اپنی باتیں

ایڈمن

گزشتہ دنوں ۲۵نومبر ۲۰۱۳ ء کو افریقی ملک انگولا سے ایک انتہائی تشویشناک خبر موصول ہوئی۔ خبر کا خلاصہ یہ تھا کہ وہاں اسلام پر پابندی عائد کردی گئی ہے، مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر اور عبادات کی ادائیگی…

گزشتہ دنوں ۲۵نومبر ۲۰۱۳ ء کو افریقی ملک انگولا سے ایک انتہائی تشویشناک خبر موصول ہوئی۔ خبر کا خلاصہ یہ تھا کہ وہاں اسلام پر پابندی عائد کردی گئی ہے، مسلمانوں کو ان کے مذہبی شعائر اور عبادات کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے، اور اس سلسلے میں حجت یہ پیش کی گئی کہ انگولا کی حکومت اپنی سرزمین پر تشدد اور انتہا پسندی کو اجازت نہیں دیتی اور چونکہ عالمی سطح پر اسلام یا مسلمانوں کی شناخت دہشت گرد اور انتہاپسند گروپ کی ہے، اس لیے ان کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انگولا ایک بہت ہی چھوٹا سا افریقی ملک ہے، جو ۱۹۷۵ ؁ء میں پرتگال سے آزاد ہوا۔ مسلمان یہاں ہمیشہ سے ایک مظلوم اور کمزور اقلیت کے طور پر رہے ہیں، ان کے درمیان جہالت اور غربت عام ہے، آپسی انتشار بھی حد سے بڑھا ہوا ہے، اور حکومت کی جانب سے بھی ان کے ساتھ استحصال کا رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہاں مسلم آبادی کا تناسب محض ۱؍فیصد ہے، جبکہ ملک کی زائد از ۵۰؍فیصد آبادی کیتھولک عیسائیوں پر مشتمل ہے۔
انگولا میں ہونے والا یہ فیصلہ اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ مانا جارہا ہے، جس میں کسی ملک کی عدلیہ نے اپنے حدود میں اس طرح اسلام پر پابندی لگائی ہو، اور اپنے ہی ملک کے شہریوں کو ان کے ایک بہت ہی بنیادی حق سے محروم کردیا ہو۔ اس فیصلہ کے ذریعہ انگولا حکومت نے اپنے مسلم شہریوں کو اُن کے ایک اہم اور بنیادی حق سے محروم کردیا ہے۔
جدید دنیا میں ہر انسان کا یہ بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے گا، اور جس مذہب کو وہ اپنے لیے پسند کرے گا،آزادی کے ساتھ اس پر عمل کرنے، اور پرامن انداز میں اس کی تبلیغ کرنے کی اسے آزادی حاصل رہے گی۔تاہم انگولا کا یہ فیصلہ کوئی اچانک آجانے والا فیصلہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ فیصلہ کافی طویل عدالتی بحث کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں ملک کے کلچر اور معاشرت اور مسلمانوں کے وجود اور ان کے طرز عمل پر طویل بحثیں ہوئی ہیں، اتحاد عالمی لعلماء المسلمین کی ویب سائٹ پر شائع ایک انگولی مسلم اسکالر کے بیان کے مطابق جو بعض ٹی وی چینلوں پر بھی نشر ہوا ہے، وہاں کے مسلمانوں نے اس مسئلہ کو لے کر بہت ہی غفلت اور لاپرواہی کا رویہ اختیار کیا تھا، وہاں کی حکومت نے مسلمانوں سے تقریبا دس سال قبل اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنا ایک نمائندہ حکومت کے سامنے پیش کریں، جو حکومت کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی صحیح نمائندگی کرسکے، جو آج تک وہاں کے مسلمان نہیں کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر عام طور پر ذہنوں میں پائی جاتی ہے، گرچہ وہ کسی پروپیگنڈے ہی کا نتیجہ کیوں نہ ہو، اُسی کو سامنے رکھ کر عدالت نے اپنے تجزیے اور غوروفکر کے مطابق اسلام کی پابندی کو ملک اور اہل ملک کے مفاد میں بہتر قرار دیا۔
اس موقع پر جہاں ضرورت ہے کہ انگولا حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس غلط فہمی پر مبنی فیصلے کو واپس لے، اور اپنے یہاں کی مسلم اقلیت کو پرامن اور پر سکون زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے، نیز اسلام اور دہشت گردی کے درمیان فرق ملحوظ رکھے۔ وہیں ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی بازیافت کے لیے آواز اٹھانے والی دیگر تنظیموں اور اداروں سے بھی اس سلسلے میں مداخلت کا مطالبہ کیا جائے کہ وہ وہاں کی مظلوم اور ستم رسیدہ مسلم اقلیت کے ساتھ عدل وانصاف کے لیے آواز اٹھائیں، کیونکہ اس فیصلے کے ذریعہ مکمل طور سے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس سانحہ کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلم دنیا، بالخصوص مسلم اقلیات کے مستقبل اور ان کے طرز عمل پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ مسلمان اس وقت دنیا کے تقریبا ہر ملک میں پائے جاتے ہیں، لیکن جہاں بھی وہ اقلیت میں ہیں، وہاں ان کا عمومی رویہ کسی نہ کسی طرح سے افراط وتفریط کا شکار ہے۔ ان میں ایک تعداد تو وہ ہے جو اپنے معاشروں میں مکمل طور سے گھل مل جاتے ہیں، جہاں ان میں اور دوسروں میں کسی طرح کا کوئی امتیاز ہی باقی نہیں رہتا، جبکہ بعض جگہوں پر، اور یہ امت کے اسلام پسند طبقے کی عمومی صورتحال ہے کہ وہ اپنا تشخص کچھ اس طرح برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ معاشرے سے بالکل کٹ کر رہ جاتے ہیں، ملک کی عوام، ملک کے مسائل، ملک کی تعمیر وترقی جیسے معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ہی طرز عمل غیرمطلوب ہیں، اوردونوں ہی شریعت کی روح سے متصادم اور اسلام اور اہل اسلام کے حق میں نقصاندہ ہیں۔
امت اسلامیہ کی عمومی صورتحال کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس وقت امت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے داعیانہ کردار کی بحالی ہے، اللہ رب العزت نے اس امت کو لوگوں کے لیے برپا کیا ہے، لیکن بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے آپ میں گم ہے، اور اپنے مقصد وجود کے سلسلہ میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ انگولا سے آنے والا یہ فیصلہ ایک تنبیہ ہے امت کے لیے کہ وہ اپنے اس کردار سے واقف ہو، اور انسانی معاشرہ میں اپنا مطلوبہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائے کہ آج دنیا بھر کے ممالک میں اور خود ہمارے ملک بھارت میں اسلام اور اہل اسلام کو جو آزادی اور مواقع حاصل ہیں، وہ غنیمت بلکہ بہت ہی قیمتی مواقع ہیں، مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا
(ابوالاعلی سید سبحانی)

 

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں