بھارتیہ جنتا پارٹی کمیت و کیفیت کی حقیقت

ایڈمن

بی جے پی نے حال میں یہ اعلان کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا کہ ۳۰؍ لاکھ مسلمانوں نے اس کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب۱۲؍ سے لے کر ۲۰؍ فیصد کے درمیان ہے۔…

بی جے پی نے حال میں یہ اعلان کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا کہ ۳۰؍ لاکھ مسلمانوں نے اس کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب۱۲؍ سے لے کر ۲۰؍ فیصد کے درمیان ہے۔ ایسے میں اگر مسلمانوں کا اعتماد حکومت پر بحال ہوا ہوتا تو جملہ۱۰؍ کروڑ ارکان بی جے پی میں مسلم ارکان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ ۲۰؍ لاکھ سے دوکروڑ ہونی چاہئے تھی۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کی نمائندگی ایک چوتھائی سے بھی کم ہے اور بی جے پی کی ریاستی حکومتوں میں مسلمانوں کے وزراء کی تعداد عشاریہ ۳؍ فیصد سے بھی کم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی میں مسلم وزراء کی تعداد اس میں موجود مسلمانوں کی بہ نسبت اتنی کم کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب مولانا الیاسی صاحب کی قیادت میں وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے وفد کو دینا چاہیے جس سے وزیراعظم نے کہا کہ اگر وہ آدھی رات کو بھی ان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے تو وہ جواب دیں گے۔ وزیراعظم کی یقین دہانی سن کر بے ساختہ سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی یاد آگئی۔ جب بلوائیوں نے ان کے گھر کو گھیر لیاتھا تو انہوں نے بھی وزیراعلیٰ مودی کو فون کیا تھا اور مدد کی گہار لگائی تھی۔ الیاسی صاحب کو مودی جی کا جواب نوشتۂ دیوار بنا لینا چاہیے۔ مودی جی نے احسان جعفری سے ایک تاریخی سوال کیا تھا۔ کیاتم ابھی تک زندہ ہو؟ اب چونکہ مودی جی وزیراعظم بن چکے ہیں اس لئے وہ سوال پوچھنے پر بھی اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کریں گے۔
مسلمانوں کی اس پیمانے پربی جے پی میں شمولیت ان لوگوں کے لیے بڑی خوشخبری ہے جو اہل اسلام کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے دوری کو لے کر پریشان ہیں۔ لیکن اس خبر کا جشن منانے سے قبل بہتر ہے وہ حضرات پتہ لگالیں کہ آخر یہ انکشاف ہوا کیسے ؟ اس سال کی ابتداء میں بی جے پی والوں کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا، انہوں نے اپنے کارکنان کو مصروف کرنے کے لیے ممبر سازی کی مہم چھیڑ دی۔ دہلی کے اسکولوں میں اس کے لیے زور زبردستی کی خبریں بھی آئیں، لیکن ان سے قطع نظر اس مہم کا سب سے منفرد پہلو ’’مسڈ کال دیجئے اور رکن بن جائیے‘‘ والا نعرہ تھا۔ پہلے بی جے پی کا ممبر بننے کے لیے دفتر میں بذاتِ خود حاضر ہو کر فارم بھرنا پڑتا تھا لیکن ذرائع ابلاغ کے بہترین استعمال کے لئے مشہور بی جے پی نے دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا تمغہ حاصل کرنے کی خاطر ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا یعنی آپ اپنے فون سے ایک مس کال ۱۸۰۰۰۲۶۶۲۰۲۰ نمبر پر کریں، جواب میں مشین کہے گی ’’بی جے پی میں آ پ کا سواگت ہے جلد ہی آپ سے رابطہ قائم کیا جائے گا‘‘۔ اسی کے ساتھ فون اپنے آپ بند ہو جائے گا۔ اس طرح گویا بی جے پی نے دس کروڑ لوگوں کو کچھ کہے سنے بغیر رکن بنا لیا، اور دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ ان فون کرنے والوں میں چونکہ ۳۰؍ لاکھ لوگ مسلمان تھے اس لئے تقریباً۳؍ فیصد مسلمانوں کی بی جے پی میں شمولیت کا اعلان ہو گیا۔
اس معاملے میں کئی گھپلے ممکن ہیں۔ اول تو یہ ہے کہ اگر کسی ایک فرد کے پاس چار سم کارڈ س ہیں اور وہ چاروں سے مس کال کرے تو بی جے پی کا سپر کمپیوٹر چار ممبران کا اندراج کر لے گا۔ اگر میری سم کارڈز کی دوکان ہے اور میں ہر سم کارڈ بیچنے کے بعد اس سے ایک مس کال کروں تو جتنے کارڈ بیچوں گا اتنے بی جے پی ممبر بنا دوں گا۔ اگر کوئی بی جے پی والا مجھ سے ۱۰۰؍ سم کارڈ خرید لے تو میں ان ۱۰۰؍ کارڈز کو باری باری اپنے فون میں لگاکر ایک مس کال کروں گااورپھر باہر نکال کر پھینک دوں گا یا بیچ دوں گا۔ اس طرح بی جے پی میں ۱۰۰؍ ارکان کا اضافہ ہو جائے گا۔ ان سمِ کارڈز کے لیے درکارکاغذات کی فوٹوکاپی اور تصاویر بی جے پی والے مجھے سرکاری دفاتر سے لاکردے جائیں گے۔ اس طرح اس شخص کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ وہ بی جے پی کاکاغذی رکن بن چکا ہے۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ بی جے پی کی اس رکنیت سازی کی مہم میں ۷ء ۱ کروڑ ممبر اتر پردیش کے ہیں۔ اب بی جے پی والے ’سمپرک ابھیان‘ کے تحت ان مس کال بھیجنے والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں تو ان کا ٹھور ٹھکانہ نہیں مل رہا ہے۔
جعلی کاغذات کی بنیاد پر اس طرح ممبر سازی کرنے والی بی جے پی اب خود اپنے جال میں پھنس چکی ہے۔ جس نمبر کے بارے میں یہ نہیں جانا جا سکتا کہ وہ اصلی ہے یا نقلی، اس کے متعلق یہ پتہ لگانا کہ وہ کسی مسلمان کا ہے یا ہندو کا،چہ معنی دارد۔ فرض کیجئے کہ بی جے پی والوں نے ٹیلی فون کمپنی سے صارف کی تفصیلات بھی معلوم کرلیں، تو اس بات کو کیسے جانچا جائے کہ وہ تفصیلات حقیقی ہیں یا جعلی۔ اس کے علاوہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی بی جے پی کاہمدرد آپ کے ہاتھ سے آپ کا فون لے کر اس سے مذکورہ نمبر پر ایک مس کال کردے۔ اس طرح گویا نادانستہ طور پر آپ کودنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے رکن بننے کا اعزاز حاصل ہو جائے اور جب آپ اس کا انکار کریں تو آپ کے فون سے آنے والی مسڈ کال کو ثبوت کے طور پر پیش کردیا جائے۔ بی جے پی کی جعلی کمیت کو جانچنے کا اس سے بہتر معیار کوئی اور نہیں ہوسکتا، لیکن اس کی کیفیت کے حوالے سے بھی بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے چونکہ اس کے پسِ پشت آرایس ایس جیسی زبردت نظریاتی تحریک ہے اس لئے اس کے پاس ذہین ترین لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہوتا تو اسے وزیراعظم کی حیثیت سے پیش کرنے کے لیے ایک ایسے شخص پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ جب گوگل پر ہندوستان کے دس سب سے بڑے مجرمین ٹائپ کریں تو اس کی تصویر آتی ہو۔
مودی جی پردھان سیوک کی حیثیت سے عالمی سطح پر اپنی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے کوریا سفر کے دوران ہندوستانیوں کے ماضی میں اس ملک کے اندر جنم لینے پر افسوس جتانے سے بھی نہیں چوکے۔ لیکن ان کی فوج میں شامل دیگر حضرات بھی اپنے سپہ سالار سے بہت پیچھے نہیں ہیں۔ مثلاً پارٹی کے صدر امیت شاہ کبھی اعظم گڈھ کو دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیتے ہیں تو کبھی مظفر نگر میں جاکر جاٹوں کو بدلہ لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ کبھی کالے دھن کی واپسی اور اس کی تقسیم کو ایک انتخابی جملہ (بمعنی ڈھکوسلہ)قرار دے کر مستردکردیتے ہیں تو کبھی کرن بیدی کو کیجریوال کے مقابلے وزیراعلیٰ کا امیدوار بنا کر چونکا دیتے ہیں ۔ ان کے علاوہ بی جے پی کے اندر مہنت اویدیہ ناتھ، ساکشی مہاراج اور سادھوی نرنجن جیوتی جیسے مہارتھی بھی موجود ہیں جو آئے دن کوئی نہ کوئی نیا تنازع کھڑا کرنے سے باز نہیں آتے۔
مودی جی نے جب ان لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر قابو میں کیا تو اشوک سنگھل جیسے آئی پی ایس افسر کے داماد عباس نقوی کی ہندوتوادی حمیت جوش میں آگئی اور انہوں نے بڑے کا گوشت کھانے والوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دے دیا۔ کون جانے وہ بنگال ، کرناٹک، کیرالہ جیسی ریاستوں کو جہاں گؤ کشی ممنوع نہیں ہے اکھنڈ بھارت کا حصہ سمجھتے بھی ہیں یا نہیں؟ عباس نقوی جیسے پاکھنڈی مسلمانوں کو منہ توڑ جواب تو شنکر اچاریہ سورپ آنند سرسوتی نے دیا۔ انہوں نے مہاراشٹر حکومت کی تعریف کرنے کے بعد کہا ہندوستان ہندو اکثریتی ملک ہے اس کے باوجود یہ شرمناک بات ہے کہ ہم دنیا میں سب سے زیادہ گائے کا گوشت برآمد کرتے ہیں۔اس لئے گائے کے گوشت کی برآمد پر مکمل طور پابندی ہو نی چاہئے۔ بی جے پی کی اس منافقت کا کیا جواز ہو سکتا ہے کہ سوادیشی جنتاجس گوشت کو ترسے غیر ملکی لوگ اسے نوش فرمائیں۔ یہ حماقت وزیر مملکت برائے امور داخلہ کی سمجھ میں نہیں آتی مگر نقوی صاحب اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
بی جے پی کے ان مہا پروشوں کی فہرست میں نیا اضافہ وزیر دفاع منوہر پاریکر کا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران مودی جی نے کہا تھا ان کے پاس کیجریوال ہے تو ہمارے پاس بھی پاریکر ہے۔ مودی جی کی مراد یہ تھی کہ پاریکر بھی آئی آئی ٹی جیسی نامور درسگاہ سے فارغ ہے۔ جب انہیں وزیردفاع بنایا گیاتو لوگوں نے سوچا ممکن ہے یہ پڑھا لکھا آدمی کچھ سمجھداری کی باتیں کرے گا لیکن فی الحال منوہر پاریکر یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ان کی مادر درسگاہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہے اور جو اس میں ایک بار داخل ہو جاتا ہے تو اس پر آئی آئی ٹی تو کیا آکسفورڈ اور کیمبرج بھی اثرانداز نہیں ہو سکتے۔اس کا ثبوت ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کی ذاتِ والا صفات ہے۔ منوہر پاریکر نے گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے پانچ ایسے بیانات دے ڈالے جو وزیر دفاع کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ پہلے تو انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کانٹے والی بات کہی، پھر چین پر فقرہ کستے ہوئے گنیش کی چھوٹی آنکھوں کا ذکر کیا، اس کے بعد امریکہ کی جانب سے پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے پر تشویش کا اظہار، صومالی قزاقی پر انکشاف اور پھر چینی سرحد پر فوج کی کٹوتی کا اعلان۔
پاکستان کے بارے میں وزیردفاع منوہر پاریکر نے فرمایا ’’ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے دہشت گرد بنانے میں کیا برائی ہے؟ کئی لوگ پیسے کے بہکاوے میں آکر دہشت گرد بن جاتے ہیں۔ اگر ایسے لوگ موجود ہیں تو ہم ان کا ستعمال کیوں نہیں کریں۔ ہمارے فوجی ہی کیوں جاکر مریں ؟دہشت گردوں سے متعلق ہماری اولین ترجیح انہیں شناخت کرنے کی ہے اور پھر بے اثر کرنے کی ہے۔ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے خفیہ معلومات حاصل کی جارہی ہے‘‘۔ اس بیان کا ایک پہلو پاکستان سے متعلق ہے تو دوسرا کشمیر اور ہندوستان سے تعلق رکھتاہے۔اس بیان کی روشنی میں کشمیر ی شہریوں پر ہونے والے حملے کو پاریکر کے تربیت یافتہ دہشت گردوں سے جوڑنا نہایت سہل ہو جائے گا اور ہندوستان کے اندر جن مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد کے طور پر آئے دن گرفتار کیا جاتا ہے ان کے متعلق بھی یہ گمان گزرے گا کہ کہیں ان لوگوں کو پیسے کا لالچ دے کر پاریکر جی نے دہشت گردتو نہیں بنا دیا۔
دنیا میں شاید منوہر پاریکر وہ پہلے وزیر دفاع ہیں جنہوں نے ببانگ دہل یہ اعتراف کیا ہے کہ دہشت گرد بنانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
چین کا مذاق اڑاتے ہوئے وزیردفاع پاریکر نے کہا کہ جب سے گنیش کے مجسمے چین میں بننے لگے ہیں ان کی آنکھ چھوٹی ہو گئی ہے اس لئے لوگ میک ان انڈیا کے تحت ہندوستان میں بننے والے گنیش خریدیں۔ منوہر پاریکر شاید نہیں جانتے کہ گنیش کی گردن پر ہاتھی کا سر ہوتا ہے جس کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہندوستانی لوگ چینی مجسمہ اس لئے خریدتے ہیں کہ اس کی قیمت کم ہوتی ہے۔ میک ان انڈیا کے تحت گنیش کی مورتی پراگرغزال آنکھیں بھی سجا دی جائیں مگر اس کی قیمت زیادہ ہو تو ہندوستانی عوام چینی مجسمہ ہی خریدیں گے۔ اس دنیا کے بازار میں انسان ہو یا بھگوان اسی کی کھپت زیادہ ہوتی ہے جو سستا بکتا ہے۔ ویسے پاکستان چین ریشمی شاہراہ کے ہندوستانی اعتراض کا چینی جواب وزیر دفاع کی توجہ کا طالب ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ہندوستان جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر چینی سمندر میں تیل تلاش کرسکتا ہے تو چین پاکستان شاہراہ کیوں نہیں بن سکتی؟
ہندوستان عرصۂ دراز سے بحیرہ عرب میں غیر ملکی قزاقوں کی بین الاقوامی توسیع شدہ جاسوسی کی مخالفت کرتا رہا ہے لیکن وزیردفاع نے یہ اعلان کرکے کہ صومالی قزاقوں نے اپنا مرکز ہندوستان کی جانب منتقل کر دیا ہے ماضی کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
وزیر دفاع کا سب سے حیران کن بیان تو خود اپنی فوج سے متعلق تھاجس میں انہوں فرمایا کہ وہ چین پر پہاڑوں سے حملہ کرنے والے دستے کی تعداد اور اخراجات میں نصف سے زیادہ کی کٹوتی کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے اول تو اخباری کانفرنس میں نہیں سنائے جاتے، دوم اعلان سے قبل فوج کو اعتماد میں لیا جاتا ہے پھر اعلان کیا جاتا ہے۔ وزیر دفاع منوہر پاریکر یکے بعد دیگرے اپنے بیانات سے مایوس کررہے ہیں ۔
وزیراعظم اپنے اکثرو بیشتر کارناموں کے ساتھ ’پہلی بار‘ کا لقب ضرور لگاتے ہیں ممکن ہے ان کے دور اقتدار میں پاریکر کی مہربانی سے’’ ایک عہدہ ایک پنشن‘‘ کے مسئلہ پر سابق فوجیوں کی بھوک ہڑتال بھی ہو جائے جس کے۱۵؍ جون ۲۰۱۵ ؁ء سے انعقادکا اعلان ہو چکا ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو یہ بی جے پی کی دیش بھکتی کے ماتھے پر ایک ایسا کلنک ہو گا جسے وہ کبھی بھی مٹا نہیں سکے گی۔ان واقعات کے بعد اگر کوئی بی جے پی کی کمیت اور کیفیت سے مرعوب ہے تو اس کی مدد کوئی نہیں کرسکتا، خود وزیراعظم نریندر مودی بھی نہیں۔

ڈاکٹر سلیم خان، معروف سیاسی تجزیہ نگار

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں