرِیْداً۔ لَّعَنَہُ اللّہُ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔ وَلأُضِلَّنَّہُمْ وَلأُمَنِّیَنَّہُمْ وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الأَنْعَامِ وَلآمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّہِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیْناً۔ یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْْطَانُ إِلاَّ غُرُوراً۔ (سورۃ النساء: ۱۱۷۔۱۲۰) ترجمہ: ’’وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے ( وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا، میں انہیں بہکاؤں گا، میں انہیں آرزوؤں میں الجھاؤں گا، میں انہیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردّ و بدل کریں گے‘‘۔ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سر پرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔ وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امید دلاتا ہے مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔‘‘
اس مذہب کے تسلط وبرتری کے لئے انہوں نے دو راستے اپنائے:
(۱) ظلم و تشدد: خوں ریزی، خانہ جنگی، جنگ،قتل وغارت گری، جیل، اذیت ناک سزائیں، تختہ دار، ڈرون حملے، مستحکم حکومتوں کے تختے الٹنا، حق، انصاف جمہوریت اور انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کا گلا گھونٹ دنیا وغیرہ۔
۔۔۔ جنگ بھی ایسی جو عالمی منظور شدہ قوانین و اصولوں کے بر خلاف ہو، جس میں بمباری، یورینیم کا استعمال، کلسٹر بم، کیمیائی وحیا تیاتی بم اور عام تباہی کے ہتھیار وغیرہ کا بے دریغ استعمال شامل ہے۔ انتخابات کو روک دینا، فتح یاب تحریکوں کا فوجی بغاوت سے خون کردینا، انتخابات میں اپنے نمائندے کے حق کے لیے تحریف کرنا ان کے حربوں میں شامل ہے۔ (Rogue State 150 William Blum )
۔۔۔گونتامو بے کے جیل کی روح فرسا، شرمناک اور اذیت ناک سزاؤں کی داستان پڑھ کر اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوکَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَۃً أَفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا أَعِزَّۃَ أَہْلِہَا أَذِلَّۃً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ۔ (سورۃ النمل: ۳۴) ترجمہ: ’’ملکہ نے کہا کہ ’’بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ یہی کچھ وہ کیا کرتے ہیں۔‘‘
Dirty Wars کا مصنفJeremy Scahill لکھتا ہے:
This book tells the story of the expansion of covert US wars, the abuse of executive privilege and state secrets, the embrace of unaccountable elite military units that answer only to the White House. Dirty Wars also reveals the continuity of a mindset that 147the world is a battlefield148 from Republican to Democratic administrations. (P-35)
امریکی مفادات جہاں خطرے میں ہوں وہاں قتل کروا دینا ان کی قدیم پالیسی رہی ہے۔
THIS IS A STORY about how the United States came to embrace assassination as a central part of its national security policy
إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللّہِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْْرِ حَقٍّ وَیَقْتُلُونَ الِّذِیْنَ یَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ۔ (سورۃ آل عمران: ۲۱)ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ کے احکام و ہدایات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کے پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو خلق خدا میں عدل وراستی کا حکم دینے کے لیے اٹھیں۔‘‘
مغربی دنیا کا ایک اور مشہور صحافی مصنف Robert Fisk لکھتا ہے کہ ۱۹۸۰ کے دہے سے مشرق وسطی میں جو خوں ریزی جاری ہے وہ دراصل مشرق وسطیٰ پر قبضہ جمانے کے لیے ہے۔ اس کی ۱۱۱۱؍ صفحات کی ضخیم کتاب کا نام ہی ’’the great war for civilisation- The conquest of the middle east‘‘ہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ یہ ظلم وسفاکی، جبر و استبداد، وحشیانہ جنگ اور درندگی ’’قیام امن‘‘، ’’فروغ جمہوریت‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے حسین لبادے اوڑھ کر کرتے ہیں، قرآن کریم ان کی اس نفسیات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ۔ أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُون۔ (البقرۃ: ۱۱۔۱۲)ترجمہ: ’’جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ’’ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ ۔ خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں۔‘‘
(۲) دشنام طرازی: اسلام کا مقابلہ کرنے کا دوسرا ہتھیار دشنام طرازی، الزام لگانا اور بدنام کرنا ہے۔ جس زمانے میں روس کا طوطی بولتا تھا اس وقت سرمایہ داری کے ناقد Herbest Marcure نے اعتراف کیا تھا کہ ’’ہم سرمایہ داری کا مقابلہ راست نہیں کرسکتے چونکہ وہ دہشت گردی پر مبنی نہیں ہے بلکہ دولت اور عوام کی تائید پر کھڑی ہے مگر سرمایہ دارانہ حکومتوں کا خاتمہ پارلیمنٹ کے باہر ہی کے ذرائع سے ممکن ہے چنانچہ دہشت گردی اور خوں ریزی کا سہارا لینا چاہیے‘‘۔
جو ہتھیار سرمایہ داروں کے خلاف استعمال ہوا اس کا استعمال اب وہ مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں اور ساری دنیا میں دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرکے اسلام کی بڑھتی روشنی کو وہ روکنا چاہ رہے ہیں۔ مگر ان شاء اللہ ان دونوں حربوں سے وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
یُرِیْدُونَ لِیُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ (الصف: ۸) ترجمہ: ’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کافیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
ہندوستانی صورتحال
ہندوستان قدیم زمانے سے امن کا گہوارہ رہا ہے۔ کئی بڑے مذاہب نے یہاں جنم لیا ہے۔ عوام کی اکثریت مذہبی، انسان دوست اور انصاف پسند واقع ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان نے مختلف میدانوں میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ اس لیے کہ اس کے سامنے ہمیشہ ٹارگٹ رہے اور اس کی حصول یابی کی ممکنہ کوشش وہ کرتا رہا۔
۱۹۵۰ 1950کی دہائی صنعتی ترقی و فروغ (Industrialisation)کی رہی ہے جس کے نتیجے میں کارخانے وجود میں آئے۔ ۱۹۶۰ کی دہائی green revolution کی رہی جس کے نتیجے میں کاشت کاری، غذا و اجناس پر توجہ دی گئی اور آج ہندوستان ان امور میں خود کفیل ہے۔ ۱۹۷۰ کی دہائی غریبی ہٹاؤ کی رہی۔ ۱۹۸۰ کی دہائی میں ٹکنالوجی پر خصوصی توجہ دی گئی اور آج space satellite اور defence میں ہندوستان اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ ۱۹۹۰کی دہائی بڑی سرعت کے ساتھ کمپیوٹرائزیشن کی رہی اور آج حکومت کے اکثر کام IT کے ذریعہ ہوتے ہیں۔
نئے ہزارے کی شروعات میں پلاننگ کمیشن کے تحتindia vision 2020 کمیٹی بنائی گئی تھی اور اس نے ۲۰؍ سالہ طویل المیعاد منصوبہ دیا تھا۔ ۱۵؍ سال بعد جائزہ لیتے ہیں تو غذا، روزگار، تعلیم، صحت عامہ، تکنیکی صلاحیتوں کی تربیت، شہر کی ترقی، دیہی ترقی،مواصلات، ذرائع آمد و رفت، سڑک، میٹرو ریل، شاہراہیں، بجلی، ایندھن، وغیرہ کے دائرے میں جو نشانے مقرر کیے گئے ان کی حصولیابی بڑی حدتک ہوئی ہے۔ اس پہلو سے ہندوستان کی خوبی یہ ہے کہ ہمachiever\’\’ \’\’کے زمرے میں فخر کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ایک چھوٹا طبقہ یہ چاہتا ہے کہ یہاں امن کی فضا کے بجائے فرقہ واریت کو فروغ دیا جائے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی رجحان کو پروان چڑھایا جائے۔ بدقسمتی سے میڈیا بھی ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ سوچی سمجھی تدبیر کے تحت آئے دن نت نئے اشوز کھڑے کئے جارہے ہیں۔ لوجہاد، دفعہ ۳۷۰؍، یکساں سول کوڈ، ہندوستان کا رنگ زعفرانی، گیتا اسکول کی تعلیم میں لازم ہو، ہسٹری کانگریس کی زعفرانیت، ویدک سائنس اور ریاضی، مسلمان۔رام زادے، گوڈسے محب وطن تھا، اور گاندھی جی کا قتل بجا تھا، گھرواپسی، تبدیلئ مذہب بل وغیرہ۔
لَتُبْلَوُنَّ فِیْ أَمْوَالِکُمْ وَأَنفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُواْ أَذًی کَثِیْراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ۔ (سورۃ آل عمران: ۱۸۶)ترجمہ: ’’مسلمانوں تمہیں مال اور جان کی آزمائش آکر رہے گی۔ اور اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے۔ اگر ان سب حالات میں صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔‘‘
مسلم قیادت کو بالغ النظری کا ثبوت دیتے ہوئے ان شرارتوں کا نوٹس لینا چاہیے تھا مگر وہ ان کے بچھائے دام میں پھنستے اور ان کے مقاصد کی تکمیل میں ہاتھ بٹاتے نظر آتے ہیں۔
فرقہ پرستوں کے جارحانہ عزائم اب ڈھکے چھپے نہیں رہے بلکہ دھٹائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ وہ اپنے ناپاک مذموم منصوبوں پر عمل کر رہے ہیں۔ چونکہ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا میں ایک مدت سے کام کرتے آ رہے ہیں، اس لیے اب یہ ادارے ان کی ان سرگرمیوں میں ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں۔ ان کا استحکام ملک عزیز کے لیے بدشگونی ہے ۔
نئی نسل کی صورتحال
مابعد جدیدیت اور میڈیا کے اثرات کے نتیجے میں جو نئی نسل پروان چڑھ رہی ہے وہ پہلے سے سیکولر تعلیمی نظام میں ڈھلی ہوئی تھی، مگر گھر اور ماحول کے مذہبی کلچر کے اثرات بھی نظر آتے تھے، اب وہ مفقود ہونے لگے۔ حد درجہ مادہ پرستی، اور بڑھتی ہوئی صارفیت کے ساتھ ساتھ عوامی کلچر نے انہیں اخلاق و انسانیت سے بھی بیگانہ بنادیا۔ اب ان کی دلچسپیاں کیریئر، موسیقی، فلمیں، سوشل میڈیا، ناچ، گانے، عریانی و بے حیائی، اور ڈیٹنگ سے متعلق ہیں۔ ان کی گفتگو کے موضوعات شاہ رخ خان کے Promos، عامر خان کے PK کا نفع، کسی اداکارہ کی شادی کسی سے، gay rights, LGBTوغیرہ ہوتے ہیں۔ گھر، مذہب، سماج اور کلچر سے بغاوت کا رجحان عام ہے، کسی کی بالا دستی تسلیم نہیں۔ لٹکتی پینٹ، چھوٹا ٹی شرٹ، جھلکتا undergarments، بکھرے بال، تیز رفتار موٹر سائیکل، ہاتھ میں Smart phoneاور ہر دم کان میں لگےcar phones ’’آزادی کا اظہار‘‘ میں popموسیقی، Soap opens، شخصیتوں کی پہچان GBکے حولاے، جدید طرز کے بال، فحش میگزینس نئی نسل کی دلچسپیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ مابعد جدیدیت صارفانہ طرز زندگی سے ملحق ہے۔ جس کی بنیاد میں بغاوت کا جذبہ، ہوس اور سطحیت پائی جاتی ہے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں کی گفتگو کرنے والا نئی نسل کے حلقے میں PKبن کر رہ جاتاہے۔ فیشن، لذت اور تعیش کی دوڑ میں نئی نسل ’’ھل من مزید‘‘ کی زندہ تصویر ہے۔ ریڈیمیڈ لباس کے شورومس میں Formals کے بجائے Casual کی مانگ بتاتی ہے کہ وہ زندگی کو بھی سہولت پسندی کی نگاہ ہی سے دیکھتے ہیں، آنکھوں کو خیرہ کردینے والی اس تہذیب کی چمک دمک کے ماحول میں کوئی کیونکر بتائے کہ
وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْْنَیْْکَ إِلَی مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْْرٌ وَأَبْقَی۔ (سورۃ طہ: ۱۳۱) ترجمہ: ’’اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے۔ تیرے رب کا دیا ہوا رزق حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔‘‘
طلبہ تنظیم کے ذہین افراد کے کرنے کے کام
۱)آئیڈیاز کی تخلیق:
دور حاضر کے پیچیدہ حالات اور انتہائی سنگین اسلام دشمنی اور مکر و فریب کے ماحول میں ان کے مقابلے کے لیے آئیڈیاز کی وہی حیثیت ہے جیسے خاردار مضبوط درخت کو رستے سے ہٹانے کے لیے آرا یا کلہاڑی کی۔ اس لیے کہ باطل کے اس شور و غوغا کے پیچھے تدبیر اور پلاننگ کارفرما ہے اور پلاننگ کی کئی جہتوں میں سے ایک آئیڈیاز کی تخلیق ہے۔ آئیڈیاز کی کاٹ آئیڈیاز سے ہوگی۔ مگر آئیڈیاز کی تخلیق اتنی آسان نہیں جتنا کہ بعض نوجوان wikipedia پڑھ کر یا کسی بائیں بازو کے دانشورسے دو چار ملاقات کے بعد ان کی اصطلاحات کو دہرا دینے سے سمجھتے ہیں۔ کسی کی رائے کو یا ذائقہ کو اپنا کہنادانشور بننے کا ایک عجلت والا عمل ہے۔ اگر غیر محسوس طریقے سے کوئی کسی آئیڈیا کو اپنا آئیڈیا سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔
بڑے بڑے انقلابات اور کاموں کے پیچھے آئیڈیاز ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ فرانسیسی انقلاب ۱۷۸۹ میں آیا۔ اس سے قبل فلسفے اور آئیڈیاز کی سطح پر تبدیلی آ رہی تھی۔ مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی موت ۱۷۷۶، روشو کی موت ۱۷۷۸ میں ہوئی، جن کے افکار کا گہرا اثر فرانسیسی انقلاب پر پڑا تھا۔ علمی لحاظ سے پہلا انسائیکلو پیڈیا ۱۷۸۰ میں شائع ہوا تھا۔ کانٹ کی کتاب critique of pure reason ۱۷۸۱ ء میں شائع ہوچکی تھی۔ جو طلبہ اسلامی انقلاب کے داعی ہیں وہ صرف نعروں، دعووں اور باتوں سے باطل کی کاٹ نہیں کرسکتے ہیں بلکہ مطالعہ، مشاہدہ اور مباحثہ کے مرحلوں کے بعد ہی وہ کسی آئیڈیا کا جنم دے سکتے ہیں۔ مطالعہ، مشاہدہ اور مباحثہ کے بغیر مراقبہ سے کسی کے ذہن میں کسی نئے آئیڈیا نے جنم لیا ہو تو وہ روحانی فیض یابی ایک نادر بات ہوگی۔ باطل کے مقابلے کے لیے آئیڈیا اور اسٹریٹجی وضع کرنے کے لیے ذہن کی یکسوئی اور اسلام کی سربلندی کے لیے کمٹمنٹ چاہیے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ نے تھوڑی بہت صلاحیت دی ہے تو وہ بجائے موجودہ حالات میں تحریک کے لیے راہیں نکالنے اور حکمت عملی ترتیب دینے کے اسی کو نشانہ ملامت اور ہدف تنفید بنائے جارہا ہے۔ گھر، ماحول، کمپنی اور تنظیم میں اس ناقد کا کوئی وزن نہیں ہوتا جس کا اس ادارے کی ترقی میں کوئی contribution نہ ہو۔
۲)روحانیت پیدا کریں:
Jonedij Manuale جاپان کے مشہور ماہر کمپیوٹر کا کہنا ہے کہ ہمارا معلومات سے بھرپور مستقبل ہمیں مادی امور سے دلچسپی کے بجائے روحانی پیاس کے رُخ پر لے جائے گا۔ اس پس منظر میں وہ آنے والا زمانہ مذہب کی نشأۃ ثانیہ کا دور ہوگا۔ اس وقت اگر مسیحا خود بیمار ہو تو علاج کا متلاشی کہاں جائے گا؟
روحانیت کی اصطلاح بہت سوں کے نزدیک ایک غلط استعمال ہے۔ مگر قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو بندے خدا سے قریب ہوں، راہ خدا میں انفاق کرتے ہوں، اور اپنی ذات کا تزکیہ کرتے ہوں انہیں اللہ تعالیٰ کا ایک عطیہ ملتا ہے، اس کے لیے قرآن میں درج ذیل الفاظ آئے ہیں:
(۱) حکمت:وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً ۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۶۹)
(۲) نور: نُّورٌ عَلَی نُورٍ یَہْدِیْ اللَّہُ لِنُورِہِ مَن یَشَاء ۔ (سورۃ النور: ۳۵)
(۳) بصیرت:ہَذَا بَصَاءِرُ لِلنَّاسِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّقَوْمِ یُوقِنُونَ۔ (سورۃ الجاثیۃ: ۲۰)
(۴) شرح صدر: أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔ (سورۃ الم نشرح: ۱)
(۵) فرقان : شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَان۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۵)
(۶) اطمینان قلب: الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَتَطْمَءِنُّ قُلُوبُہُم بِذِکْرِ اللّہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوب۔ (سورۃ الرعد: ۲۸)
مندرجہ بالا تمام ذہنی و قلبی صفات کے حصول کے لیے لازم ہے کہ آدمی قرآن سے وابستہ رہے قرآن کی تلاوت، سماعت سے لے کر تدبر و تفکر تک کے مرحلوں سے گزرے۔ پھر جب آدمی کوئی بات کہے تو وہ روشنی میں حقیقت جاں کر کہے گا، جس پر اسے شرح صدر ہوگا، کام کرنے پر قلب کا اطمینان اسے نصیب ہوگا۔ اس قرآن کی روشنی میں وہ چیزوں کو فرق کرنے کی صلاحیت رکھے گا۔ الغرض خدا سے تعلق، قرآن سے تعلق اور صالح اجتماعیت سے تعلق کی شعوری کوشش سے اندرون کی وہ ایمانی قوت ملے گی جس سے حالات کا مقابلہ کرنا آسان ہوگا۔
۳)اسلامی تشخص کے ساتھ دعوت: مسلم طلبہ کی پسماندگی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے تعلیمی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔ تعلیم میں رہنمائی، معاشی مدد اور سہولیات کی فراہمی کی اہمیت سے انکار نہیں مگر صحیح تصور دین سے واقف کرانا ہمارا بحیثیت تنظیم بنیادی مقصد وجود ہے۔ امت مسلمہ کو ’’ثو اب و الی دینداری‘‘ اور ’’ثبوت و الی دینداری‘‘ سے جتنا نقصان ہو رہا ہے اتنا ان کی لاعلمی سے نہیں ہورہاہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ان کو اسلامی علم کے حصول کی ترغیب بھی دیں، تعاون بھی کریں اور وہ ماحول بھی فراہم کریں۔ اسی طرح غیر مسلم دوستوں کے درمیان ’اسلام ایک نظام حیات‘ کے ساتھ ساتھ ’اسلام ذریعۂ نجات‘ بھی دعوت کی اشد ضرورت ہے۔ اس مرحلہ سے ہمیں اپنا اسلامی تشخص چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسی کام کے لیے ہم کھڑے ہوئے ہیں ورنہ ہماری ضرورت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (سورۃ فصلت: ۳۳)
ترجمہ: ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
۴) سوشل میڈیا کے لیے مواد کی تیاری: گلوبلائزیشن اورIT انقلاب نے ابلاغ کو آسان اور تیز تر کردیا۔ اب دنیا مسطح ہوگئی ہے، ہر کوئی حالات کی تبدیلی میں ایک اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ بقول Thomas L. Friedman:
\”In Globalization 1.0, the primary questions were: Where does my country fit into global competition
and opportunities?\”, \”In Globalization 2.0, the key agent of change, the dynamic force driving global integration, was multinational companies\”, \”Globalization 3.0 is going to be more and more driven not only by individuals but also by a much more diverse – non-Western, non-white-group of individuals.\”
غلبہ اسلام کے لیے کام کرنے والا نوجوان گروپ بھی تبدیلی میں ایک اہم کردار ادا کرے گا، گلوبل اور سائبر کی دنیا میں صرف فوٹوز، اشعار، پہیلیاں، لطیفے، پوسٹرز اور قرآنی آیات کٹ اینڈ پیسٹ کرلینا ہر بے مقصد اَن پڑھ نوجوان کرسکتا ہے۔ بامقصد نوجوانوں سے توقع ہے کہ رد عمل کے بجائے داعیانہ کردار ادا کرتے ہوئے میڈیا اور سوشل میڈیا کے لیے خود سے دلچسپ مواد تیار کریں گے اور فراہم کریں گے۔ الحمد للہ ایس آئی او کے پاس صلاحیتوں کی ایک بڑی کھیپ ہے۔ دیگر اسلام پسند نوجوانوں کے وہی رہنما ہوں گے۔
انجینئرایس امین الحسن، رکن مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند