جدید دور میں رونما ہونے والی تبدیلی اپنے اندر متعدد اہم پہلو رکھتی ہے، ان میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے جہاں اِس دنیا کو بالکل سمیٹ کر رکھ دیاہے، اور اس کی دُوریوں کو ختم اور فاصلوں کو مختصرکر دیا ہے، وہیں اُس نے اِس وسیع وعریض دنیا کے اندر بہت سی دوسری دنیاؤں کو آباد کرنے کا کام بھی کیا ہے، جن کی حیثیت آج اپنے آپ میں پوری ایک کائنات کی ہوگئی ہے۔
جدید دور کی یہ تبدیلی اپنے اندر وسعت اور پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ پیچ وخم بھی خوب رکھتی ہے۔ اِس کی وسعت کے ساتھ ساتھ اس کے پیچ وخم کو سمجھنا جتنا مشکل اور محنت طلب کام ہے، اتنا ہی اہمیت کا حامل اور ضروری بھی ہے۔ علوم وفنون کی تقسیم در تقسیم اور انسانی خاندان اور سماج کی درجہ بندی اور اس درجہ بندی کی موجودہ صورت حال اس کی نمایاں مثال ہیں۔
انسانی سماج پر اس تبدیلی کے جہاں کچھ انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، وہیں اس کے اپنے کچھ نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر اس نے جہاں انسانی سماج کے ہر ہر عضو کو متحرک اور بااثر بنانے اور ان کے درمیان ایک ربط قائم کرنے کا کام کیا ہے، اور ترقی کی نئی نئی راہیں اور مواقع کی وسیع تر دنیا کی طرف پیش قدمی کی ہے، وہیں اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے فرد کواُس کی ذات میں الجھا کر رکھ دیا ہے، جس سے اس کی سماجی وروحانی زندگی بری طرح متأثر ہوئی ہے۔
یہ تبدیلی اپنے اندر کیا منفی پہلو رکھتی ہے اور کیا مثبت، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر گفتگو کا یہ موقع نہیں، لیکن بہرحال یہ سماج کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، اس طور پر کہ اسے قبول کرنا سماج کے عام افراد کے لیے ایک ضرورت یا مجبوری کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آئندہ جب بھی کسی بڑی اور مثبت سماجی تبدیلی کا خاکہ تیار کیا جائے گا، اس تبدیلی کو نظرانداز کرتے ہوئے، یا محض اس کے کسی ایک پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تیار نہیں کیا جاسکتا۔
موقع ومحل اور مخاطب کا اعتبار قدیم اخلاقی ضابطہ ہے، لیکن اس کی ضرورت جس قدر بڑے پیمانے پر آج سامنے آئی ہے، شائد اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس سے مقصود محض تحریروں اور تقریروں میں اِس کی رعایت نہیں ہے، بلکہ بحیثیت مجموعی اپنی زبان، اپنے طریقہ کار اور اپنے ورک کلچر، غرض ہر اُس چیز میں اِس کی رعایت ہے، جو فکر کی نمائندگی کرتی ہے، یا اس کا ذریعہ بنتی ہے۔ میڈیا اور اس کی مختلف ترقی یافتہ شکلوں، بالخصوص سوشل میڈیا کی اپنی اہمیت وافادیت ہے اور یقیناًسماج پر اس کے زبردست اثرات رونما ہوئے ہیں، جس میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تواپنے آپ میں یہ پوری ایک کائنات ہے، اور مختلف میدان ہائے کار اور بھی ہیں، جو اس سے لزومیت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ سماج میں تبدیلی کے لیے، خواہ اس تبدیلی کی نوعیت کچھ بھی ہو، سرگرم افراد کو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ایک مستحکم اور پائیدار تبدیلی کے لیے زمینی حقائق سے مضبوط رشتہ لازمی ہے، اور اس کے لیے بہرحال عوام الناس کے درمیان اتر کر کام کرنا پڑے گا۔
سماج کے عام نوجوانوں کے درمیان کام کے لیے تیار کیا جانے والا خاکہ اُسی سماج کے عام طلبہ کے لیے بھی کارگر ہو، اب یہ ضروری نہیں رہا۔ بلکہ عام طلبہ کے درمیان کام کے لیے تیارکردہ ایک خاکہ علوم کی مختلف اقسام کے طلبہ کے درمیان کام کرنے والوں کے لیے کتنا مفید اور کارگر ہوگا، اس سلسلے میں بھی مزید غور وفکر کی ضرورت ہے۔ یہ ایک مثال ہے سماج میں موجود اکائیوں اور ذیلی اکائیوں کی۔ سماج کی ہر اکائی نہ صرف خصوصی توجہ چاہتی ہے، بلکہ اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر ایک منصوبہ بند اور منظم جدوجہد کا بھی مطالبہ کرتی ہے، تاہم اس سے اہم اور پہلے کرنے کا کام بحیثیت مجموعی تبدیلی کے مختلف مراحل، ترجیحات اور ضروریات کا تعین ہے، اور پھر اس کے مطابق مختلف سطحوں پر اور مختلف سماجی اکائیوں کو سامنے رکھ کر کی جانے والی منصوبہ بندی ہے۔
اطراف میں نظر دوڑائیں تو ہر طرف دوڑتا بھاگتا ایک عظیم انسانی قافلہ نظر آتا ہے، جو ایک ناپید اکنار سمندر کا نظارہ پیش کرتا ہے، اِس میں دین حق کے علمبرداروں کی ذمہ داریاں کس قدر بڑھ جاتی ہیں، اوردوسری جانب اُن کی کوششیں کس قدر محدود ہیں، خرد کا تقاضا ہے کہ اس کا ہر ہر قدم پر جائزہ لیتے رہا جائے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)