بھارت میں سماجی جدوجہد – ایک گفتگو

ایڈمن

رواں سال کی شروعات میں مہاراشٹر میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں جسٹس کولسے پاٹل اور جسٹس پی بی ساونت سے یہ انٹرویو قارئین رفیق کے لئے صبور فاروقی نےمنعقد کیا۔   جسٹس بی جی کولسے پاٹل، بامبے…

رواں سال کی شروعات میں مہاراشٹر میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں جسٹس کولسے پاٹل اور جسٹس پی بی ساونت سے یہ انٹرویو قارئین رفیق کے لئے صبور فاروقی نےمنعقد کیا۔

 

جسٹس بی جی کولسے پاٹل، بامبے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔۱۹۹۰ ؁ میں بامبے ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعدسے مستقل سماجی جدوجہد میں منہمک ہیں۔فی الحال پونہ، مہاراشٹر میں مقیم، لوک شاشن آندولن نامی عوامی تحریک کے بانی و سربراہ ہیں۔دائیں بازو کی شدت پسند پارٹیوں کے خلاف، سیکولر جماعتوں کا اتحاد آپ کی تحریک کا خاص مقصد ہے۔

جسٹس پی بی ساونت، سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں۔ ۱۹۹۵ ؁ میںریٹائرمنٹ کے بعد سے حکومتی ناانصافیوں کے خلاف سماجی جدوجہد میں متحرک ہیں۔ گجرات فسادات میں ریاستی حکومت کے رول کے حوالے سے تفتیشی ٹریبونل میں شامل رہے ہیں۔

 

سوال: بھیما کورے گاوں میں مہاروں کے دو سو سالہ جشن کے دوران ہوئے تشدد اور اس کے بعد مہاراشٹرا کے مختلف علاقوں میں جو پر تشدد مظاہرے ہوئے، ان کی حیثیت محض واقعاتی عمل اور رد عمل کی ہے، یا ان کا کوئی طویل پس منظر ہے؟

کولسے پاٹل: ان واقعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ان کا تاریخی پس منظر سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ ویدک سماجکے سماجی انتشار کو ختم کرنے کے لئے بدھ مت کا تقریباََ ڈھائی ہزار سال قبل بھارت میںظہور ہوا۔ جو ظالم طبقہ کے لئے کم و بیش ہزار سال تک دردِسر بنا رہا۔ چھٹی صدی عیسوی میں اسلام کی بھارت میں آمد ہوئی، جسے آریہ برہمنوں نے بدھ مت کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے استعمال کیا اور منو واد کو فروغ دیا۔ محمد بن قاسم اور اس کے بعد جو حکمران یہاں آئے، ان سے برہمنوں نے تعاون کے بدلے میں ہندو سماج کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنے کا قرار باندھا۔ چھترپتی شیواجی وہ پہلا حکمران ہے، جس نے منو سمرتی کے قوانین خاطر میں نہیں لاتے ہوئے، تمام پسماندہ طبقات کے افراد کو بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے شیواجی کے اس اقدام کو جمہوری طرز قرار دیا ہے۔ برہمنوں کو یہ طرز حکومت بالکل نہیں جچا، لہٰذا انہوں نے شیواجی کی حکومت میں کام کرتے ہوئے بھی ان کے ساتھ دشمنی روا رکھی اور اندرونی طور پر سازشیں کرتے رہے اور افضل خان، دلیر خان جیسے شیواجی کے سیاسی دشمنوں کی ڈھکے چھپے طور پر مدد بھی کی۔ شیواجی کے بعد اس کے بیٹے سمبھاجی نے حکومت سنبھالی، اور چونکہ غیر برہمن ہوتے ہوئے اس نے سنسکرت سیکھی اور سنسکرت میں کام کیا، لہٰذا مغلوں سے شکست اور اس کی موت کے بعدبرہمنوں کے کہنے پر منواسمرتی کے ظالم قوانین کی بنیاد پر اس کے مردہ جسم کو ٹکڑے، ٹکڑے کیا گیا، جبکہ یہ الزام اورنگ زیب پر لگایا جاتا ہے کہ اس نے سمبھاجی کو شکست کے بعد اس کی لاش کے ٹکڑے کروائے۔ بعد میں ان ٹکڑوں کو مہاروں نے جمع کیا اور آخری رسومات ادا کی، جبکہ مراٹھے برہمنوں کے خوف سے پیچھے ہی رہے۔

یہی وجہ ہے کہ مہار واڑہ میں سمبھاجی کی سمادھی ہے اور ساتھ ہی جس مہار سماج کے شخص نے ہمت دکھا کر آخری رسومات ادا کی، بغل میں اس کی سمادھی ہے۔ گذشتہ سالوں میں مہار اور مراٹھا سماج میں انتشار کی خاطر ہندوتوادیوں نےتاریخ سے ان واقعات کو حذف کیا۔ جس میں سمبھاجی بھڈے اور ملند ایکبوٹے جیسے کارکنوں کی کوششیں شامل ہیں۔پھر مارچ ۲۰۱۷ ؁ میں سمبھاجی کے یوم پیدائش کے موقع امیت شاہ کو مدعو کیا گیا تھا، جو شریک تو نہیں ہوا۔ بہر حال تب سے اس علاقے میں مراٹھوں کے درمیان مہار سماج کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام جاری، اس بنیاد پر کہ سمبھاجی کی سمادھی ایک مہار کی سمادھی کے ساتھ کیسے ہو سکتی ہے۔ ۲۹ ؍ دسمبر۲۰۱۷ ؁ کو بھڈے اور ملند ایکبوٹے کی قیادت میں شر پسندوں نے گووند مہار کی سمادھی کو نقصان پہونچایا، اور ماحول خراب کرنے کی شروعات کی۔ دوسری طرف ۱؍ جنوری کو مہار سماج جو دو سو سالہ جشن منا نے جا رہے تھے، اس کی اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ۱۸۱۸ ؁ میں پیشوا باجی راو دوم کے خلاف، مہاروں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جنگ میں مدد کی اور فتح حاصل کی۔ جس کی بنیاد یہ تھی کہ مہار سماج کے لوگ باجی راو دوم کے منو وادی قوانین کے فروغ دینے کے اقدام سے سخت نالاں تھے۔ ۱۹۲۷ ؁ میں امبیڈکر اس جگہ پر گئے، تو انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی دراصل برہمنی ظلم کے خلاف، انصاف کی لڑائی تھی۔ اس تاریخ کو بھی مراٹھا سماج میں، مہاروں کے خلاف زہر گھولنے کے لئے، مہار بمقابلہ مراٹھا کے انداز سے پیش کیا جارہا ہے۔ تبھی ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۷ ؁ کو سیکولر پارٹیوں کی میٹنگ سے عمر خالد اور جگنیش میوانی نے خطاب کیا، ان کے خطابات کو مراٹھا عوام میں توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور اس بنا پر بھی مراٹھا سماج میں مہاروں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ مراٹھا سماج کے نوجوانوں کے درمیان نفرت انگیز ویڈیوز موبائل کے ذریعے پھیلائے گئے۔ بالآخر ۱؍ جنوری ۲۰۱۸؁ کو بھیما کورے گاوں کے دوصد سالہ جشن کے موقع پر جب ہزاروں کی تعداد میں مہار جمع ہوئے، تو اس مجمع پر پتھراو کیا گیا اور تشدد بھڑکایا گیا، جس میں ایک مراٹھا نوجوان کی موت بھی واقع ہوئی۔ بہرحال یہ ہندوتوادیوں کی ایک سازش تھی، جس کے ماسٹر مائنڈ ملند ایکبوٹے اور سمبھاجی بھڈے جیسےکارکنان تھے۔ مگر عوام نے بڑی حد تک صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا، جس کے باعث کسی بڑے فساد کا خطرہ ٹل گیا۔

پی بی ساونت: شر پسندوںکی جانب سے کیا گیا پروپیگنڈہ ہی اس تشدد کا اصل سبب ہے۔ مہار آبادی اس جشن کو طبقاتی نظام کے خلاف ایک جدوجہد کی حیثیت سے مناتی ہے۔ لیکن شر پسند ہندوتوادی اور آر ایس ایس کارکنان نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ مراٹھوں کی موت پر جشن منایا جا رہا ہے۔ اس بات کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے ہیں، لیکن تفتیش میں دانستہ طورپر ان کو نظر انداز بھی کیا جا رہا۔

سوال: بر سراقتدار پارٹی بی جے پی، کا نعرہ ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کی معنویت ان واقعات کے تناظر میں کیا رہ جاتی ہے، اور اس طرح کے واقعات سے ان کی سیاسی قوت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

کولسے پاٹل: مودی اور امیت شاہ جیسے لیڈران کی قیادت والی بی جے پی، کے لئے تو وکاس (ترقی) کا مطلب محض امبانی، اڈانی جیسے کارپوریٹس کی ترقی ہے، جنہوں نے الیکشن میں بی جے پی کی مدد کی۔ مذکورہ نعرہ توسراسر، ایک فریب ہے۔کسانوں اور دیگر غریب و متوسط طبقات سے جو معاشی بہتری کے وعدے اس حکومت نے کئے، ان کو وفا کرنا تو درکنار، انہیں لوجہاد، مندر۔مسجد تنازعہ، گئو رکشا جیسےغیر ضروری ایشوز میں الجھا کر رکھا، تا کہ عوام کی توجہ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں پر نہ جائے۔ یہ بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کی ایک طویل المعیاد منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جسے سمجھنا چاہئے۔ جب نریندر مودی، گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تو جعلی بنیادوں پر، او بی سی کا سرٹیفکٹ حاصل کیا۔ پھر گودھرا سانحہ، گجرات فسادات اور فرضی انکاونٹر جیسی واردات کی بنیاد پر ہندو مسلم منافرت کی خلیج بڑھاتے گئے۔ ہندو مسلم، پاکستان، کشمیر جیسے ایشوز کو جلا بخشتے رہے، تا کہ نفرت کی سیاست کو غذا ملتی رہے، اور عوامی ترقی کی باتیں کم ہوں۔

جہاں تک سوال بی جے پی کے مفادات پر اثر اندازی کا ہے، اب بی جے پی حکومت خود کو ان واقعات کے اثرات سے پرے سمجھتی ہے اور وہ تو اس ملک کے جمہوری نظام ہی کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ میرے اندازے کے مطابق تو اگلے عام انتخابات سے قبل پاکستان یا چین سے جنگ کی بنیاد پر ایمرجنسی لا کر، نریندر مودی اپنی کرسی کو بچانے کا انتظام کرے گا۔ کیونکہ گذشتہ انتخابی نتائج سے ہی واضح ہے کہ محض ۳۰؍ فیصد کے قریب عوامی ووٹوں کے حصول کی بنیاد پرہی بی جے پی نے جیت حاصل کی ہے، جس کا مطلب تقریباََ ملک کی ۷۰؍ فیصد عوام بی جے پی کا اقتدار نہیں چاہتی ، اور اگر یہ ۷۰؍ فیصد عوام اب متحد ہو رہی ہےتو بی جے پی کے لئے اب اقتدار سے ہاتھ دھونے کا وقت آگیا ہے۔ گجرات کے انتخابی نتائج میں آپ دیکھئے کہ بی جے پی کے تقریباََ ۲۱؍ نمائندے ۴۰۰ تا ۱۰۰۰ کے ووٹوں کے فرق سے ہارے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کے مقام پر رہنے والی کانگریس پارٹی کا سوال ہے، ان کو بھی اس بات کا واضح ادراک ہو گیا ہے کہ وہ تنہا حکومت بنانے کے بجائے، دیگر سیکولر پارٹیوں پر انحصار کرتے ہیں، اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ بہر حال بی جے پی کی موجودہ پوزیشن دیکھتے ہوئے مجھے اندازہ ہے کہ یہ ای وی ایم مشین میں گڑبڑی یا ایمرجنسی جیسی صورتحال تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔

پی بی ساونت: اگر آپ بی جے پی کی تاریخ کو دیکھیں تو یہ سلسلہ قدیم منو وادی نظام کے حاملین سے چلا آرہا ہے۔ صدیوں سے آریہ برہمن جو ہندوستانی سماج کا ۲ تا ۳ فیصد نے یہاں ’’بانٹو اور راج کرو‘‘ کی حکمت عملی کے تحت براہ راست یا بلا راست حکومت کی ہے۔ آریوں کی ہندوستان آمد کے بعد یہاں کی حکومت پر قبضہ کرنے میں ان کا سب سے بڑا ہتھیار ’’چتُر ورنا‘‘ (سماج کی چو مکھی تقسیم) کا نظام تھا، جس میں خود کو انہوں نے سب سے اعلیٰ مقام پر رکھا، اور بقیہ تمام لوگوں کو نہ صرف ادنیٰ، گردانا بلکہ ان میں مزید ضمنی تقسیم کی(حتیٰ کہ آج ۶۰۰۰ سے زائدضمنی ذاتیں موجود ہیں) ، مستزاد ان کے درمیان آپسی دشمنی کو فروغ دیا۔ تعلیم تک محض آریہ برہمن کے مردوں کو رسائی کو روا رکھا گیا، اور یہ ان کے ظالمانہ اقتدار کو قائم رکھنے میں انتہائی مددگار اقدام رہا۔ بالآخر انگریزوں کے دور حکومت میںمہاتما پھلے اور دیگر سماجی مصلحین کی کوششوں سے سماج کے ادنیٰ طبقات کی تعلیم تک رسائی کے نتیجہ میںبڑے پیمانے پر سماجی بیداری آئی۔ موجودہ دور میں دائیں اور بائیں اور اس طرح کے دیگر محاذوں کے بیچ شدید اختلافات اسی تعلیمی بیداری کے نتیجے میں مساوی حقوق کی جنگ ہے۔ اس بیداری میں ڈاکٹر امبیڈکر کی شخصیت ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔یہ ماضی سے تا حال ظاہر ہوتا ہے کہ بہر حال بی جے پی کی سیاست ہمیشہ ہی’’ سب کا ساتھ‘‘ سے پرے ہی رہی ہے۔

سوال: موجودہ دلت تحریک، مراٹھوں کی تحریک سے کس طرح مختلف ہے؟

کولسے پاٹل: ان تحریکوں کو اختلافی نقطہ نظر کے بجائے، اشتراک کی بنیاد پر دیکھنا چاہئے۔ مراٹھوں میں جو غریب طبقہ ہے، اور دوسری طرف جو دلت ہیں، ان کے مسائل کم و بیش ایک ہی ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت وغیرہ۔ لہٰذا دونوں تحریکات ایک دوسرے کے قریب آرہی تھیں۔ اس جدوجہد کو متحد ہونے سے روکنے کے لئے موجودہ سازش کی جارہی ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہندوتوا مخالف تمام جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کریں۔ بالخصوص مسلمان اور مسلم جماعتیں بھی سیکولر غیر مسلم حضرات کے ساتھ تعلقات بہتر بنائیں اور ان کے مسائل میں دلچسپی لیں۔ ہم اس طرح کی کوششیں سالوں سے کرتے آرہے ہیں، اور آئندہ بھی اس طرح کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (PFI) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) جیسی تنظیمیں جو اس طرح کے متحدہ محاذ کا حصہ بنتی ہیں، ان کے خلاف اکثر شدت پسند ہونے کا پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے، جس کی تازہ مثال ڈاکٹر ہادیہ کا ایشو ہے۔ ان پروپیگنڈوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

سوال: موجودہ حالات میں سیاسی قوت کی ہیرا پھیری کے بارے میں آپ کا خیال ہے؟

کولسے پاٹل: سماج کے محروم طبقات جیسے مسلم، دلت وغیرہ کو ایک پلیٹ فارم پرآنا بے حد ضروری ہے، تا کہ موجودہ ہندوتوادی طاقتوں کے خلاف ایک محاذ قائم کیا جا سکے۔ بادل ناخواستہ کانگریس کے ساتھ اس جدوجہد کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔ اگر بہتر نمائندگی ہو تو کانگریس کے ساتھ اپنی شرطوں پر اتحاد کرتے ہوئے ایک طاقتور سیاسی محاذ بنایا جا سکتا ہے۔

پی بی ساونت: نئی سیاسی مساوات کے تعلق سے حالات کافی سازگار ہیں۔ جس طرح سے گذشتہ پچاس سالوں کے دوران سماجی سطح پر تبدیلی آرہی ہے اور غیر برہمن طبقات کے آپسی روابط پروان چڑھے ہیں، یہ نئے سیاسی محاذ کی جانب پیش رفت ثابت ہوگا۔کیونکہ روایتی طور دلتوں کو سماج سے کاٹ کر رکھا جاتا تھا، جب کہ اب یہ علٰحدگی برہمنوں کے حصے میں آ رہی ہے۔

سوال: بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کابنیادی ایجنڈا، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہندووں کو متحد کرنا، کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟

کولسے پاٹل: میرے خیال سے برہمنوں کی مسلمانوں سے کوئی خاص دشمنی نہیں ہے۔ بلکہ وہ محض غیر برہمن ہندووں کے سامنے مسلمانوں کا ڈر دکھا کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں، اس لئے وہ مسلمانوں کے غیر ملکی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، اور ملک پر مسلمانوں کے قبضہ کا اندیشہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمان بکثرت یہاں کے مقامی باشندے ہی ہیں، بلکہ جنوبی ہند کے نمودری برہمنوں نے ہی سب سے پہلے عیسائی اور پھر اسلام مذہب کو اختیار کیا۔ اس کے علاوہ جو پسماندہ طبقات یہاں کےطبقاتی ورن نظام سے پریشان تھےانہوں نے اسلام قبول کیا۔ یہ مسلمانوں کا ڈر پیدا کرنے کی چال دراصل آریہ برہمن اور سرمایہ دار طبقہ کی سانٹھ گانٹھ کا نتیجہ ہے۔ مستزاد یہ لوگ ہندو طبقات کے بیچ بھی تفریق ڈالنے کا م برابر کرتے رہتے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں کہ ’’بانٹو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی انگریزوں نے انہی لوگوں سے سیکھی۔

پی بی ساونت: سماج میں طبقاتی نظام (ہندوں کے درمیان) کو برقرار رکھناہمیشہ ہی بی جے پی کا بنیادی ایجنڈا رہا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، وہ غلط تاریخی حوالوں سے ہندوں میں مسلمانوں کا خوف بھی پیدا کرتے ہیں، اور اپنے مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوتوا فکر کے حامل بھارت میں۴ تا ۵ فیصد سےزیادہ نہیں ہیں، لہٰذااپنے کے مفاد کے لئے مسلم دشمنی کا شور بھی بی جے پی کے وجود کے لئے ضروری ہے۔

سوال: مسلم اور دلت، اس ملک کے محروم طبقات میں سے ہیں، کیا وجہ ہے کہ اپنے حقوق کی جدوجہد میں دونوں ہی طبقات اب بھی متحد نظر نہیں آتے؟

کولسے پاٹل: ملک کو بچانے کی ذمہ داری دراصل مسلمانوں کو اٹھانی ہو گی۔اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے ناطے، مسلمانوں کو غیر مسلموں سے بڑے پیمانے پر تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اب تک جو کوششیں مسلمانوں کی جانب سے ہوئی ہیں، وہ مسلمانوں کی آپسی تفریق کی وجہ سے کچھ خاص نتائج نہیں پیدا کر سکیں۔ اس تفریق کی سب سے بڑی مثال جمیعۃ علما کے دو دھڑوں کی شکل میں سامنے ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپسی اتحاد اور دیگر غیر مسلموں سے اتحاد کی جانب بڑے پیمانے پر پیش رفت کرنی ہوگی۔ بالخصوص مسلم مذہبی جماعتوں کے لیڈران کو شدید زمینی کام کرنے کی ضرورت ہے۔دلتوں کے ساتھ اصل مسئلہ ان کی غیر ذمہ دار اور بے ایمان قیادت ہے،جس میں رام داس آٹھولے اور پاسوان جیسے نام سر فہرست ہیں۔ لہٰذا دلتوں کی جانب سے اصل کوشش ان کی ایماندارانہ قیادت بنانے کی ہونی چاہیئے۔

پی بی ساونت: دلت اور مسلمانوں کی دوری کی وجوہات عمومی ہندو ۔مسلم منافرت کی توجیہات سے مختلف نہیں ہیں۔ ہندوتوا طاقتوں کا ہندو مسلم بنیاد پر تقسیم کا ایجنڈا ہمیشہ سے کارگر رہا ہے۔ دو قومی نظریہ دراصل ساورکر نے ہی پیش کیا تھا، جسے اب تک استعمال کی جا رہا ہے۔محروم طبقات ہونے کے حوالے سے مسلمانوں اور دلتوں کو کے اتحاد کے بجائے ہمیں تمام ہی سماجی طبقات کے اتحاد کی بات کرنی چاہیے، اور یہ اتحاد اصلاََ مفاد پرستوں کے خلاف ہونا چاہیے، کیونکہ مفاد پرستی ہی اصل خطرہ ہے۔ خود ساورکر جو ہندوتوا تحریک کا تاسیسی کارکن ہے، وہ انڈمان میں قید سے قبل ایک سیکولر شبیہ کا مالک تھا، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی بادشاہ اکبر کا یوم پیدائش منایا کرتا تھا۔ پھر اس نے برطانیہ کے ایما پر ہندو مسلم منافرت کو فروغ دیا، تا کہ اپنے مفادات حاصل کر سکے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ سب سے پہلے دوسرے درجہ کا شہری ہونے کی جو مغلوبیت ہمارے اذہان میں ہے، اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال: برہمنوں کے تعلق سے آپ کے جو خیالات ہیں، اس کے مطابق کیا تمام برہمن انہی سازشوں میں ملوث ہیں؟

کولسے پاٹل: ممکن ہے کہ اچھے برہمن بھی ہوں۔ لیکن برہمن طبقہ سے ایسا کوئی بھی نمایاں نام تلاش کر پانا ، ممکن نہیں، جس نے عمومی لحاظ سے پورے سماج کی ترقی کے لئے کام کیا ہو۔ کیونکہ بر سراقتدار برہمن طبقہ کے علاوہ جو دیگر عام برہمن ہیں، وہ بھی محض مفاد پرستی کی خاطر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہتے اور یہ ان کی تنگ دلی کا واضح ثبوت ہے۔ سماج کے جن پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق دلانے کی جدوجہد میں ہم ایک پلیٹ فارم پرانہیں لانا چاہتے ہیں، اس میں اگر کوئی برہمن بھی شامل ہونا چاہے تو ہم اس کا استقبال کریں گے، مگربالیقین ایسا کوئی برہمن ہوگا نہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں