ایس سی ایس ٹی ایکٹ کا مطالعہ

صفی الرحمن نبیل

اس ایکٹ کا مکمل نام “Scheduled Caste & Scheduled Tribe (Prevention of Atrocities) Act, 1989” یا “درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989” ہے۔ ہندوستانی آئین کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی…

اس ایکٹ کا مکمل نام “Scheduled Caste & Scheduled Tribe (Prevention of Atrocities) Act, 1989” یا “درج فہرست ذاتیں اور درج فہرست قبائل (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989” ہے۔ ہندوستانی آئین کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ چھوت چھات کا خاتمہ، آئین ہند کے آرٹیکل 17 میں مذکور ہے۔
“چھوت چھات کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس پر عمل کرنے کی ممانعت کی جاتی ہے۔” لیکن آئین اس کی سزا متعین نہیں کرتا ہے بلکہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اس سے متعلق ایک ایکٹ بنائے جس میں سزائیں مذکور ہوں۔ لہٰذا چھوت چھات جرائم ایکٹ 1955ء میں سامنے آتا ہے لیکن درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل پر ہونے والے مظالم کم نہیں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کمی کو دور کرنے کے لیے 1989ء میں ایس سی ایس ٹی ایکٹ منظر عام پر آتا ہے۔
ظلم کا ایک مستقل نظام بن چکا تھا جس میں ایک خاص طبقہ مسلسل ظلم کی حدیں پار کررہا تھا، ہندوستانی آئین میں ایسے مظلوم پچھڑے لوگوں کے حقوق و تحفظ کے لیے انہیں ایس سی (آرٹیکل 341) اور ایس ٹی (آرٹیکل 342) میں رکھا گیا جہاں صدر جمہوریہ کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی ذات/گروہ کو اس فہرست میں شامل کرے۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ کو اس ضمن میں بہت سے اختیارات حاصل ہیں۔ آرٹیکل 338 (اصل) میں کمشنر/ خصوصی افسر کا عہدہ قائم ہوا جس کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ مختلف سطح پر ایس سی اور ایس ٹی سے متعلق تحقیق کرے اور اپنی رپورٹ کو صدر کے سامنے پیش کرے۔ کمشنر کے اس وسیع کام میں مدد کے لیے 17 علاقائی افسر منتخب ہوں گے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنے کام کو انجام دیں گے۔ 1978ء میں ایک non-statutory کثیر رکنی کمیشن بھی بنایا گیا جس کے چیئرمین شری بھولا پاسوان شاستری تھے۔ بعد میں 65 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 1990ء میں اس کمیشن کو قومی کمیشن برائے درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کا درجہ دے دیا گیا اور بعد میں اسے 89 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2003ء کے ذریعے الگ الگ کردیا گیا۔
آرٹیکل 338 میں قومی کمیشن برائے درج فہرست ذات کا ذکر ہے اور آرٹیکل 338/A میں قومی کمیشن برائے درج فہرست قبائل کا ذکر ہے۔ 2018ء میں 102ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ 338/B میں قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کو آئینی درجہ دیا گیا، جب کہ کمیشن 1993ء میں بنا تھا۔
یہ ایس سی ایس ٹی سے متعلق آئین کا ایک پہلو ہے۔ ایک دوسرا پہلو وہ ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ بنیادی حقوق میں بھی بہت سے حقوق اس سے متعلق ہیں۔ جس کے ذریعے سے نہ صرف ایس سی ایس ٹی بلکہ ملک کا ہر شہری اپنے بنیادی حقوق کو محفوظ سمجھتا ہے۔ لیکن شاید آج ایسا نہیں ہے یا اس میں تبدیلی کی کوشش جاری ہے۔
بنیادی حقوق
آئین کے تیسرے حصہ میں بنیادی حقوق پر گفتگو کی گئی ہے، جو آرٹیکل 12 تا 35 تک ہے۔ اس کے بعد چوتھے حصہ میں مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصولوں پر گفتگو کی گئی ہے جو آرٹیکل 36تا 51 تک ہیں۔ اس کے بعد حصہ 4/A بنیادی فرائض پر روشنی ڈالتا ہے، جو 51/A کے تحت درج ہیں۔ اس میں کل 11 فرائض بیان کیے گئے ہیں۔ ہم یہاں مختصراً کچھ بنیادی حقوق پر گفتگو کریں گے کیونکہ بنیادی حقوق قابلِ دفاع ہیں۔ ان کے پورا نہ ہونے پر ہر فرد کورٹ جاسکتا ہے مابقی کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے۔
آرٹیکل 14 “مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔”
آرٹیکل 15 “مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یا ان میں سے کسی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔”
آرٹیکل 16 “تمام شہریوں کے لیے مملکت کے تحت کسی عہدہ پر ملازمت یا تقرر سے متعلق مساوی موقع حاصل رہے گا۔”
(آئین کا یہ ترجمہ “بھارت کا آئین” قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع شدہ کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔)
آرٹیکل 15 اور 16 اس وجہ سے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ یہی دونوں آرٹیکل ریزرویشن میں بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایس سی اور ایس ٹی ایکٹ پر ایک نظر
یہ ایکٹ 5 ابواب اور 23 زمروں پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ابتدائیہ پر مبنی ہوتا ہے جس کے پہلے زمرہ میں مختصر نام، وسعت اور نفاذ سے متعلق گفتگو ہوتی ہے۔ یہ ایکٹ پورے ہندوستان پر نافذ ہوگا۔ دوسرا زمرہ تعریفات پر مبنی ہوتا ہے۔ جس میں کچھ بنیادی چیزوں کی تعریف بیان کی جاتی ہے۔ تعریف عموماً تین طرح سے بیان ہوتی ہیں:
کسی چیز کی تعریف بیان کردی جاتی ہے۔
تعریف بیان نہ کرکے ایکٹ کے ہی کسی زمرہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس کی وہی تعریف ہوگی جو فلاں زمرہ میں مذکور ہے۔
تعریف بیان کرنے کے بجائے کسی اور ایکٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس کی وہی تعریف ہوگی جو فلاں ایکٹ کے فلاں زمرہ میں مذکور ہے۔
(عموماً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کوئی طریقہ ہوسکتا ہے۔)
اس ایکٹ میں Atrocity (ظلم و نا انصافی) کی تعریف میں لکھا ہے کہ “means an offence punishable under section 3” یعنی ہر وہ چیز جو زمرہ 3 میں ہے وہ سب ظلم و نا انصافی کی تعریف میں شامل ہے ۔ زمرہ 2bc میں معاشی مقاطعہ کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے ساتھ کاروبار نہ کرنا یا ان شرائط پر کام سے انکار جس پر عموماً دوسرے افراد کرتے ہیں یا ان کو کام کے لیے منتخب نہ کرنا وغیرہ۔ زمرہ 2c میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کی تعریف ہے۔ اس کی وہی تعریف ہے جو آئین کے آرٹیکل 366 شِق 24/25 میں مذکور ہے۔
دوسرا باب Offences of Atrocities پر مشتمل ہے۔ زمرہ 3 Punishment for offences atrocities پر مبنی ہے اس میں دو شِق ہیں۔ 3/1 جس میں 29 شِق ہیں۔ A تا Z اور Zc, zb, za 3/2 جس میں 7 شِق ہیں۔ اس زمرہ میں واضح طور پر شروع میں ہی اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ اس زمرہ میں مذکورہ بالا تمام سزاؤں کا نفاذ ان لوگوں پر ہی ہوگا جو ایس سی اور ایس ٹی سے تعلق نہیں رکھتے ہوں گے۔ یعنی اگر ایک ایس سی اور ایس ٹی کا فرد اگر دوسرے ایس سی اور ایس ٹی کے فرد پر ظلم کرتا ہے، پھر بھی یہ ایکٹ اس پر نافذ نہیں ہوگا۔
اب ہم ان 29 شِق کا جائزہ لیں گے جسے ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
پہلا حصہ وہ ہے جس میں ہم ظلم کا دائرہ کار جسم تک محدود کرسکتے ہیں۔ لیکن اس کے اثرات پھر بھی بہت وسیع طور پر واقع ہوتے ہیں۔
دوسرا حصہ وہ ہے جس میں انہیں ذہنی اور نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا جاتا ہے۔
تیسرا حصہ وہ ہے جس میں ان کی ملکیت پر غیر قانونی طور سے قبضہ کیا جاتا ہے۔ انہیں ان کے اپنے حق کے استعمال سے ہر سطح پر روکنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ یہ تمام اپنے آپ میں انسانی تکریم کے خلاف ہیں۔
ان چیزوں کو کھانے یا پینے پر مجبور کرنا جو ناقابل استعمال ہوں۔
ان کی رہائش کے آس پاس یا بالکل سامنے کوڑا ڈالنا یا موذی اشیا پھینکنا۔
گلے میں جوتا ڈال کر یا نیم برہنہ کرکے انہیں چکر لگانے پر مجبور کرنا۔
کپڑا اتارنا یا ان کی مونچھ کو کاٹ دینا یا ان کے چہرے کو رنگ دینا یا اس سے مشابہ کوئی عمل کرنا۔
ان کو ان کی اپنی زمین سے محروم کرنا یہ جانتے ہوئے کہ قانونی طور سے وہ اس کے مالک ہیں۔
انہیں مانگنے پر مجبور کرنا یا بندھوا مزدور یا اس سے مشابہ کسی کام پر مجبور کرنا۔
انہیں انسان یا جانوروں کے فضلہ اٹھانے پر یا قبر کھودنے کے لیے مجبور کرنا۔
انہیں الیکشن میں کسی خاص شخص کو ووٹ دینے کے لیے یا ووٹ نہ دینے پر مجبور کرنا۔
اسی طرح انہیں الیکشن میں شمولیت سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا۔
غلط اور جھوٹی خبر کسی عوامی خادم کو اس امید سے دینا کہ وہ اپنے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں نقصان پہنچائے گا۔
عوامی جگہوں پر جانتے بوجھتے ان کی بے عزتی کرنا۔
کسی ایسی چیز کو (تصویر یا پورٹریٹ) جس کے متعلق اس بات کا علم ہو کہ یہ ان کے لیے تقدس کا درجہ رکھتی ہے اسے نقصان پہنچانا۔
انہیں اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کرنا۔
انہیں عوامی ملکیت کے وسائل کے استعمال سے روکنا۔
انہیں سائیکل چلانے سے یا نئے کپڑے پہننے سے، عوامی جگہوں پر یا شادی کے موقع پر جلوس نکالنے سے یا گھوڑے پر / یا کسی گاڑی پر چڑھنے سے روکنا۔
انہیں معاشی / سماجی مقاطعہ کی دھمکی دینا۔
مذکورہ بالا تمام کی سزا کم سے کم 6 مہینے اور زیادہ سے زیادہ 5 سال قید مع جرمانہ ہوگی۔
زمرہ 2/3 میں اسی طرح سے 7 مختلف مظالم کا بیان ہے۔ اس میں سب سے خاص پہلو 3(2) (va) میں ہے جس میں ایک شیڈول ہے جو انڈین پینل کوڈ کے زمرہ میں مذکور ہیں۔ وہی سزائیں بھی ہیں جو انڈین پینل کوڈ میں درج ہیں۔ اس شیڈول میں بیان کئے گئے جرم کرنے پر اس کا نفاذ ہوگا۔
زمرہ 4 فرائض کی تکمیل نہ ہونے پر سزاؤں سے متعلق ہے جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ اگر کوئی عوامی ملازم (جو ایس سی ایس ٹی نہ ہو) جو اس ایکٹ کو جانتے ہوئے اپنی ذمہ درای پوری نہیں کرتا ہے، اسے کم از کم 6مہینے اور زیادہ سے زیادہ 1سال کی قید ہوگی۔
باب سوم کا زمرہ 10کسی کا اخراج قابل جرم ہوگا، کے سلسلے میں ہے۔
باب چہارم کا زمرہ 14 بہت ہی اہم ہے جس میں خصوصی کورٹ اور امتیازی خصوصی کورٹ کا بیان ہے اور اس کا مقصد تیز ٹرائل ہے۔
باب پنجم کے زمرہ 16 میں ریاستی حکومت کے اجتماعی جرمانہ عائد کرنے کی قوت کے سلسلے میں ہے اور اس ضمن میں اجتمائی جرمانہ کے لیے شہری حقوق کے تحفظ ایکٹ کا زمرہ 10A 1955 ہی نافذ ہوگا۔
زمرہ 18 انتہائی اہم ہے جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ Section 438 of the civil procedure code not to apply to person .committing an offence under the Act اسی زمرہ کی وجہ سے اس ایکٹ کے مجرم کو پیشگی ضمانت نہیں ملتی ہے۔ زمرہ A 18 تفتیش اور رضامندی کی ضرورت نہ ہونے کے ضمن میں ہے اور اس پر کافی تنقید بھی کی گئ ہے۔
زمرہ 20 اسے دوسرے ایکٹ پر فوقیت کی قوت دیتا ہے۔ زمرہ 21 اس کے نفاذ کی بات کرتا ہے کہ “حکومت کا فرض ہے کہ وہ ایکٹ کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنائے۔” ظلم سے دوچار افراد کو قانونی امداد فراہم کرنا، انصاف حاصل کرنے میں ان کی ہر ممکن مدد کرنا، ان کی معاشی سماجی بحالی کا انتظام کرنا۔ اس ایکٹ کے علاوہ اس کا قانون 1995ء انتہائی اہم ہے جہاں اس ایکٹ سے متعلق مزید کارروائی بیان کی گئی ہے۔ اس ایکٹ کے مطالعہ سے ایس سی ایس ٹی پر ہونے والے ظلم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن اس ایکٹ کے آنے کے بعد بھی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ قومی دفتر برائے اندراج کے مطابق سال 2022ء میں درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہونے والے ظلم کے 57,582 کیس درج کیے گئے۔ سال 2021میں اس میں تقریبا ٪13کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سال 2022ء میں درج فہرست قبائل کے خلاف ہونے والے ظلم کے 10,064 کیس درج کئے گئے ۔ سال 2021ء کے بالمقابل اس میں ٪14کا اضافہ ہوا ہے۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ محض قانونی لڑائی سے بھی ظلم کا خاتمہ آسان نہیں ہے بلکہ ہمیں مزید سوچنا ہوگا۔ سماج کو ایک نئی فکر چاہیے مجھے نہیں معلوم ہم اپنے سماج کو وہ فکر دے سکیں گے یا نہیں۔ بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ ہم اس فکر کے لیے محنت کررہے ہیں یا ہم بھی اسی گردش زمانہ کا شکار ہیں جس سے نکلنے کی جستجو ہر ایک کررہا ہے۔۔۔۔۔

(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں ایم اے انسانی حقوق کے طالبِ علم ہیں۔)
[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں