دنیا میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بڑا مرتبہ حاصل ہوجائے ، بڑی پوزیشن مل جائے ، ،ہر جگہ اس کی عزت کی جائے ، ہر شخص اس کے ساتھ احترام سے پیش آئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بلند مرتبہ ہرکسی کے لئے ممکن ہے؟! یقینا، گرچہ اس کا حصول بہت زیادہ آسان نہیں ہے، تاہم بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے، بس ذرا سا مجاہدہ کی ضرورت ہے ۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد آئیے، غور کریں اس روایت پر جس میں بلند مرتبہ حاصل کرنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے:
عن عبادۃ بن الصامتؓ قال قال رسول اللہ ﷺ الا ادلکم علی ما یر فع اللہ بہ الدرجات؟ قالو ا: نعم : یا رسول اللہ، قال: تحلم علی من جھل علیک وتعفوا عمّن ظلمک وتعطی من حرّمک وتصل من قطعک ۔ ( رواہ الطبرانی ) (حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں وہ کام نہ بتا ؤں جس کے ذریعہ سے اللہ رب العزت تمہارے درجات بلند کرتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص سے بردباری کے ساتھ پیش آؤ جو تمہارے ساتھ جہالت کا معاملہ کرے ۔ اسے معاف کردو جو تم پر ظلم کرے۔ اس شخص کو نوازو جو تمہیں محروم رکھے۔اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو جو تمہارے ساتھ قطع تعلق کرے۔)
آئیے غور کریں کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ کسی کی بڑائی اسی وقت معتبر ہوگی جبکہ اس کے اندر یہ صفات پائی جائیں گی کہ وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں اور بد تمیزی سے پیش آنے والوں کے ساتھ معافی کا رویہ اختیار کرے۔ اخلاق وکردار کے لحاظ سے جو لوگ بڑے ہوں گے وہی لوگ حقیقت میں بلند مرتبہ والے مانے جائیں گے ۔ اندازہ کریں کہ وہ اخلاق کا کتنا اونچا مقام ہوگا کہ گالیاں دینے والوں کو گالیوں کے بدلے میں دعائیں دی جائیں ، بدخلقی سے پیش آنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ ہو ، عفو و در گذر اس درجہ کا ہو کہ ظالم کے تمام حربے اس کے عفو در گذر کے سامنے بے سود ثابت ہوں ، سخاوت اور فیاضی اس درجہ کی ہو کہ کسی کی تنگ دلی یا کنجوسی اسے ذرا بھی متأثر نہ کر سکتی ہو، رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ اس قدر مستحکم ہو کہ اقرباء کی بے رخی اور سرد مہری اس کے جذبہ کو سرد نہ کر سکتی ہو ۔ ایسا شخص یقیناًاخلاق کے بلند ترین مقام پر ہوگا، چاہے دنیا کی نظر میں وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو ۔
یہ چار باتیں دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے لئے نہایت مؤثر ہتھیا ر ثابت ہوتی ہیں۔ عفو و در گذر سے کام لینے کی صفت بڑے سے بڑے تند خو کو بھی نیک اور صالح بنا دیتی ہے ۔ادفع بالتی ھی احسن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’داعی کو صابر اور بردبار ہونا چاہئے ، لوگ اگر اس کو غصہ دلانے کی کوشش کریں تو ایسے موقع پر داعی کو مشتعل نہیں ہونا چاہئے بلکہ بد سلوکی کا جواب عفو ودر گذر سے دے۔‘‘ اگر یہ دو ہتھیار آپ کے پاس ہوں گے تو بڑے سے سے بڑے دشمن نہ صرف یہ کہ آپ کے آگے جھک جائیں گے بلکہ گہرے دوست بن جائیں گے ۔ واللہ ولی التوفیق
مذکورہ روایت پر عمل کے لئے انسان کواپنے نفس اور جذبات پر کنڑول رکھنا پڑے گا۔ جب انانیت اور نفس کے سامنے انسان جیت جائے گا تو پھر اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کو اپنے اخلاق اور کردار کی قوت سے بڑامقام حاصل ہوگا۔ یقیناً
دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے
(برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکل )
بلند مرتبہ حاصل کرنے کے ذرائع
دنیا میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے بڑا مرتبہ حاصل ہوجائے ، بڑی پوزیشن مل جائے ، ،ہر جگہ اس کی عزت کی جائے ، ہر شخص اس کے ساتھ احترام سے پیش آئے۔ سوال یہ ہے…