اپنی باتیں

ایڈمن

ایس آئی او آف انڈیا کیا ہے، اور یہ اس ملک میں کیا چاہتی ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو بار بار سامنے آتا ہے، اس موقع پر جبکہ ’اسلامی تحریک کے طریق کار‘ پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی…

ایس آئی او آف انڈیا کیا ہے، اور یہ اس ملک میں کیا چاہتی ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو بار بار سامنے آتا ہے، اس موقع پر جبکہ ’اسلامی تحریک کے طریق کار‘ پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کی جارہی ہے، ضروری ہے کہ اس سوال کا جواب بھی ذہن میں ایک بار پھر مستحضر کرلیا جائے۔
دستور ایس آئی او آف انڈیا ترمیم شدہ تا اکتوبر ۲۰۰۶ ؁ء کی تمہید میں ایس آئی او آف انڈیا کے قیام کا بنیادی مقصد کچھ اس طرح بیان ہوا ہے کہ
’’اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس دین اسلام کی دعوت وتبلیغ اور اس کے قیام میں ملت کے نوجوانوں اور طلباء پر امت مسلمہ کا جز ہونے کی بنا پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کے سلسلے میں وہ حسبِ استطاعت اس میں حصہ لے سکیں اور اس مقصد کے تحت یہ تنظیم اس طور پر یہ کوشش عمل میں لانا چاہتی ہے کہ ایک صالح معاشرہ کے قیام اور ملک کی تعمیر وترقی میں معاون ومددگار بننے کے لیے ان کی صلاحیتیں نشوونما پائیں، ان کا شعور واحساس بیدار ہو، اعلی مقاصد کے لیے ایثار وقربانی کا جذبہ ابھرے اور ان کی توانائیاں ملک سے برائیوں کو مٹانے اور بھلائیوں کو پروان چڑھانے کے لیے صرف ہوں، اور ان کوششوں کا اصل محرک یہی ہو کہ آقا وپروردگار ہم سے راضی ہوجائے اور آخرت میں اس کی رضاوخوشنودی ہمیں نصیب ہو۔‘‘
چنانچہ دستور کی دفعہ ۴؍میں تنظیم کا ’’مشن‘‘ اور ’’اغراض ومقاصد‘‘ اس طرح درج ہیں کہ
’’(الف) مشن: تنظیم کا مشن الہی ہدایات کے مطابق سماج کی تشکیل نو کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کو تیار کرناہوگا۔
(ب)اغراض ومقاصد: (۱) طلبہ اور نوجوانوں کو اسلام کی دعوت دینا۔(۲) طلبہ اور نوجوانوں میں علم دین کی اشاعت اور دین کا شعور بیدار کرنا۔(۳) طلبہ اور نوجوانوں کو آمادہ کرنا کہ وہ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق ڈھالیں۔(۴) طلبہ اور نوجوانوں کو معروف کے فروغ اور منکر کے ازالہ کے لیے آمادہ کرنا۔(۵) نظام تعلیم میں اخلاقی اقدار اور تعلیمی اداروں میں بہتر اخلاقی وتعلیمی ماحول کو فروغ ونشوونما دینا۔(۶) افراد تنظیم کی ہمہ جہت تربیت کرنا، ان کی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، اور انہیں تحریک اسلامی کے لیے مفید تر بنانا۔‘‘
مذکورہ بالا اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، اس کی توضیح بھی دستور کی دفعہ ۵؍ میں ’’طریقہ کار‘‘ کے تحت بہت ہی صاف لفظوں میں بیان ہوئی ہے؛
’’(الف) تنظیم کی اصل رہنما اور اساس کار قرآن وسنت ہوگی۔ (ب) تنظیم اپنے کاموں میں اخلاقی حدود کی پابند ہوگی۔ (ج) تنظیم اپنے اغراض ومقاصد کے حصول کے لیے پرامن اور تعمیری طریقے اور تعلیم وتلقین اور نشرواشاعت کے معروف ذرائع اختیار کرے گی، اور ان تمام امور سے اجتناب کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فرقہ وارانہ منافرت، طبقاتی کشمکش اور فساد فی الارض رونما ہوسکتا ہو۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ ایس آئی او آف انڈیا تحریک اسلامی کے مستقبل کے علاوہ اس کا وہ قیمتی ترین حصہ ہے جسے ملک وملت کے قیمتی ترین حصے پر کام کرنا ہے، اور اُسے ملک وملت کے لیے نفع بخش بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایس آئی او آف انڈیا کی پالیسی وپروگرام اور اس کی سرگرمیاں دوسری تحریکوں اور تنظیموں سے کافی مختلف ہیں،یقیناًسرگرمیوں کا یہ اختلاف تنظیم کے اعلی ترین اغراض ومقاصد کا لازمی اور فطری نتیجہ ہے۔ البتہ تحریک اسلامی ہند کی طرح ایس آئی او آف انڈیا کے سامنے بھی جہاں بہت سے فکری اور نظریاتی چیلنجز ہیں، وہیں ایک بہت بڑا چیلنج عوامی نفوذ کا ہے، فطری طور پر یہاں طریقہ کارکا مسئلہ زیربحث آتا ہے، کیا وجہ ہے کہ تنظیم کئی دہائیاں گزرجا نے کے بعد بھی ہندوستانی کیمپس اور ہندوستان کی طلبہ برادری میں خاطرخواہ نفوذ نہیں کر سکی!! یہ ایک اہم سوال ہے جس پر غور کرنا تحریک اور تنظیم دونوں کی یکساں ضرورت ہے۔
وقت جیسے جیسے آگے بڑھتا جارہا ہے، چیلنجز کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داخلی وخارجی چیلنجز کاسخت گھیراؤتحریک اسلامی کا دائرہ تنگ سے تنگ کرتا جا رہا ہے۔ ملک میں تبدیلی کا راستہ کیا ہوگا، یہ مسئلہ ہنوز ایک معمہ بناہوا ہے۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں امت اسلامیہ کا کیا کردار ہونا چاہئے، اس سوال کا جواب بھی ابھی باقی ہے، ایک طرف سماج میں گھل مل کر غائب ہوجانے کا رویہ نظرآتا ہے، تو دوسری طرف اپنے تشخص کی حفاظت پر غیرضروری اصرار پایا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اس سلسلے میں مبنی بر حق اور مبنی براعتدال رویے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح علمی وفکری میدان میں بھی زبردست قسم کا خلا پایا جاتا ہے، اس میدان میں واقعی چیلنجز کیا ہیں، اور کیا کچھ کام ہیں جو فوری سے پیشتر کرلینے کے ہیں، اس کا تعین بھی ابھی ہونا باقی ہے۔ یقیناًکام بہت ہی زیادہ ہیں، اور وقت بہت ہی کم۔۔۔۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں