ڈاکٹر عتیق الرحمٰن
بنیادی سائنس کا تعلق معلومات کی دریافت سے ہے۔ گویا یہاں بنیادی سوال یہ نہیں ہوتا کہ دریافت شدہ معلومات کا استعمال کیسے کیا جائے؟ اس کے برعکس، سائنس کے انطباق یا اطلاقی سائنس کا تعلق دریافت شدہ معلومات کے ذریعہ نئی چیزوں کی ترتیب و ایجاد سے ہے۔ اطلاقی سائنس میں پیش رفت کا انحصار ہمیشہ بنیادی سائنس کی ترقی پر ہوتا ہے۔ بنیادی سائنس میں تحقیق و تجسس ہی اصل عامل ہے جو سائنسدانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے۔
اطلاقی سائنس مخصوص و متعین سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے، جو عملی دنیا میں سامنے آئے ہوں۔ اس کے برعکس بنیادی سائنس کا مقصد کائنات میں کارفرما قوانین کو دریافت کرنا ہے۔ چاہے ان قوانین کا تعلق ایک سیل (Cell)سے ہو، مکمل حیوانی جسم سے ہو، یا پھر انواع کے پورے مجموعے(Ecosystem)سے ہو۔ سائنسداں اس طرز پر ان سوالوں پہ تحقیقی کام کرتے ہیں کہ کائنات اور اس کی اشیاء سے متعلق انسانی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔
بنیادی سائنس، سائنسی نظریات کا مربوط بیان ترتیب دیتی ہے۔ سائنسداں حقیقی اسباب کا پتہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً انسانی/ حیوانی جسم میں کولیسٹرول (Cholestrol)کیسے بنتا ہے، مختلف اقسام کی بیماریاں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ ان سوالوں کے جواب کی تلاش بنیادی ریسرچ کہلاتی ہے۔ اس کی چند مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
جسم کی تونائی کس طرح سیل کی توانائی (Cellulor Energy)میں تبدیل ہوتی ہے۔
اضافی Blood Glucose Level(خون میں گلوکوز کی زیادہ مقدار) کس طرح انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔
خلیاتی سائنس(Cell Biology)، جینیاتی سائنس، ملیکولر حیاتیاتی سائنس Microbiology، Physiology اور Virologyمختلف بنیادی تحقیقی میدان ہیں۔ یہ بہت سی اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان معلومات کا استعمال انسان کی صحت یابی کے لیے ہوتا ہے۔
اطلاقی سائنس پہلے سے موجود مختلف سائنسی معلومات کا استعمال کرتی ہے۔ اس استعمال کا انحصار بنیادی تحقیق پر ہوتا ہے۔ اطلاقی سائنس، بنیادی سائنس کی تحقیق کی روشنی میں مختلف قسم کے عملی مسائل کو حل کرتی ہے۔ جیسے دوائیاں تیار کرنا۔ ان دوائیوں سے ڈاکٹر مریض کا علاج کرتا ہے، مریض کے جسم کے اندر کولیسٹرول کو کم کرنا اطلاقی سائنس کی ایک مثال ہے۔
بنیادی سائنس کے تعاون سے اطلاقی سائنس نئی نئی ٹکنالوجی کو دریافت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ پرندوں کا ایک آشیانے سے دوسرے ٹھکانے پر ہجرت بنیادی سائنس کا موضوع ہے۔ ان معلومات سے ہوائی چکی (Wind Mill)کی ایجاد میں مدد لی گئی۔ بنیادی سائنس کی مدد سے ہوائی چکی کے ذریعے توانائی کا حصول، اطلاقی سائنس کی مثال ہے۔
تھامسن (JJ Thomsan)جس نے الیکٹران (Electron) کو دریافت کیا ہے 1916کے ایک خطبہ میں وہ کہتے ہیں کہ:
’’خالص سائنس کا مفہوم ہے وہ تحقیق، جس کے پیچھے صنعتی استعمال کا محرک کارفرما نہ ہو۔ بلکہ محض کائنات میں کارفرما قوانینِ فطرت کی دریافت کے لیے تحقیق کی گئی ہو۔ اس نوعیت کی تحقیق کا بھی استعمال لوگ دریافت کرلیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ ہے جو جنگِ عظیم کے دوران سامنے آئی یعنی سرجری میں ایکس رے کا استعمال۔
بنیادی سائنس کے فوائد، جنھیں چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے، حسب ذیل ہیں:
(۱) ثقافت کے فروغ میں تعاون
(۲) اقتصادی ترقی اور عملی مسائل کے حل کے لیے دریافتوں کا امکان
(۳) ضمنی فوائد (Spin Offs)اور صنعتی ارتقا
(۴) تعلیم
(۱) ثقافت کا فروغ
انسانی زندگی ترقی پزیر ہے۔ اس کی ظاہری اشکال میں بھی تبدیلی ہورہی ہے۔ بنیادی سائنس کے سوالوں کے سلسلے میں تجسس زمانۂ قدیم سے نوعِ انسانی کی فطرت کا حصہ رہا ہے۔ انسان قدیم زمانہ سے کائنات میں کارفرما قوانین کو دریافت کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ نظامِ شمسی، جنیاتی عوامل، فلک کے بدلتے رنگ، یہ ایسے موضوعات کی چند مثالیں ہیں، جن سے متعلق سوالوں کے جواب کی تلاش میں نوعِ انسانی عقل کے گھوڑے دوڑاتی رہی ہے۔
جب Director of Fermilab ، شکاگو کے ایک سائنسد اں Bob Wilson سے سوال کیا گیا کہ آپ کی لیب (Lab)(تجربہ گاہ) امریکی دفاعی نظام کے لیے کیا تعاون کرے گی؟
تو جواب میں Bob Wilsonکہتے ہیں: ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ یہ دفاعی نظام کو قابل اعتبار بنادے گی۔
عام طور پر محسوس کیا جاتا ہے کہ سائنسداں ثقافت کے فروغ میں تعاون کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جب تحقیق کی راہ میں پیش رفت ہوتی ہے تو سائنسی دریافتیں اور تحقیقی عمل، ثقافت کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ اس بات کی شہادت سقراط کے دور میں بھی ملتی ہے۔ سقراط کے دور میں یونان کا تعلیمی نظام اس فروغ کے امکان کے حق میں استدلال فراہم کرتا ہے۔
سقراط کاسوال ہے کہ ’’کیا ہم مضامین کے مطالعہ میں فلکیات کے علم کو شامل کرسکتے ہیں؟‘‘
Glauconکہتا ہے کہ’’بنیادی سائنس کا تعلق موسموں کی تبدیلی اور ماہ و سال کے تعین سے ہے۔ فوجوں کی نقل و حرکت اور کاشتکاری کی سرگرمیوں میں اس کا استعمال ممکن ہے۔‘‘
سقراط کا قول ہے:’’مجھے یہ مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں کی خفگی سے ڈرتے ہو۔ یعنی لوگ سمجھیں گے کہ تم بے فائدہ مضامین کی تدریس کے حق میں ہو۔‘‘
میرا خیال ہے کہ سائنسدانوں کو ثقافت کے فروغ کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اور عام رقم کا استعمال بنیادی سائنس کی ترقی کے لیے کرنا چاہیے۔ جس کا تعلق ثقافتی ارتقاء سے ہو۔ بنیادی سائنس میں ثقافتی امور کے پیش نظر تحقیقات کے لیے عام لوگوں سے اپیل کرنا نسبتاً آسان ہے۔ ان تحقیقات کا محرک معلومات کی فراہمی، اقتصادی بہتری اور ثقافتی ارتقاء ہے۔
(۲) اقتصادی اور عملی اعتبار سے اہم دریافتوں کا امکان
بنیادی سائنس میں تحقیق اقتصادی اہمیت کی بھی حامل ہے۔ اس تحقیق کے لیے مالی تعاون بہت منافع بخش ہے۔ اس میدان میں ایسی راہیں بھی نکالی جاسکتی ہیں کہ وسائل کی فراہمی میں آسانیاں پیدا ہوسکیں۔ شعبہ فزکس کے ماہر Cosimir اس تعلق سے بہت ہی تابناک مثالیں پیش کرتے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:
میں نے کئی دفعہ یہ بات سنی کہ تعلیمی میدان میں بنیادی تحقیق کی افادیت بہت معمولی ہے۔ تاہم یہ صریح طور پر مہمل خیال ہے بنیادی تعلیم میں تعاون ہمارے لیے خوش قسمتی کی بات ہوگی۔
Transistor کی دریافت کرنے والے افراد کی تعلیم و تربیت میں Wave Theory(لہروں کے نظریے) کا کوئی رول نہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کا تعاون اس نظریے کے فروغ میں بہت اہم ہے۔
ایک تجزیہ نگار یہ کہہ سکتا ہے کہ جن لوگوں نے کمپیوٹر کا سرکٹ ایجاد کیا ابتداء ً ان کے پیش نظر کمپیوٹر ایجاد کرنے کا ہدف نہیں تھا۔
اس کے برعکس مثال یہ ہے کہ نیوکلیائی ذرات کو دریافت کرنے والے سائنسدانوں کے پیشِ نظر نیوکیلر فزکس کے فروغ میں تعاون تھا۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں کے پیش نظر نیوکیلر پاور (توانائی) میں تحقیق کرنا تھا، انھوں نے صنعت کی ترقی میں رول ادا کیا۔ اطلاقی سائنس کے تعاون سے نئی نئی چیزیں دریافت کیں، جن کا بڑا فائدہ صنعت کے فروغ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن ان سائنسدانوں نے J.J.Thomson اور A.H.Lorentz جیسے محققین کئ دریافتوں سے کوئی مدد نہیں لی۔
یہ سوال ہمارے سامنے آسکتا ہے کہ موٹر کار میں استعمال ہونے والے انڈکشن کائل نے کن مراحل سے گزر کر موجودہ صورت اختیار کی۔ کیا اُس کی اختراح اُن لوگوں کا کارنامہ ہے جو تیز رفتار سواری بنانا چاہتے تھے۔ کیا ایسے موجد، انڈکشن کے قوانین کو دریافت کرسکتے تھے۔ واقعہ تو یہ ہے کہ مذکورہ قوانین کو فراڈے نامی سائنس داں نے موٹر گاڑی کی ایجاد سے دسیوں سال قبل ہی دریافت کرلیا تھا۔ اسی طرح تاریخی ترتیب پر غور کرنے والے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا فراڈے، اپنی تحقیقات کے دوران، برقی مقناطیسی لہروں کو بھی دریافت کرسکتا تھا۔ یہاں بھی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ فراڈے کی تحقیقات پر نصف صدی گزرجانے کے بعد، ہرٹز (Hertz)نامی محقق نے مذکورہ لہروں کو دریافت کیا۔ اس دریافت کا محرک، کوئی تمدنی ضرورت نہ تھی بلکہ Maxwell کی تشریح کے مطابق فزکس کے تصورات میں جو تناسب اور آہنگ موجود ہے اُس کے منطقی نتیجے پر Hertz نے توجہ کی۔ بیسویں صدی کی سائنس میں شاید ہی کوئی ایسی مثال ملے جو بنیادی سائنسی تصورات کی مرہونِ منت نہ ہو۔
کاسمیر(Casimir)نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اس بات کا اشارہ دیتی ہیں کہ اطلاقی سائنس اور بنیادی سائنس کا باہمی تعاون اقتصادی ترقی کے لیے بہت مفید ہے۔
(۳) ضمنی فوائد(Spin-Offs)اور صنعت کو محرک کرنا: ضمنی نتائج(Spin-Offs) سے مراد ایسے آلات اور تکنیک کی ترقی ہے جو بنیادی سائنسی تحقیق سے وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ یہ عام استعمال، صنعتی استعمال میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ مثالیں حسب ِ ذیل ہیں:
(۱)WWW (ورلڈ وائڈ ویب)
(۲) ای میل
(۳) وائر لیس -مواصلات
(۴) Acceleration رفتار افروز
(۵)نیم موصل صنعت
(۶) غذائی اشیاء کا ذخیرہ، طبی استعمال
(۷)شعاعوں کا استعمال
(۸) غیر تخریبی جانچ
(۹) کینسر کا علاج وغیرہ۔
یہ کہنا درست ہے کہ ضمنی فوائد کی اہمیت کا مدار، حالات سے مطابقت پر ہے مثلاً بنیادی سائنس کے میدان میں تحقیقات پر کتنی رقم صرف ہورہی ہے اور ان آلات کی تخلیق میں فزکس کا کیا رول ہے؟ عام طور پر بھی نظر آتا ہے کہ اقتصادی ماہرین اہم ضمنی فوائد کے حصول کے لیے اہلِ صنعت کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ایسے بہت سے آلات جو جدید الیکٹرانک فیکٹریوں میں بنتے ہیں جن کی ابتداء تعلیمی جامعات کی لیب میں ہوئی تھی۔ بہرحال سائنسی علوم کے باہمی تعاون سے بہت سے کارآمد آلات بنائے جاسکتے ہیں جن میں فزکس کے علاوہ حیاتیات، اور کیمیائی سائنس اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس سے صحت یابی اور تندرستی کی بقاء میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
بنیادی سائنس کے میدان میں سرگرم سائنسدانوں کی ہمت افزائی بھی ضروری ہے۔ اس طرح درست ترجیحات کو حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور تحقیق کے مضامین کو بروقت شائع کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اطلاقی سائنسداں کا ربط صنعتی سرگرمیوں سے ہوتا ہے۔ اس کی تحقیقات کا محرک، موزوں ڈیزائن کی تلاش ہے۔ اس تلاش میں سائنسدانوں کو مستقل مزاجی اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔
آئنسٹائن کا عام نظریہ اضافیت، مجرد نوعیت کا ہے لیکن عملی دنیا میں اس کا بھی انطباق، دریافت ہوگیا ہے۔ سب لوگ اس حیرت انگیز ایجاد سے واقف ہیں جسے GPSکہا جاتا ہے۔ یعنی ’’نظامِ جہاں بینی‘‘ جس کی مدد سے ہم زمین کے کسی بھی مقام سے موزوں راستے کا تعیین کرسکتے ہیں۔ GPSکی مدد سے دیگر مفید آلات بھی بنائے جارہے ہیں اور موجود موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کو زیادہ کارآمد بنانا ممکن ہے۔ GPSسے متعلق آلات کا کاروبار اربوں ڈالر کی مالیت کو پہنچ چکا ہے۔ GPSسے متعلق نظام مختلف مصنوعی سیارچوں سے آئے ہوئے سگنل کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ان سیارچوں میں ایٹمی گھڑیاں موجود ہوتی ہیں جو یہ سگنل بھیجتی ہیں۔ ان گھڑیوں کے ایجاد کے وقت ان کے اس استعمال کا تصور تک کسی کے ذہن میں نہ تھا بلکہ ان کی ایجاد، نظریہ اضافیت پر تحقیق کے پیش نظر کی گئی تھی۔ آئنسٹائن نے کششِ ثقل کی تبدیلی کے ساتھ، گھڑیوں سے معلوم ہونے والے وقت کی رفتار میں تبدیلی کی جو پیشن گوئی کی تھی، اس کی صداقت جانچنا مقصود تھی۔
(۴)تعلیم:
بنیادی سائنس کے میدان میں تحقیق کا تجربہ، اطلاقی سائنس اور صنعتی ترقی کے میدانوں میں کام کے لیے طلباء وسائنسدانوں کی تربیت کرتا ہے۔ اس طرح تحقیقی اور تعلیمی میدان میں اہم تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ یہ تعلق محض صنعتی سرگرمیوں میں شرکت سے ممکن نہیں ہے۔ اقتصادیات کے ماہرین اس تعلق کی افادیت تسلیم کرتے ہیں۔ بنیادی سائنس کے شائق طلباء فلکیات اور تجرباتی فزکس (Applied Physics)کے میدان میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس حوالہ سے بنیادی سائنس کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے، اور اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
کائنات کے اندر نئے نئے انکشافات مذہبی افکار کے حق میں دلائل فراہم کرتے ہیں۔ Joesh H۔ Taylor (فزکس میں نوبل پرائز یافتہ ۱۹۶۳) پُرکشش انداز میں اظہارِ خیال کرتے ہیںکہ :’’سائنسی تحقیقات کی سرگرمی ایک مذہبی تحقیقی عمل بھی ہے۔ سائنس اور مذہب کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں۔ کائنات کے متعلق تحقیق تصورِ خدا پر یقین میں اضافہ کرتی ہے۔‘‘
عظیم دھماکہ Big Bangکے نظریے کی دریافت سے قبل یہ عام تصور تھا کہ کائنات میں جبریت کا قانون کارفرما ہے۔ اس کائنات کے نظم کو چلانے کے لیے، کائنات سے ماوراء کسی خدا کی حاجت نہیں۔یہ کائنات اپنی جگہ خود مستحکم ہے۔ اس کی ساخت میں کوئی تعبیر یا اضافہ ہونا ممکن نہیں۔
عظیم دھماکے Big Bangکی تائید کرنے والی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں تغیر نہ ہونے کا دعویٰ حقائق سے مطابق نہیں رکھتا۔ اس تحقیق سے کائنات یا حیات کی ابتداء کا تصور ملتا ہے۔ یہ تحقیق اس کائنات سے ماوراء ایک خدا کے وجود کے حق میں شہادت پیش کرتی ہے۔
کائنات کے بارے میں مذکورہ ماڈل کے برعکس جو تصور پیش کیا گیا وہ عظیم دھماکے کا تھا۔ اس نئے تصور کی مشاہدے نے تصدیق کی ہے۔ اس تصور کے مطابق کائنات تغیر پذیر ہے۔ اس سے کائنات کے خالق کے وجود کے لیے ناقابلِ انکار شہادت فراہم ہوتی ہے۔ جارج پولیزر جیسے مادہ پرست نے بھی اس حقیقت کو اپنی کتاب میں تسلیم کیا ہے۔ البتہ وہ خالق کے انکار کے لیے ’’غیر محدود کائنات‘‘ کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’کائنات کسی تخلیق کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خدا نے اس کو محض ایک لمحے میں پیدا کردیا ہوتا اور وہ یکایک عدم سے وجود میں آجاتی۔ اگر کوئی شخص تخلیق کا قائل ہے تو اسے ایک ایسے زمانے کا تصور بھی کرنا پڑے گا جب کائنات موجود نہ تھی۔ گویا’’لاشے‘‘ سے ’’شے‘‘ وجود میں آگئی۔
دوسرا حیرت انگیز انکشاف حیاتیاتی سائنس کے میدان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ انکشاف بھی ایک خالق کا تصور پیش کرتا ہے۔
ایک نوع کے افراد کی نئی نسلوں تک توارثی خصوصیات کی منتقلی، ڈی این اے (DNA)کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ DNAایک تیزاب ہے جو سیل کے مرکز میں پایا جاتا ہے۔ DNAمیں چار قسم کے نائٹروجن بیس پائے جاتے ہیں۔ یعنی اڈینائن(Adenine) ، گانین(Guanine)، سائٹوسین(Cytosine)، تھائمین(Thymine)۔ مل کر یہ ایک جنیاتی کوڈ ترتیب دیتے ہیں۔ یہ کوڈ ایک خاص قسم کے امینو ایسڈ سے متعلق ہے۔ یہ بیس انگریزی زبان کے حروف تہجی سے موسوم ہوتے ہیں۔
DNAایک نوع کے افراد کی خصوصیات کو اسی نوع کے آنے والی نسلوں تک پہنچاتا ہے۔ خصوصیات کو متعین کرنے والی معلومات کی منتقلی بہت زیادہ درست ہوتی ہے اور غلطی کے امکانات نہ کے برابر ہوتے ہیں۔ DNA Exonucleareمیں موجود انزائم (Enzyme)کے ذریعہ اس غلطی کی بھی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ DNAایک زبردست قانون کی رہنمائی کے بغیر توارثی معلومات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے میں قاصر ہے۔
دنیا میں پائے جانے والے کسی بھی غیر جاندار نوع میں یہ قوت کارفرما نظر نہیں آتی نہ یہ غیر جاندار اشیاء کی طرح کا جنیاتی کوڈ بناتی ہیں۔ اس لیے DNAکے اندر جینیاتی کوڈ کے ذریعہ معلومات کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کی غیر معمولی قوت وجودِ باری تعالیٰ پر دلالت کرتی ہے۔ بنیادی سائنس کی تحقیق کی یہ اہم مثالیں ہیں جو انسانی معلومات کو فروغ دیتی ہیں اور انسانی سماج میں سائنس کے فعال کردار کا مظہر ہیں۔