اے کے ٹی یو – کلام کے نام پر باکمال یونیورسٹی

ایڈمن

طلحہ منان اے ایم یو، علی گڑھ   ٹیکنالوجی کی پڑھائی کی بات ہو اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ٹیکنیکل یونیورسٹی یعنی اے کے ٹی یو کا ذکر نہ آئے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ اے کے ٹی یو ایشیا…

طلحہ منان
اے ایم یو، علی گڑھ

 

ٹیکنالوجی کی پڑھائی کی بات ہو اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ٹیکنیکل یونیورسٹی یعنی اے کے ٹی یو کا ذکر نہ آئے، ایسا ممکن نہیں ہے۔ اے کے ٹی یو ایشیا کی ایسی منفرد یونیورسٹی ہے جہاں طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس سے جڑے 636 انجینئرنگ اور مینجمنٹ کالجوں میں تقریباً پانچ لاکھ طلبہ پڑھائی کر رہے ہیں۔ 8 مئی 2000 کے دن اس یونیورسٹی کی بنیاد ذیلی تکنیکی یونیورسٹی کے طور پر رکھی گئی تھی۔ سابق صدر اور میزائل مین کے نام سے مشہور سائنسداں ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کا نام اسے 5 مئی 2015 میں ملا۔ موجودہ شیخ الجامعہ پروفیسر ونئے کمار پاٹھک کلام کے خوابوں کی تعبیر کے لئے مسلسل کوشاں ہیں اور گاؤں گاؤں تک ٹیکنالوجی پہنچانے کے لئے ڈیجیٹل انڈیا مہم پر کام کر رہے ہیں۔ فی الحال یہ یونیورسٹی لکھنؤ کے آئی ای ٹی کیمپس میں چل رہی ہے لیکن جلد ہی یہ جانکی پرم میں 32 ایکڑ زمین پر زیر تعمیر اپنے نئے کیمپس میں منتقل ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ گریٹر نوئیڈا میں بھی اس کا عالی شان کیمپس موجود ہے۔

اپنے آپ میں نگینے ہیں خودمختار ادارے
یوں تو اے کے ٹی یو کے پاس چھ سو سے زائد انجینئرنگ اور مینجمنٹ کالج ہیں لیکن یہ چار خودمختار کالج اپنے آپ میں نایاب نگینے مانے جاتے ہیں۔ ان کا قیام اے کے ٹی یو سے بھی کئی سال قبل عمل میں آیا تھا۔

۱۔ سلطان پور میں واقع کملا نہرو انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کے این آی ٹی) معیاری تعلیم اور بہترین ریسرچ کی وجہ سے اپنی الگ پہچان بنائے ہوئے ہے۔ اس ادارے کا قیام 1976 میں عمل میں آیا تھا۔ یہاں کے ایپلائڈ سائنس و ہیومنیٹیز، سول انجینئرنگ، الیکٹرانکس اور الیکٹریکل انجینئرنگ کے شعبے کافی مشہور ہیں۔ ادارہ بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر پلیسمنٹ کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبہ کے لئے پانچ ہاسٹل اور طالبات کے لیے الگ سے دو ہاسٹل کا انتظام ہے۔

۲۔ کانپور میں واقع ایچ بی ٹی آئی یعنی ہرکورٹ بٹلر ٹیکنالوجکل انسٹی ٹیوٹ کا قیام 1921 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ ادارہ ٹیکنالوجی کی پڑھائی کرنے کے لئے شمالی ہندوستان کے طلبہ کی پہلی پسند رہتا ہے۔ اس کا مشرقی کیمپس 77 ایکڑ اور جنوبی کیمپس 271 ایکڑ زمین پر واقع ہے۔ بہترین ریسرچ کے ساتھ ساتھ بہترین پلیسمنٹ کی وجہ سے طلبہ کے بیچ یہاں داخلہ کے لئے جدوجہد لگی رہتی ہے۔ فی الحال یہاں 13 انڈر گریجویٹ پروگرام چل رہے ہیں۔ گزشتہ سال ورلڈ بینک نے اسے 24۔78 کروڑ روپے لیبارٹریز کا معیار بہتر بنانے کے لئے دیئے ہیں۔

۳۔ لکھنؤ میں واقع آئی آئی ٹی یعنی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام 1984 میں عمل میں آیا تھا۔ قیام کے وقت یہاں صرف دو سو طلبہ کے پڑھنے کا انتظام تھا، لیکن موجودہ وقت میں یہاں ہر سال پندرہ سو طلبہ کے داخلے کا اچھا انتظام ہے۔ بی ٹیک کے ساتھ ساتھ یہاں مینجمنٹ کے متعلق بھی کورسز چل رہے ہیں۔ ذیلی تکنیکی یونیورسٹی بننے سے پہلے اسٹیٹ انجینئرنگ انٹرینس ٹیسٹ یہی منعقد کرتا تھا۔

۴۔ جھانسی میں واقع بی آئی ای ٹی یعنی بندیل کھنڈ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اپنے آپ میں ایک نایاب ادارہ ہے۔ یہاں انوارمینٹل انجینئرنگ، ڈیجیٹل کمیونیکیشن اینڈ سسٹم، کنسٹرکشن ٹیکنالوجی وغیرہ کے متعلق کئی پروگرام چلائے جا رہے ہیں۔ اچھی تعلیم اور پلیسمنٹ کی وجہ سے یہ ادارہ بھی طلبہ کے پسندیدہ اداروں میں سے ایک ہے۔

دیگر خصوصیات
✔ لکھنؤ میں واقع اے کے ٹی یو کی فیکلٹی آف آرکیٹیکچر کو گورمنٹ کالج آف آرکیٹیکچر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کا قیام 1911 میں گورمنٹ کالج آف آرٹس اینڈ کرافٹ کے نام سے عمل میں آیا تھا۔ پھر 1976 میں اس کا نام بدل کر گورمنٹ اسکول آف آرکیٹیکچر کیا گیا اور 1980 میں یہ گورمنٹ کالج آف آرکیٹیکچر ہوا۔ اب اسے ذیلی یونیورسٹی کی فیکلٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔یہاں آرکیٹیکچر کے متعلق کئی بہترین کورسز اور پروگرام چل رہے ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک بھر میں مشہور ہے۔

✔ اے کے ٹی یو کے ہونہار طلبہ نے ایک “ون ویو ایپ” لانچ کیا ہے جس کے ذریعہ طلبہ اپنے اسمارٹ فون پر اپنا پورا بایو ڈیٹا اور مارک شیٹ وغیرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ان کے سیشنل امتحانات وغیرہ کے نمبرات درج ہوئے ہیں یا نہیں۔

✔ اے کے ٹی یو میں امتحانات میں شفافیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کاپیوں کی ڈیجیٹل تشخیص شروع کی گئی ہے تاکہ طلبہ تشخیص پر کسی طرح کا سوال نہ اٹھا سکیں۔ فی الحال گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کورسز میں کاپیوں کی ڈیجیٹل تشخیص ہو رہی ہے۔

✔ اے کے ٹی یو کے زیر تعمیر کیمپس میں ڈاکٹر کلام کے نام پر ایک بڑی ڈیجیٹل لائبریری بنائی جا رہی ہے۔ اس میں ای بکس، جنرلز اور ریسرچ پیپر وغیرہ ایک کلک پر پڑھنے کے لیے دستیاب ہوں گے۔

✔ یونیورسٹی کے نوئیڈا کیمپس میں ایک ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ بنایا جا رہا ہے۔ یہاں پر ڈیزائن سے جڑے انجینئرنگ کورسز، مثلاً گرین انجینئرنگ، ایپرن ڈیزائنگ اور اسٹرکچرل ڈیزائنگ وغیرہ شروع کیے جائیں گے۔

✔ اے کے ٹی یو نے نیشنل پروگرام آن ٹیکنالوجی انہینسڈ لرننگ (این پی ای ٹی ای ایل) کورسز پڑھانے کا انتظام کیا ہے۔ اسے آئی آئی ایس اور آئی آئی ٹی کے ماہرین کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔ اے کے ٹی یو کے انجینئرنگ کالجوں میں طلبہ اس کے آنلائن شارٹ ٹرم کورسز کی پڑھائی کر سکتے ہیں۔

✔ اے کے ٹی یو نے طلبہ کے لئے انجینئرنگ کالجوں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور کلچرل سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے مالی مدد دینے کا بھی انتظام کیا ہے۔ انہیں صوبائی اور قومی سطح پر کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے مالی مدد دی جاتی ہے۔ اسی طرح مختلف کلچرل سرگرمیوں کے لئے بھی یونیورسٹی طلبہ کی مدد کرتی ہے۔

✔ اسٹوڈنٹس ویلفیئر پلان کے تحت پڑھائی کے دوران کسی طالب علم کے والدین کے انتقال ہو جانے پر ایک لاکھ روپے کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ ٹیوشن اور امتحان فیس پوری طرح معاف کر دی جاتی ہے۔ اس کا خرچ اے کے ٹی یو اٹھاتی ہے تاکہ اچانک کسی حادثے کی وجہ سے مالی کمزوری پڑھائی میں رکاوٹ نہ بنے۔

✔ طلبہ کے ذہن میں آنے والے اچھے خیالات کو ایجاد میں بدلنے کے لئے انوویشن اور انکیوبیشن سینٹر بنائے جا رہے ہیں۔ یہ لیب نما سینٹر ہوں گے جن میں ضروری ساز و سامان اور ماہرین موجود رہیں گے۔ حکومت نے ان سینٹرز کے قیام کے لئے ایک ایک کروڑ روپے کا بجٹ گزشتہ سال پاس کیا تھا۔
اساتذہ – جن پر ناز ہے

۱۔ آئی آئی ٹی رڑکی کے بانی و ناظم پروفیسر پریم وت اے کے ٹی یو کے شیخ الجامعہ رہ چکے ہیں۔ ان کے تقریباً چار سو ریسرچ پیپر قومی و بین الاقوامی سطح پر شائع ہو چکے ہیں۔ فی الحال یہ آئی آئی ٹی دہلی میں اعزازی پروفیسر ہیں۔

۲۔ آئی ای ٹی لکھنؤ کے میکنیکل انجینئرنگ کے پروفیسر رہ چکے ڈاکٹر اونکار سنگھ، فی الحال مدن موہن مالویہ ٹیکنیکل یونیورسٹی، گورکھپور کے شیخ الجامعہ ہیں۔

۳۔ ایچ بی ٹی آئی کانپور کے پروفیسر آر پی سنگھ آئل ٹیکنالوجی ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سائنس جنرلز میں ان کے پچاس سے زائد ریسرچ پیپر شائع ہو چکے ہیں۔

۴۔ مدن موہن مالویہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے سابق سربراہ پروفیسر پانڈے بی بی لال نے کئی ریسرچ پیپر لکھے۔ اریگیشن اینڈ پاور انجینئرنگ پر لکھی گئی ان کی کتاب کافی مشہور ہوئی تھی۔

۵۔ پروفیسر ڈی سی تھاپر آرکیٹیکچر کے میدان میں دنیا بھر میں مشہور نام ہے۔ یہ اے کے ٹی یو کے گورمنٹ کالج آف آرکیٹیکچر سے ریٹائر ہوئے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں