بعد والے

ایڈمن

ڈاکٹر وقار انور عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ ﷺ اشد امتی لی حبا قوم یکونون او یخرجون بعدی یود احد ھم انہ اعطی اھلہ ومالہ وانہ رائی (السلسۃ الصحیحہ حدیث نمبر 3362)۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ سے مروی…

ڈاکٹر وقار انور

عن ابی ذر قال: قال رسول اللہ ﷺ اشد امتی لی حبا قوم یکونون او یخرجون بعدی یود احد ھم انہ اعطی اھلہ ومالہ وانہ رائی (السلسۃ الصحیحہ حدیث نمبر 3362)۔
ابوذر رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا: میری امت میں مجھ سے شدید ترین محبت کرنے والے ایسے ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر شخص چاہے گا کہ وہ اپنا گھر بار اور مال دے دے اور مجھے دیکھ لے۔

دیگر متعدد احادیث میں قابل قدر بعد والوں کا تذکرہ پسندیدہ انداز میں آں حضرت ؐنے کیا ہے حتیٰ کہ چند احادیث میںآپؐ نے ان ’’بعد والوں‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک وضاحت کردی ہے کہ وہ آپؐ کے اصحاب کرام سے زیادہ اچھے ہوں گے۔ ہم اس بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ قیامت تک جو ادوار آتے رہیں گے اس میں ایسے افراد امت مسلمہ میں رہیںگے جو قابل قدر ہوں گے، البتہ اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے بہتر افراد کا دور نہیں آسکے گا۔ شرف صحابیت کی اہمیت برقرار ہے اور رہے گی۔ بعد والے صحابہ کرام سے محبت اور رشک کرتے رہیں گے کہ انہوں نے ایمان کی حالت میں سید نامحمد الرسول اللہ ؐکا دیدارکیا اور اتباع رسول کر کے اس شرف کاحق ادا کردیا۔

آں حضرت کا دیدار بنفس نفیس نہیں کر سکنے کی حسرت بعد کے تمام ادوار کے مومنین صالحین کو رہی ہے اور رہے گی اور اس کی قدروقیمت ان لوگوں کے سامنے اتنی زیادہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں اہل و عیال اور مال و متاع کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث ایک طرف ایک صورت واقعہ کو بیان کرتی ہیں کہ امت مسلمہ میں حضور ؐکے بعد کے زمانے میںبھی ایمان و عمل کے لحاظ سے بلند پایہ افراد موجود رہیں گے۔ اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ہر صدی میں مجددین اور ہر زمانہ میں اونچے درجہ کے عباد الرحمن موجود رہے ہیں اور ان شاء اللہ یہ امت قیامت تک ایسے رجال سے خالی نہیں ہوگی۔دوسری طرف ایسی احادیث ترغیب دلاتی ہیں کہ دور نبوی نہیں پانے کے باوجود اس پاک دور کی سعادتوں میںاپنا حصہ پانے کی سعی کا دروازہ بندنہیں ہوا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا دروازہ کھلا رکھا ہے بشرطیکہ کسی فرد کو اس کی توفیق حاصل ہو جائے اور وہ رسول اللہ ؐکی شدید محبت کو اختیار کرے اور اس کے تقاضے کو پورا کرے۔

درج بالا حدیث میں محبت رسول کے تقاضے کو خوبصورت پیرائے میں بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اس کے مقابلہ میں انسان اپنا گھر بار اور مال (اھلہ و مالہ) بھی قربان کرنے میں جھجھک نہ محسوس کرے اور یہی دعویٰ محبت کا اصل ثبوت ہے۔ یہ دعویٰ زبان سے نکلنے والے الفاظ کے ادا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس راہ میں سب کچھ لٹا کر بھی مسرور و مطمئن ہونے کا نام ہے۔

حضور ؐکا ایمان اور محبت کے ساتھ دیدار ہو جانے کی جس سعادت کا اس حدیث میںذکر ہے اس کاتعلق ماضی سے نہیں ہے کیوں کہ گردش ایام پیچھے کی طرف لوٹ نہیں سکتا ہے۔ اس کا تعلق حال اور مستقبل سے ہے۔احادیث میںخواب میں دیدار ’قبر میں دیدار‘ میدان حشر میں شفاعت، حوض کوثر پر ملاقات اور جنت میں حضور ؐسے قربت نصیب ہونے کا ذکر واضح طور پر موجود ہے۔ سچی بات تویہ ہے کہ ہر بندہ مومن کے قلب میں ان تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی تمنا موجود ہوتی ہے۔ درج بالا حدیث اسی بات کی ترغیب دلاتی ہے اور امیدجگاتی ہے کہ حضور ؐکی اتنی شدید محبت کو اپنے قلب میں جگہ دی جائے کہ دنیا میں موجود تمام نعمتیں چاہے وہ گھر بار ہو یا مال و متاع وہ سب حقیر لگنے لگیں اور محبت کی راہ اگر تقاضہ کرے تو ان کو قربان کر دینا سہل ہو جائے۔ محبت قربانی کا تقاضہ کرتی ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں