لباس، زبان، لہجہ ، غذااور شادی بیاہ کے رسومات یہ کسی بھی تہذیب اور ثقافت کی نشاندہی کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ کسی بھی انسان کے لباس سے اس کی تہذیبی شناخت کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح زبان ، غذا ، لہجہ وغیرہ کی بھی اہمیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے انسان اپنی زبان سے محبت کرتا آیا ہے۔ ماقبل اسلام کے عرب کو اپنی کسی چیز پر فخر تھا تو وہ ان کی زبان تھی۔ اور یہ فخر اس حد تک پہنچا ہوا تھا کہ وہ بقیہ دنیا کو گونگے (عربی لفظ عجمی )مانتے تھے ۔ اسی طرح قدیم چینی تہذیب ہے جس کو اپنی زبان سے حد درجہ محبت ہے، اور آج بھی اس قوم نے انگریزی کے دبدبے کو قبول نہیں کیا ہے۔ درحقیقت زبان کسی بھی تہذیب کو اور اس تہذیب کے ماننے والوں کو سمجھنے ، جانچنے اور اس کو اختیار کرنے کا اولین طریقہ ہے۔ قرون وسطیٰ میں مسلمانوں میں یہ بات عام تھی کہ وہ دیگر اقوام کی بولی اور ان کے لب و لہجے کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس طرح ان کے لئے اس تہذیب کے ماننے والوں کا اپنا لینا آسان ہوجا یا کرتا تھا۔ چنانچہ مغربی افریقہ کی بربری زبان ہو یا ایران و خراسان کی فارسی، مشرقی ایشیا کی ملایا ہو یا ترکی اور ملحقہ علاقوں میں بولی جانے والی ترکی ، ہر زبان کو مسلمانوں نے اختیار کیا ، اس کی آبیاری کی اور اس کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ زبان ، تہذیبی ترقی کے مختلف مراحل، سیاسی ، سماجی، معاشی و ثقافتی تاریخ نیز رسوم و رواج اور ریت و روایات کو جاننے کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ زمانہ قدیم کی کئی تہذیبوں کے باقیات ملنے کے باوجود ان کی تہذیب کی کئی گتھیاں اس لئے سلجھ نہیں پائیں کہ ان قوموں کے ساتھ ان کی زبان بھی ختم ہوگئی تھی۔ ہڑپا اور موہن جداڑو کی قدیم تہذیبوں کو ماہرین اس بنا پر سمجھ پائے کہ ان کی زبان کو تصویروں کی مدد سے ماہرین نے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ (اس کے علاوہ اور بھی کئی نشانیاں تھیں جنہوں نے ماہرین کی مدد کی۔)
ہندوستان میں زبان کا مسئلہ ہمیشہ سے پیچیدہ رہاہے۔ ہندوستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں اس قدر زبانیں بولنے والے بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ خالص ہندوستانی زبانیں جیسے ہندی، تمل، تیلگو وغیرہ دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح بنگالی اور پنجابی زبان کا بھی معاملہ ہے جو ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بولی جاتی ہیں۔اسی کے ساتھ ہر زبان میں کئی قسم کی بولیاں (لب و لہجہ) پائی جاتی ہیں، مثلاً اردو میں لکھنوی اردو، دلی کی اردو اور دکنی زبان معروف ہیں۔ اسی طرح تیلگو بولنے والوں میں آندھرا اور تلنگانہ کے افراد کی بولی اور لب و لہجہ میں فرق پایا جاتا ہے۔ ہندی میں ہر ریاست کی بولی اور لب و لہجہ مختلف ہے۔ ہندوستانی زبانوں کی بنیادی طور پر چاراقسام ہیں: ہندآریائی زبانیں، عربی فارسی زبانیں، دراوڑین زبانیں اور چینی زبانیں۔ ان چاروں اقسام میں آریائی اور دراوڑین زبانیں سب سے زیادہ بولی جاتی ہیں، اور ہندوستان کی تقریباً تمام ریاستوں کی ریاستی زبانیں بھی ان دو اقسام سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔ان دونوں کا آپسی جھگڑا اسی قدر پرانا ہے جتنا ہندوستان میں آریائی قوموں کی تاریخ۔ جس وقت آریائی قومیں وسطی ایشیا سے برصغیر میں داخل ہوئیں، اس وقت ہندوستان میں دراوڑین تہذیب غالب تھی۔ ان دونوں کے مابین کشمکش ہوئی جس میں بالآخر آرین اقوام فتح یاب ہوئیں اور انھوں نے درواڑین اقوام کو جنوب کی جانب دھکیل دیا۔ بعدازاں آریائی تہذیب نے جس کی بنیادی زبان سنسکرت تھی، کئی نئی زبانوں اور تہذیبوں کو جنم دیا جن میں پنجابی، گجراتی، بنگالی، مراٹھی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح دراوڑین تہذیب کے بطن سے تمل، تیلگو، ملیالم اور کنڑ کا جنم ہوا۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد ترک حملہ آوروں اور مقامی لوگوں کے امتزاج نے ایک نئی بولی کو جنم دیا جس نے ہندی اور اردو کا روپ اختیار کیا۔ مغل حکمرانوں کے دور میں اگرچہ فارسی سرکاری کام کاج کی زبان تھی لیکن اردواور ہندی نے لگ بھگ پورے شمالی ہندوستان کی عوامی بولی کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ جس وقت انگریز اس ملک میں آئے انھوں نے اپنے ساتھ انگریزی کو درآمد کیا۔ انگریزی کی ابتدا میں ہندوستانیوں نے مخالفت کی لیکن پھر رفتہ رفتہ اس نے سرکاری کام کاج کی زبان کی حیثیت اختیار کرلی۔
جس وقت ہندوستان آزاد ہوا اس وقت ایک بڑا اہم مسئلہ قومی زبان کے تعین کا تھا۔ ہندوستانی جس کی دو جدید شکلیں تھیں، ہندی جس میں سنسکرت کا اثر زیادہ تھا اور جو سنسکرت رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اور اردو جس میں فارسی اور عربی کے اثرات زیادہ تھے اور جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی، قومی زبان کا درجہ حاصل کرنے کی سب سے بڑی دعویدار تھی، لیکن جنوبی ہندوستان اور غیر ہندی داں لوگوں سے اس کی شدید مخالفت ہوئی۔ اسی طرح پاکستان کے نئے ملک میں اگرچہ اردو ایک غالب اکثریت کی زبان تھی لیکن بنگالی بولنے والے ملک کے مشرقی بازو میں واضح اکثریت میں تھے۔ وہاں بھی بنگالیوں کے تحفظات کے باوجود اردو کو قومی زبان بنادیا گیا۔ بعد میں تاریخ نے یہ باب بھی دیکھا کہ محض زبان کے اختلاف کے سبب( جس نے بعد ازاں کئی سیاسی و سماجی اختلافات کو جنم دیا) پاکستان دولخت ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ ہندوستان میں بھی ہندی کے بزور نفاذ کی کوششوں کو غیر ہندی داں عوام نے ہمیشہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ 1950 اور 1960کی دہائی میں تمل ناڈو میں ہندی کی مخالفت میں پرزور احتجاج ہوئے اوراسی کے نتیجے میں دراوڑین سیاسی جماعتوں(ڈی ایم کے ، بعد ازاں انا ڈی ایم کے، پی ایم کے، ایم ڈی ایم کے وغیرہ) کو عروج حاصل ہوا۔ اگر ہم چھوٹے گاؤں اور دیہاتوں کو چھوڑ بھی دیں ، تب بھی ہندوستان میں آج بھی ایسے کئی شہرہیں جہاں آبادی کی ایک بہت بڑی اکثریت صرف اور صرف مقامی زبان بولتی یا سمجھتی ہے۔یہ حالت اگرچہ کہ ناپسندیدہ نہیں ہے لیکن اس سے ہندوستان میں عوام کے اپنی زبان کے تئیں لگاؤ اور محبت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہروکے دور میں جب ہندوستان کو مختلف صوبوں میں تقسیم کرنے کا آغاز ہوا تب زبانوں کو تقسیم کی بنیاد بنایا گیا۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے تشکیل دیئے گئے فضل علی کمیشن نے واضح طور پر اپنی سفارشات حکومت ہند کے سامنے پیش کیں۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آندھرا پردیش ، کرناٹک، گجرات، مہاراشٹر، اڑیسہ وغیرہ ریاستوں کی تشکیل اس علاقے کی غالب اکثریت کی زبانوں کی بنیاد پر ہوئیں۔بعد ازاں چندریاستوں کی دیگر سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر مزید تقسیم عمل میں آئی جن میں پنجاب، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار وغیرہ کا شمار ہوتا ہے ( تازہ ترین ریاست آندھرا پردیش کی ہوئی اور تیلگو بولنے والی عوام کی دوسری ریاست تلنگانہ کا جنم ہوا) لیکن اس کے باوجود زبانوں کی بنیاد پر ہونے والی سب سے پہلی تقسیم کو کبھی چھیڑا نہیں گیا۔(اگرچہ اب بھی اس سلسلے میں کچھ تنازعات پائے جاتے ہیں، بطور مثال، کرناٹک کا ضلع بلگام۔ مہاراشٹر کا ماننا ہے کہ اس ضلع میں مراٹھی بولنے والوں کی اکثریت ہے اس لئے یہ ضلع اسے ملنا چاہئے لیکن کرناٹک اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرتا۔) اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستانی دستور نے ان تمام زبانوں کو درج زبانوں کی حیثیت دی اور ان کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم کیا۔ چنانچہ معاملہ مسابقتی امتحانات کا ہو یا پارلیمنٹ اور سرکاری کام کاج کا ہو، ان تمام زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا اور انھیں برابر اپنا حصہ ملتا رہا۔
ہندوستان میں لسانیات کے اس پیچیدہ لیکن حسین امتزاج پر اگر ہم نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ یہ رنگ برنگا امتزاج اسی وقت اچھی طرح چل سکتا ہے جب اس کو چھیڑا نہ جائے۔ لیکن اس کے باوجود آزادی کے بعد سے مسلسل کچھ لوگوں کی کوشش رہی ہے کہ کچھ خاص زبانوں (جس میں ہندی اور سنسکرت قابل ذکر ہے) کو کسی طرح فوقیت دلائی جائے۔ سوئے اتفاق کہ یہ وہ وہی لوگ ہیں جو نہ صرف کچھ زبانوں کا تسلط چاہتے ہیں بلکہ کچھ خاص اصطلاحات کے ساتھ اپنی تہذیب، اپنے عادات و اطوار، اپنے رسوم و روایات غرض ہر چیز کو برتر دیکھنا چاہتے ہیں اور آزادی کے بعد سے مسلسل اس کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ اردو کے ساتھ کم و بیش یہی معاملہ رہا۔عربی سے اس کے تعلق کی بنا پر بدقسمتی سے اسے مسلمانوں کی زبان سمجھ لیا گیا اور ہر جگہ سے اسے ختم کرنے کی منظم کوششیں ہوئیں۔ وقتاً فوقتاً اردو کے حامیوں اور مداحوں نے پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کا سہارا لیتے ہوئے اس زبان کے حق میں آواز بلند کرنے کی کوششیں کیں لیکن اس کے باوجود آج حالات یہ ہیں کہ سرکاری اداروں اور کاموں سے اردو دھیرے دھیرے ختم ہوتی جارہی ہے۔ خود ہندی کے ساتھ یہ کوشش رہی کہ اسے دھیرے دھیرے \”سنسکرت کی طرف کھینچا جائے\”۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ہندوستانی (ہندی یا اردو) کا جنم ترکی اورفارسی افواج کی زبانوں کے سنسکرت زبان سے ملاپ کے نتیجے میں ہوا جس نے ایک نئی بولی کی تخلیق کی۔ چنانچہ ہندی میں ان دونوں زبانوں کے بڑے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس گروہ (جس کا اوپر تذکرہ کیا گیا) کی آزادی کے بعد سے کوشش رہی کہ اس خوبصورت زبان سے فارسی ، ترکی اور عربی کے اثرات کم سے کم کئے جائیں۔
ہندوستان نے پچھلی دو دہائیوں میں گلوبلائزیشن کے بعد صنعتی کرن کی جانب تیز رفتار پیش قدمی کی ہے۔ہندوستانی گلوبلائزیشن کے عمل کا ایک خراب پہلو یہ رہا کہ اس نے محض کچھ بڑے شہروں پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ملک کے چھوٹے گاؤں و دیہات اور چھوٹے شہر اس کے ثمرات سے محروم رہے۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ لوگوں کا بڑے پیمانے پر بڑے شہروں کی جانب ہجرت ہے۔ ہجرت کے اس عمل نے ہندوستان کے بڑے شہروں کی ہیئت کو یکسر تبدیل کردیا۔ چنانچہ گارڈن سٹی بنگلور، نوابوں کے شہر حیدرآباد، راجدھانی دہلی، عروس البلاد ممبئی، تمل تہذیب کا گہوارہ مدراس (اب چنئی) غرض ہر بڑا شہر ہمہ لسانی، وہمہ تہذیبی شہر میں تبدیل ہوگیا۔ اس عمل نے مقامی باشندوں اور مقامی بولی بولنے والوں میں کسی حد تک عدم تحفظ کے احساس کو بھی بڑھاوا دیا۔ بدقسمتی سے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے اس صورتحال کو کسی طور بہتر بنانے کے بجائے اس کو مزید خراب کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھائی۔ ممبئی شہر میں ہندی بولنے والوں اور شمالی ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ بڑھتی نفرت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ یہ اسی لسانی مسئلہ کا نتیجہ ہے۔
تازہ ترین یو پی ایس سی امتحانات کا مسئلہ جو مرکز میں بھاجپا سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سلگ اٹھا ہے ، ہندوستان کے اسی پیچیدہ لسانیاتی مسئلہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیلات اور اس کے دیگر پہلوؤں پر گفتگو دیگر مضامین میں آئے گی۔ لیکن ایک بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہندوستان جیسے وسیع و عریض نیز ہمہ جہتی و ہمہ تہذیبی ملک میں جس میں کئی مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں، کئی زبانیں بولتے ہیں، جن کے لب و لہجے مختلف ہیں، اور جو مختلف رسوم و رواج، عادات و اطوار اور سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں، ایسے ملک پر حکومت کرنے نیز تمام لوگوں کو ساتھ ملاکر لے کر چلنے کے لئے ضروری ہے کہ اس ہمہ رنگی کا احترام کیا جائے۔ جب ہندوستان کی ہمہ رنگی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تب یہ رنگ، تہذیب، مذہب، زبان، لہجہ، رسوم و رواج، تہذیب ، ثقافت، کلچر، غرض ہر چیز میں جھلکنا چاہئے۔ اس ہمہ رنگی کو نقصان پہچانے والی کوئی بھی چیز اس ہندوستانیت کے تصور کے لئے ہی خطرناک ہے، چاہے وہ زبان کے نام پر چھوٹی زبانوں کو کچلنے اور بڑی زبانوں کو مسلط کرنے کی بات ہو، یا ثقافت و کلچر کے نام پر ایک مخصوص ذہنیت کو مسلط کرنے کی باتیں ہوں، ایسی ہر کوشش کو سمجھنا چاہئے اور اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
سید صبغت اللہ حسینی
اپنی باتیں
لباس، زبان، لہجہ ، غذااور شادی بیاہ کے رسومات یہ کسی بھی تہذیب اور ثقافت کی نشاندہی کے بنیادی اجزائے ترکیبی ہیں۔ کسی بھی انسان کے لباس سے اس کی تہذیبی شناخت کا اظہار ہوتا ہے اسی طرح زبان ،…