اپنی باتیں

ایڈمن

دینِ اسلام میں شناخت (مذہبی تشخص) اور روح (مذہبی اسپرٹ) دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اور یقیناًدونوں لازم وملزوم کا رشتہ رکھتی ہیں کہ وہ ایمان ہی کیا جس کا انسان کی شخصیت پر کوئی اثر نظر نہ…

دینِ اسلام میں شناخت (مذہبی تشخص) اور روح (مذہبی اسپرٹ) دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، اور یقیناًدونوں لازم وملزوم کا رشتہ رکھتی ہیں کہ وہ ایمان ہی کیا جس کا انسان کی شخصیت پر کوئی اثر نظر نہ آئے، تاہم دونوں میں واضح فرق کے وجود سے بھی انکار ممکن نہیں۔شناخت کا تعلق انسان کے عمل اور تہذیبی مظاہرسے ہے، جبکہ روح کا تعلق اس کے قلب وذہن اور ایمان ویقین سے ہے۔ روح کی یافت کے نتیجے میں مطلوبہ شناخت کا حصول ممکن بلکہ آسان ہوجاتا ہے، جبکہ محض شناخت پر اصرار یا اس کے حصول پر توجہ مرکوز کردینے کی صورت میں روح تک رسائی ہونا، امرمحال نہیں تو امر مشکل ضرور ہے۔ شریعت میں شناخت فی نفسہ مقصود ہے کہ نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، اوراس کو کہاں تک وسعت دی جاسکتی ہے، اس پر بھی گفتگو ممکن ہے، تاہم روح کے سلسلے میں کسی کو بھی اختلاف نہ ہوگا۔
روح (مذہبی اسپرٹ) کے حصول کے نتیجے میں انسان کے قلب وذہن میں ایک ایسی تحریک وجود میں آتی ہے، جو اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہمہ تن بے چین اور مضطرب رکھتی ہے، اور وہ سیماب صفت بن جاتا ہے ۔ جبکہ محض شناخت یعنی بے روح مذہبی تشخص پر اصرار کے نتیجے میں جمود کی ایک ایسی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جو اس کے ذہن وفکر کو منجمد اور اس کے قویٰ کو اضمحلال کا شکار بنادیتی ہے ، اور پھر وہ مسلسل پسماندگی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس حقیقت کا مشاہدہ انفرادی سطح پر بھی کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ افراد ہوں یا ادارے اور تحریکیں، جب ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ شناخت کا تحفظ اور اس کی تبلیغ واشاعت بن جاتا ہے، تو وہ اسی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں، پھر اُن کی ساری تگ ودو اور جدوجہد ، انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی، اسی میں سمٹ کر رہ جاتی ہے،اور وہ اپنے اصل مشن سے پیچھے ہٹتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جو افراد یا ادارے شناخت کے بجائے روح کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں، ان کے شب وروز مختلف ہوتے ہیں، وہ اِس روح کو سماج کے دوسرے عناصر تک منتقل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں۔وہ اپنی ذات میں سمٹ کر نہیں رہ جاتے، بلکہ اُن کے پیش نظر انسانوں کا ایک لامتناہی قافلہ ہوتا ہے، اور الٰہی ہدایات کے مطابق اُس قافلے کی رہنمائی کرنا، وہ اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
روح کے حصول کے بعد منزل بالکل صاف اور واضح ہوجاتی ہے، اور راستے خود بخودنکلتے چلے جاتے ہیں، اوررہرو کے سامنے کوئی رکاوٹ اہمیت نہیں رکھتی، اور کسی بھی قسم کی سازشیں اور چیلنجز اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے، جبکہ شناخت پر ارتکاز کے نتیجے میں چونکہ شناخت کا تحفظ اصل مسئلہ بن جاتا ہے، اس لیے قدم قدم پرمسائل اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں، اور وہ ان میں بری طرح الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کے ملی اداروں اور جماعتوں کی سرگرمیوں میں روح کی جگہ شناخت پر زیادہ توجہ نظر آتی ہے، چنانچہ دیکھتے ہیں کہ وطن عزیز میں مسلم تشخص کے تحفظ اور اِس تشخص کی اشاعت وتبلیغ میں مدارس اسلامیہ اور مختلف مسلم جماعتوں نے غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے، ملی مسائل بالخصوص تشخص سے متعلق مسائل کے حل کے سلسلے میں آواز اٹھانے اور ملت کے حقوق اورمطالبات کے لیے جدوجہد میں ان کا اہم رول رہاہے، یقیناًاِن سب چیزوں کی اپنی اہمیت وافادیت ہے جس سے انکار نہیں، لیکن قرآن وسنت کی روشنی میں حقیقتِ واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل مطلوب،ملت کے لئے، بالخصوص ملت کے اداروں، تنظیموں اور جماعتوں کے لیے، قطعی طور پر اس سے مختلف ہے۔
اصل مطلوب پر گفتگو سے پہلے ضروری ہے کہ امت اسلامیہ کی بنیادی حیثیت اوراس کے مقام ومرتبہ پر ازسرنوغوروفکر سے کام لیاجائے کہ اس کو خیر امت اور امت وسط قرار دینے کا بنیادی سبب کیا ہے، اور اس کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ملکی سماج کے خدوخال کو بھی ذہن میں تازہ کرلیا جائے، جو مذہبی، ثقافتی، لسانی اور علاقائی غرض مختلف پہلوؤں سے اپنے اندر ایک عجیب وغریب قسم کا تنوع رکھتا ہے، اور جس سے مسلمانوں کی مختلف پہلوؤں سے ایک بہت ہی تاریخی نوعیت کی وابستگی رہی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے شناخت (مذہبی تشخص) اور روح (مذہبی اسپرٹ) کے مسئلے پر غور کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ امت اسلامیہ کے لیے روح (مذہبی اسپرٹ) کا حصول اور حصول کے ساتھ ساتھ خیر امت ہونے کے لازمی تقاضے کے طور پر اس روح کی اشاعت وتبلیغ نہ صرف اصل مطلوب کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ شناخت اور روح کے درمیان بہت ہی توازن اور اعتدال کا رویہ اختیار کیا جائے ۔
اس وقت ملت کے ہرادارے کے پاس،خواہ وہ مدارس ہوں یا جماعتیں اور تنظیمیں، اپنا ایک مخصوص ایجنڈا ہے، کچھ مطالبات ہیں اور کچھ شکایات، لیکن اصل مطلوب جس کی عنداللہ جوابدہی پر بلاتفریق سب کا ایمان ہے، اس سلسلے میں کس کے پاس کیا ایجنڈا ہے ؟یہ ایک بڑا سوال ہے۔
ابوالاعلیٰ سید سبحانی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں