ایس سی ایس ٹی ایکٹ 1989

آصف جاوید

دنیا میں کوئی سماج ایسا نہیں ہے جہاں انسانوں کو انسانوں سے امتیاز یا آپسی تفریق کا تصور موجود نہ ہو، کہیں کالے گورے کی لڑائی ہے تو کہیں برہمن اور شودر کی، کہیں عربی و عجمی کی تفریق ہے…

دنیا میں کوئی سماج ایسا نہیں ہے جہاں انسانوں کو انسانوں سے امتیاز یا آپسی تفریق کا تصور موجود نہ ہو، کہیں کالے گورے کی لڑائی ہے تو کہیں برہمن اور شودر کی، کہیں عربی و عجمی کی تفریق ہے تو کہیں اشراف اور ارذال کی، الغرض پوری دنیا اس اونچ نیچ کے تصور کو اپنی کوکھ میں پالے ہوئے ہے، کوئی بھی سماج ان تصورات سے پاک نہیں ہے۔
اس معاملے میں ہندوستان کی تاریخ ہندوستانی سماج کی بڑی ہی ظالمانہ تصویر پیش کرتی ہے۔ انسانی تقسیم کا اتنا منظم تصور کسی سماج میں نہیں پایا جاتا جتنا منظم قدیم ہندوستانی سماج میں پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سماجی مصالحوں کی کوششوں اور دستوری و قانونی ناکہ بندیوں کے باوجود آج بھی ہندوستان اس بے تکی، غیر انسانی اور ظلم پر مبنی تقسیم سے چھٹکارا نہ پاسکا۔ اس مضمون میں ہم ایس سی اور ایس ٹی گروپ پر ہوئے مظالم اور ان مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں پر بات کرتے ہوئے آئینی اور قانونی ناکہ بندیوں کی غیر اثر پذیری (با لخصوص ایس سی ایس ٹی ایکٹ) کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
ایس سی اور ایس ٹی کون؟
سماج کا وہ طبقہ جس کو سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی لحاظ سے دبا دیا گیا ہو وہ درج فہرست ذات یا شیڈولڈ کاسٹ کہلاتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک لوگ انہیں اچھوت تصور کرتے آرہے ہیں۔ اس سماجی استحصال کے پیچھے ایک طویل برہمنی داستان ہے۔ جسے ہم ورنا سسٹم کے نام سے جانتے ہیں۔
“ورنا” ایک سنسکرت لفظ ہے اس کے معنی رنگ کے آتے ہیں۔ سماجی تقسیم میں رنگوں سے خوب مدد لی گئی ہے۔ ہندوستان کے اصل باشندے جو رنگ میں کالے تھے ان پر آریوں نے جو رنگ میں گورے تھے حملہ کیا۔ چونکہ اصل باشندے سانولی رنگت کے تھے اس لئے آریوں نے انہیں ورنا لاجک سے تقسیم کیا مگر قدیم ہندوستان کی تاریخ کا یہ تصور (notion) نصف بیسویں صدی میں غیر معتبر قرار پایا۔
سماج کی چار حصوں میں تقسیم کا تصور یجروید کے اس اشلوک سے آتا ہے جس میں برہمن شتریہ، ویشیہ اور شودر کا تذکرہ ملتا ہے، جو بالترتیب برہما کے سر، بازو، پیٹ اور پیر سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس درجہ بند تقسیم کا نتیجہ شودروں پر ظلم کی صورت میں سامنے آیا اور وہ سماج کی سب سے بے قیمت بلکہ اچھوت مخلوق قرار پائے، ان کا سایہ، ان کی آہٹ، ان کا چلنا پھرنا، ان کا کھایا پیا ہوا برتن سب ناپاک اور اچھوت بن گیا۔ سماج کے اس ظالمانہ رویہ نے انہیں سماجی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ان کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے برطانوی دور حکومت میں انہیں depressed class کا نام دیا گیا جس کا ہندی ترجمہ دلت وغیرہ جیسے الفاظ سے کیا جاتا ہے (واضح رہے لفظ دلت اس سے پہلے سے ہی لوگوں میں متعارف تھا)۔ اس طبقے کی کل تعداد 20.14 کروڑ ہے جو 1241 گروپوں میں موجود ہیں۔
شیڈولڈ ٹرائب یا درج فہرست قبائل وہ قبائل ہیں جو جدید سماجی تانے بانے سے دور ہیں اور جنگلوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا استحصال ان کی اصل، نسل، طرز اور بود و باش میں دخل اندازی کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ ان کی کل تعداد 10.43کروڑ ہے جبکہ یہ 705 قبائل میں منقسم ہیں۔ آئین کی دفعہ 341، 342، 366 وغیرہ ایس سی ایس ٹی سے تعرض کرتی ہیں۔
درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل پر ہورہے مظالم کے خلاف بڑی تحریکیں اٹھیں، اجتماعی اور انفرادی صدائے احتجاج بلند ہوئیں اور بالآخر انہیں ان مظالم کے خلاف آئینی، و قانونی تحفظ دیا گیا۔ ظاہر ہے اس آئینی اور قانونی تحفظ کے پیچھے احتجاج کی لمبی تاریخ ہے۔ اس احتجاجی و مساواتی تحریک کا سب سے اہم نام جیوتی با پھولے کا ہے جنہوں پہلی بار لفظ دلت کا استعمال کیا اور دوسرا اہم نام ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا ہے جنھوں دلت تحریک کو سیاسی و نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ ان دونوں ناموں کے علاوہ دلت لیڈران کی بہت طویل فہرست ہے مگر چونکہ ابھی ہم ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے تناظر میں بات کررہے ہیں اس لئے ہم ان ناموں سے تعرض نہیں کریں گے۔
ایس سی ایس ٹی ایکٹ سے پہلے کے حالات
ایکٹ سے پہلے کے حالات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک، قبل از آزادی دوسرا، ما بعد آزادی کے حالات۔
قبل از آزادی
دلتوں اور قبائلیوں کی اس قابل رحم حالت کے خلاف آواز کا اٹھایا جانا اس بات کی علامت تھی کہ آج نہیں تو کل اس مظلوم طبقے کی فلاح و بہبود اور ان پر ہورہے مظالم کی روک تھام کے لئے قانون سازی ضرور کی جائے گی۔ چنانچہ 1909ء میں پہلی بار چھوت چھات کے خلاف قانون سازی کی تجویز پیش کی گئی۔ 1919ء میں برطانوی حکومت نے پہلی بار دلتوں کے لئے depressed class کی اصطلاح استعمال کی۔
پھر گول میز کانفرنس کے چیئرمین نے separate communal electorate کی قرار داد منظور کی، جس کے خلاف گاندھی نے احتجاجاً بھوک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ اسی اثناء (1932-1935) میں پہلی بار scheduled caste اور scheduled tribe کی اصطلاح سامنے آئی۔
ما بعد آزادی
آزادی کی لہر نے سب کے چہروں کو تازگی بخشی، سب پھلنے پھولنے لگے مگر آزادی کے بعد بھی دلتوں کے خلاف مظالم میں کوئی خاص کمی آئی نہ ہی ان کی حالتوں میں کوئی مثبت تبدیلی آئی۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی دستور سازی بھی ناکام ہی رہی۔ دستور کی دفعہ 14، 15، 16، 17، 21 وغیرہ تمام دفعات کا کچھ اثر نہ رہا۔ ان کے خلاف مظالم مثلاً نفسیاتی و جسمانی تشدد، استحصال، جنسی زیادتیاں اور حتٰی کہ قتل جیسے جرائم تک میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسا قانون جو پچھلے تمام قوانین سے زیادہ مؤثر ہو بنایا جائے۔ چنانچہ 1989ء میں ایس سی ایس ٹی ایکٹ (مظالم کی روک روک تھام کے لیے قانون) کو متعارف کرایا گیا۔ اس قانون کا سبب بننے والے واقعات گرچہ بہت سے ہیں مگر کچھ خاص واقعات مثلاً: ایمینوئل سیکرن (جنہوں نے چھوت چھات کے خلاف آواز اٹھائی) کا قتل کیا جانا، تمل ناڈو میں 42/ دلتوں کا قتل عام، آندھرا پردیش میں قبائلیوں کے دسیوں افراد کا پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں قتل عام، کیلاوینامی قتل عام (kelavenami massacre)، اس کے علاوہ بہار میں 15 قبائلیوں کا قتل عام وغیر جیسے خونچکاں واقعات قابل ذکر ہیں۔ ان واقعات کے چلتے 1989ء میں مظالم کی روک تھام کے لئے قانون بنایا گیا۔
ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے بعد کی صورت حال
دلتوں اور قبائلیوں پر ہورہے مظالم کے خلاف سرگرم تحریکوں اور قانونی ناکہ بندیوں کے باوجود ہندوستان اس مرض سے نجات حاصل کرنے میں یکسر ناکام ثابت ہوا ہے۔ ظاہر ہے ہزاروں سال پرانا مرض جس کا زہر ہندوستانی سماج کی رگ رگ میں بہہ رہا ہو محض چند دہائیوں کے علاج سے کیسے دور ہوسکتا ہے!
NCRB– قومی دفتر برائے اندراج جرائم کی سالانہ جرائم رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ 2014ء میں ایس سی ایس ایکٹ کے ضمن میں ان طبقات پر ہوئے مظالم کے کل 40401 معاملات سامنے آئے جبکہ 2015میں کیسوں میں تقریباً ٪4 یعنی کل 38670 کیسوں کی کمی آئی، وہیں 2016میں واردات میں کل ٪5.5 کا اضافہ ہوا یعنی 40801 وارداتیں سامنے آئیں۔
این سی آر بی رپورٹ 2022کے مطابق درج فہرست ذات کے خلاف ہونے والے کل درج جرائم 57582 ہیں جو کہ 2021 میں ہوئے جرائم سے ٪13زیادہ یعنی 50900کیس ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ST کے خلاف ہوئے جرائم کی کل تعداد 10064ہے جو 2021ء کے جرائم کی کل تعداد سے ٪14.3زیادہ ہے۔ پچھلے سات آٹھ سالوں کی رپورٹس پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نیچے دئے گئے ڈاٹا سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ ڈاٹا بتاتا ہے کہ مظلوم طبقات کے خلاف وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آرہی، ان کے خلاف ہونے والی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، قانون سازی سے پہلے اور قانون سازی کے باوجود بھی ان کے حالات بدل نہیںرہے ہیں۔ سماج میں آج بھی ان کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات بھرے ہوئے ہیں۔ آئینی دفعات اور پارلیمانی قوانین سب بے اثر ہیں۔ ان حالات پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جائے، جہاں انسانوں کو انسانوں پر کوئی فضیلت نہ ہو، جہاں کسی بھی قسم کی غیر فطری درجہ بندیوں کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ان کے خلاف ہورہے مظالم کو محض قانونی ناکہ بندیوں کی بنا پر ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ سماج میں انسانی شعور پیدا کیا جائے، انسانی مواخات کو فروغ دیا جائے، تمام انسانوں کو اس خدا کی مخلوق سمجھا جائے جو اپنی مخلوقات سے بغیر تفریق کے معاملہ کرتا ہے۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے طالب علم ہیں۔)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں