(21 جون، پریس ریلیز)
مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی کا17 جون 2019 کو قاہرہ کی عدالت میں پیشی کے دوران انتقال ہو گیا۔ ان کی تدفین اور جنازے کا انتظام بہت ہی رازدارانہ طریقے سے کیا گیا جس میں ان کے گھر کے صرف دو افراد کو شرکت کرنے کی اجازت دی گئی، حتیٰ کہ ان کی اہلیہ کو بھی ان کا آخری دیدار کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مرسی کی وفات کے بعد سے ہی حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں ان کی مشتبہ موت پر سوالات اٹھا رہی ہیں. ڈاکٹر محمد مرسی کو نہ صرف قید کیا گیا بلکہ پوری دنیا سے منقطع ، عمدا طبی لا پرواہی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ تمام انصاف پسند جماعتوں نے یہ ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ صدر محمد مرسی کی موت طبعی ہے ۔ اقوام متحدہ نے اس معاملے میں ایک صاف و شفاف اور مفصل تحقیق کا مطالبہ بھی کیا ہے جو،نہ صرف ان کی موت بلکہ ان کی چھ سالہ قید کے تمام پہلؤوں پر محیط ہو۔
مصری حکومت اپنی تمام ترکوششوں کے علی الرغم صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی موت اور اپنے مشتبہ اقدامات پر پردہ ڈالنے میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ عرب ممالک ہی کیا پوری دنیا میں صدر محمد مرسی کو چاہنے والوں نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ محمد مرسی ہر انصاف پسند طبقے میں مقبول تھے.
ڈاکٹر محمد مرسی جب صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے اس وقت مصر قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر بحرانی کیفیت کا شکار تھا ۔ ایک سالہ دور حکومت میں انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کئے جس نے فوجی جنرلز کے کان کھڑے کر دئے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مصر پر حکومت کرتے آ رہے تھے۔ صدر محمد مرسی نےعلاقائی خود مختاری، فلسطین کی آزادی اور جمہوری تحریکات کی حمایت جیسی بین الاقوامی پالیسی اختیار کی ۔ وہ صرف مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدرہی نہ تھے بلکہ آزادی اور خود مختار ی کی ایک نئی اور مضبوط آواز بھی تھے۔
مصری فوج، جس کے گہرے اور دیرینہ تعلقات امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ رہے ہیں، ایک سال بھی ڈاکٹر محمد مرسی کی اصلاحی پالیسیوں کو برداشت نہ کر سکی. چنانچہ وہ ان کی حکومت کو غیر مستحکم اقر سبوتاژ کرنے کی ترکیبیں کرنے لگی. بالآخر انتہائی بے شرمی کے ساتھ فوجی بغاوت کے ذریعہ ان کا تختہ پلٹ کر جنرل فتاح سیسی کے ہاتھوں میں اقتدار سونپ دیا ۔ مصری فوج نے نہ صرف اپنے قانونی صدر کو قید کرلیا بلکہ عوام میں سے جو بھی ان کی حمایت میں آگے آیا اسے بھی وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ میدان رابعہ کا وہ قتل عام جس میں ایک ہی دن میں فوج نے ایک ہزار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، مصر کی جدید تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔ اسی وقت سے سیسی حکومت نے تمام طرح کے احتجاج پر پابندی لگا دی،آزاد صحافتی اداروں کو بند کردیا، ہزاروں سماجی کارکنوں کو پابند سلاسل کر دیا. جب یہ کافی نہ ہوا تو بہت سے افراد کو ماورائے عدالت قتل کروادیا گیا ۔ حد یہ ہے کہ سیسی کے ان کرتوتوں پر عالمی طاقتوں نے چوں وچراں تک نہ کی بلکہ برملا یا خفیہ طور سے اسکی حمایت ہی میں پیش پیش رہیں. صرف اس لئے کہ کوئی اسلام پسند جماعت دوبارہ برسر اقتدار نہ آجائے.
ہم تمام حریت پسند بھارتیوں سے، جمہوریت کی خواہاں مصری عوام کی حمایت میں متحد ہو کر کھڑے ہونے کی گزارش کرتے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر یہ مطالبہ کرتے ہیں جنرل عبد الفتاح السیسی کی قیادت والی موجودہ مصری حکومت کو مصرکے حقیقی صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا جائے اور دوران حراست موت کی ازاد و شفاف تحقیق کرکے مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے. یہ انصاف کا تقاضہ ہے. اسی میں جمہوریت کی سرخروئی ہے.