تین دنوں بعد اسلم مجھے نظر آیا۔ جانے کہاں جا رہا تھامست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا، اپنے آپ میں مگن اور کچھ گنگناتا ہوا۔
میں لپک کر اس کے پاس گیا اور پوچھا :’’کیسے ہو بھئی؟‘‘
’’ٹھیک ہی ہوں۔‘‘اس نے اپنا سر اٹھایا اور جواب دیا۔
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے اور نہ ہی غم کی کوئی علامت۔ جانے کس دنیا میں گم تھا۔ میں نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ صرف اتنا پوچھا کہ وہ تین دن سے کہاں غائب تھا۔
ارے یار کیا بتاؤں! میں تو دنیا کے جھمیلوں سے تنگ آ گیا ہوں۔ میرا دل اُوب گیا ہے۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ اس نے جواب دیا۔
پھر تین دن سے تھے کہاں؟ کیا کر رہے تھے؟ میں نے دوبارہ معلوم کیا۔
’’ میں ندی کے کنارے چلا جاتا۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’ گھنٹوں اسے دیکھتا رہتا۔ اس کی لہروں کو اٹکھیلیاں کرتے ہوئے دیکھ کر مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی۔ میرا دل بھی خوشی کے مارے اچھلنے لگتا۔ اس لئے کئی کئی گھنٹوں تک وہیں بیٹھا رہتا۔ کبھی کبھی اس کے کنارے لگے درختوں کے پاس چلا جاتا ۔ درختوں کے سکون بخش سائے میں بڑی راحت محسوس ہوتی اور ا ن پر بیٹھی چڑیاں بھی من کو موہ لینے والے گیت سناتیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں لیکن میں ان کی باتوں پر دھیان نہ دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ چلتے چلتے میں بہت دور نکل جاتا اور جب محسوس ہوتا کہ میرے پیر تکان سے چُور ہو رہے ہیں تو گھر واپس آ جاتا۔‘‘
’’کل جب میں ندی کے کنارے گیا اور حسب معمول اس کی لہروں کو دیکھ رہا تھا جو سورج کی شعاعیں پڑنے کی وجہ سے چاندی کی طرح چمک رہی تھیں۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ دور ایک لڑکا سر جھکائے نہ جا نے کیا کر رہا ہے ۔ میں یہ دیکھنے کے لئے اس کے قریب گیا کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ میرے پوچھنے پر ا س نے کہا کہ ’’ کتاب پڑھ رہا ہوں‘‘ ، اس کے قریب مزید تین چار کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ اس کے چہرے پر بڑا اطمینان تھا۔میں اس کے بالکل قریب ہوا۔ دیکھا کہ اس کا ایک پیر ہے ہی نہیں۔ مگر اس کے لبوں پر مسکراہٹیں کھیل رہی تھیں۔
میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ تم ایک پیر سے محروم ہو پھر بھی اتنے مطمئن اور خوش نظر آرہے ہو۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا تمہارے بہت سارے دوست ہیں؟ تم ان کے ساتھ کیسے کھیلتے ہو؟ اور کب کھیلتے ہو جبکہ اس وقت تو تم پڑھ رہے ہو۔‘‘
’’میری اس حالت کی وجہ سے کوئی میرا دوست ہی نہیں بنتا۔ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں کھیلتا۔ اس لئے میں نے کتابوں کو اپنا دوست بنا لیا ہے۔‘‘ اس نے اپنی کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’یہی مجھے خوشی اور مسرت عطا کرتی ہیں کیونکہ یہ ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں اور دل کو بہلاتی ہیں۔ یہ کبھی ساتھ نہ چھوڑنے والی دوست ہیں۔‘‘ اس نے اپنی باتوں کی مزید تشریح کی۔
’’یہ سب باتیں سن کر میری بھی خواہش جاگ اٹھی۔ان باتوں نے میرے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی کتابوں کو دوست بنا لوں۔ میں فوراً گھر چلا آیا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد میں پڑھنے بیٹھ گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب پڑھائی میں میرا من خوب لگ رہا ہے بلکہ اس میں مزہ آنے لگاہے۔ اب میرے من کو سکون اور اطمینان مل رہا ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ وقت کتابوں کے ساتھ ہی گزاروں۔‘‘اسلم نے جواب دیااور اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔
میں نے کہا کہ محلے کے تمام ساتھی تمہیں یاد کر رہے ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر روز تمہارا انتظار کر تے ہیں۔
میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ اب زیادہ تر وقت کتابوں کے ساتھ ہی گزاروں گا کیونکہ وہی سب سے اچھی دوست ہیں اور ان ہی کے ساتھ وقت اچھا گزرتا ہے ۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ ارے ! یہ کیا بات ہوئی؟ کیا تم نے نہیں سناہے کہ ایک اچھے دوست کا ساتھ کئی کتابوں سے زیادہ فائدے مند ہے؟‘‘ میں نے اس سے کہا۔
’’ہاں !سنا تو ضرور ہے ،مگر کوئی اچھا دوست ملے تب تو۔۔۔۔۔‘‘
اس نے فوراً جواب دیا اور چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔
محمد ندیم،گورکھپور۔ یوپی