اپنی باتیں

ایڈمن

امت اسلامیہ کا فرض منصبی دعوت دین ہے، اور یہی فرض منصبی اِس امت کو دیگر افراد اور قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس حقیقت کو بہت ہی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،کہا گیاکہ ’’تمہیں…

امت اسلامیہ کا فرض منصبی دعوت دین ہے، اور یہی فرض منصبی اِس امت کو دیگر افراد اور قوموں سے ممتاز کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اِس حقیقت کو بہت ہی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،کہا گیاکہ ’’تمہیں ایک ایسی امت بن جانا چاہئے جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ آگے کہا گیا ’’تم بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اسی طرح ایک جگہ فرمایا گیا ’’اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور صالح عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں بردار ہوں‘‘۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور آپؐ کی جدوجہد کا مرکزی عنوان بھی دعوت دین ہی تھا۔آپؐ نے نہ صرف اس فریضہ کوکماحقہ انجام دیا بلکہ اس کے لیے ایک عظیم انسانی جماعت کی تیاری کا کام بھی کیا، جس نے آپؐ کی زندگی میں بھی اور آپؐ کے بعد بھی، نہ صرف عالم عرب میں بلکہ تمام عالم انسانیت میں اس عظیم فریضے کی انجام دہی کے لیے جدوجہد بلکہ سخت جدوجہد کی، اور اُس عظیم دینی ورثے کو بحسن وخوبی بعد کی نسلوں تک منتقل کیا جو اس نے رسول اکرمؐ سے حاصل کیا تھا۔
دعوت دین امت اسلامیہ کی اجتماعی ذمہ داری بھی ہے اور انفرادی ذمہ داری بھی۔ اجتماعی ذمہ داری اس طور پر کہ یہ اس امت کو برپا کرنے کا بنیادی مقصد بھی ہے ، اور اس کے لیے وجہ امتیاز بھی۔ انفرادی ذمہ داری اس طور پر کہ ہر فرد اس حکم خداوندی کا مخاطب اور بارگاہ خداوندی میں اس کے لیے جوابدہ ہے۔ جہاں امت کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے ماحول اور حالات سازگار بنائے وہیں افراد امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی شخصیت، اپنے مزاج اور اپنی اپروچ کو اس کے مطابق ڈھالیں۔ دوراوّل میں امت کے اجتماعی اور انفرادی دونوں ہی رویّوں میں اس کی بھرپور رعایت ملتی ہے۔ اس کے اجتماعی فیصلوں میں بھی داعیانہ کردار کو ملحوظ رکھا جاتا تھا، اور انفرادی معاملات میں بھی۔ بعد کے ادوار میں کچھ تاریخی اسباب کی بنا پرجن کے ذکر کا یہاں موقع نہیں، امت کے حالات دھیرے دھیرے تبدیل ہوتے چلے گئے، اور اس تبدیل�ئ حالات کا بڑااثر امت کے اجتماعی شعور اور اس کے داعیانہ کردار پر پڑا۔ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے انداز میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی اور پھر یہ امت بھی عام قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئی۔ جہاں اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ امت اپنے آپ میں اُلجھ کر رہ گئی وہیں عام انسانی دنیا سے اس کے تعلقات میں بھی کافی فرق آیا۔
وطن عزیز میں اشاعت اسلام کی اپنی ایک روشن تاریخ رہی ہے۔ اس ملک میں رہنے والے مسلمانوں کی بڑی اکثریت نومسلمین کی ہے، جو دعوت دین کے نتیجے میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئی۔ ان داعیان حق کی کوششوں کے نتیجے میں جو دوردراز علاقوں سے اشاعت اسلام کی غرض سے یا تجارت وغیرہ کے مقاصد سے یہاں تشریف لائے، اور انہوں نے اپنی تمام تر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر دعوت دین کا کام کیا۔ دوسری جانب اس ملک کی ایک بڑی اکثریت ہمیشہ سے اس عظیم نعمت سے محروم رہی ہے، تاہم اس بڑی اکثریت کے تعلقات اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کے مسلمانوں بالخصوص علماء اور صوفیاء کا وہ داعیانہ کردار تھا، جس کی وجہ سے یہاں بڑے پیمانے پر اشاعت اسلام کا کام بھی ہوا، اور کئی سو سال تک اہل اسلام کو برادران وطن کے اشتراک اور تعاون کے ساتھ کامیاب طریقے سے حکومت کرنے کا موقع بھی نصیب ہوا۔ بدقسمتی سے بعدکے زمانے میں ملک کے حالات وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات یہ کہ اہل اسلام اور دیگر برادران وطن کے تعلقات وہ نہیں رہے جو پہلے تھے۔ مؤخرالذکر کے متعدداسباب ہیں، جن پر گفتگو کا یہ موقع نہیں۔ البتہ اس کا ایک بنیادی سبب مسلم امت کی داعیانہ کردار سے محرومی رہی جس کے نتیجے میں وہ آسانی سے غیروں کی سازشوں کا شکار ہوتی چلی گئی۔
اس وقت ملک کی صورتحال مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ملک میں مخصوص افکارونظریات رکھنے والی سیاسی پارٹی غیرمعمولی اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آگئی ہے۔ ملک بھر میں ہندومسلم تعلقات کی خلیج کو مزید وسیع اور گہرا کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ماضی کے تجربات اور حال کے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے ملت اسلامیہ ہند کی قیادت ایک لائحہ عمل ترتیب دے۔ ایس آئی او آف انڈیا کی مرکزی مشاورتی کونسل نے بھی اس سلسلے میں کافی غوروفکر کیا، اور اس نتیجے پر پہنچی کہ کالجز اور کیمپسس میں بھی اور عام سماج میں بھی طلبہ ونوجوانوں کے درمیان مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھایا جائے اور امت مسلمہ بالخصوص امت کی طلبہ برادری کے درمیان داعیانہ کردار کو فروغ دیا جائے، اس طور پر کہ ان کی زندگیاں اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ بن جائیں اور وہ اپنے قول وعمل سے اسلام کی صحیح اور سچی تصویر پیش کرنے لگیں۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں