بجٹ 2015 ۔ مواقع جو کھودیئے گئے

ایڈمن

جناب ارون جیٹلی فائنانس منسٹر نے بجٹ ۲۰۱۵ ؁ء کی اپنی تقریر میں درج ذیل شعر بھی پڑھا تھا ؂ کچھ تو پھول کھلائے ہم نے اور کچھ پھول کھلانے ہیں مشکل یہ ہے باغ میں اب تک کانٹے کئی…

جناب ارون جیٹلی فائنانس منسٹر نے بجٹ ۲۰۱۵ ؁ء کی اپنی تقریر میں درج ذیل شعر بھی پڑھا تھا ؂
کچھ تو پھول کھلائے ہم نے اور کچھ پھول کھلانے ہیں
مشکل یہ ہے باغ میں اب تک کانٹے کئی پرانے ہیں
اس شعر سے جس منفی ذہنیت کا اظہار ہورہا ہے اس کے مقابلے میں اردو کے دوسرے شعراء کے یہاں وسعتِ قلبی پائی جاسکتی ہے۔ ایک شاعر کا شعر ہے ؂
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جارہا ہوں میں
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جانے کے حق میں جوش ملیح آبادی نے مضبوط دلیل پیش کی ہے ؂
کہتا ہے کون پھول سے رغبت نہ چاہیے
کانٹوں سے بھی مگر تجھے وحشت نہ چاہیے
کانٹے کی رگ میں بھی ہے لہو سبزہ زار کا
پالا ہوا ہے وہ بھی نسیمِ بہار کا
بجٹ کی تقریر میں جن پھول کھلائے جانے کا ذکر ہے اس میں موجودہ حکومت نے اپنے کارناموں کی فہرست گنائی ہے اور اپنی پیٹھ ٹھونکی ہے۔ مستقبل میں کیے گئے وعدوں کا تذکرہ مزید پھول کھلائے جانے کے حوالے سے کیا گیا ہے اور اپنی ناکامیوں کا سہرا کانٹوں یعنی سابقہ حکومت کے سر ڈال دیا گیا ہے۔
کھلے اور کھلائے جانے والے پھول
فائنانس منسٹر نے اپنی حکومت کے کارناموں میں تین باتوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور مستقبل قریب میں جو اچھے کام کئے جانے ہیں ان میں سے تین باتوں کا خاص طور پر اعلان کیا۔ جو پھول کھلائے جاچکے ان میں جن دھن یوجنا کے تحت 12.5؍کروڑ خاندانوں کو معاشی مرکزی بہاؤ (Financial Mainstream) میں لانا، کوئلہ کا آکشن (Coal Auction) اور سوچھ بھارت (صاف ستھرا ملک) شامل ہیں۔ پہلی اسکیم کے تحت ان کروڑوں خاندانوں کا بینک اکاؤنٹ کھلنا، ان کے اکاؤنٹ میں رقم فراہم کرنا اور انہیں قرض لینے کی سہولیات فراہم کیا جانا ہے، جبکہ صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ بینک اکاؤنٹ کھولے جانے کا کچھ کام ہوا ہے اور بس۔ باقی وعدے ہی وعدے ہیں۔ عوام ان وعدوں پر جئے جارہی ہے۔ بے وفائی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ کوئلہ بلاک کے فروخت کا کام جاری ہے اور اس سلسلے میں رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔ جہاں تک صاف ستھرے ہندوستان کا تعلق ہے وہ صرف ایک سیاسی شعبدہ بازی بن کر رہ گیا ہے۔
جو نئے پھول کھلائے جانے ہیں انہیں جام ثلاثہ (JAM TRINITY) سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس ’جام‘ کا پہلا گھونٹ تو کڑوا سا وہی جن دھن یوجنا ہے۔ اس مئے میں بقیہ چیزیں آدھار اور موبائیل ہیں اور یہ بات کہی گئی ہے کہ اس ’’تثلیث‘‘ سے عوام تک معاشی فوائد راست پہنچانے کا کام کیا جائے گا۔ معاشی فوائد کو راست فراہم کرنے کا تصور اور اس کے تحت پیش قدمی این ڈی اے حکومت کے زمانے سے جاری ہے تاکہ سبسڈی (Subsidy) فراہم کرنے کا حکومتی بوجھ کم کیا جاسکے۔ نئی حکومت اسی ’جام‘ کو نئی بوتل میں پیش کررہی ہے اور اس نے اس کے حق میں یہ مضبوط دلیل فراہم کی ہے کہ اس طرح سبسڈی کی جو رقومات عوام تک نہیں پہنچ کر بیچ ہی میں ضائع ہوجاتی ہیں ان پر کنٹرول کیا جاسکے گا۔ اس طرح وسائل کے غیرمطلوبہ بہاؤ (Leakage) پر قابو پانا ممکن ہوجائے گا۔
عوام نے بجٹ سے متعلق بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن یہ وہ امیدیں ہیں جو بر نہیں آئیں۔ انکم ٹیکس ادا کرنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے ہاتھ میں یہ بجٹ زیادہ رقم فراہم کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ٹرانسپورٹ الاؤنس میں آٹھ سو روپے ماہانہ کے اضافے کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز ٹیکس ادا کرنے والے عام انسان کو نہیں ملی۔ دوسری طرف سروس ٹیکس کی منفی لسٹ میں مزید تخفیف کرکے اور اسے 12.36%سے بڑھا کر 12.4%کرکے عام آدمی کی جیب مزید ہلکا کرنے کا نظم کردیا گیا۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث یہ امید کی جارہی تھی کہ اس کا فائدہ نیچے تک پہنچایا جائے گا۔ یہ امیدبھی بر نہیں آئی۔
انشورنس (بیمہ) سے متعلق اسکیمیں بجٹ میں پیش کی گئی ہیں اور اسے عوامی فلاحی کام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیمہ اسکیموں کے نتیجے میں اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ کا تجربہ شاہد ہے کہ یہ طریقہ بیمہ کمپنیوں کو منافع دینے والا اور عوام کو زیر بار کرنے والا ہے۔ بجٹ کی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ برآمدات میں اضافہ نہیں ہورہا ہے اور پیداوار میں کمی آئی ہے۔ ایک ایسی سرکار جو کاروبار دوست سمجھی جاتی ہے اور جس کا نعرہ ملک میں بناؤ (Make in India) کا ہو، اس کی حکومت کے دور میں ایسا ہونا ناقابل فہم ہے۔
انکم ٹیکس ایکٹ میں اصلاح کے لیے ڈائرکٹ ٹیکس کوڈ (DTC)کے نام سے جس نئے قانون پر پچھلے کئی برسوں سے کوششیں جاری تھیں اسے ایسا لگتا ہے اس حکومت نے اسے سرد خانے میں ڈال دیاہے۔
کاموڈیٹی فارورڈ ٹریڈنگ (Commodity Forward Trading)کو SEBI کے تحت لانے کا جو اعلان کیا گیا ہے اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ اول الذکر میں اضافہ ہوگا۔ اشیاء میں فارورڈ ٹریڈنگ میں غیر معمولی اضافہ سابقہ اٹل بہاری حکومت کے دور میں کیا گیا تھا۔ اب اسی کے نقشِ قدم پر مودی سرکار اس کاروبار کو مزید بڑھاوا دینے کے موڈ میں ہے اور اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کیا جارہا ہے کہ اس طرح کی فارورڈ ٹریڈنگ دراصل سٹہ بازار کو بڑھاوا دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں اشیاء کی قیمت دن دوگنی رات چوگنی بڑھنے لگتی ہیں۔
بجٹ کے تمام مشمولات منفی نہیں ہیں، اچھی چیزیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے نگاہ ڈالی جائے تو محسوس ہوگا کہ جیٹلی صاحب کے پچھلے بجٹ کے مقابلہ میں اس دفعہ گاؤں پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ پچھلا بجٹ دراصل شہری زندگی کی چمک دمک بڑھانے کا نقشہ پیش کرتا تھا جبکہ یہ بجٹ دیہی زندگی کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہے۔
مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس حکومت نے معیشت کے اسی نقشے پر رنگ بھرنے کا طریقہ اختیار کیا ہے جس پر ۱۹۹۲ء سے ملک کی معیشت کار بند ہے۔ کانگریس ہو یا بی جے پی سب ایک ہی معیشت کے فلسفے پر عامل ہیں اور نتیجتاً مہنگائی میں اضافہ اور عام آدمی کے لیے عرصہ حیات تنگ ہونا معمول ہوگیا ہے۔
میک ان انڈیا (Make in India)
وزیر اعظم ، وزیر مالیات اور دوسرے ارباب حل وعقد ’بھارت میں بناؤ‘ کا نعرہ بار بار لگارہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ بات پسندیدہ ہے کہ ملک عزیز کی معاشی ترقی بیش از بیش ہو اور اس کا فائدہ ملک کی عوام کو پہنچتا رہے اور ہم تمام ہی افراد کی شادمانی اور شادکامی میں اضافہ ہوتا رہے۔ اس نعرے کے مطابق کام کرنے کی راہیں تلاش کرنے کا یہی بجٹ کا موقع تھا۔ لیکن ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ باتیں نظرانداز کردی گئیں یا ہماری ہی نظر کا قصور ہے!
’’بھارت میں بناؤ‘‘ کا ایک مطلب یہ ہے کہ غیرملکی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ملک میں مالی وسائل تو باہر سے لائیں لیکن دیگر وسائل یہیں کے استعمال کریں۔ یہ بات آسان نہیں ہے، کیونکہ باہر کی کمپنیاں ہماری مرضیات کی تابع نہیں ہیں۔ یہ طریقہ انہیں ملک میں پیداوار کے کام میں شریک ہونے سے روکنے والا ہوگا۔ اس نعرے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم خود پیداواری عمل میں ملک میں موجود وسائل کا بہترین استعمال کریں اور باہر کے وسائل کے استعمال سے ممکن حد تک احتراز کریں۔
ملک کے اندر پیداواری عمل کے لیے جن وسائل کی حاجت ہے ان میں ٹکنالوجی بھی ہے جس کے حصول کے لیے ہمیں باہر کے ملکوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دیگر وسائل ہمارے پاس مہیا ہیں یا انہیں تھوڑی سی توجہ کے ساتھ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاََ انسانی وسائل (Human Resourses) میں بھارت کا معیار اونچا ہے جس کی وجہ سے ملک اور ملک کے باہر ہمارے ماہرین اپنی کارکردگی کا لوہا منوارہے ہیں۔ مجوزہ بجٹ میں دیہات کے نوجوانوں اور دیگر افراد کی کارکردگی وصلاحیت کے ارتقاء (Skill Development) کی تجاویز دی گئی ہیں، جو خوش آئند ہیں۔
تقریباََ یہی بات مالی وسائل کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ملک میں وافرمقدار میں مالی وسائل موجود ہیں۔ مسئلہ صرف ان وسائل کو پیداواری عمل میں استعمال کرانے میں کامیابی کا ہے۔ بجٹ کے ساتھ آمدوصرف کا جو گوشوارہ دیا جاتا ہے اس کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو قرض کے طور پر ایک بڑی رقم ملک کے اندر سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی رقم اگر قرض کے بجائے نفع ونقصان کی بنیاد پر حاصل کی جائے اور اس ملک میں پیداواری عمل کے لیے استعمال کرنے کا ماحول بنایا جائے تو ’بھارت میں بناؤ‘ کا نعرہ حقیقت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ ملک کی معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں۔ سود کی بناء پر ملک وبیرون ملک سے قرض حاصل کرنے کے بجائے نفع ونقصان کی بنیاد پر سرمایہ (Equity Capital)کے ذریعے ملکی معیشت کے فروغ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر معیشت کی زبوں حالی برقرار رہے گی اور حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔ بجٹ کے ساتھ حساب وکتاب کی جو تفصیلات پیش کی جاتی ہیں ان کے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم ہر سال نیا قرض پرانے قرضوں کے ادا کرنے کے لیے لیتے ہیں۔ نئے قرض کا 95% سے زیادہ اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور یہی صورتحال ہر سال کے جائزے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا علاج یہی ہے کہ سرمایہ کاری کے غیرسودی طریقے کی طرف توجہ دی جائے ۔ اس کے لیے جس ہمت اور فکرمندی کی ضرورت ہے اس کی کمی سابقہ بجٹ کی طرح اس بجٹ میں بھی پائی گئی۔ سمت سفر میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی مطلوب ہے۔

ڈاکٹر وقار انور، شعبہ مالیات مرکزجماعت اسلامی ہند

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں