بنارس ہندویونیورسٹی میں ایس آئی او کی عالمی کانفرنس کا انعقاد

ایڈمن

یونیورسٹی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام۔ اسلام کا پیغام پہلی مرتبہ یونیورسٹی کیمپس میں۔ ملک وبیرون ملک کی نمایاں شخصیات کی شرکت۔افتتاحی سیشن میں معروف اسلامی دانشورومفسر قرآن ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا خطاب ۱۵؍۱۶؍جون…

یونیورسٹی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام۔ اسلام کا پیغام پہلی مرتبہ یونیورسٹی کیمپس میں۔

ملک وبیرون ملک کی نمایاں شخصیات کی شرکت۔افتتاحی سیشن میں معروف اسلامی دانشورومفسر قرآن ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا خطاب

۱۵؍۱۶؍جون ۲۰۱۵ ؁ء کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں ’فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تعمیر وطن‘‘ کے مرکزی موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کانفرنس ایس آئی او آف انڈیا اور شعبہ سیاسیات بنارس ہندو یونیورسٹی کے اشتراک سے بخیروخوبی اختتام پذیر ہوئی۔ اس اہم کانفرنس میں ملک وبیرون ملک کی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا آغاز پروفیسر کوشل کمار مشرا کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ آپ نے کہا کہ یہ کانفرنس ایک تاریخی قدم ہے، جس کا سہرا ایس آئی او اور بی ایچ یو کے سر جاتا ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ تعلیمی اداروں کی سرگرمیاں صرف یونیورسٹی کے احاطے تک محدود نہیں ہونا چاہئیں، بلکہ انہیں سماج کے مسائل سے دلچسپی اور ان کے حل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔ پہلے سیشن میں جناب وشویش تیرتھ سوامی جوکہ اڈپی (کرناٹک) سے تشریف لائے تھے،انہوں نے پرزور انداز میں ملک میں جاری متنازع بیانات نیز تنازع پیدا کرنے والی سرگرمیوں کی مخالفت کی۔ گھر واپسی مہم کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی کا عقیدہ ومذہب زورزبردستی نہیں تبدیل کیا جاسکتا۔ جناب رام شنکر کٹاریہ (مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل) نے کہا کہ ہمیں سوامی وویکانند جی کے پیغام پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے کہ تمام فرقوں اور اکائیوں کو ملک کی تعمیر وترقی کے لیے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج اسکول کے بچے اپنے گھروں سے کتابوں کے بجائے پلیٹیں لے کر آتے ہیں تاکہ مڈڈے مل اسکیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ہمیں غریبی، استحصال، اور فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف صف بستہ ہوکر لڑنا ہوگا۔ آپ نے اس کانفرنس کے تئیں مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا، اور ساتھ ہی بی ایچ یو اور ایس آئی او کو مبارک باد دی۔ سوامی سرسوانند سرسوتی نے کہا کہ کسی بھی مذہب میں ہمیں نفرت کی تعلیم نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مبارک موقع پر میں صرف ایک ہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مسرت اور مسکان کی فضا کو فروغ دیجئے، مسکان کی فضا کو عام کرنا یوگا کو فروغ دینے سے نفع بخش ہے۔ عیسائی رہنما ڈاکٹر تھامس نے اس موقع پر کہا کہ آپ لوگ ایک سمندر کے مانند ہیں جو بآسانی پیاسے تک پہنچ سکتا ہے۔ مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی صاحب نے کہا کہ ہم اپنے وکاس اور ایکتا کے نعروں میں کامیاب نہیں ہوپائے، حالانکہ ہم آزادی کے حق کی بات کرتے ہیں، یہ اس وجہ سے کہ ہمارے سیاست دانوں کے قول وفعل میں تضاد ہے، غریبی، نفرت، بدحالی اور دوسرے سماجی مسائل کے حل کے بغیر ہم تعمیر وترقی نہیں کرسکتے۔ اسلام کے آفاقی نظام کو پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ اسلام کے پا س تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام صرف کچھ خاص لوگوں کا مذہب نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے آیا ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کو اس کی صحیح شکل میں پیش کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو نفرت، غریبی، ناانصافی اور جہالت کے پھندوں سے آزاد کرایا، اور انسانیت کو آپسی بھائی چارے اور امن کا درس دیا۔ اس طرح کے مذاکرات آپس کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں نیز فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس موقع پر محترم اقبال حسین صدرتنظیم ایس آئی او آف انڈیا نے کہا کہ تنظیم اپنے آغاز سفر سے ہی اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ مختلف جماعتوں اور فرقوں کے درمیان دوریاں ختم ہوں، یہ کانفرنس بھی اسی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ ایس آئی او اپنی اس کوشش کو جاری رکھے گی اور دوسرے فرقوں کی طرف سے مستقبل میں اگر ایسے پروگرام ہوتے ہیں تو تنظیم انہیں خوش آمدید کہے گی۔
دوسرے دن کا پروگرام محترم الف شکور جنرل سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا کے افتتاحی کلمات سے شروع ہوا، انہوں نے ان تمام ریسرچ اسکالرس کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنے مقالات ایس آئی او آف انڈیا کی اس کانفرنس میں پیش کیے، اسی طرح آپ نے ایس آئی او نیز بی ایچ یو کے منتظمین کو سراہا۔ جناب لکشمی کانت بھاجپئی نے کہا کہ خدا نے ہوا، پانی اور دوسرے قدرتی وسائل کی تقسیم میں بھید بھاؤ نہیں کیا ہے، یہ سب کے لیے یکساں ہیں۔ مجاہدین آزادی کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ’’ان شہیدوں کے بھارت کا نرماڑ کرنے میں آج ہم سے کہیں چوک ہورہی ہے‘‘، مزید کہا کہ ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی پر عمل کیا، کوئی بھی ملک نفرت اور فرقہ وارانہ کشمکش کے ساتھ ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ کیرلا کے اندر تعلیم اور خواندگی کی بہتر صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ وہاں کے شہریوں میں کوئی بھی سیاست نفرت کا بیج نہیں بو سکتی، چونکہ وہاں تعلیم کا فروغ عام ہے۔ جناب محمد اقبال ملا صاحب سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’یہ پروگرام نئی نسل کی تعمیر، ذہن سازی کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ یہاں سے وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نیا پیغام لے کر جائیں گے۔ بہت سے پروفیسرس اور ریسرچ اسکالرس نے مقالے پیش کیے، ان کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔ بہنوں اور بھائیوں! ہمیں اپنی آنکھوں سے پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ یہاں کی بڑی پریشانی مختلف طبقوں کے درمیان نفرت بھری ذہنیت ہے، اور یہ ذہنیت ملک کی ایکتا کے لیے بہت خطرناک ہے‘‘۔ قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا: اللہ نے تم کو قبیلوں اور طبقوں میں بانٹا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام امن کو عام کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت تمام بھارت واسیوں کا ملک ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، ظالم کی مدد کیسے کریں گے، آپؐ نے فرمایا: اسے ظلم سے روک کر‘‘۔ اقبال ملا صاحب نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم سب کو آخرت کے دن جب تمام انسانوں سے حساب کتاب لیا جائے گا، اپنے اچھے برے کاموں کا حساب دینا ہوگا۔ جناب پرم جیت صاحب گرودوارہ بنگلا صاحب نئی دہلی، نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں جو تشدد اور نفرت کی فضا کو ہموار کرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ کوئی بھی مذہب اس کی تعلیم نہیں دیتا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جب سیاسی لیڈران یکساں پالیسی کے لیے ملک میں دوڑ بھاگ کرسکتے ہیں تو مذہبی رہنما ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ وہ بھی کچھ مقاصد میں یکجا ہوجائیں؟ وہ ہمیشہ سیاست دانوں کے استحصال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
جناب اقبال حسین صدر تنظیم ایس آئی او آف انڈیا نے کہا کہ اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کیں، ان صلاحیتوں کے بغیر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دنیا کی مادی ترقی اور چمک دمک سب کچھ انسانی ذہن کی دین ہے، اسی طرح تباہی اور نقصانات کا بڑا سہرا بھی انسانی ذہن کے سر ہی جاتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیسے کرے۔ انسان کو الٰہی رہنمائی کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ الٰہی ہدایات کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک تربیت اور رجوع الی اللہ کی بھی شدید ضرورت ہے۔ یہ صدی ان شاء اللہ خالق کائنات کو پہچاننے کی صدی ثابت ہوسکتی ہے۔ ہمیں کبھی اس نتیجے تک نہیں پہنچنا چاہئے کہ سب کچھ صحیح ہے، بلکہ کھلے دل کے ساتھ سچائی اور حق کی تلاش جاری رکھنا چاہئے۔ اپنے خیالات، عقیدہ اور مذہب کو کسی پر زبردستی تھوپنے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں