منال قاید
میں نے اپنے دن کا آغاز یہ سوچتے ہوئے کیا کہ شاید یہ میرا آخری دن ہو،ہم کسی بھی لمحہ اس جنگ کی محض تاریخ کا حصہ بنادیے جا سکتے ہیں۔لہذا میں نے تمام آلام و مصائب کو نظر اندازکرنے کی کوشش کی اور ہر ایک سے کچھ اس انداز میں ملاقات کی،گویا یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔
میں یمن کے مغربی ساحلی علاقے میں اس وقت سے رہ رہی ہوں جب میری عمر چھ سال تھی،یعنی اب کل انتیس سال بیت چکے ہیں۔یہاں سے میری بہت ساری یادیں وابستہ ہیں؛میری اپنی فیمیلی، سمندر،لوگ اور ان کی بے پناہ محبتیں،عربی یاسمین اور لذید سمندری غذاؤں کا ذائقہ۔اب وہ تمام یادیں جنگ کی نذر ہوچکی ہیں۔
میں دیکھتی ہوں کہ سڑکوں پر لوگ کبیدہ خاطر چلتے ہیں،ہر ایک کے پاس اپنے کسی نہ کسی عزیز و رشتہ دار کو کھو دینے، کاروبار کے برباد ہوجانے یا ناقابل علاج بیماریوں کی دردناک داستان ہے۔
جب سے حدیدہ میں جنگ کا آغاز ہوا ہے،یہاں زندہ رہنا جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہے۔لیکن گزشتہ چھ مہینے تو ہمارے لیے بد سے بد ترثابت ہوئے ہیں۔جنگ جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی ہے بھوک،مایوسی اور اموات کے سیاہ بادلوں نے شہر کو گھیر لیا ہے۔صرف ایک ہاسپٹل،جو کہ حکومت کا واحد ہاسپٹل ہے جو اب تک جاری ہے، میں مَیں نے چھ سو زیر تغذیہ بچوں کا علاج ہوتے دیکھا ہے۔دواؤں کی قیمتیں دوگنی ہوگئی ہیں۔کینسر، کڈنی کی ناکامی اور دیگر دائمی مرض رکھنے والے مریضوں کو اپنے علاج کے لیے سخت جاں فشانی کرنی پڑی ہے۔ ہمیشہ اس خطرے کے ساتھ کہ دواؤں کی رسد میں تاخیر کے سبب وہ دوران علاج ہی فوت نہ ہوجائیں۔
انٹر نیٹ کی سہولیات بند ہونے لگیں۔پہلے چند دنوں کے لیے پھر ہفتوں کے لیے۔گھروں پر ہمارے کرنے کے لیے کچھ نہ تھا۔اس لئے ہم پھر مطالعہ کتب اور ٹیلی ویژن دیکھنے میں مشغول ہوگئے۔پھر بجلی غائب ہونا بھی شروع ہوگئی اور وہ سلسلہ بھی جاری نہیں رہ سکا۔ابتدا میں ہم نے اسے معمولی بات جانا،ہم نے چند موم بتیاں جلا لیں اور ان کی ٹمٹماتی روشنی سے لطف اندوز ہونے لگے۔حتی کہ ہم موبائل پر موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے جس کی آواز اکثر دھماکوں کی دہلادینے والی آواز سے دب جاتی۔
چوں کہ محاصرہ نے ایک طرح سے شہر کا گلا دبا دیا تھا،اس لیے کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ وہ کسی علاقے میں گوشہ نشیں ہوکر جنگ کے حقائق کو نظر انداز کر سکے۔نہ ساحل،نہ پارک،نہ ریستوراں، نہ انٹرنیٹ۔ایک دن میں نے اور میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ ہم ساحل کی طرف جانے کی کوشش کریں گے۔ہمارا خیال تھا کہ ہم دونوں ہی بے وقوف ہیں جن کے ذہن میں یہ خیال آیا، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارا خیال غلط تھا۔ساحلی پٹی پر،جو خیر سے ابھی تک بیری کیڈ سے بند نہیں کی گئی تھی،لوگوں سے بھری پڑی تھی۔اس روز گولہ باری بہت قریب سے ہورہی تھی،لیکن ہم سب نے اسے نظر انداز کرنا چاہا۔لوگ بس وہاں بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے رہے۔کسی نے وہاں سے جانا نہیں چاہا۔
ان دنون شہر میں بمباری بھی اور شدید ہوچکی تھی۔لوہے اور بارود بھرے ہوئے بے رحم شریپنل(Shrapnel) اچانک قلب شہر پر داغے جاتے اور نتیجے میں بلاتفریق بچے،بوڑھے،مرد وخواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیتے۔یہ روز کا معمول تھا۔ایک دن میرے گیارہ سال کے فرزندعمار کو اسکول سے گھر آنے میں تاخیر ہوگئی۔میں نے اگر چہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن یہ سوچنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکی کہ کہیں بارودی گولوں نے میرے بچے کی جان نہ لے لی ہو۔
ایک لمحہ کے لیے، اس خیال نے میرے ذہن میں گھر کر لیا کہ اب مزید بچوں کی قربانی برداشت نہیں کی جا سکتی۔میں نے تہیہ کرلیا کہ اب میں اس سفاک دنیا میں مزید کسی بچے کو جنم نہیں دوں گی تاکہ مجھے اسے اس بے رحم جنگ کا شکار ہوتے ہوئے نہ دیکھنا پڑے۔
نومبر میں میں تقریبا ایک مہینے کے لیے یمن سے باہر رہی۔باہر رہتے ہوئے میں نے سوچا کہ میں اپنی طاقت کو کھو رہی ہوں۔میں حدیدہ میں رہتے ہوئے اتنی مایوس کبھی نہیں ہوئی جتنا باہر رہتے ہوئے ہورہی ہوں۔مجھے یہ اچھانہیں لگا کہ میں نے لوگوں کو چھوڑ دیا تاکہ وہ خود جنگ کی تباہیاں بھگتیں۔میں ڈری ہوئی تھی کہ میں ان کو کھو دوں گی۔
انسانی صحافت کی تربیت کے لیے ان دنوں میں ارون میں مقیم تھی۔وہیں رہتے ہوئے ہمیں معلوم ہوا کہ سویڈن میں یمن جنگ کے حوالے سے امن مذاکرات عمل میں آنے والے ہیں۔ ہم اس پیش رفت کو رپورٹ کرنے کی غرض سے سویڈن پہنچ گئے۔
چوں کہ حدیدہ کی نمائندگی کرنے والی میں تنہا صحافی تھی، اس لیے مجھے کافی توجہ ملی۔میں بطور صحافی اپنے کام کو حدیدہ کی زندگی سے الگ کرنے کے قابل نہیں تھی۔میں ایک صحافی بھی تھی،اور حدیدہ کی شہری بھی۔حکام اور صحافیو ں میں سے مَیں جس سے بھی ملی،میں نے سب سے پوچھا کہ وہ جنگ بندی کے بارے میں کیا معلومات رکھتے ہیں۔میں ایک واضح جواب کی تلاش میں تھی۔جو مجھے کبھی نہ مل سکا۔
میں اقوام متحدہ کے سفارتی نمائندہ تک رسائی حاصل کرنے اور ان سے سوال کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ ”شہر(حدیدہ،یمن) میں دشمنی اور مخاصمت کو ختم کرنے کے حوالے سے فریقین کس حد تک سنجیدہ ہیں؟“انہوں نے میرے سوال کا جواب دوسرے سوال کی شکل میں دیا ”کیا آپ کا تعلق اسی شہر سے ہے؟“ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔انہوں نے کہا ”تب تو آپ اس بارے میں واقعی فکرمند ہوں گی“۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی فکرمند ہیں،اور حیرت انگیز طور پر، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔
آخری دن، چیزوں نے ایک غیر متوقع رخ لیا۔تمام مسائل کے علی الرغم،جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا تھا۔وہ خواب جن کے بارے میں میں نے سوچا تھا کہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں گے،واپس آنے لگے تھے۔میں نے چشم تصور میں اپنی ماں اور بھائیوں کی تصویریں دیکھیں جو پانچ ماہ کی بے مکانی کے بعد حدیدہ واپس آرہے تھے،میں نے دیکھا کہ بمباری کے خوف کے بغیر میرے شوہر اپنی دوساز کمپنی میں دوبارہ جارہے ہیں،جس نے شہر کے محاصرہ کے سبب اپنے ملازمین کو رخصت دے دی تھی، میرا بچہ اسکول جارہا ہے اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور میں نے ایک اور بچے کو جنم دیا ہے جو کبھی جنگ کا منہ نہ دیکھے گا۔
میں نے فورا اپنے خاوند سے رابطہ کیا۔میں سویڈن میں قیام کے دوران فون پر ان سے اور اپنے بیٹے سے بات کرکرکے اپنی ساری بچت صرف کر چکی تھی کیوں کہ یمن میں انٹر نیٹ کی سہولت نہیں تھی۔میں بہت خوش تھی۔میں نے انہیں امن معاہدے کے بارے میں بتایا۔جب تک فون کا بیلنس ختم نہ ہوگیا،ہم دونوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ باتیں کیں۔
جب ہم فون پر بات کر چکے تو انہوں نے غیر یقینی حالت میں ایک ٹیکسٹ میسیج ارسال کیا۔”کیا تمہیں یقین ہے کہ ان لوگوں نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے یا انہوں نے دشمنی اور لڑائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے؟!“
میں نے یورپ میں پناہ لینے کے اپنے گھر کے لوگوں اور دوستوں کے تمام مشوروں کو نظر انداز کردیا اور یمن واپس آگئی۔سفر میں چار روز لگے کیوں کہ سارے مین روڈ بند تھے۔میں جیسے ہی حدیدہ میں داخل ہوئی، مجھے احساس ہوا کہ میں نے وہاں کی اپنی پھٹی حال اور خوف ناک زندگی کو چھوڑدیا تھا۔
باوجود اس کے کہ جنگ بندی معاہدہ روبہ عمل آچکا تھا، میرے واپس آنے کے بعد تک جھڑپیں مکمل طور پر بند نہیں ہوئی تھیں۔ہم اب بھی بمباری کی خوف ناک آواز سن سکتے تھے۔
میری واپسی کے دو ہفتہ بعد،میں نے اپنے آپ کو ایک میڈیکل لیب کے نشست خانہ میں اپنی جانچ کے نتائج کے انتظار میں بیٹھا ہوا پایا۔میں بہت زیادہ فکر مند تھی۔میں اپنے آپ سے پوچھ رہی تھی کہ اگر نتائج مثبت آئے تو کیا ہوگا؟میں فکر مند اور ڈری ہوئی اس لیے تھی کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔بالآخر مجھے استقبالیہ سے آواز دی گئی۔وہاں پہنچ کر میں نے جانچ کارپورٹ کارڈ ہاتھ میں تھاما لیکن اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔میں ایک پرسکون جگہ چاہتی تھی جہاں میں اپنے آپ کو بدترین نتائج کے لیے بھی تیار کرپاتی۔میرے وجود میں ایک زورداردھماکہ ہوا،اور دل نے حرکت کرنا بند کردیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا’مزید بچوں کی قربانیاں برداشت نہیں‘۔ خاتون ری سیپ شنسٹ نے ایک لطیف مسکراہٹ کے ساتھ میرے شکوک کا گلا ریت دیا: ”آپ حاملہ ہیں“ اس نے کہا۔
میں وہاں سے بھاگ نکلی۔کار میں بیٹھی اور راستے بھر ایک ہاتھ سے ڈرائیو کرتے ہوئے سیدھے گھر پہنچی،اپنے نا مولود بچے کو اس ناختم ہونے والی جنگ کے مہلک بموں سے محفوظ رکھنے کے لیے دوسرا ہاتھ پیٹ پر رکھا ہوا تھا۔میں نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔دو دن تک جانچ کے نتائج کو چھپا کر رکھا۔ممکنہ خطرات کو اکیلے ہی جھیلتی رہی۔اس لمحے میں یہ سوچ کر مجھے اپنے آپ پر شرم آئی کہ ایک اور بچے کو جنگ کا شکار بنانے کی ذمہ دار میں خود ہوں۔مجھے امید ہے کہ مجھے معافی مل جائے گی اور زندہ رہنے کا کچھ نہ کچھ راستہ نکل آئے گا۔مجھے یہ امید اس وجہ سے کرنی پڑ رہی ہے کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ مستقبل قریب میں اس جنگ کے خاتمے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
منال قاید کا تعلق یمن کے شہر حدیدہ سے ہے۔انجینئراور مصنف ہیں۔یمن میں ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں۔